پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے اتارچڑھاو اورعروج وزوال دیکھے ہیں،لیکن جو چیز پاکستان پیپلز پارٹی کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے وہ گزشتہ 50برسوں میں اس کی لیڈرشپ اور کارکنوں کی جانب سے دی جانے والی قربانیاں ہیں، اب یہ اپنی گولڈن جوبلی منا رہی ہے، ‘(30نومبر 1967 سے 2017)۔ یہ جمہوریت، آئین اور پارلیمنٹ کی برتری کیلئےایک منفرد جدوجہد ہے۔ یہ اُن لوگوں کیلئے ایک سبق بھی ہے جنھوں نے یہ سوچا اور ابھی تک سوچتے ہیں کہ لیڈرشپ کو ختم کرنے سے پارٹی ختم ہوجاتی ہے ۔ بھٹو پھانسی کے بعد مزید خطرناک ہوگیا۔
پی پی پی پر زوال اس وقت آیا جب اس نے حکومت میں اپنی مدت پوری کی اور کچھ بھی ڈلیور نہ کرسکی۔ آج پی پی پی اور اس کے نوجوان رہنما بلاول بھٹوزرداری کیلئے سب سے بڑا چیلنج پارٹی کی ’تجدید‘ہے، جو ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹوجیسے رہنماوں کے بعد اپنی شان کھوچکی ہے۔ اگر موجودہ لیڈرشپ اپنی غلطیوں سے سیکھنے کے قابل ہوگئی اورسندھ میں گُڈ گورننس کا ریکارڈ قائم کرلیا جہاں یہ کئی سالوں سے اقتدار میں ہے تو پیپلز پارٹی آنے والےوقت میں قومی سطح پر جگہ بنانے میں کامیاب ہوجائےگی۔ سیاسی چالوں سے حکومت سازی کرنا ایک الگ چیز ہے اور مخصوص اصولوں پرپارٹی کو منظم کرنا ایک الگ بات ہے۔ معلق پارلیمنٹ کی صورت میں سابق صدر آصف علی زرداری اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں لیکن کیا وہ پی پی پی کے ہزاروں کارکنوں کا دل جیت سکتے ہیں خاص کر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں جو اب پارٹی کے ساتھ نہیں ہیں۔ جس چیز پر اب عمل کیاجارہاہے 70اور80 کی دہائی میں اس سے پارٹی کے نظریات مختلف تھے، اور زوال کی وجہ ’بنیادی دستاویز‘ سے ہٹنا تھی۔ یہ سچ ہے کہ کوئی بھی شخص ہروقت شاندار ماضی سے جڑا نہیں رہ سکتا، لیکن اس سے کچھ سبق تو سیکھ سکتاہے۔
آج پی پی پی اس پرہچکچاہٹ کا شکار نظر آتی ہے کہ ترقی پسند، آزادخیال اور جمہوری نظریات کو لے کرچلے یا قدامت پسندانہ خیالات کے ساتھ آگے بڑھے اور خود کو دائیں بازوں کے رجحانات کے ساتھ ڈھال لے۔ مصلحت کے نام پر سمجھوتا کرے یا بنیادی اصولوں کے ساتھ کھڑی رہے۔ آصف زرداری نے 2007 میں بلاول کو چیئرمین بنا کر ان کے ساتھ ناانصافی کی ، جب وہ اتنے سمجھدار نہیں تھے۔ اب وقت ہے کہ پی پی پی- پارلیمنٹیرین کی قیادت کیلئے سینئررہنمائوں کےبارے میں غورکیاجائے۔ اس سے پارٹی کے ورثے کو جمہوری خطوط پر استوار کرنے میں مدد ملے گی۔ پی پی پی نے گزشتہ 50سال میں چند شاندار سیاسی ذہن اور پارل یمنٹیرینزپیدا کیے ان میں فرحت اللہ بابر، رضا ربانی، آفتاب شعبان میرانی، اعتزاز احسن، قمرزمان کائرہ اور کئی دیگرشامل ہیں۔ بلاول کے لیے ایک اور چیلنج یہ ہوگا کہ ہرمعیار کے مطابق پاکستان کے مقبول ترین رہنما اپنے نانا ذوالفقارعلی بھٹوکےورثے کوکیسے جاری رکھیں گے، ملک کے بدترین فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیاءالحق کے خلاف ان کی جدوجہد مثالی تھی۔ پی پی پی کی طاقت ہمیشہ سے اس کے پُرعزم اور مضبوط کارکن ‘جیالے’ ہیں، ان میں ہزاروں نے پارٹی اور بھٹوسے محبت میں اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں۔ آج بلاول پارٹی میں نہ اس طرح کا جذبہ اور نہ ہی اس طرح کے جیالے پیدا کرسکتے ہیں، جو ‘جیئےبھٹو’ کے نعرے لگاتے ہوئے سولی چڑھ جائیں، کوڑے برداشت کریں اور لاہور قلعے میں بدترین تشدد برداشت کریں۔ ان کیلئے پی پی پی اور بھٹو ایک ’ رومانس‘ تھا۔ بھٹوکی پھانسی کے بعد انھوں نے خود سوزی بھی کی، کچھ نے خودکشی بھی کرلی تھی۔ یہ ایک طرح سے ‘منفرد جدوجہد’ تھی کہ اس کے رہنمائوں اور کارکنوں نے بد ترین تشدد، پھانسیاں، کوڑے اورقید بردا شت کی اور حتیٰ کہ کارکنوں نے اپنے رہنما کی محبت میں خود سوزی کرلی تھی۔ پاکستان کی سیاست میں صرف ایک جماعت جو فخرسےدعویٰ کرسکتی ہے کہ اس کے کارکنوں سے لے کر رہنمائوں تک سب نے ملک میں آئین اور جمہوریت کی بالادستی کیلئےقربانیاں دیں، یہ پاکستان پیپلز پارٹی ہے
جس نے 30نومبر2017کو اپنے پچاس سال مکمل کیے۔ پی پی پی کے بانی ذوالفقار علی بھٹونےخود ٹرائل کا سامنا کیا اور انھیں پھانسی دے دی گئی جسے ان کے بدترین نقاد بھی ‘عدالتی قتل’ قرار دیتے ہیں۔ ان کی بیٹی بے نظیربھٹو نےٹرائل، قید، جلاوطنی کاسامنا کیااور بالآخر قتل کردی گئیں۔ بیگم نصرت بھٹو جنھوں اپنے خاوندکی گرفتاری کے بعد خود قیادت سنبھالی اور ایک بیگم اور ماں کے طور پرصدمہ برداشت کیا۔ مرتضیٰ بھٹو کوایک پُراسرار ‘مقابلے’ میں ماردیاگیا۔ پی پی پی 1973 کےآئین کے اور پاکستان کے ‘نیوکلئیر پروگرام’ کی بانی ہونے کا فخر سے دعویٰ کرسکتی ہے۔ بھٹو کی چند اندرونی پالیسیوں پر تنقید کی جاسکتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اہم معاملات میں وہ اپوزیشن کو ہمیشہ ساتھ لے کرچلے، ان میں ایک آئین سازی اور دوسرا شملہ معاہدہ شامل ہیں۔ اگربھٹو بلوچستان اورخیبر پختونخوا(سابق صوبہ سرحد) میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومتیں ختم کرنےکےجال میں نہ پھنستے تو آج سیاست مختلف ہوتی۔ پارٹی کا زوال اتنا ہی المناک ہےجتنی اس کی قربانیاں۔ بے نظیرکے بعد کی پی پی پی کی لیڈرشپ کو کچھ نہ کرنے پر اپنی ذمہ داری قبول کرنی چاہیئے۔ جس پارٹی پراپنی تشکیل کے پہلے20سال کے دوران کبھی کرپشن کا الزام نہیں لگا تھا، کئی سمجھوتے کرنے پر اس پر زوال آگیا، ان میں این آر او بدترین تھا۔ پی پی پی کے خلاف مبینہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کئی بڑی سازشیں بھی کی گئیں۔ پی این اے سے آئی جے آئی تک، مڈنائٹ جیکال سے مہران بینک تک ، پی پی پی کو 1970کےبعد کبھی دوتہائی اکثریت نہیں لینے دی گئی۔ حتیٰ کہ سازش کرنےوالوں نے تسلیم کیا اوراور بہادری سے اپنے موقف کا دفاع بھی کیا کہ 1988 میں انھوں نے پی پی پی کو مکمل فتح حاصل کرنےنہیں دی اور 1990کے انتخابات میں دھاندلی کیلئے اپوزیشن میں رقم تقسیم کی۔ کبھی بھی آئین اور اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے پرکسی سازشی کاٹرائل نہیں کیاگیا۔ 30نومبر کو لاہور میں ڈاکٹرمبشرحسن کی رہائش گاہ پر بننے والی جماعت نے اپنی گولڈن جوبلی راولپنڈی میں منانے کا فیصلہ کیاہے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹواور بے نظیربھٹو اسی شہر میں شہید ہوئےتھے۔ پی پی پی انقلابیوں اور جاگیر داروں کا حقیقی امتزاج تھی۔ بھٹو خود ایک جاگیردارتھے لیکن ان کا سارا سیاسی طرزِ عمل قومی اور بین الاقوامی سیاست پرمکمل کنٹرول کےساتھ ترقی پسندانہ تھا۔ انھیں عوام میں تقریرکرنے اور بین الاقوامی اجلاسوں میں خطاب کرنےمیں ملکہ حاصل تھا۔ اگر ایک طرف پی پی پی میں مرحوم جےاےرحیم، مرحوم شیخ رشید، ڈاکٹر مبشرحسن، مرحوم معراج محمد خان، مرحوم شیخ رفیق، مرحوم معراج خالد جیسے لوگ شامل رہے، تو دوسری جانب اس میں مخدوم طالب الإمحلہ، مرحوم غلام مصفطیٰ جتوئی، ممتاز علی بھٹو، غلام مصطفیٰ کھرجیسے جاگیردار بھی شامل رہے۔ پی پی پی کی جدوجہد کو پانچ ادوار میں تقسیم کیاجاسکتاہے۔ (1) 1967 سے1970تک (2) 1972سے 1977تک (3) 1978سے 1988تک (4) 1988سے2007تک (5) 2008سے2017 تک۔ پی پی پی کا پہلا دور اس وقت مکمل ہوا جب شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے بعد دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔ 1970کےانتخابات کےنتائیج نے ملک کو تقسیم کردیاتھا کیونکہ نہ عوامی لیگ مغربی پاکستان سے کوئی سیٹ جیت سکی اور نہ ہی مشرقی پاکستان سے کسی جماعت نے سیٹیں حاصل کیں۔ اس سے پی پی پی کےتین سال کاپہلا دور ختم ہوگیااور دوسرادور اس وقت شروع ہواجب جنرل یحیٰ خان نے اقتدار بھٹوکےحوالےکیا، ایک سنجیدہ آئینی خلا میں اور ان کے پاس 1972 میں پہلےسویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بننے کے سواان کےپاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ پی پی پی کا دوسرادور سازشوں، بدانتظامی، میڈیا پر اور پارٹی کے اندراور باہر مخالفین پر دبائو ڈالنے کے گرد گھومتاہے۔
https://jang.com.pk/print/411874-todays-print
No comments:
Post a Comment