شکرانے کے نفل ادا کرنے والوں کا انجام؟
09 جولائی ، 2018
تاریخ کو مسخ کر کے نئی تاریخ بنائی جا رہی ہے۔ احتساب عدالت کی طرف سے شریف خاندان کیخلاف سنائے گئے فیصلے پر عمران خان شکرانے کے نوافل ادا کر رہے ہیں اور شیخ رشید احمد صاحب فرماتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ کسی طاقتور کا احتساب ہوا ہے۔ دوسری طرف نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کا کہنا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں اُنہیں دی جانیوالی سزا کی اصل وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے پچھلے ستر سال سے جمہوریت کیخلاف جاری سازشوں کا راستہ روکنے کیلئے نادیدہ قوتوں کے خلاف کلمہ حق بلند کیا۔ یقین کیجئے کہ دونوں اطراف کے دعوے سُن کر مجھے ہلکے ہلکے جھٹکے لگے۔ دونوں نے تاریخ کو مسخ کیا۔ اس کی وجہ لاعلمی نہیں بلکہ سیاسی مفاد ہے۔ الیکشن قریب تر ہیں اور عوام سے سچ بول کر ووٹ حاصل کرنے کے بجائے جھوٹ بول کر ووٹ بٹورنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پہلی دفعہ کسی طاقتور کا احتساب ہوا ہے۔ جنکے پاس طاقت ہے اُنکا احتساب تو آج تک ہوا ہی نہیں احتساب تو صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے جنہیں اقتدار دے دیا جاتا ہے اختیار نہیں دیا جاتا اور اگر وہ تھوڑا بہت اختیار حاصل کر لیں تو اُسے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
آیئے میں آپ کو پاکستان کی تابناک سیاسی تاریخ کے کچھ واقعات یاد دلانے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ
آیئے میں آپ کو پاکستان کی تابناک سیاسی تاریخ کے کچھ واقعات یاد دلانے کی جسارت کرتا ہوں تاکہ
آپ جناب شیخ کے دعوے کو تاریخ کے آئینے میں پرکھ سکیں۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد سندھ کے گورنر غلام حسین ہدایت اللہ اور وزیر اعلیٰ ایوب کھوڑو کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ گورنر صاحب نے قائد اعظمؒ کو بتایا کہ وزیراعلیٰ کرپشن میں ملوث ہیں۔ وزیراعلیٰ کا موقف تھا کہ وہ کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کے مخالف ہیں اسلئے وزیر اعظم لیاقت علی خان اور گورنر اُن کیخلاف ہو گئے۔ قائد اعظمؒ کی منظوری سے 26اپریل 1948ء کو گورنر نے وزیراعلیٰ کھوڑو کو اُن کے عہدے سے برطرف کر دیا اور اُن پر کرپشن کے مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ جسٹس عبدالرشید اور جسٹس شہاب الدین پر مشتمل ایک خصوصی عدالت بنائی گئی جس نے ایوب کھوڑو کو تین سال کیلئے نااہل قرار دیدیا۔ کچھ عرصہ کے بعد 14جنوری 1949ء کو وزیر اعظم لیاقت علی خان پروڈا کا قانون لائے اور انہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ افتخار ممدوٹ سمیت کئی سیاستدانوں پر اس قانون کی تلوار چلائی۔ اس دوران ایوب کھوڑو کو سندھ ہائی کورٹ نے بحال کر دیا اور دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے بعد اُنہوں نے بھی پروڈا کا خوب استعمال کیا۔ کھوڑو نے وہی غلطی کی جو گورنر غلام حسین ہدایت اللہ اور وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کی اور اس طرح پاکستان کی سیاست میں احتساب کے نام پر سیاسی انتقام لینے کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔ چھ جولائی 2018ء کو شریف خاندان کیخلاف احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا فیصلہ آنے کے بعد اس خاکسار نے نواز شریف کی لندن میں پریس کانفرنس سنی تو مجھے وہ زمانہ یاد آ گیا جب 1997ء میں نواز شریف نے دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے بعد احتساب بیورو بنایا اور اپنے ایک منظور نظر سیف الرحمان کو اس بیورو کا سربراہ بنا دیا۔ سیف الرحمان نے اس وقت کی اپوزیشن لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے خلاف بہت سے مقدمات قائم کئے تو جواب میں پیپلز پارٹی نے بھی نواز شریف پر الزامات لگائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ شریف خاندان نے اپنی ناجائز دولت سے لندن میں پراپرٹی خرید رکھی ہے۔ 13جولائی 1997ء کو میں نے روزنامہ پاکستان میں ’’عدالت جانا ضروری ہے‘‘ کے عنوان سے ایک کالم لکھا جس میں یہ عرض کیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو نے وزیر اعظم نواز شریف پر بیرون ملک جائیداد اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے جو الزامات عائد کئے ہیں اگر وہ غلط ہیں تو انہیں محترمہ کے خلاف عدالت میں جانا چاہئے۔ میرے اس کالم پر نواز شریف کے قریبی ساتھی سینیٹر پرویز رشید نے ایک خط لکھا اور دعویٰ کیا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا میرے قائد پر الزام جعلسازی ہے۔ پرویز رشید کا جواب نصیر اللہ بابر مرحوم نے دیا۔ پھر پرویز رشید کا جواب الجواب آیا جو 15جولائی 1997ء کو شائع ہوا اور میں نے یہ لکھ کر دونوں سے اپنی جان چھڑائی کہ ایک دن کسی نہ کسی عدالت میں ان الزامات کا فیصلہ ضرور ہو گا۔ اس دوران سیف الرحمان نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو احتساب عدالت کے جج ملک قیوم سے سزا دلوانے کے انتظامات مکمل کر لئے۔ وزیر اعظم کی ہدایت پر ملک قیوم کے تمام ٹیلی فون انٹیلی جنس بیورو کی طرف سے ٹیپ کئے جا رہے تھے کیونکہ خدشہ تھا کہ وہ زرداری صاحب کے بہکاوے میں نہ آ جائیں۔ یہی وجہ تھی کہ ملک قیوم کی ناصرف سیف الرحمان بلکہ شہباز شریف، وزیر قانون خالد انور اور چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ راشد عزیز کیساتھ بھی گفتگو ریکارڈ ہوتی رہی۔ اپریل 1999ء میں ملک قیوم نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کو قید، نااہلی اور جرمانے کی سزا سنائی تو محترمہ بیرون ملک اور زرداری جیل میں تھے۔ اکتوبر 1999ء میں جنرل پرویز مشرف اقتدار میں آئے تو انٹیلی جنس بیورو کے ایک افسر نے حکومت کو تحریری طور پر بتایا کہ کس طرح سیف الرحمان نے جسٹس ملک قیوم پر دبائو ڈال کر پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف فیصلہ کیا۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں گیا تو وہاں بھی سیف الرحمان اور جسٹس ملک قیوم کی ٹیلی فون پر گفتگو سنی گئی۔ یہ ٹیلی فونک گفتگو کسی نامعلوم ذریعے سے نہیں آئی تھی بلکہ آئی بی نے اس کی ذمہ داری لی لہٰذا سپریم کورٹ نے محترمہ بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف احتساب عدالت کا فیصلہ معطل کر کے ملک قیوم کو ایک متعصب جج قرار دیدیا۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے کہا کہ تاریخ نے میرے خلاف کینگرو کورٹ کا فیصلہ مسترد کر دیا۔ یہ کینگرو کورٹ کسی اور نے نہیں نواز شریف نے بنائی تھی۔ جب نواز شریف سعودی عرب میں مقیم تھے تو ہمارے دوست جناب سہیل وڑائچ نے اُن سے کئی انٹرویوز کے بعد اُن کی ایک سوانح عمری 2007ء میں شائع کی۔ نواز شریف کی کہانی اُن کی اپنی زبانی ’’غدار کون؟‘‘ کے نام سے شائع ہوئی اور اس کتاب میں صفحہ 194پر نواز شریف نے سہیل وڑائچ کے سامنے اعتراف کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کا جس طریقے سے احتساب ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا۔ نواز شریف نے کہا ’’ہمیں اس حوالے سے اکسایا گیا تھا۔ فوج اور آئی ایس آئی کا ہم پر دبائو تھا۔‘‘
عجیب بات ہے کہ 1990ء میں آئی ایس آئی نے آپ کو بڑے پیار سے ’’الیکشن فنڈ‘‘ دیا اور آپ نے یہ نذرانہ محبت وصول کرلیا۔ 1999ء میں آئی ایس آئی نے سیاسی مخالفین کو سزا دینے کیلئے دبائو ڈالا تو آپ نے دبائو بھی قبول کر لیا۔ جب دبائو ڈالنے والوں کے احتساب کا وقت آیا اور پرویز مشرف کیخلاف آئین سے غداری کا مقدمہ شروع ہوا تو آپ نے ایک خاموش ڈیل کے ذریعہ مشرف کو پاکستان سے بھگا دیا اور ذمہ داری سپریم کورٹ پر ڈال دی۔ مشرف نے بیرون ملک جا کر ٹھمکے لگانے شروع کئے تو میں نے گستاخی کرتے ہوئے اُنکے ٹھمکوں کی ایک ویڈیو ٹویٹ کر دی۔ ستمبر 2016ء میں مریم نواز نے میری اس ٹویٹ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مشرف کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ وہ جنرل راحیل شریف کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ آج وہ کہتی ہیں کہ مشرف بھاگ گیا ہمیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مشرف بھاگا نہیں بھگایا گیا تھا۔ آپ نے بھگایا تھا۔ آپ کیساتھ ناانصافی کیخلاف ہم ضرور آواز بلند کرینگے لیکن آپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کب کرینگے؟ نواز شریف کو سزا پر شکرانے کے نوافل ادا کرنیوالوں کا امتحان بھی شروع ہے۔ ان لوگوں نے عوام سے غلط بیانی بند نہ کی تو انکا انجام بھی دوسروں سے مختلف نہ ہو گا۔
عجیب بات ہے کہ 1990ء میں آئی ایس آئی نے آپ کو بڑے پیار سے ’’الیکشن فنڈ‘‘ دیا اور آپ نے یہ نذرانہ محبت وصول کرلیا۔ 1999ء میں آئی ایس آئی نے سیاسی مخالفین کو سزا دینے کیلئے دبائو ڈالا تو آپ نے دبائو بھی قبول کر لیا۔ جب دبائو ڈالنے والوں کے احتساب کا وقت آیا اور پرویز مشرف کیخلاف آئین سے غداری کا مقدمہ شروع ہوا تو آپ نے ایک خاموش ڈیل کے ذریعہ مشرف کو پاکستان سے بھگا دیا اور ذمہ داری سپریم کورٹ پر ڈال دی۔ مشرف نے بیرون ملک جا کر ٹھمکے لگانے شروع کئے تو میں نے گستاخی کرتے ہوئے اُنکے ٹھمکوں کی ایک ویڈیو ٹویٹ کر دی۔ ستمبر 2016ء میں مریم نواز نے میری اس ٹویٹ کی مذمت کرتے ہوئے لکھا کہ یہ مشرف کا ذاتی معاملہ ہے کیونکہ وہ جنرل راحیل شریف کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ آج وہ کہتی ہیں کہ مشرف بھاگ گیا ہمیں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مشرف بھاگا نہیں بھگایا گیا تھا۔ آپ نے بھگایا تھا۔ آپ کیساتھ ناانصافی کیخلاف ہم ضرور آواز بلند کرینگے لیکن آپ اپنی غلطیوں کا اعتراف کب کرینگے؟ نواز شریف کو سزا پر شکرانے کے نوافل ادا کرنیوالوں کا امتحان بھی شروع ہے۔ ان لوگوں نے عوام سے غلط بیانی بند نہ کی تو انکا انجام بھی دوسروں سے مختلف نہ ہو گا۔
https://jang.com.pk/news/517953
No comments:
Post a Comment