محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے دس برس گزر گئے۔صبح اٹھا ہوں تو ای میل اور ٹویٹر کے ذریعے بہت دوستوں کی یہ خواہش پڑھنے کو ملی کہ ان کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ دوستوں کا احترام سرآنکھوں پر لیکن فرمائشی کالم مجھے لکھنے کی عادت نہیں۔ ”دل سے جو بات نکلتی ہے....“والی بات پر یقین رکھتا ہوں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔
یہ بات درست ہے کہ میرا بطور صحافی محترمہ سے بہت قریبی تعلق رہا ہے۔ اس تعلق کا آغاز 1978کے ان دنوں میں ہوا جب بیگم نصرت بھٹو کو اسلام آباد میں ڈاکٹر ظفر نیازی مرحوم کے گھر میں نظر بند کردیا گیا تھا۔ان کی عدم موجودگی میں صحافیوں سے رابطہ برقرار رکھتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلائے مقدمے کی روداد بتانے کی ذمہ داری انہیں لینا پڑی۔ صحافیوں کے ساتھ اپنے پہلے اور تفصیلی Interactionکے لئے جو نوٹس انہوں نے تیار کررکھے تھے انہیں مجھے دکھاکر رائے بھی طلب کی تھی۔
اس کے بعد جو ہوا وہ ایک طویل داستان ہے۔ اس میں کئی تاریخی مقامات آتے ہیں۔ میں ریکارڈ کا حصہ بنے ایسے بے تحاشہ واقعات کے پسِ منظر کا بھی عینی شاہد ہوں۔ ان میں سے چند ایک کو وقتاََ فوقتاََ اس کالم میں کسی نہ کسی حوالے سے بیان بھی کیا ہے اور شاید آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے۔
ربّ نے توفیق اور ہنر دئے ہوتے تو شاید ان کی ذات اور سیاسی جدوجہد کے بارے میں ٹھوس حقائق پر مبنی ایک کتاب لکھتا۔ وقت مگر بہت ستم گر ہے۔روزمرہّ کے جھمیلوں میں خرچ ہوچکا ہوں۔ تخلیقی توانائی کو نچوڑتی ذمہ داریاں اور مصروفیات وغیرہ۔
محترمہ کی برسی کے روز میرے کئی ساتھی اگرچہ شرلک ہومزبن کر ان کے قتل کا معمہ نام نہاد Investigative Reportingکی بدولت ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی کوشش میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ چند نیک نیت ساتھیوں کے سوا ہمارے بیشتر ”صحافتی تفتیش کاروں“ کا اصل مقصد مگر یہ نظر آتا ہے کہ صاف انداز میں کہے بغیر اشاروں کنایوں میں یہ پیغام دیا جائے کہ محترمہ کے چند ساتھی جو درحقیقت آصف علی زرداری کے قریب تھے ان کے قتل میں اگر براہِ راست ملوث نہیں تو کم از کم دانستہ یا نادانستہ انداز میں اس قتل کے Obvious”سہولت کار“ ضرور تھے۔ان ”سہولت کاروں“ ہی کی وجہ سے پیپلز پارٹی محترمہ کے قتل کے صدقے میں ملی پانچ سالہ حکومت کے دوران ان کے قاتلوں کا سراغ لگاکر انہیں کیفرکردار تک نہ پہنچاپائی۔
مجھے ایسی ”تفتیش“ سے بہت تکلیف پہنچتی ہے۔ محترمہ کے قتل کے روز جن افراد کے ”مشکوک“کردار کا اکثر ذکر ہوتا ہے ان میں سے کئی مجھے ذاتی طورپر سخت ناپسند ہیں۔ محض ذاتی ناپسند کی وجہ سے لیکن انہیں بے بنیاد الزامات کا نشانہ بنانا نہایت نامناسب بات ہے۔
منطقی ذہن سے ذرا Big Pictureپر نگاہ ڈالیں تو محترمہ کے قتل کے حوالے سے ہوئی بیشتر ”صحافتی“ تحقیق وتفتیش ایک سفاکانہ Diversionتخلیق کرتی نظر آتی ہے۔ 27دسمبر کے دن ہوئے قتل کو نومبر2007میں کراچی میں محترمہ کے استقبال کے لئے جمع ہوئے اجتماع پر کئے دہشت گرد حملے سے جدا کرکے سمجھا ہی نہیں جاسکتا۔ ظاہر سی بات ہے کہ نومبر اور دسمبر کے دوران ہوئے یہ حملے کسی ایک ہی گروہ نے کروائے تھے۔ حیران کن بات یہ بھی ہے کہ 27دسمبر کے قتل کا سراغ لگانے کی کوششوں میں مصروف ا فراد،نومبر والی دہشت گردی کا ذکر تک نہیں کرتے۔
محترمہ کی طویل جلاوطنی کے بعد نومبر2007میں پاکستان واپسی یقینا ایک Grand Bargainکی بدولت ممکن ہوئی تھی۔ مقامی اور بین الاقوامی قوتوں نے باہم مل کر یہ Dealکی تھی۔ واحد مقصد اس Deal کا پاکستان پر مسلط دہشت گردی سے نبردآزما ہونے کے لئے ہماری Establishmentکو ایک Populistچہرہ فراہم کرنا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وہ واحد سیاست دان تھیں جو عوام کے لئے قابل قبول ایک ایسا بیانیہ تشکیل دے سکتی تھیں جو دہشت گردی کو جواز فراہم کرنے والی سوچ کا بھرپور مقابلہ کرسکے۔ انہیں قتل کرنا لہذا دین اسلام کی من گھڑت تشریح کی بدولت اس ملک میں دہشت گردی پھیلانے والوں کے لئے Now or Neverوالا ہدف تھا۔تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہدف تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا جو بھی ہے محض فروعات ہیں۔ ٹامک ٹوئیاں ہیں۔ شترمرغ کی طرح ریت میں سرچھپانا ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ 80کی دہائی سے پاکستان پر بتدریج ایک Mindsetمسلط کردیا گیا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کے لئے بنائے پاکستان کو جسے قائد اعظم جمہوری عمل کے ذریعے ایک جدید اور ترقی پذیر ملک کی صورت دینا چاہتے تھے، ”اسلام کا قلعہ“ بنانے کے نام پر یہاں بسے مسلمانوں ہی میں سے ”کافر“ ڈھونڈنے میں مصروف رہتا ہے۔
ہمیں گماں ہے کہ پشاور کے APSپر دسمبر 2014میں ہوئے حملے کے بعد اس Mindsetکے خلاف حتمی جنگ لڑنے کافیصلہ ہوا۔دعویٰ یہ بھی ہے کہ ہم یہ جنگ تقریباََ جیت چکے ہیں۔ان دنوں ”اِکا دُکا“وارداتوں کے ذریعے ”آخری راﺅنڈ“ چل رہا ہے۔
محترمہ کی دسویں برسی کی صبح ان کے قتل سے جڑے واقعات کو یکجا کرکے کوئی تفتیشی کہانی گھڑنے کے بجائے میں فریاد فقط یہ کروں گا کہ چند ہی روز قبل راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک میں جوکچھ ہوا اسے یاد رکھا جائے۔ ”نیا پاکستان“ اب علامہ خادم حسین رضوی کا ہے۔ حکم یہاں اب پیر حمید اللہ سیالوی کا چلے گا۔ ٹی وی سکرینوں پر گرجتے برستے باقی سب سیاستدان اپنی کشش اور اثر کھوبیٹھے ہیں۔ زندہ ہیں اس طرح سے مگر زندگی نہیں
No comments:
Post a Comment