Tuesday, January 17, 2017

اداریہ: عمارتوں ،سڑکوں کے نام اقلیتی مہان شخصیات سے منسوب کرنے سے تکفیری دہشت گردی کے خلاف فتح حاصل نہیں ہوگی

جماعت احمدیہ پاکستان کے مرکزی دفتر واقع ربوہ (چناب نگر) ضلع چینوٹ میں انسداد دہشت گردی پولیس ڈیپارٹمنٹ نے انٹیلی جنس ایجنسیوں اور ایلیٹ فورس کے اہلکاروں کے ساتھ چھاپہ مارا-دفتر میں موجود لٹریچر، لیپ ٹاپ،کیمرے اور دیگر دفتری دستاویزات قبضے میں لے لیں-جبکہ فصیل آباد میں سی ٹی ڈی پولیس نے دو پرنٹنگ پریس سیل کرڈالے،ان کے مالکان کو ممنوعہ لٹریچر چھاپنے اور غداری جیسے سنگین الزام میں گرفتار کرلیا-جبکہ جماعت احمدیہ پاکستان کا موقف ہے کہ فیصل آباد میں جس لٹریچر کی بنیاد پہ چھاپہ مارا گیا اس حوالے سے ہائیکورٹ میں ایک سٹے آڈر پہلے سے موجود تھا جس کی پنجاب حکومت نے پاسداری نہ کی۔
جب یہ سب کچھ ہوا تو پاکستان میں سعودی عرب کے چمچے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے ملک کے ایک نامور ماہر طبعیات اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے نام پہ قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک شعبے کا نام رکھے جانے کے اقدام کو ہمارا مین سٹریم میڈیا بہت کوریج دے رہا تھا اور جماعت اسلامی زدہ اردو میڈیا اور نام نہاد لبرل انگلش میڈیا کے اندر نواز شریف کے درباری اسے احمدیوں کے حقوق کی بازیابی کا اگلہ قدم قرار دے رہے تھے۔نواز حکومت کے لبرل اور روشن خیال ہونے کا یہ پاٹ پڑھنے والے ٹی وی ٹاک شوز میں یہ دکھانے سے قاصر تھے کہ اسی دوران کوئٹہ شہر میں علمدار روڈ پہ ایک ویلڈنگ شاپ کے شیعہ ہزارہ مالک علی خان کو تکفیری دیوبندی دہشت گرد گروپ اہلسنت والجماعت/سپاہ صحابہ پاکستان/لشکر جھنگوی کے قاتلوں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔
مستونگ کے علاقے کردگاپ میں چار فٹبالر بلوچ نوجوان جبری گمشدہ بنالئے گئے۔یہ سب بلوجستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہوتے ہوئے ہوا ہے۔ایسے میں یہ دعوے کہ اس ملک میں مذہبی و نسلی اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کا عمل مسلم لیگ نواز اور سعودی کٹھ پتلی نواز شریف نے شروع کررکھا ہے ایک مذاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
اور افسوس یہ ہے کہ قریب قریب ہر کوئی اس المیہ سے بے خبر ہے کہ اس یونیورسٹی کا نام پہلے ہی ملک کے بانی کے نام پہ ہے جو شیعہ تھے۔اور وہ کئی سڑکیں، ائر پورٹ ، ہسپتال ، اسکول شیعہ بانی پاکستان کے نام پہ ہیں لیکن اس سے پاکستانی شیعہ کے بارے میں پھیلائی جانے والی نفرت اور دشمنی میں کوئی کمی دیکھنے میں نہیں ملی اور شیعہ آج بھی سلو موشن نسل کشی کا سامنا کررہے ہیں-
آپ پہلے سے موجود عمارتوں کا نام اقلیتی فرقوں سے تعلق رکھنے والی مہان شخصیات کے نام پہ رکھیں یا پہلے سے اہم عمارتوں کے نام جو اقلیتی شخصیتوں کے ہیں رکھیں رہنے دیں اور اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا رہے جیسے شیعہ اور احمدی ہیں اس سے صورت حال بہتر نہیں ہوگی۔
بدنام زمانہ احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والا مدہوش ملّا طاہر اشرفی اب بھی نواز حکومت میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور سعودی عرب سے اس کے معاملات ٹھیک رکھنے والے واسطوں میں سے ایک ہے۔ملا طاہر اشرفی اکثر احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلاتا اور دیوبندی نوجوانوں کو اکساتا ہے لیکن اس کو ے نقاب کرنے کی بجائے اور اس پہ دباؤ بڑھانے نواز لیگ کے لبرل اس کو پروموٹ کرنے میں لگے رہتے ہیں
حالیہ دنوں ميں ہوئے واقعات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ کلاسیکل لبرل ازم کا رام رام ستے ہوگیا اور جو بچا ہے وہ محض نیو لبرل ازم کا ٹوکن ازم یعنی علامتی اظہار ہی ہے۔اور اس میں نرگسیت پسندی اور نفسیاتی خود پسندانہ بیماری صاف جھلکتی ہے۔
بلاگ تعمیر پاکستان احمدیہ جماعت کے مرکز پہ پنجاب حکومت کے چھاپوں ، فیصل آباد سے گرفتار کئے جانے والے پرنٹنگ پریس کے احمدی مالکان کی گرفتاری اور ان پہ غداری جیسے مقدمے قائم کئے جانے کی شدید مذمت کرتا ہے۔اور مطالبہ کرتا ہے کہ احمدیوں کی مذہبی آزادی سمت ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور تکفیری دیوبندی ازم کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے
https://lubpak.com/archives/351620

No comments: