Saturday, January 13, 2018

معصوم زینب قصور کی نئی پہچان بن گئی - #JusticeForZainab





قصور کی ایک پہچان میڈم نور جہاں ہیں لیکن اس کی نئی پہچان معصوم سی زینب ہے جس کو خود بھی نہیں معلوم کہ اسے اس تاریک راہ میں کیوں قتل کر دیا گیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ قصور شہر میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، پچھلے دو سال میں ایسے کئی کیس سامنے آ چکے ہیں لیکن پچھلے چند ماہ میں تسلسل کے ساتھ بچوں کے اغوا، زیادتی اور قتل کے 12واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
ان معصوم پریوں میں ساڑھے 4سالہ ایمان فاطمہ سے لے کر 11سالہ فوزیہ تک 12بچیاں شامل ہیں، ننھی پریاں جو ابھی اپنے گھروں میں بھاگتی پھرتی تھیں، منوں مٹی تلے جا سوئیں، وہ بھی اتنے ظلم کے بعد کہ روح کانپ جائے۔
سابق ڈی پی او کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان واقعات کے حوالے سے بڑی کارروائیاں کی تھیں، وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے، 5ہزار سے زائد افراد سے پوچھ گچھ کی گئی، 60سے زیادہ لوگوں کے ڈی این اے ٹیسٹ کرائے گئے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان دو سالوں کی کارروائی کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں۔
آج معاشرہ ’جسٹس فار زینب‘ پرہم زبان اور ہم قدم ہے لیکن اگر ہم سب ان معصوم سی پریوں کو اتنی خاموشی کے ساتھ دفن نہیں کرنے دیتے اور ان کیلئے بھی بروقت اٹھ کھڑے ہوتے تو یقیناً آج زینب ہمارے درمیان ہوتی، وہ بچیاں ہم سے سوال کرتی ہیں کہ معاشرے نے ان کے ساتھ ہونے والے ظلم پر کیوں خاموشی اختیار کی ؟
جنگ کی ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ پاکستان میں 11بچے جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں، اس طرح کے واقعات میں 10فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہےاور اس فعل بد میں بچے اور بچی کی کوئی قید نہیں بلکہ کسی بیمار ذہن کی غلیظ تسکین شامل ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پچھلے سال قصور شہر کے جنسی ویڈیو اسکینڈل کے مجرموں کو سزا ملنے کے بعد ایسے واقعات میں واضح کمی آتی، یہ مکروہ اسکینڈل جو قصور سے صرف 5کلومیٹر دور حسین خان والا میں رپورٹ کیا گیاتھا، جس میں معصوم بچے اس ظالم گینگ کے ہاتھوں پہلے زیادتی کا شکار ہوتے، ظلم یہاں نہ رکتا بلکہ پھر اس مکروہ فعل کی ویڈیو کے ہاتھوں وہ خود اور ان کے والدین بلیک میل کئے جاتے۔
آواز اٹھائی گئی، شور اٹھا، ہنگامہ ہوا، مجرم پکڑے بھی گئے، انسداد د دہشت گردی کی عدالت سے فوری فیصلہ بھی آیا لیکن ہوا کیا مزید ظلم۔
وجہ ایک ہی سمجھ میں آتی ہے کہ جب ایسے مجرموں کو سزا صرف عمر قید اور اور تین لاکھ جرمانے کی ملتی رہے گی تو مزید بچے ان جیسے واقعات کا شکار ہوتے رہیں گے۔
پولیس کے ریکارڈ کے مطابق ان تمام زیادتی اور قتل کے کیسز میں کئی باتیں مشترک ہیں جس سے خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ ایک ہی شخص کا قبیح فعل ہے۔
معاشرے کے ہر شخص کیلئے کچھ بنیادی چیزوں سے آگاہ ہونا ضروری ہے کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ان کے بچے کے ساتھ ہوتا ہے، یا ان کے اطراف میں بھی ا یسا کوئی واقعہ ہو تو وہ لوگوں کی مدد کریں اور ان کو بتائیں کہ وہ فوری طور پر پولیس میں رپورٹ کرائیں۔
شواہد یعنی، کپڑے اور بچے کے پاس دیگر چیزوں کو ضائع نہ ہونے دیں، متاثرہ بچے کا فوری میڈیکل چیک اپ ہونا ضروری ہے اور یہ سارے اہم نکات، ایف آئی آر میں ضرور لکھوائیں۔
کیونکہ عدالت کی نظر میں شواہد اہم ہوتے ہیں اور ان ہی کے تناظر میں فیصلے دیے جاتے ہیں جو ظلم ہو چکا، ہوچکا، ان باتوں کو نظر انداز کرکے مزید ظلم نہ ہونے دیں۔
اب معاشرے کے ہر فرد کی ذمہ داری مزید بڑھ گئی ہے کہ اپنے بچوں کو سمجھائیں ضرور لیکن انہیں ڈرائیں نہیں، بچے ہیں، اجنبی لوگوں کے پاس جائیں گے لیکن انہیں بتائیں کہ کیا باتیں غلط ہیں۔
اگر کوئی بچے کو غلط انداز میں چھوتا ہے تو بچے آپ کو بتائیں، ان کو اعتماد دیں، بچوں کو سمجھ دار بنائیں لیکن دل کانپ رہا ہے کہ بچے بھی سمجھ دار بن جائیں تو بچہ کیوں کر کہلائیں۔
بچوں کی تو معصومیت ہی ان کا حسن ہے، چلیں وہ دن میں جگنو کو دیکھنے کی ضدکریں تو بھی ٹھیک لیکن خدارا بچوں سے ان کی معصومیت نہ چھینیں،بچوں کی آنکھوں میں خوف دیکھنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں۔

No comments: