محمد زابر سعید بدر
جب مادر ملت فاطمہ جناح اپنے مخصوص انداز میں فرما رہی تھیں کہ جمہوریت میں ہی اس ملک و قوم کی بقا ہے تو میں ان کے پر نور چہرے پر موجود ایک آہنی عزم اور بوڑھی آنکھوں میں ایک عجیب چمک دیکھ رہا تھا یہی چمک قائد اعظم محمد علی جناح کے چہرے پر ہمیشہ موجود رہتی تھی اسی لیے تو میاں بشیر احمد نے کہا تھا
لگتا ہے ٹھیک جا کے نشانے پر جس کا تیر۔۔۔۔ایسی کڑی کماں ہے محمد علی جناح
یہ واقعہ میرے والد گرامی محترم سعید بدر نے مجھے سنایا۔جنرل ایوب کے دور آمریت میں مادر ملت نے لاہور کے المنظر سے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کیا۔ المنظر میاں بشیر احمد کی رہائش گاہ تھی جہاں 1940 سے 1947 تک قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح متعدد بار تشریف لائے۔
والد گرامی نے بتایا کہ جب مادر ملت جمہوریت کے بارے میں ارشاد فرما رہی تھیں تو میاں بشیر احمد بھی پاس موجود تھے۔مادر ملت ان دنوں انہی کے ہاں المنظر میں قیام پذیر تھیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ بہترین آمریت سے بدترین جمہوریت بہتر ہے۔
یہی بات دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو نے کہی۔آج شہید جمہوریت ذولفقار علی بھٹو کی شہید صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کا 65 واں جنم دن ہے۔جنگ پبلشرز کی شائع کردہ نفیس صدیقی کی کتاب '’بھٹو سے بھٹو تک‘ کا مطالعہ دل اور روح کو اداس کر گیا۔جب اس وقت کے منصف کے سامنے پاکستان کی سب سے بڑی اور طاقتور سیاسی جماعت کا بانی سربراہ، عالم اسلام کو پہلا ایٹم بم دینے والا عظیم لیڈر، اسلامی سربراہی کانفرنس میں مسلم امہ کے اتحاد کا نعرہ لگانے، عالمی اسلامی بینک، عالمی اسلامی میڈیا نیٹ ورک، اسلامی معیشت کی بات کرنے والا رہنما انتہائی دکھ سے کہہ رہا تھا کہ’ اسی عدالت میں مجھے کہا گیا کہ تم تو نام کے مسلمان ہو تو وہ انتہائی دکھ سے خلیفہ ہارون الرشید کے دربار کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے، جب وہ کہتا ہے میں تین ماہ سے سو نہیں سکا کیونکہ کوٹ لکھپت جیل میں 50 پاگل میری کوٹھری کے قریب لا کر تین ماہ رکھے گیے جو سارا وقت چیختے چلاتے ہیں۔راولپنڈی میں میری کوٹھری کی چھت سے کنکر پھنکے جاتے ہیں،پچیس دنوں سے مجھے پانی نہیں دیا گیا۔‘
مرنے کے بعد جناب بھٹو کا مختون ہونا چیک کیا گیا کرنل رفیع کی ڈیوٹی جنرل ضیا نے خود لگائی اور انہوں نے چیک کر کے جنرل ضیا کو بتایا۔یہ واقعہ بھی جنگ پبلشرز کی شائع کردہ کتاب، بھٹو کے آخری323 دن میں بیان کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جمہوریت نے بڑا جبر سہا ہے، اب بھی وہی ڈرامہ چل رہا ہے۔ پاکستان کی سب سے مقبول جماعت کے سربراہ اور اس کے خاندان کے ساتھ بالکل اسی طرح کے حالات پیش آ رہے ہیں جس طرح چالیس برس پہلے بھٹو خاندان کے ساتھ پیش آئے۔
اقبال اور جناح نے ایسے پاکستان کا ہرگز خواب نہیں دیکھا تھا۔ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ پاکستان کی بقا صرف جمہوریت میں ہے یہی جنرل ایوب کا تن تنہا مقابلہ کرنے والی جناح کی عظیم بہن فاطمہ جناح نے کہا اور یہی بات عظیم بھٹو کی عظیم بیٹی بینظیر نے کہی کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔
کاش تاریخ سے ناواقف آج کے بونے، مسخرے اور بھانڈے اینکرز پاکستان پر تھوڑا رحم کر لیں۔ 1971 میں 56 فیصد آبادی والا مشرقی پاکستان گنوا چکے ہیں خدانخواستہ اب گیا تو کچھ بھی نہ رہے گا۔
تاریخ ہمیں بہت کچھ یاد دلاتی ہے ہم اگر سبق نہ سیکھنا چاہیں تو وہ الگ بات ہے۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ 1492 میں غرناطہ کے سقوط کے بعد مسجد قرطبہ آج بھی اذان کے لیے ترس رہی ہے۔
وہ لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھو دئیے۔۔۔ڈھونڈا تھا آسماں نے جنہیں خاک چھان کر
https://jang.com.pk/news/509468#_
No comments:
Post a Comment