خصوصی تحریر :سینیٹررحمن ملک
27دسمبر کی ہر صبح کو سورج طلوع ہوگا اور معاملاتِ زندگی جاری رہیںگےلیکن بلاول، بختاور، آصفہ، سابق صدرزرداری اور ہم کارکنان اپنی رہنما کو کبھی نہیں دیکھ پائیںگے۔ یہ 17اکتوبر کی صبح تھی جب محترمہ بےنظیربھٹونے بختاوراور آصفہ کو اپنے دبئی والے گھر کےلائونج میں آخری بارچوماتھا۔ وہ کھڑی ہوئیں اور دوبارہ بچوں کوگلے لگایااوراپنے شاندار اندازمیں چلتی ہوئیں آئیں اور گاڑی میں بیٹھ گئیں اور میں اُن کی بائیںجانب والی نشست پر بیٹھا ہواتھا۔ انہوں نے اپنی گاڑی کا شیشہ نیچےکیا اور بائیں جانب مڑنے تک ہاتھ ہلاتی رہیں۔ یہ جولائی 2007کی بات ہے جب پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹوکمیٹی کا اجلاس میرے لندن والےگھرپرمنعقدکیاگیاتھاجہاں شہید محترمہ بے نظیربھٹونےفیصلہ کیاکہ وہ تمام مشکلات کے باوجودپاکستان واپس جائیں گی اورستمبر میں اپنی روانگی کی تاریخ کا اعلان کریں گی۔ اگرچہ پی پی پی کی لیڈرشپ میں موجود تمام لوگوں نے ان کی زندگی کولاحق خطرات سےانہیں آگاہ کیالیکن وہ اپنےفیصلے پربلاخوف وخطرڈٹی رہیں۔ سنگین خطرات کے باوجود وہ ان کا سامنا کرنے جارہی تھیں۔ ان کایقین تھاکہ جنرل مشرف سیکورٹی مسائل کوانہیںدھمکانےکےلیے استعمال کررہے ہیں تاکہ انہیں پاکستان سے دور رکھا جاسکے، کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اس سےاُن کے اتنخابات میں کامیابی کاامکان ہےاور ان کا اقتدارختم ہوجائےگا۔ شہید محترمہ بے نظیربھٹو نے 14ستمبر کو اپنی واپسی کا اعلان کیا اور بالآخراس سے جنرل مشرف پریشان ہوگئےاور ان کے سیاسی دوست الیکشن مہم کے دوران اُن کی زندگی کو لاحق خطرات پر زوردیتے رہے۔ انہوں نے بی بی کو کئی پیشکشیں بھی کیں تاکہ اقتدارمیں حصہ داری کے معاہدے کو انجام تک پہنچایاجائے لیکن انہوں نے کوئی بھی پیشکش قبول نہیں کی۔ اقبال زیڈاحمد اور قابلِ اعتماد جنرل ان سے ملنے آئے اور انہیں سینیٹ کا چیئرپرسن بننے کی پیش کش کی جو انہوں نے میری اور چنددیگرافرادکی موجودگی میں ٹھکرادی۔ اس کے بعد 2005اور2006میں شہیدمحترمہ بے نظیربھٹو، جنرل مشرف اور ان کے قریبی ساتھیوں کےدرمیان دبئی میں کئی خفیہ ملاقاتیں ہوئیں لیکن وہ ملک میں جمہوریت کی بحالی کےکسی معاہدے پر نہیں پہنچ سکے۔ بالآخرشہید محترمہ بے نظیربھٹواورجنرل مشرف کےدرمیان ابوظبی میں 24جنوری 2007اور27جولائی2007کو دو ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں کا بندوبست میں نےاور جنرل مشرف کے کچھ دیگرمشیروں نےکیاتھا، جنرل مشرف کی ٹیم کےساتھ ہمارےبراہِ راست رابطےتھے۔ وہ اگست اور ستمبر2007میں دوبارہ ملےجب شہیدمحترمہ بے نظیربھٹونے اپنے بنیادی سنگین تحفظات کااظہارکیاجن میں صاف وشفاف انتخابات اورتیسری بار وزایراعظم بننےپرپابندی ختم کرناشامل تھا۔ شہید محترمہ بے نظیربھٹو کی وطن واپسی کو روکنے کےلیےجنرل مشرف کی تمام کوشیشوں کو انہوں نےناکام بنادیااور تمام دھمکیوں اور سیکورٹی مسائل کے باوجود وہ 18 اکتوبر2007 کو دبئی سے کراچی چلی گئیں جبکہ ان کے بچے پیچھے رہ گئے۔ ائرپورٹ پر لوگوں کی بڑی تعداد کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئیں۔ ہجوم اتنا بڑا تھا کہ اس سے قائداعظم کے مزار کی جانب رواں دواں ان کے قافلے کی رفتار سست ہوگئی۔ یہ وہ مقام تھا کہ جہاں انہوں نے عوام سے خطاب کرنا تھا۔ دبئی میں منعقدہ ایک پارٹی اجلاس میں شہید محترمہ بے نظیربھٹوکی مناسب سیکورٹی کافیصلہ کیاگیا اور ایم این اے آفتاب شعبان میرانی، ڈاکٹرذوالفقار مرزااور دیگررہنماوں پر مشتمل کمیٹی نےاعلان کیاکہ ریٹائرمیجرجنرلزخود شہید محترمہ بے نظیربھٹو کی سیکورٹی پرمامورہوں گے۔ حکومت نےشہید محترمہ بےنظیربھٹوسے منظوری لینے کےلیےاس وقت کے ایس ایس پی اے ڈی خواجہ کا نام تجویز کیالیکن پی پی پی کے ایک اثرورسوخ والے رہنما نے اے ڈی خواجہ کانام تبدیل کرکےاس وقت کے ایس ایس پی میجر(ریٹائر)امتیازحسین کا نام دے دیا،وہ پہلے محترمہ کے سیکورٹی افسر تعینات رہے تھے۔ کیبینٹ ڈویژن کے ایک نوٹیفیکیشن کے مطابق بطورسابق وزیراعظم شہیدمحترمہ بےنظیربھٹوکی سیکورٹی کی تمام ترذمہ داری حکومت کی تھی اور جسمانی سیکورٹی کاکام ایس ایس ایس پی میجر(ر)امتیاز حسین کو سونپا گیاتھا۔ لہذا جسمانی سیکورٹی، سڑکوں کے اطراف سیکورٹی اور ہر طرح سے تحفظ کی ذمہ داری صرف حکومت کی تھی اور مجھ سمیت کوئی پی پی پی رہنما ذمہ دار نہیں تھا۔ پارٹی نے 18اکتوبر کےقافلے کا انتظام کیا جہاں پارٹی کے ’جانثاروں‘کےعلاوہ کچھ مزید سیکورٹی پولیس نےفراہم کی۔ انتہائی سیکورٹی اقدامات کے باوجود کارساز کراچی کے قریب ان کے بکتربند ٹرک کے قریب ایک دھماکاہواجس میں سفر کررہی تھیں اس کے بعد ایک اور طاقتوردھماکاہوا۔ اس سے قبل ہجوم میں سےکسی نےدھماکاخیز مواد سے لیس ایک بچہ محترمہ بےنظیربھٹوکی طرف بھیجنےکی کوشش کی لیکن خوش قسمتی سےوہ بچہ محترمہ تک نہ پہنچ سکا۔ دھماکوں میں 149افرادمارے گئے اور 402زخمی ہوئے۔ یہ ایک معجزہ تھا کہ اتنے بڑےحملے میں شہید محترمہ بےنظیربھٹو محفوظ رہیں۔میں راجہ پرویزاشرف، اعتزاز احسن، کرسٹینالیمب اور کئی دیگر کے ہمراہ ٹرک کے اوپر موجود تھا جو حملے کے دوران مکمل طورپرکھلاہواتھا۔ میرے بال جھلس گئے تھے اور آگ کے باعث راجہ پرویزاشرف کے کپڑےجل گئے تھے۔ اگرچہ ہمیں نقصان نہیں پہنچا تھا لیکن ہم نے کئی کارکنان کھودیئےجنہوں نے شہید محترمہ بےنظیربھٹوکےلیے انسانی ڈھال کاکام کیاتھا۔ جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے شکایت درج کرانے کی کوشش کی تو حتیٰ کہ پولیس نے بھی کیس درج کرنے سے انکار کردیا۔ ایک گھنٹے کے اندر ہی تمام شواہد کو پانی سے دھو کر صاف کردیاگیا جو مقامی اور عالمی قوانین کے خلاف تھا۔ چونکہ جائے وقوع کودھوکر شواہد ختم کردیئے گئے تھے تو کیس کبھی آگے ہی نہیں بڑھا۔ حیران کن طورپر18 اکتوبرکےحملے کا ملزم ماسٹرمائینڈ قاری سیف اللہ اختراپنے دونوں بیٹوں اور دیگر ملزمان کے ہمراہ گرفتارکرلیاگیا لیکن کچھ ہی دنوں بعدشواہد کی عدم موجودگی کے باعث چھوڑ دیاگیا۔ بعد میں وہ اور اس کے دوبیٹےافغانستان فرارہوگئےجہاں وہ القاعدہ کےلیے ایک ٹریننگ کیمپ چلارہے تھے۔ پی پی پی حکومت کے دوران کیس کی تحقیقات دوبارہ شروع کی گئیں لیکن کراچی پولیس کےڈی ایس پی نواز رانجھاجنہیں کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری سونپی گئی جب وہ حملہ آوروں کوگرفتارکرنے کے قریب تھے تو انہیں پُراسرارطورپر قتل کردیاگیا۔ تاہم گزشتہ جان لیوا حملوں سے نہ گھبرانے والی محترمہ بے نظیر بھٹو نے الیکشن مہم جاری رکھنے کافیصلہ کیا۔ 26دسمبر2017کو ہم محترمہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ پشاورجانےکےلیےائرپورٹ پہنچےجہاں انہوں نے ایک الیکشن ریلی میں شریک لوگوں کی بڑی تعداد سے خطاب کیا۔ وہ پشاور میں ایسی عوامی تعداد دیکھ کر بےحدخوش تھیں۔ بدقسمتی سےہم پر ایک ناکام قاتلانہ حملہ ہوا۔ انہیں چپلی کباب کھانے کا بہت شوق تھا اور انہوں نے پشاور سےاسلام آباد واپسی پر مجھے اس کا بندوبست کرنے کاکہا۔ مجھے یاد ہے کہ ناہید خان ان کی دائیں جانب تھیں جبکہ میں بائیں جانب بیٹھا ہوا تھا۔ شہید محترمہ بےنظیربھٹو نے چپلی کباب اور روٹی کا رول بنایا اور انہوں نے پہلا مجھے دیااور دوسرا نائید خان دو اور آخر میں خود لیا۔ ہمیں بالکل بھی نہیں پتہ تھا کہ اگلی شام وہ ہماری ساتھ نہیں ہوں گی۔ 27دسمبر2007کی شام قوم کوایسی قوتوں کے ہاتھوں شہید محترمہ بے نظیربھٹو قوم کی شہادت کا صدمہ برداشت کرنا پڑا جو کبھی بھی پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ 27دسمبر 2007کو وزارتِ داخلہ نے لیاقت باغ میں شہیدمحترمہ بےنظیربھٹوکی الیکشن مہم پر حملےکی کئی وارننگز جاری کیں۔ حکومت سے فول پروف سیکورٹی کامطالبہ کیاگیا لیکن ان کی حفاظت کےلیےمناسب اقدامات نہ کیےگئےیا صوبائی حکومت کوبھی بلیوبُک کے مطابق جامع سیکورٹی انتظامات کرنے کی مخصوص ہدایات نہ دی گئیں۔
شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی ناقص سیکورٹی کے باعث دہشتگرد محترمہ بےنظیربھٹو کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگئے اور خودکش بم حملے میں انہیں اس وقت قتل کردیاگیاجب وہ لیاقت باغ میں عوامی خطاب کرنے کےبعدوہاں سے روانہ ہورہیں تھیں۔ اس میں بالکل بھی کوئی شک نہیں کہ کس نے انہیں مارا، کس نے سازش کی اور سازش کو عملی جامہ پہنایااور کس نے سازش میں مدد کی۔ حکومتی ہدایات کے تحت ایک گھنٹےاور20منٹ بعدپولیس نےجائےوقوع کو دھودیا اس سے اہم شواہد کو ختم کرنے میں مدد ملی۔ ان کی شہادت کے بعد پاکستانی سیاست کا ایک سنہری باب ہمیشہ کےلیےبندہوگیاتاہم کوئی بھی ان کی وراثت ختم نہیں کرسکتا۔ قتل کےبعد پنجاب حکومت نے ایک پولیس افسران پر مشتمل ایک جے آئی ٹی بنائی تاکہ محترمہ بےنظیربھٹوکے قتل کے کیس کی تحقیقات کی جاسکیں۔ اگرچہ جے آئی ٹی نےسازش کوعلم رکھنےوالےاور سازش کو عملی جامہ پہنانےمیں مدد دینےوالےپانچ ملزمان کو گرفتارکیا، اس کے علاوہ کئی ملزمان کو مفرورقرار دیاگیا لیکن اس کے باوجود کئی سوالات کے جواب نہیں ملے۔ جے آئی ٹی نے محترمہ بےنظیربھٹوکوناقص سیکورٹی فراہم کرنے کی ذمہ داری کسی سرکاری اہلکار بشمول جنرل پرویز مشرف پر نہیں ڈالی۔ ان کے قتل کےصرف24گھنٹے بعد ہی نیشنل کراسزمنیجمنٹ سیل کے اس وقت کےڈائریکٹرجنرل نے وفاقی حکومت کے احکامات پریہ بتانے کےلیے ایک پریس کانفرنس کی کہ بیت اللہ محسود اور مولوی صاحب (جن کی شناخت بعد میں عزیزاللہ کے نام سے ہوئی، مدرسہ حقانیہ کا ایک سابق طالب علم) ایک مبینہ ٹیلیفونک کال انٹرسیپٹ کی جس میں مبارک باد دی گئی اور موت کی وجہ پر بات ہوئی۔ اس پریس کانفرنس کا واضح مقصد اس وقت کی پنجاب حکومت کی جانب سے بنائی گئی جے آئی ٹی کی تحقیقات پر اثرانداز ہونا تھا۔ اس وقت کی وفاقی حکومت نے انتہائی محدود تحقیقات کےلیے برطانیہ کی اسکاٹ لینڈ یارڈٹیم کو مدعوکیا۔ انہیں صرف موت کی وجہ معلوم کرنے کا کام سونپا گیا۔ اگرچہ ٹیم نے یہ نتیجہ اخذکیاکہ محترمہ کی موت کسی گولی لگنے کی وجہ سے نہیں ہوئی بلکہ یہ نتیجہ حتمی بھی نہیں تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس وقت کی پنجاب حکومت نے بھی محدود اختیارات کے ساتھ ایک انکوائری کمیٹی بنائی جس کےلیے پہلے سے شرائط طےکی گئیں۔ کمیٹی نےاپنی تحقیقات میں مقامی انتظامیہ بشمول جائےوقوع کودھونے والےپولیس افسران کوکلین چٹ دےدی۔ پی پی پی حکومت کی درخواست پراقوام متحدہ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی انکوائری کےلیے ایک کمیشن تشکیل دیا اور نتیجہ اخذ کیاکہ ’’پہلی جے آئی ٹی کی سمت کا تعین نہیں کیاگیاتھا وہ غیرمؤثرتھی اور وہ تمام مجرموں کوانصاف کے کٹہرے میں لانے کےلیے پُرعزم بھی نہیں تھی۔ اِن اشاروں کے باوجودکہ کراچی اور راولپنڈی کے حملوں میں روابط موجود ہیں، اُن دونوں کیسز کے تفتیش کاروں میں کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی انکوائری کے نتیجے میں پی پی پی حکومت نے ایک اور جے آئی ٹی تشکیل دے دی جس میں ایف آئی اےکےخالدقریشی کی سربراہی میں پولیس، سیکورٹی ایجنسیزاور ایف آئی اےکے لوگ شامل تھے۔ تحقیقات کے دوران یہ بات یقینی تھی کہ سابق جے آئی ٹی نے ان لوگوں سے تفتیش نہیں کی تھی جن کی محترمہ بے نظیر بھٹو نے2007میں اپنے قتل سے قبل مارک سیگل کو ایک میل میں نشاندہی کی تھی، یہ معاملہ بھی ریکارڈ پر ہے۔ دوسری جے آئی ٹی نے شہیدمحترمہ بےنظیربھٹوکو سیکورٹی فراہم نہ کرنے کی ذمہ داری ملزم جنرل مشرف پرعائد کی، اور جائے وقوع کو دھونے اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کا پوسٹ مارٹم نہ کرنے کی ذمہ داری ڈی آئی جی سعود عزیزاور ایس ایس پی خرم شہزادپرڈالی۔جے آئی ٹی نے یہ بھی کہاکہ اس حملے کی منصوبہ بندی، نگرانی اور تکمیل اکوڑہ خٹک میں مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کےسابق طالب علموں نے کی۔ دوسری جے آئی ٹی نے قتل پر ایک مکمل رپورٹ فراہم کی اور ’’بڑی سازش‘‘قراردیاجسے وزیرستان کے دہشت گردوں نے عملی جامہ پہنایا، جنرل مشرف نےان کی حفاظت کےلیے ناقص سیکورٹی فراہم کرکےاس میں مدد کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طالبان نے پاکستانی حکومت کے تعاون سے افغان حکومت کے ساتھ قطر اورمری میں ملاقاتوں میں حسنین گُل اور رفاقت حسین کی رہائی کا مطالبہ بھی کیاہے۔ لہذا اس سے واضح طورپر پتہ لگتاہے کہ وہ طالبان /القاعدہ کے قریبی ساتھی ہیں۔محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے بعد ملزمان کےٹرائل کے لیےایف آئی اے اور جے آئی ٹی نے اپنی پہلی رپورٹ 25 مئی 2010 کو کورٹ میں جمع کرائی ۔ ملزمان نے وکیلوں اور گواہوں کودھمکانے کے علاوہ تاخیری حربے استعمال کیے گئے۔ٹرائل کےدوران اسپیشل پبلک پراسیکیوٹر چوہدری ذوالفقارعلی کوکورٹ آتےہوئےراستے میں قتل کر دیا گیا۔ کیس کی تحقیقات کےدوران پتہ لگا کہ ملزمان خالد شیخ سے رابطے میں تھے جو 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرہوئے پہلےدہشت گردحملہ کا ماسٹر مائنڈ اور یوسف رمذی کا چچا بھی تھا۔ اس کیس کے متعلق کارروائی میں شامل انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شامل پانچ جج جنہیں اس کیس کے لیے متعین کیا گیا تھا ان کا تبادلہ کر دیا گیاجس سے کیس کے انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہوئی۔ اس کے باعث سابق صدر آصف علی زرداری ، بلاول بھٹو، بختاور اور آصفہ بھٹو کو کئی سالوں تک انصاف نہ مل سکا۔ تقریباًسات سال بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 31 اگست 2017 کو فیصلہ سنایا جس میں تمام دہشت گردوں کو بری کردیاگیا۔ تاہم اس میں دونوں پولیس افسران کو مجرم ٹھرایاگیا اور سزادی گئی۔ ’’دخترِپاکستان‘‘امن کا پیغام اور امید کے ساتھ وطن واپس آئی تھیں لیکن دشمنوں نے پاکستان کی امید کو قتل کر دیا۔دخترِ مشرق کو مکمل منصوبے کے ساتھ قتل کیا گیا۔بلاول، بختاوراورآصفہ کئی سالوں تک انصاف کا انتظار کرتے رہےلیکن اس کے باوجود ملزموں کی گواہی اور فرانزک رپورٹس کے مطابق ثبوت اکٹھے نہ ہوسکے۔ لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے قاتلوں کو کیوں گرفتار نہیں کیا گیا۔ تاہم کورٹ سے جن دو ملزمان کو سزا دی گئی اُن دونوں پولیس افسران کو ہائیکورٹ میں اپیل کے بعد ضمانت پر رہاکردیاگیا جبکہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف ٹرائیل ابھی تک عدالت میں زیر سماعت ہے۔ یہ ایک سوالیہ نشان ہےکہ تمام جوڈیشل سسٹم بھٹو خاندان کو انصاف فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکا۔میری خواہش ہے کہ سپریم کورٹ بلاول بھٹو اور ان کی بہنوں کوان کی والدہ اور دادا کے قتل پرانصاف کی فراہمی میں ناکامی پرعدالتی نظام کانوٹس لے۔ بلاول بھٹو کانا انصافیوں اور سیاسی چیلنجز کاسامنا کرنے کاحوصلہ تو سب کو دکھائی دیتا ہے لیکن جب وہ اپنی والدہ کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں آنسوکوئی نہیں دیکھتا۔ میری بہن، میری لیڈر اور پوری عوام کی لیڈر ہم آپ کو یاد کرتے ہیں۔آپ کے مشن کو بلاول بھٹو زرداری کے ذریعے آگے بڑھا رہے ہیں اور وہ پوری ایمانداری کے ساتھ آپ کے نظریے کو آگے لے کر جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment