Sunday, December 27, 2015

#SALAMBENAZIR بے نظیر بھٹو ایک تاریخ ساز شخصیت




لطیف مغل
آج پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن اور عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی آٹھویں برسی ملک کے طول وعرض میں نہایت عقیدت واحترام کے ساتھ منائی جارہی ہے۔ ملکی تاریخ میں 27دسمبر 2007ء کا دن ایک منحوس دن کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔
اس دن عوام کی محبوب ترین راہ نما کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا کر دیا گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو عالمی سیاسی تاریخ میں ایک دلیر مدبر، اصول پسند، دوراندیش سیاست داں اور تاریخ ساز شخصیت کے طور پر ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
محترمہ ملک میں حقیقی تبدیلی لانا چاہتی تھیں، وہ غریب عوام کی حالت بدلنا اور انہیں عزت واحترام کا مقام دلانا چاہتی تھیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے انتھک جدوجہد کی۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی جدوجہد ایک لازوال داستان کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ عوام کے اعتماد اور خلوص کی ولولہ انگیز تاریخ ہے اور سماجی رومانیت کا انوکھا اظہار ہے۔
انہوں نے عوام کی بہبود اور ملکی ترقی کے لیے بہت سے بنیادی کام کیے، جن میں یہ نمایاں ہیں: انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہیومن رائٹس کی وزارت کا قیام، اور متعلقہ قوانین کا نفاذ، چائلڈ لیبر سے متاثرہ بچوں کے لیے سینٹر کا قیام، محنت کشوں کے مفاد میں قانون سازی، ٹریڈ یونین کے خلاف پابندیوں کا خاتمہ، دورآمریت میں جبری برطرف کیے گئے 40ہزار سے زیادہ ملازمین کی بحالی، ہر شہر میں لیبر کالونیاں بنائیں، مزدوروں کو پنشن کا حق دیا، لاکھوں بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم یے، خواتین کے تحفظ کے لیے قانون سازی کی، پارلیمانی بل پیش کیے گئے، جن میں گھریلو تشدد کے خلاف، خواتین کی سیٹوں کی بحالی اور عزت کے نام پر قتل روکنے کے لیے بل شامل ہیں۔
حدود آرڈیننس کے تحت زنا اور زنا بالجبر پر کوڑے مارنے کی سزائوں کو پیپلزپارٹی کی حکومت نے قانون پاس کر کے ختم کیا۔ پولیس تشدد کے خلاف خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے Code of criminal act 1994 پاس کیا گیا۔ خواتین کو قانونی مشاورت دینے کے لیے حکومت نے Women indistres قائم کیا۔ قومی کمیشن برائے خواتین قائم کیا گیا ۔ خواتین کے لئے علیحدہ پولیس اسٹیشن ورکنگ ویمن کیلئے ہوسٹلز، برن یونٹس ووکیشنل ٹریننگ پروگرام شروع کیا گیا اور کمپیوٹر سینٹر قائم کیے گئے۔ وفاقی اور صوبائی حکومت کے تحت Gender sensitzation trainingپروگرام کا آغاز کیا گیا۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے بارے میں Cedaw کی تائید کی گئی جس سے پاکستان کی پوزیشن واضح ہوگئی۔
خواتین کو معاشی طور پر طاقت ور بنانے کے لیے قرضوں کے اجرا کا وسیع پروگرام ترتیب دیا گیا۔ خواتین کا پہلا بینک بھی محترمہ کا کارنامہ ہے۔ خواتین کو روزگار فراہم کرنے کے لیے محترمہ نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کا پروگرام شروع کیا اور ایک لاکھ 33 ہزار افراد پر مشتمل نیٹ ورک قائم کیا گیا، تاکہ ملک میں دیہی اور شہری خاندانوں کی خدمت کی جاسکے۔
پبلک سروس میں خواتین کے کوٹے مختص کیے گئے، خواتین جج تعینات کی گئیں اور خواتین کے لیے سوشل پروٹیکشن کے کئی پروگرام شروع کیے گئے۔ بے نظیربھٹو کی حکومت میں عام لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے اور معیشت کو سدھارنے کے اقدامات کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ یو این او کی تنظیم ILOنے اس بات کا اعتراف کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ نوکریاں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں پیدا کی گئیں۔ سالانہ GDP کی شرح جو 1993ء میں 2.4 تھی 1995میں 6.1 ہوگئی۔
بجٹ کا خسارہ 9.5 فی صد GDPسے کم ہوکر صرف 6فی صد رہ گیا۔ محترمہ نے 1994 میں نئی پاور پالیسی دی، جس سے ملک میں توانائی کا بحران ختم کرنے میں مدد ملی۔ لوڈشیڈنگ کو ختم کیا گیا اور ایک مربوط معاشی ترقی کی بنیاد ڈالی گئی۔ 1993سے 1996ء کے دوران توانائی، پیٹرول اور کیمیائی شعبوں میں 3 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔ FDIمیں ریکارڈ اضافہ ہوا،1800شہروں میں بجلی اور 1.5ملین گیس کنکشن فراہم کیے گئے۔ زرعی شعبے میں بی بی کی پالیسیوں کے نتیجے میں تیزرفتار ترقی ہوئی، زرعی اشیا کی امدادی قیمت میں اضافہ کیا گیا، چھوٹے کسانوں کو زرعی قرضے دیے گئے، زرعی شعبے میں ترقی کی شرح منفی 1.5 سے بڑھ کر 6فی صد سالانہ ہوگئی۔
میڈیا سے سینسرشپ کا خاتمہ کیا گیا۔ ملک میں پہلی مرتبہ نجی میڈیا کی بنیاد ڈالی، جس کے ذریعے ملک میں پرائیویٹ سیکٹر کو بھی نشریاتی میڈیا چلانے کا موقع ملا، فارن میڈیا کی ٹرانسمیشن کے لیے آزادانہ پالیسی کا اجرا کیا۔ 1993ء1996میں سماجی شعبے میں تعلیم کے بجٹ کو 3سو فی صد تک بڑھایا گیا۔ ووکیشنل اور ٹیچرٹریننگ پروگرام شروع کیے گئے۔ قومی نصاب تبدیل کیا گیا اورنجی شعبے میں یونی ورسٹیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔
صحت کے بجٹ میں دو گنا اضافہ کیا گیا۔ پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے پہلی مہم شروع کی گئی، جس سے لاکھوں بچے مستفید ہوئے اور پولیو کا مکمل خاتمہ کیا گیا۔ بے نظیر حکومت نے آبادی میں اضافے پر قابو پانے کے لیے بلیو پرنٹ جیسے پروجیکٹ کا آغاز کیا جس سے آبادی میں اضافے کی شرح 3.1 سے 2.8 فی صد ہوگئی اور بچوں کی شرح اموات میں کمی آئی۔ عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او نے بھی محترمہ کی کاوشوں کو بھرپور سراہا۔
محترمہ بے نظیربھٹو کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے مشن کو مکمل کرنے کے لیے عملی جدوجہد کریں
https://ppppunjab.wordpress.com/2015/12/27/salambenazir-%D8%A8%DB%92-%D9%86%D8%B8%DB%8C%D8%B1-%D8%A8%DA%BE%D9%B9%D9%88-%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D8%AA%D8%A7%D8%B1%DB%8C%D8%AE-%D8%B3%D8%A7%D8%B2-%D8%B4%D8%AE%D8%B5%DB%8C%D8%AA/

No comments: