Saturday, September 16, 2017

( پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی دادو جلسے میں کی گئی تقریر کا مکمل متن)

میری بہنو، میرے بھائیو، بزرگو اور نوجوانو، آپ سب کو بی بی کے بیٹے کا سلام۔آج مجھے فخر ہے کہ میں اس دادو کی
عوام سے مخاطب ہوں، جنہوں نے جمہوریت کی بحالی کے لیئے ایک عظیم جدوجہد کی، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے مگر آمریت کے سامنے نہیں جھکے۔ ہاں! یہ وہ دادو ہے، جسے ضیاء کے مارشل لاء کے وقت میں ویٹنام کہا جاتا تھا۔ یہاں کی عوا کا جذبہ دیکھ کر، ضیاء جیسا آمر بھی یہاں آنے سے ڈرتا تھا۔ اور جب وہ اپنی طاقت کے نشے میں یہاں آیا تو دادو کی عوام نے جس طرح اس کا استقبال کیا، وہ میں کھلم کھلا بیان نہیں کرسکتا۔ مجھے فخر ہے کہ آج میں قلندر کی نگری اور مخدوم بلاول کی سرزمین پر کھڑا ہوں۔ مخدوم بلاول جنہوں نے سر کٹوا لیا مگر ظالم کے آگے سر نہیں جہکایا۔ یہ ہی اس علاقے کی ریت رہی ہے اور اس اسی ریت کو نبھاتے ہوئے ایم آر ڈی کی تحریک میں یہاں کے لوگوں نے، یہاں کے نوجوانوں نے، جو قربانیاں دیں، اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے وہ ملک کی سیاسی اور جمہوری تاریخ میں ایک سنہری باب ہے۔
ساتھیو! یہ نئے نئے سیاستدان اور یہ ساری کی ساری رجعت پرست پارٹیاں، جو آجکل جمہوریت کی باتیں کر رہی ہیں، یہ جو عوام کی باتیں کر رہی ہیں، انہیں کیا پتا کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے، عوام کس کو کہتے ہیں۔ انہوں نے کب جمہوریت کے لیئے قربانیاں دیں ہیں، انہوں نے کب عوام کی سیاست کی ہے، یہ تو صرف اقتدار چاہتے ہیں، یہ تو صرف کرسی کی سیاست کرتے ہیں، انہیں کیا پتا کہ 1983ع کے اسی ستمبر کے مہینے میں خیرپور ناتھن شاہ اور احمد خان برہمانی گوٹھ میں کیا ہوا تھا۔ سکرنڈ اور سانگھڑ کے گائوں تھیم کے لوگوں کو جمہوریت کی بحالی کی تاریخ میں کس طرح شہید کیا گیا تھا۔
شہری آزادیوں، انسانی حقوق اور عوام کی حاکمیت کا نعرا بلند کرنے پر کس طرح یہاں کے نوجوانوں پر کوڑے برسائے گئے تھے، ملک کی جیلیں کم پڑ گئیں تھیں مگر یہاں کے نوجوانوں کے حوصلے کم نہیں ہوئے تھے۔ سلام ہے ان ماؤں پر جن کے لخت جگر شہید ہوئے۔ سلام ہے ان بہنوں پر جن کے نوجوان بھائی شہید کر دیئے گئے، سلام ہے ان شہیدوں پر جنہوں نے آمریت کے خلاف جنگ کی، جنہوں نے دہشتگردوں کو للکارا، سلام ہے ان غازیوں پر جو آج بھی حق کا جھنڈا تھامے، اس کارواں میں شامل ہیں۔
شہید بی بی کے جیالو!
ابھی کچھ دن پہلے ہی شہید محترمہ بینظیر بھٹو قتل کیس کا فیصلہ دیا گیا ہے، پی پی پی، میں نے اور میرے خاندان نے اس فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔ ہم اس فیصلے کو نہیں مانتے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ بھی تسلسل ہے، اُن سارے فیصلوں کا، جن میں ہمیں انصاف نہیں ملا۔ یہ کیسا عدالتی فیصلا ہے، جس میں مقتول تو ہے مگر قاتل کا علم نہیں۔ یہاں تک کہ جن دہشتگردوں نے اعتراف کیا کہ بی بی قتل انہوں نے کیا اور انہیں اس قتل پر کوئی پشیمانی بھی نہیں، انہیں باعزت بری کر دیا گیا۔ مجرمانہ غفلت پر پولیس والوں کو تو سزا دی گئی مگر اوپر سے ان کو حکم دے نے والوں کا نام و نشان نہیں۔ جو سب سے بڑا سہولتکار تھا، وہ ملک سے فرار ہے، مشرف نے پورا کیس لڑا، خود پیش ہوا مگر اس کو بھی مفرور قرار دے کر، کیس داخلِ دفتر کر دیا گیا۔ یہ فیصلہ نہیں ظلم ہے، ہم نہیں مانتے، ہم پیچھا کریں گے اس کیس کا۔ شہید محترمہ بینظیر بھٹو صرف میری ماں ہی نہیں تھی، وہ اس ملک کی منتخب وزیراعظم تھیں، وہ اس ملک کے غریبوں کا سہارا تھیں، وہ پِسے ہوئے طبقات کی علم بردار تھیں۔ ان کا خون رائیگاں جانے نہیں دیں گے، کسی بھی قیمت پر نہیں۔ ان کے قاتلوں اور سازشیوں کو سزا ملنی چاہیئے۔
ساتھیو!
مجھے معلوم ہے کہ آپ سیاسی طور پر باشعور ہیں، آپ ملکی حالات سے بھی باخبر ہیں اور بین الاقوامی طور پر جن چئلینجز کا ہمیں سامنا ہے، وہ بھی آپ کے سامنے ہیں۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں کس قسم کی سیاست کی جارہی ہے۔ میاں صاحب خود تہ نااہل ہوگئے مگر پیچھے نااہلوں کی فوج چھوڑ گئے ہیں۔ انہیں نہ ملک کی کوئی فکر ہے اور نہ ہی عوام کا درد ہے۔ میں نون لیگ کی حکومت کو ناکام لیگ کیوں کہتا ہوں؟ اس لیئے نہیں کہ مجھے ان کی شکلیں پسند نہیں یا یہ ہماری نظریاتی مخالف ہیں۔ بلکہ اس لیئے کہتا ہوں کہ ان میں نہ تو وہ صلاحیت ہے اور نہ ہی وہ اہلیت ہے کہ یہ ملک کو سنبھال سکیں، ملک کو آگے کی طرف لے جا سکیں۔ ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے، میاں صاحب کی حکومت نے۔ غربت اور بے روزگاری اپنے عروج پر پہنچ چکی ہیں۔ پانچ کروڑ سے زیادہ لوگ، غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرض اس حکومت نے لیا ہے، ایکسپورٹ کم ہوتی جا رہی ہیں، امپورٹس میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملز اور کارخانے بند ہوتے جا رہے ہیں اور یہ ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ملک ترقی کر رہا ہے۔
ساتھیو!
آپ کو یاد ہوگا کہ 2013ع کے الیکشن سے پہلے یہ لوگ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے کس طرح دعوے کرتے تھے، کہتے تھے کہ نام بدل دینا اگر تین ماہ میں لوڈشیڈنگ ختم نہیں کی۔ مگر ہوا کیا؟ نہ چھوٹے میاں نے نام بدلا نہ، نہ بڑے میاں صاحب نے لوڈشیڈنگ ختم کی۔ ہاں، مگر ایک کام انہوں نے ضرور کیا کہ لوشیڈنگ ختم کرنے کے نام پر 480 ارب روپے۔۔۔۔ سنا آپ نے، کتنے؟ 480 ارب روپے بغیر کسی آڈٹ کے، حسبِ منشا بانٹ دیئے اور ظلم تو یہ ہے کہ ان چار سالوں میں وہ ہی سرکلر ڈیٹ ایک مرتبہ پھر 400 ارب سے بڑھ چکا ہے۔ اور لوڈ شیڈنگ کے بارے میں آپ مجھے بتائیں، میں آپ سے پوچھ رہا ہوں، دادو والو بتاؤ، کتنی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے؟ سنو حکمرانو!! یہ دادو کی عوام کیا کہ رہی ہے۔ شہروں میں 12، 12 گھنٹے لوڈشیدنگ ہو رہی ہے۔ بجلی تو آ نہیں رہی مگر بل ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کوئی شرم بھی ہوتی ہے، کوئی حیاء بھی ہوتی ہے۔
ساتھیو!
میاں صاحب کی حکومت نہ صرف اندرونی محاظ بلکہ بیرونی محاذ پر بھی ناکام ہو گئی ہے۔ آج پوری دنیا ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، ہماری بات سننے کو کوئی تیار نہیں، کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ ہمارا ملک تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ میں انہیں بار بار کہتا رہا کہ اپنی سمت درست کرو، ہندستان ہمارا دشمن ہے، مگر باقی پڑوسی ممالک ہمارے برادر اسلامی ملک ہیں، ان سے بات چیت کرو، میں انہیں کہتا رہا کہ ایک مستقل خارجہ لگاؤ، وہ اب جا کر لگایا ہے اور وہ وزیر خارجہ کہہ رہا ہے بلکہ اعتراف کر رہا ہے کہ ہمیں پہلے اپنے گھر کو درست کرنا پڑے گا۔ اب وہ وزیرخارجہ فرما رہا ہے کہ نیپ پر عمل ہونا چاہیئے، جو کہ نہیں ہو رہا۔ اب یہ بھی اعتراف کیا جا رہا ہے کہ ہمارا نیریٹو دنیا میں قبول نہیں کیا جا رہا۔
سنو ساتھیو! سنو آپ گواہ ہو، آپ میری تمام تقریریں اٹھا کر دیکھ لیں، جو کہ میڈیا میں بھی رکارڈ ہوئی ہیں، میں ڈھائی سال سے کہتا رہا کہ نیپ کو دفن کردیا گیا ہے۔ خدارا نیپ پر مکمل عمل کرو، فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشتگردی صرف آپریشن سے ختم نہیں ہوگی۔ ہمیں پوری قوم کو متحد کرنا ہے، ایک مضبوط نیریٹو دینا ہے، دنیا کے ساتھ چلنا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کالعدم تنطیمیں نام بدل بدل کر سیاسی جماعتیں بنائیں، انہیں الیکشن کمیشن میں رجسٹر بھی کیا جائے، وہ الیکشن بھی لڑیں، وہ چندا، زکوات اور قربانی کی کھالیں بھی جمع کریں، ریاست خاموش رہے اور ان کے خلاف کوئی قدم بھی نہ اٹھائے۔ میں کہتا رہا کہ آپ اپنی عوام کو دوکھا دے سکتے ہو، بے وقوف بنانے کی کوشش کر سکتے ہو مگر باقی دنیا کو نہ تو آپ بے وقوف بنا سکتے ہو اور نہ ہی وہ آپ کے دوکھے میں آئیں گے۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں تب آئی جب امریکا نے آنکھیں دکھانا شروع کردیں، جب چائنا اور روس بھی مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر ہم سے وہ ہی مطالبات کرنا شروع کردیئے۔
میرے بھائیو اور بہنو!
گھبرانے کی ضرورت نہیں، بھٹو کا نواسا اور بی بی کا بیٹا اب میدان میں ہے۔ اگر ناکام ہوئی ہے تو حکومت ناکام ہوئی ہے، ملک نہیں۔ یہ ملک کسی میاں صاحب یا خان صاحب کا ملک نہیں، یہ ملک پی ٹی آئی یا نون لیگ جیسی رجعت پرست پارٹیوں کا ملک نہیں۔ یہ ملک 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے، یہ روشن خیال اور ترقی پسند عوام کا ملک ہے۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہماری اپنی جنگ ہے اور یہ جنگ ہم ہار رہے ہیں۔ اس ملک کی بہت بڑی اکثریت فرقہ واریت، انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف ایک آواز ہے۔ اور دنیا کو ہماری آواز سنانی ہوگی، ماننی پڑیگی، ہمارا ساتھ دینا ہوگا۔
ساتھیو!
آپ کو معلوم ہوگا کہ آجکل تبدیلی والے خان صاحب نے سندہ کت پھیرے لگانے شروع کیئے ہیں، فرماتے ہیں کہ پہلے وہ کچھ مصروف تھے، اس لیئے سندہ نہیں آ سکے۔ مگر اب وہ ویلے ہیں اس لیئے سندہ کو ٹائم دین گے۔ قربان جائوں آپ کی اس ادا پر، خان صاحب، کیا ادا ہے۔ اگر آپ کے پاس ٹائیم ہو تو مھربانی کر کے پشاور کا چکر بھی لگائیں۔ جب سے پشاور میں ڈینگی آیا ہے، تب سے آپ نے تو وہاں جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔
خان صاحب!
آپ کو پشاور کی عوا ڈھونڈ رہی ہے، ڈینگی نہیں۔
سندہ واسیو!
ان کی سیاست جھوٹ کی سیاست ہے، الزامات کی سیاست ہے، پروپیگنڈہ کی سیاست ہے۔ یہ لوگ عوام سے جھوٹ بولتے ہیں، دوسروں پر الزامات لگاتے ہیں، پروپیگنڈہ کرتے ہیں، ہم ایسی سیاست نہیں کرتے۔ ہم نے کھی عوام سے جھوٹ نہیں بولا۔ آپ مجھے بتائیں، میں نے کبھی ان پر الزام لگایا؟ ان پر تو ان کے ہی وزیر الزام لگاتے ہیں۔ میں نے کب کہا کہ کے پی کے کے ٹھیکے سے عمران خان کا کچن اور ترین کا جھاز چلتا ہے۔ یہ تو ان کے ایم این اے کہتے ہیں۔ یہ تبدیلی کی بات کرتے ہیں، یہ کرپشن کے خلاف بات کرتے ہیں مگر کے پی کے میں ان کی ناک کے نیچے کرپشن ہو رہی ہے۔ تنگی مائینز کرپشن، بلین ٹریز میں کرپشن، ٹھیکے میں کمیشن، خیبر بئنک اسکنڈل۔ ابھی حال میں خیبر بئنک اسکینڈل میں انہون نے جماعت اسلامی کے ساتھ مُک مُکا کیا ہے۔ کہاں ہے کے پی کے کی احتساب کمیشن؟ میرے تو کسی بھی وزیر اعلیٰ پر کرپشن چارجز نہیں، نہ قائم علی شاہ پر اور نہ ہی مراد علی شاہ پر کرپشن کے الزامات ہیں۔ خان صاحب، آپ کے تو وزیر اعلیٰ پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، پہلے اس کو تو صاف کرو۔ اپنے وزیر اعلیٰ کا تہ پیچھا کرتے نہیں، دوسروں کا پیچھا کرتے رہتے ہو۔ تبدیلی، تبدیلی، تبدیلی۔ کس بات کی تبدیلی کی بات کرتے ہو آپ؟ ایک بیٹو کا وڈیرا، ایک گھوٹکی کا پیر اور ایک نام نہاد سردار۔ ان جیسے لوگوں کو اپنے ساتھ ملاکر آپ سندہ میں تبدیلی لاؤگے؟ جائیں خان صاحب جائیں، کوئی دوسرا گھر دیکھ لیں۔ یہ لوگ آپ کے دوکھے میں نہیں آءیں گے۔ یہ لوگ جھوٹ کی سیاست سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ خود دار لوگوں کی سرزمین ہے، یہ صوفیوں کی سرزمین ہے۔ یہ باشعور لوگ ہیں، یہ باشعور عوام ہے، یہ سیاست کو بھی جانتے ہیں اور سیاسی چالبازیوں کو بھی جانتے ہیں۔ اور ہاں!! ایک اور صاحب بھی ہیں، جو ملتان سے یہاں آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں یہاں سے الیکشن لڑوں گا، میں یہاں سے الیکشن لڑوں گا۔ سنائیں پیر صاحب، یہ سندہ ہے سندہ۔ یہاں کہتے ہیں کہ نہ میر جو نہ پیر جو، ووٹ بینظیر جو۔

ساتھیو!! افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت ملک میں دائیں بازو کی سیاست چل رہی ہے۔ نون لیگ ہو یا پی ٹی آئی، یہ دونوں رجعت پرست پارٹیاں ہیں۔ یہ رائٹسٹ سیاستدان ہیں۔ ان دونوں نے ملکر سیاست کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ انہوں نے اداروں کو بدنام کردیا ہے، عدالت کو سیاسی اکھاڑا بنا دیا ہے، اپنی ذاتی مفادات کی سیاست کرتے ہیں۔ ایک کہتا ہے کہ اگر وہ جیتا تو یہ جیت عدالت کی جیت ہوگی، دوسرا کہتا ہے کہ اگر وہ جیتا تو یہ جیت عدالتی فیصلے کی ہار ہوگی۔ یہ کیا سیاست ہو رہی ہے؟ نہ ملکی مسائل پر بات ہو رہی ہے، نہ عوام کی بات ہو رہی ہے، بس ان کو اقتدار چاہیئے، ہر حال میں کرسی چاہیئے۔ حالت یہ ہے کہ صرف ایک حلقے کی الیکشنز اور وہ بھی بائی الیکشنز کو رفرنڈم کہا جا رہا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کو ریفرنڈم بہت یاد ہے کیوں کہ یہ دونوں پارٹیاں آمروں کی گود میں پلی بڑہی ہیں۔ اس لیئے ریفرنڈم کی بات کرتے ہیں کیوں کہ نون لیگ ضیاء کی ریفرنڈم کی پیداوار تو پی ٹی آئی مشرف کے ریفرنڈم کی پیداوار ہے۔ ہم ریفرنڈم کو نہیں مانتے۔ پی پی پی کسی پیداوار کی پیداوار نہیں، پی پی پی کسی آمر ی گود میں پلی بڑھی نہیں، پی پی پی ایک نظریاتی پارٹی ہے ۔ پی پی پی ایک وفاقی پارٹی ہے، پی پی پی ایک جمہوری پارٹی ہے۔ پی پی پی ہاریوں کی پارٹی ہے، پی پی پی محنت کشوں کی پارٹی ہے، پی پی پی غریبوں کی پارٹی ہے، پی پی پی عوام کی پارٹی۔
ساتھیو!!
بہت عرصے سے سندہ کے بارے میں، ایک جھوٹا اور منفی پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ یہاں پر کچھ کام نہیں ہوا۔ کوئی ڈولپمنٹ نہیں ہوئی۔ سندہ میں بہت کام ہوا ہے، سندہ میں جو بھی کام ہوا ہے، جو بھی ڈولپمینٹ ہوئی ہے وہ صرف اور صرف پی پی پی کی حکومتوں میں ہوئی ہے۔ مگر ان کو وہ نظر نہیں آتا۔ انہیں صرف نمائشی منصوبے نظر آتے ہیں۔ جن سے یہ کمہشن کھاتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ وفاقی حکومت ہمارے فنڈز روکتی ہے، این ایف سی ایوارڈ نہیں دیا جاتا، مگر پھر بھی یہاں پر پل بنے ہیں، نہریں اور کنالز کو پکا کیا جا رہا ہے، جس سے پانی کی بچت ہوگی، زیادہ زمینیں آباد ہونگی، ہاری مزید خوش حال ہوگا، یہ کوئی معمولی کام نہیں، سندھو دریاء پر جھرک- ملا کاتیار پل، ٹھٹہ سجاول، آمری- قاضی احمد جیسے پل بنائے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے دریا کے لیفٹ اور رائیٹ بئنکس پر رہنے والے لوگوں کو ملا دیا گیا ہے یہ بھی بڑے اور عوامی منصوبے ہیں۔ ہزاروں کلومیٹرز نئے روڈس بنائے گئے ہیں، تعلیم کے شعبے میں بھی اچھا کا ہوا ہے، گھوسٹ اسکلولز بند اور گھوسٹ ملازمین کو نکالا گیا ہے۔ بائیومیٹرک سسٹم کے ذریعے ٹیچرز کی حاضری کو یقینی بنایا جا رہا ہے۔ نئے کالجز اور میڈیکل یونیورسٹیز بنائے جا رہے ہیں۔ اسی طرح ہیلتھ کے شعبے کو دیکھیں، وہاں پر بھی عوام کو سہولیتیں دی جا رہی ہیں۔ اسپتالوں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے۔ نئے اسپتال بنائے گئے ہیں۔ پہلے دل کا اسپتال این آئی سی وی ڈی صرف کراچی میں ہوتا تھا، مگر اب مختلف شہروں میں بھی دل کے ہسپتال بنائے جا رہے ہیں۔ لاڑکانہ میں تو اس اسپتال نے کام بھی شروع کر دیا ہے، جلس ہی دوسرے شہروں میں بھی افتتاح ہوگا، اور یہ وہ اسپتال ہیں جہاں پر بلکل مفت علاج ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صدر آصف علی زرداری نے لینڈ ڈسٹریبیوشن فار ویمن جیسے پروگرام دے کر بے زمین عورتوں کو زمین کا مالک بنایا۔ کراچی کو دیکھ لیں، وہاں پر بھی ایک اسٹیٹ آف آرٹ، ایک ٹراما سینٹر بنا ہے، انڈر پاسز، اورہیڈ برجز بنی ہیں، روڈ انفرا اسٹرکچر پر کام ہو رہا ہے، شاہراہ فیصل دیکھ لیں، اب وہ پہلے والی سڑک نہیں، ایک خوبصورت شاہراہ بن چکی ہے۔ طارق روڈ، یونیورسٹی روڈ، میں کیا کیا گنواؤں آپ کو۔ اور ہاں! روزگار، آپ کو معلوم ہے کہ جب وفاق میں ہماری حکومت تھی تو صدر زرداری نے سب سے پہلے برطرف کیئے گئے نوجوانوں کو نوکریوں پر بحال کیا، کانٹریکٹ ملازمین کو ریگیولرائیز کیا، سندہ اور وفاق میں ہزاروں بے روزگار نوجوانوں کو روزگار دیا، ہمارے مخالفین لوگوں سے روزگار چھینتے ہیں مگر ہم روزگار دیتے ہیں۔ روزگار دینا ہمارا جرم بنا دیا گیا، مگر ہم نے یہ جرم بار بار کیا، اور اگر یہ جرم ہے تو ہم اس جرم کو مانتے ہیں اور یہ جرم بار بار کریں گے۔
میری بہنو اور بھائیو!
آنے والا سال الیکشن کا سال ہے، ہم نے اپنے منشور پر کام کرنا شروع کردیا ہے۔ پی پی پی ایک مکمل منشور اور پوری طاقت سے یہ الیکشن لڑے گی، ہمارا منشور ایک عوامی منشور ہوگا۔ ہم ہر ایک شعبے کے لیئے ایک جامع پالیسی دینگے، خاص طور پر زراعت کے شعبے کو اہمیت دی جائیگی، فصل اترنے سے پہلے سپورٹ پرائس کا اعلان کیا جائیگا۔ باردانے کی منصفانہ تقسیم کے لیئے ایک مکینزم بنایا جائیگا۔ پانی کی فراہمی اور خاص طور پر ٹیل کے کاشتکاروں تک پانی پہنچانے کا انتظام کیا جائیگا، زرعی اِن پُٹس پر سبسڈی دی جائیگی، آسان قرضے مہیا کیئے جائینگے، ہم کسان سپورٹ پروگرام بنائیں گے، جس کے تحت 20 ایکڑ سے کم زمین کے مالک کو کسان کارڈ دیئے جائیں گے جس سے وہ تمام سہولتیں حاصل کر سکے گا۔ اسی طرح مزدوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائیگا، کم ازکم تنخواہ میں اضافہ کریں گے۔ پینشن میں اضافہ کیا جائیگا۔ غریب ترین عورتوں کے لیئے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو دوگنا کیا جائیگا، تا کہ وہ غریب عورتیں عزت کے ساتھ اپنا گزارا کر سکیں۔ تعلیم اور صحت کے شعبے کو مزید ترقی دی جائے گی، روزگار کے نئے نئے ذرائع پیدا کریں گے۔ ہم اربوں روپے کے نمائشی منصوبے نہیں بنائیں گے، مگر اس پیسے کو انسانی ترقی پر خرچ کریں گے۔
دادو کے دوستو!!
مجھے منچھر جھیل کا علم ہے، منچھر جھیل ایک تاریخی مقام ہے۔ میٹھے پانی کی اس جھیل پر ایک پورا شہر آباد تھا مگر مشرف کی بنائی گئی آر بی او ڈی کی غلط ڈزائین کی وجہ سے یہ جھیل اپنا مقام کھو چکی ہے، جس سے ہزاروں ماہیگیر بے روزگار ہو گئے ہیں۔ میں نے وزیراعلیٰ صاحب کو کہا ہے کہ اس تاریخی جھیل کو اصل حالت میں لانے کے لیئے کام کریں۔
ساتھیو!!
ہم ترقی پسند ہیں اور ترقی پسند سیاست کرتے ہیں، میں اس ملک کو ایک سوشل ڈموکریٹک ملک بنانا چاہتا ہوں، میں غربت کا خاتمہ چاہتا ہوں، میں بے روزگاری کا خاتمہ چاہتا ہوں، میں اقلیتوں کے لیئے برابری کے حقوق چاہتا ہوں، میں عورتوں کو ان کا مقام دینا چاہتا ہوں، میں نوجوانوں کے لیئے روزگار چاہتا ہوں اور اس کے لیئے مجھے آپ کی حمایت چاہیئے، مجھے آپ کی طاقت چاہیئے، میں آپ کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں، میں غریبوں کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں، میں کسانوں کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں ، میں محنت کشوں کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں، میں عوام کی طاقت پر یقین رکھتا ہوں۔ خدا کی قسم، میں دوسروں کی طرح اقتدار اپنی ذات کے لیئے نہیں چاہتا۔ میں اقتدار بلاول بھٹو کے لیئے نہیں چاہتا، میں اقتدار اپنی پارٹی کے لیئے نہیں چاہتا، میں اقتدار آپ کے لیئے چاہتا ہوں، میں اقتدار عوام کے لیئے چاہتا ہوں، میں اقتدار غریبوں کے لیئے چاہتا ہوں۔ تو کیا آپ میرا ساتھ دوگے؟ ہاتھ اٹھا کر بولو، کیا آپ بھٹو شہید کے نواسے کا ساتھ دوگے؟ ایمان سے بولو، کیا آپ بی بی شہید کے بیٹے کا ساتھ دوگے؟ اگر آپ میرے ساتھ ہو پھر دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔
توہاں سبھںی جی مھربانی

واضح رہے کہ پی پی پی چیئرمین کے خطاب سے پہلے وزیر اعلیٰ سندہ سید مراد علی شاہ، پی پی پی سندہ کے صدر نثار احمد کھڑو، مولا بخش چانڈیو، رفیق جمالی، فیاض بُٹ، عاجز دھامراہ، راشد ربانی، نفیسہ شاہ، پیر مظھر الحق، ناصر حسین شاہ، عمران ظفر لغاری، کلثوم چانڈیو اور پیر مکرم الحق نے بھی عظیم الشان جلسہ عام کو خطاب کیا۔
https://mediacellppp.wordpress.com/

No comments: