سہیل وڑائچ نے اپنے ایک کالم میں یووال نوح ہراری کی کتاب
کیا ہے اور بونوں کی اس نسل کا حوالہ دیا ہے جن کی وراثت ہم تک پہنچی ہے۔ آج ہم اسی کتاب سے ایک واقعہ آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کو یاد ہو گا کہ جولائی 1969 میں انسان نے چاند کی سطح پر قدم رکھا تھا۔ چاند پر پہنچنے سے کئی مہینے پہلے امریکی خلابازوں کو مغربی امریکہ کے ایک ایسے ریگستانی علاقے میں تربیت دی جا رہی تھی جس کے بارے میں خیال تھا کہ وہ چاند کی سطح جیسا ہو گا۔ اس علاقے میں امریکہ کے اصل باشندے (ریڈ انڈینز) ابھی موجود تھے۔ کہتے ہیں ایک دن امریکہ کا ایک بوڑھا اصل باشندہ ان خلابازوں کو وہاں ملا۔ اس نے پو چھا ’’آپ لوگ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ جب خلا بازوں نے اسے بتایا کہ ہم چاند پر جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں، تو وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر بولا ’’آپ ایک مہربانی کر سکتے ہیں؟‘‘ خلا بازوں نے جواب دیا ’’کیوں نہیں؟ بتائو کیا کرنا ہے؟‘‘ وہ بوڑھا بولا ’’ہمارے قبیلے کے لوگوں کا عقیدہ ہے کہ چاند پر مقدس روحیں رہتی ہیں۔ کیا آپ ان روحوں کو میرے قبیلے کا پیغام پہنچا دیں گے؟‘‘ خلا بازوں نے پوچھا ’’کیا پیغام ہے؟‘‘ اس پر اس بوڑھے نے اپنی زبان میں کچھ کہا اور خلا بازوں سے کہا ’’میں جو کہہ رہا ہوں اسے بار بار دہرائو تاکہ تمہیں یہ ازبر ہو جائے۔‘‘ خلا بازوں نے سوال کیا کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ تو بوڑھے نے جواب دیا ’’یہ میں تمہیں نہیں بتا سکتا۔ یہ ایک راز ہے جو صرف میرے قبیلے اور چاند کی مقدس روحوں کو ہی جاننے کی اجازت ہے‘‘۔ خلا بازوں نے بوڑھے کے بتائے ہوئے جملے یاد کر لیے۔ تربیت کے بعد جب وہ اپنے اڈے پر واپس پہنچے تو انہوں نے کسی ایسے آدمی کی تلاش شروع کر دی جو بوڑھے کی بات کا ترجمہ کر سکے۔ بسیار تلاش کے بعد آخر ایک آدمی ایسا مل گیا جو وہ زبان جانتا تھا۔ خلا بازوں نے اس کے سامنے وہی دہرایا جو اس بوڑھے نے انہیں یاد کرایا تھا۔ یہ سن کر وہ آدمی پہلے تو خوب ہنسا، پھر کہنے لگا کہ آپ نے اتنی محنت سے جو جملہ یاد کیا ہے، اس کا مطلب ہے ’’یہ لوگ کچھ بھی کہیں، ان کے ایک لفظ کا بھی اعتبار نہ کرنا۔ یہ آپ کی زمین ہتھیانے آئے ہیں‘‘۔ یہاں یہ واقعہ درج کرنے کا ہرگز وہ مقصد نہیں ہے جو آپ سمجھ رہے ہیں۔ ہمارا مقصد تو صرف وہ واقعہ بیان کرنا ہے جو اس کتاب میں موجود ہے۔ اب لگے ہاتھوں ہم یہ بھی بتا دیں کہ امریکی خلا نورد جو پتھریلی مٹی چاند سے لائے تھے اس کا کچھ حصہ ہمارے گھر میں بھی موجود ہے۔ ان دنوں امریکی پاکستان پر بہت مہربان تھے (سوویت یونین کے مقابلے کی وجہ سے)۔ لاہور میں امریکی سنٹر موجود تھا۔ اس سنٹر کے ڈائریکٹر شیشے کے ایک جار میں بند وہ مٹی اٹھائے پاکستان کے شہر شہر گھوم رہے تھے۔ اب اسے ہماری خوش قسمتی ہی کہہ لیجئے کہ ان ڈائریکٹر صاحب نے چاند کی مٹی والے جار کے ساتھ ہماری تصویر بھی کھینچی تھی۔ یہ تاریخی تصویر ہمارے گھر کی زینت ہے۔ خیر، آپ اسے جملہ ہائے معترضہ سمجھ لیجئے۔ ہم نے تو یہ کالم صرف اپنی اس خوشی کا اظہار کرنے کے لیے باندھا ہے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک روشن ستارہ نمودار ہو گیا ہے۔ ہالی وڈ کی ایک بہت ہی مقبول فلم تھی A Star is Born۔تو صاحب، وزیر اعظم کے الیکشن کے دن بلا ول بھٹو نے جو تقریر کی اسے سن کر ہمارے منہ سے بے ساختہ نکلا A Star is Born۔اس دن عمران خان نے تو ثابت کیا کہ وہ ذرا سے اشتعال پر بھی پھلجھڑی کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں۔ اب ہم کیا کہیں، سب یہی کہہ رہے ہیں کہ وہ کسی ایسے سیاسی رہنما کی تقریر نہیں تھی جو وزیر اعظم کا عہدہ سنبھال رہا ہے بلکہ کنٹینر پر کھڑے اورغصے میں بھرے ہوئے کسی اپوزیشن لیڈر کی تقریر تھی۔ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ عمران خان کہنا تو کچھ اور چاہتے تھے لیکن نون لیگ کے شور شرابے نے انہیں غصہ دلا دیا تھا، ایک ایسی معذرت اور ایسی صفائی ہے جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں ہو گا۔
وہ
سیاسی رہنما ہی کیا جو ذرا سے ہنگامے پر ہتھے سے اکھڑ جائے؟ اب رہے شہباز شریف؟ تونعرے بازی ان کی پرانی عادت ہے۔ یہ عادت ان کا پیچھا چھوڑ ہی نہیں سکتی۔ وہ اس کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے۔ لیکن اسی ہنگامے اور اسی شور شرابے میں نوجوان اور نووارد بلاول بھٹو نے بھی تقریر کی۔ کیا تحمل تھا، کیسی بردباری تھی اور کیا سیاسی پختگی تھی۔ ماتھے پر بل ڈالے بغیر نہایت ہی نپے تلے الفاظ میں اس نوجوان نے وہ تمام باتیں کہہ دیں جو شور شرابہ کرنے اور نعرے لگانے والے نہیں کہہ سکے۔ یہ اس کے بولنے کا مدبرانہ انداز اور الفاظ کا چنائو ہی تو تھا کہ جب اس نے ’’وزیر اعظم سلیکٹ‘‘ کہا تو عمران خان اور شاہ محمود قریشی سمجھ ہی نہ سکے کہ ان پر کتنی بھاری چوٹ کر دی گئی ہے۔ ان دونوں نے آ گے جھک کر ڈیسک بجائے اور بلاول کی تعریف کی۔ بعد میں وہ ضرور پریشان ہوئے ہوں گے کہ ہم نے یہ کیا کر دیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ بلاول کو یہ تقریر اردو میں کرنا چا ہیے تھی تاکہ سب کی سمجھ میں آتی۔ آپ فکر نہ کیجئے، تھوڑا توقف کر لیجئے۔ اگر اسی طرح بلاول کو موقع ملتا رہا تو وہ اردو میں بھی تقریر کرنے لگے گا اور یہ موقع آصف علی زرداری کو فراہم کرنا ہو گا۔ انہیں مان لینا چاہیے کہ اب ان کا وقت ختم ہو چکا ہے۔ اب بلاول کا وقت اور بلاول کا زمانہ ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کا سنہری ماضی واپس لانا ہے تو زرداری صاحب کو گھر میں بیٹھنا ہو گا اور پارٹی بلاول کے ہاتھ میں دینا ہو گی۔
اتوار کی رات عمران خان نے وزیر اعظم کی حیثیت سے قوم سے جو خطاب کیا ہے ہمیں اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ایک گھنٹے سے زیادہ کے خطاب میں ایک ایک کر کے ان تمام مسائل کی نشاندہی کی ہے جو اس ملک اور اس قوم کو درپیش ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان مسائل کا حل بھی بتایا ہے۔ اگرچہ یہ وہ حل ہے جس کا ذکر وہ اس سے پہلے بھی بار بار کرتے رہے ہیں لیکن پہلے وہ وزیر اعظم نہیں تھے، اب وہ وزیر اعظم ہیں۔ اس لئے ان سے توقع ہے کہ انہوں نے اپنے خطاب میں جو وعدے کیے ہیں وہ انہیں پورا کر کے بھی دکھائیں گے۔ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ ان کے مجوزہ پروگرام پر عمل ہو جانے کے بعد پاکستان اس قابل ہو جائے گا کہ دوسرے ملکوں سے امداد لینے کے بجائے وہ خود دوسرے غریب ملکوں کی مدد کرے گا۔ تری آواز مکے اور مدینے۔ اس سے اچھی بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ عمران خان ہر مہینے اسی طرح قوم سے خطاب کیا کریں اور قوم کو یہ بتایا کریں کہ اب تک ان کے پروگرام پر کہاں تک عمل ہو گیا ہے اور اب ان کے پروگرام نے کیا رخ اختیار کیا ہے؟
https://jang.com.pk/news/538360
No comments:
Post a Comment