ٹی وی لگا کر کوئی ٹاک شو دیکھ لیں، کسی محلے میں تھڑے پر بیٹھ کر گفتگو کر لیں، اپنے ڈاکٹر سے بحث کر لیں، گھر کے ڈرائنگ روم میں دوستوں سے گپ شپ کر لیں، عام آدمی سے پوچھ لیں، کسی کالج میں نوجوانوں کے گروپ سے سوال کر لیں، سرکاری اہلکاروں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے باز پرس کر لیں ،سیاست دانوں کے بیانات پڑھ لیں، جیل کے قیدیوں سے پوچھ لیں، تاجر برادری سے سوال کرلیں،مولوی حضرات کی رائے لے لیں یا پھر سوشل میڈیا میں سروے کر وا لیں..... آپ کو کچھ اِس قسم کی ملی جلی آوازیں سنائی دیں گی کہ ہم سب ملک کی ترقی و خوشحالی چاہتے ہیں، قائداعظم ہمارے رول ماڈل ہیں، حرمت دین کے لئے جان بھی حاضر ہے..... وغیرہ وغیرہ۔ مگر مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ جس ملک کا ہر شہری ملک کی محبت کا دم بھرتا ہو، جس ملک کے سکولوں میں قائد اعظم اور علامہ اقبال بچوں کو نصاب میں پڑھائے جاتے ہوں، جس ملک میں کروڑوں عاشقان رسول ﷺ بستے ہوں، جس ملک میں تمام ٹی وی چینلز صبح شام ملک کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے پروگرام کرتے ہوں، جس ملک کی ہر محفل میں یہی بحث ہوتی ہو کہ پاکستان کیسے ترقی کرے گا، جس ملک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنے سوشل میڈیا پروفائل پر true Pakistaniلکھ کر فخر کرتے ہوں، جہاں کے تارکین وطن اپنے ملک کے لئے تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہوں اور جہاں اعلیٰ سطح پر مسائل کا ادراک بھی ہو اور اُن مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت کا دعویٰ بھی..... اُس ملک میں پھر وہ کون لوگ ہیں جو بجلی کے کُنڈے ڈالتے ہیں، جو گلی محلوں میں کوڑے کے ڈھیر لگاتے ہیں، جو سڑکوں پر ڈنگر وں کی طرح گاڑی چلاتے ہیں، جو پلاٹوں پر قبضہ کرتے ہیں، جو لوگوں کے گردے نکال کر بیچتے ہیں، جو کم سِن بچوں پرڈنڈے برساتے ہیں، جو دفتروں میں رشوت دیتے اور لیتے ہیں، جو دواؤں اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کرتے ہیں، جو تھانوں میں بے گناہ لوگوں پر تشدد کرتے ہیں، جو اختیار کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور جو طاقت میں اندھے ہو کر قانون کو روند ڈالتے ہیں! ہم سب تو بہت اچھے اور محب وطن شہری ہیں اور کروڑوں کی تعداد میں ہیں ..... تو پھر یہ کروڑوں لوگ کون ہیں جو دن رات ہماری آنکھوں کے سامنے قانون کی پامالی کرتے ہیں، کیا یہ کسی اور سیارے کی مخلوق ہے؟ یقیناً نہیں۔ یہ ہم خود ہیں ۔
یہ ہم ہی ہیں جو ٹی وی چینلز پر دن رات قانون کی بالادستی کے بھاشن دیتے ہیں مگر ’’یہ نہیں جانتے‘‘ کہ اُنہی میڈیا ہاؤسز نے باہر آدھی سڑک غیرقانونی پارکنگ سے قبضے میں کی ہوئی ہے، یہ ہم ہی ہیں جو خود کو proud Pakistaniکہتے ہیں اور ساتھ ہی غلیظ گالیاں بک کر اپنے محب وطن ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، یہ ہم ہی ہیں جو رسول اللہ ﷺ سے عشق کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر آپ ﷺ کی بتائی ہو ئی تعلیمات پر عمل کرنے کو تیار نہیں، یہ ہم ہی ہیں جو قائداعظم کو رول ماڈل کہتے ہیں مگر قائد کی کسی ایک بات کو بھی اپنی ذات پر لاگو کرنے کو تیار نہیں، یہ ہم ہی ہیں جو پڑھ لکھ کرشوخ و شنگ ڈگری حاصل کرتے ہیں مگر گنواروں کی طرح سڑک پر گاڑی چلاتے ہیں، یہ ہم ہیں جو کوڑا گھر کے باہر پھینک کر سمجھتے ہیں کہ اب اسے اٹھانا حکومت کا کام ہے، یہ ہم ہی ہیں جو بجلی چوری کرتے ہیں اور پھر اسی سانس میں حکومت کو کوستے ہیں کہ ملک میں ناانصافی کیوں ہے، یہ ہم ہی ہیں جو اندھا دھند پانی ضائع کرتے ہیں اور پھر دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان سے ہمیں بہت محبت ہے، یہ ہم ہی ہیں جو نماز پڑھنے کے بعد سیدھا اپنی دکان میں واپس جاتے ہیں اور اللہ کی قسم اٹھا کر جعلی مال بیچتے ہیں، یہ ہم ہی ہیں جو اپنی سوشل میڈیا پروفائل پر قرانی آیات لگا کر بہتان تراشی سے بھی باز نہیں آتے، یہ ہم ہی ہیں جو فرانس میں حجاب پر پابندی کو سیکولرازم کے اصولوں کے منافی کہہ کر آسمان سر اٹھا لیتے ہیں مگر اسی اصول کے تحت اپنی اقلیتوں کو آئین میں دیئے گئے جائز حقوق دینے کو تیار نہیں، یہ ہم ہی ہیں جو اس ملک میں غربت پر ماتم کرتے ہیں مگر اپنے کارخانوں میں مزدور کو اُجرت بھی بیگار کی طرح دیتے ہیں اور یہ ہم ہی ہیں جن کے عقیدہ ایمان میں صفائی شامل ہے مگر چاروں طرف پھیلی (ظاہری اور باطنی) غلاظت کو دیکھ کرنہیں کہا جا سکتا کہ ہم میں سے کوئی بھی صاحب ایمان ہے!
پاکستانی سوسائٹی کا اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ منافقت ہے۔ منافقت میں اب ہم اُس درجے پر فائز ہو چکے ہیں جہاں ہمیں منافقت کا احساس ہی نہیں ہو رہا، ہم خود کو درست سمجھتے ہیں، اپنے ہر عمل کی توجیہہ ہمارے پاس ہے چاہے وہ عمل خلاف دین ہو یا خلاف قانون، ہمیں اِس بات کی پروا نہیں، جس چیز کو ہم اپنی ذات کے لئے نفع بخش سمجھتے ہیں اُس کا حصول ہمارے لئے جائز ہے، اگر کوئی بات ہمارے کسی نام نہاد نظریئے کے مطابق درست ہے تو ہم اُس کی تاویل کہیں سے بھی تلاش کرکے اُس کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اڑ جائیں گے مگر یہ تسلیم نہیں کریں گے ہم غلط بھی ہو سکتے ہیں ۔مثلاً ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے گزشتہ چند برسوں میں بغض معاویہ میں ایک مخصوص بیانئے کی اندھا دھند حمایت کی، میڈیا پر حالیہ بندشیں غالباً اس بیانئے کی حمایت کا نتیجہ ہیں، اگر آپ گاڑی میں پٹرول ڈال کر لاہور موٹر وے سے اسلام آباد کی طرف جائیں گے تو اسلام آباد ہی پہنچیں گے، کابل نہیں (واضح رہے کہ کچھ لوگ میڈیا کی آزادی کی حقیقی جنگ لڑ رہے ہیں مگر اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے) اسی طر ح جو لوگ قائداعظم کو ایک آئیڈیل سیاست دان مانتے ہیں وہ قائد کی بتائی ہوئی اُن باتوں کو ماننے کو تیار نہیں جو انہوں نے اقلیتوں کے باب میں سمجھائی تھیں، وہ قائداعظم کی زندگی کا رنگ ڈھنگ اپنانے کو بھی تیار نہیں، تو پھر رول ماڈل کاہے کا، ہر دو صورتوں میں یہ منافقت کی معراج ہے۔ دراصل ہم لوگ تضادات کا مجموعہ بن چکے ہیں، ایک ہی سانس میں ہم کسی ایک بات کا دعوی کرتے ہیں اور پھر اسی سانس میں ہم اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں، ہمارا دین ہمیں صفائی کا درس دیتاہے، حسن اخلاق کی تعلیم دیتا ہے، ایمانداری کا سبق سکھاتا ہے، مگر حال ہمارا یہ ہے کہ حج کرنے جاتے ہیں تو اضافی سامان چھپا کر لے آتے ہیں تاکہ پی آئی اے کو اِس کا جرمانہ ادا نہ کرنا پڑے۔
جس حج فلائٹ سے ہم واپس آتے ہیں اُس میں گندگی کے ڈھیر لگا دیتے ہیں اور جو بندہ ہماری بات سے اختلاف کرے اور جواب میں کوئی دلیل نہ ہو تو اسے گندی گالیوں سے نواز کر بتاتے ہیں کہ ہم کتنے ’’دین دار‘‘ ہیں ! اس ملک میں جس گروہ، لیڈر، تجزیہ نگار اور لکھاری نے مذہبی تنگ نظری کو فروغ دیا اور اپنا چھابہ لگا کر محض اس لئے یہ سودا بیچا کہ اُس وقت یہ اُن کے مفاد میں تھا، اب وہی تمام لوگ اِس پر ماتم کناں ہیں کہ ہائے ہمارا یہ مطلب تو نہیں تھا، قائد کا پاکستان ایسا تو نہیں تھا، ہمارے پاکستان میں تو اقلیتوں کے حقوق تھے، اب کیا ہوگا..... اب جو ہونا تھا ہو چکا، یہ ہم ہی تھے جنہوں نے اپنے مفاد کے لئے یہ سب کچھ کیا تھا، جو بویا تھا وہی کاٹنا پڑے گا۔
No comments:
Post a Comment