Thursday, November 2, 2017

بلوچ خواتین آخر کہاں سے گرفتار کی گئیں؟


بلوچستان گمشدہ افراد کی بازیابی کے لیے مظاہرہتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES
Image captionحکومت نے سینیٹ میں تسلیم کیا کہ بلوچستان میں گذشتہ دنوں گرفتار کی جانے والی تین خواتین سکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں
پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ اور بچوں سمیت دیگر خواتین کی گرفتاری کی خبر کو اگرچہ مقامی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوئی جگہ نہیں ملی لیکن یہ سوشل میڈیا پر زیر بحث اہم موضوعات میں شامل رہی۔
بلوچ قوم پرست تنظیموں اور حلقوں کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ ایک اور گوریلا کمانڈر اسلم بلوچ کی ہمشیرہ اور ان کے بچوں کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔
حکومت نے تین خواتین کی گرفتاری کی تصدیق تو کی ہے لیکن حکومت بلوچستان کے ترجمان کے مطابق ان خواتین کو افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن سے گرفتار کیا گیا۔
ادھر علیحدگی پسند گروہوں، قوم پرستوں اور سوشل میڈیا کارکنوں کا کہنا ہے کہ انھیں کوئٹہ سے حراست میں لیا گیا ہے۔
ان خواتین کو کالعدم تنظیموں سے تعلق کے شبہے میں گرفتار کرنے کے بارے میں بتایا گیا لیکن تاحال ان کی شناخت کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔
حکام کے مطابق یہ خواتین ایک گاڑی میں سرحد پار کر کے افغانستان جانا چاہتی تھیں۔
دوسری جانب بدھ کو حکومت نے سینیٹ میں تسلیم کیا کہ بلوچستان میں گذشتہ دنوں گرفتار کی جانے والی تین خواتین سکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں۔
تاہم حزب اختلاف کے سینیٹروں نے اس جواب کو ناکافی اور ان کی فوری رہائی کا حکم نہ دینے پر اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (ایم) کے سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے محمد عثمان کاکڑ اور سردار محمد اعظم خان موسیٰ خیل نے مشترکہ توجہ دلاؤ نوٹس میں ایوان میں خواتین اور تین بچوں کی گمشدگی کا معاملہ اٹھایا۔
وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے ایوان کو بتایا کہ انھوں نے ان خواتین اور بچوں کے بارے میں تازہ ترین صورتحال جاننے کے لیے بدھ کو بلوچستان کے چیف سیکریٹری، ڈی آئی جی کوئٹہ اور آواران کے ڈی پی او سے بات کر کے معلومات لی ہیں۔
ان کے مطابق یہ خواتین غیرقانونی طور پر چمن کے راستے افغانستان جانا چاہتی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایوان کو مزید معلومات کے لیے انھیں وقت دے تو وہ مزید معلومات حاصل ہونے پر ایوان کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
حراست میں لی جانے والی خواتین کی شناخت کے بارے میں تاحال نہ بتانے کی وجہ سے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ ان خواتین کا تعلق ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ یا اسلم بلوچ کے خاندان سے ہے۔ تاہم اس سے فوری طور پر یہ تاثر ابھرا ہے کہ یہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے خاندان کے لوگ ہیں۔
لیکن قوم پرست جماعتوں کے علاوہ سوشل میڈیا پر یہ کہا جا رہا ہے کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ فضیلہ بلوچ اور ان کے بچوں کو کوئٹہ شہر سے مبینہ طور پر حراست میں لیا گیا۔
قوم پرست جماعت بلوچ رپبلکن پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی ہے۔
اس تصویر میں وہ بظاہر ایک ہسپتال میں زیر علاج دکھائی دے رہی ہیں۔
اگرچہ یہ نہیں بتایا جا رہا ہے کہ فضیلہ بلوچ کب کوئٹہ آئیں، لیکن یہ کہا جارہا ہے کہ ان کو کوئٹہ شہر میں سریاب کے علاقے سے گرفتار کیا گیا۔
قوم پرست جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ (بی این ایم) کا کہنا ہے کہ فضیلہ کو ان کی بیٹی پوپل جان سمیت تین دیگر خواتین اور چھ بچوں کو 30 اکتوبر کو اٹھایا گیا۔
مظاہرہ
Image captionحکومت بلوچستان کے ترجمان کے مطابق ان خواتین کو افغانستان سے متصل سرحدی شہر چمن سے گرفتار کیا گیا
بی این ایم کے چیئرمین خلیل بلوچ کے مطابق ان میں بلوچ قوم پرست رہنما اسلم بلوچ کی ہمشیرہ اور ان کے چار بچے بھی شامل ہیں۔
خلیل بلوچ نے چمن سے ان خواتین کی گرفتاری کے بارے میں سرکاری موقف کو رد کرتے ہوئے اسے سرکاری پروپیگنڈا قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ بلوچ خواتین کو چمن یا افغانستان جاتے ہوئے نہیں بلکہ کوئٹہ میں سریاب روڈ سے اسلم بلوچ کی ہمشیرہ کے گھر سے اٹھایا گیا۔
خلیل بلوچ نے کہا کہ ڈاکٹر اللہ نذر کی اہلیہ ایک فوجی آپریشن میں زخمی ہوئی تھیں جس کے بعد ان کی کمر کا آپریشن ہوا تھا جو ناکام رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ علاج کی غرض سے کوئٹہ میں موجود تھیں۔
بلوچستان سے لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کی تنظیم وائس فار مسنگ بلوچ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ نے کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خواتین اور بچوں کو فوری طور پر منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا۔
گذشتہ روز ان خواتین اور بچوں کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔

No comments: