Saturday, December 28, 2013

اداریہ تعمیر پاکستان: ویل ڈن بلاول بھٹو زرداری

by Aamir Hussaini
27- دسمبر گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں بے نظیر بھٹو کی چوتھی برسی کے موقعہ پر پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے جو تقریر کی اسے معرکۃ الآراء تقریر کہا جاسکتا ہے یہ تقریر پاکستان پیپلز پارٹی کی اس سیاست کی طرف دوبارہ جانے کا اعلامیہ بھی کہی جاسکتی ہے جس سے پیپلزپارٹی کی قیادت کافی عرصے سے توبہ تائب نظرآتی تھی پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت نے پاکستان کے اندر تکفیری دیوبندی گروہ اور اس کی سب سے بڑی علامتی طاقت تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں 2008ء سے 2013ء تک جو رویہ اور پالیسی اختیار کئے رکھی اس نے پی پی پی کے نظریاتی تشخص کو خاصا نقصان پہنچایا پاکستان پیپلزپارٹی کی سرکاری طور پر ظاہر ہونے والی پالیسیوں میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی فکری اور عملی کج روئیوں سے اغماض برتنے کی پالیسی نے بھی عام جیالے کو مایوس کیا تھا پی پی پی کی قیادت نے پاکستان تحریک انصاف کے ابھار اور اس کے لیڈر عمران خان کی پنجاب میں مقبولیت کا بھی غلط تجزیہ کیا تھا اور اس پارٹی کو مسلم لیگ نواز کی جگہ سیکڑنے کے تجزئیے کرتے ہوئے یہ اندازا نہیں لگایا کہ یہ پارٹی دائیں بازو کے زیادہ شدت پسند موقف کو جواز بخشنے والے اقدامات کرے گی اور اس معاملے میں نواز لیگ سے بھی دو ہاتھ آگے چلی جائے گی بلاول بھٹو زرداری نے گڑھی خدا بخش کے قبرستان میں ڈائس پر کھڑے ہوکر جب یہ اعلان کیا کہ “پنجاب میں مسلم لیگ نواز اگر دھشت گردوں کے خاتمے اور غربت مکانے کے لیے کام کرے گی تو وہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہوجائیں گے” تو یہ بہت واضح اشارہ تھا کہ پی پی پی مصلحت پسندی کے دائروں سے اب باہر آنے کو تیار ہوچکی ہے بلاول بھٹو زرداری نے جس طرح سے دیوبندی تکفیری خارجی آئیڈیالوجی کی علمبردار تحریک طالبان پاکستان کے خلاف اعلان جہاد کیا اور پنجابی اسٹبلشمنٹ کو للکارا اس سے پتہ چل گیا کہ پی پی پی کا نیا چئیرمین وقتی مصلحتوں کے ساتھ سیاست نہیں کرے گا بلاول بھٹو زرداری روزبروز بے پناہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کررہے ہیں انہوں نے اس طرح کی بلوغت کا اظہار اس وقت کرنا شروع کیا تھا جب انہوں نے سلمان تاثیر شہید کی شہادت پر لندن میں ایک پریس کانفرنس کی تھی اس پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے پی پی پی کے باقی لیڈروں کی طرح معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہیں کیا تھا اور دیوبندی تکفیری دھشت گردوں اور ان کے روحانی باوا جان جنرل ضیاءالحق کی باقیات کو اسی طرح سے للکارا تھا جیسے ان کی نانی نصرت بھٹو اور ماں بے نظیر بھٹو للکارا کرتی تھی بلاول بھٹو زرداری نے 2011ء میں بھی بے نظیر بھٹو کی برسی پر تقریر کرتے ہوئے انصاف کو کانا کردینے والے چیف جسٹس کے بارے میں جو باتیں کی تھیں وہ مصلحت آشنا نہیں تھیں یہ بلاول بھٹو زرداری تھے جنہوں نے شیعہ برادری کی نسل کشی پر رد عمل ایسے دیا کہ ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کی اور کہا کہ “آج سے وہ بلاول ہاؤس پر علم عباس لہرارہے ہیں اور اعلان کرتے ہیں کہ پی پی پی کا ہر جیالا شیعہ اور ہزارہ ہے” یہ بلاول بھٹو زرداری تھے جنہوں نے رنکل کماری کیس پر ہندؤں کے حق میں وہ باتیں کیں جو کوئی کرنے کو تیار نہیں تھا بلاول بھٹو نے 27 دسمبر سے ایک دن پہلے کہا کہ “ان کی شدید خواہش ہے کہ اپنی زندگی میں پاکستان کا مسیحی وزیر اعظم دیکھ لیں” بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے صنعتوں کے قومیائے جانے کے خلاف بیان اور نجکاری کی حمائت میں دئے جانے والے بیان کے خلاف جو آرٹیکل لکھا وہ بھی اس بات کا آئینہ دار تھا کہ ان میں پی پی پی کو پھر سے غریب دوست جماعت بنانے کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہے اس آرٹیکل سے پہلے بلاول بھٹو زرداری نے سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رخصتی پر جو کالم لکھا تھا وہ بھی پی پی پی کے اپنے اصل ٹریک کی جانب مراجعت کی طرف ایک اشارہ تھا پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی مفاہمت کی نئی تعریف متعین کرڈالی ہے انہوں نے واضح کیا ہے اس مفاہمت کے دائرے سے تحریک طالبان سمیت تمام وہ دھشت گرد انتہا پسند گروہ خارج ہیں جو اس ملک کے شیعہ،اہل سنت بریلوی،احمدی،عیسائی،ہندؤں کو سماجی طور پر خارج کرنے کی فکر رکھتے ہیں انہوں نے مسلم لیگ نواز پر بھی واضح کیا ہے کہ اس سے تعاون اور مفاہمت کی شرط مسلم لیگ نواز کی جانب سے پنجاب میں تکفیری دیوبندی دھشت گرد نیٹ ورک کے خاتمے اور غریب کش پالیسیوں سے باز آجانا ہے –اس سے ہٹ کر کوئی مفاہمت نہیں ہوگی بلاول بھٹو نے نظریاتی بنیادوں پر بہت واضح ریڈ لائن کھینچ دی ہے اور یہ پی پی پی کی نظریاتی اساس کی بحالی کا اعلان ہے جس سے پی پی پی سے قدرے مایوس نظر آنے والے پی پی پی کے روآغتی حامی حلقے پھر سے پی پی پی کے ساتھ اپنی جڑت مضبوط کرنے میں کامیاب ہوں گے تعمیر پاکستان ویب سائٹ نے پی پی پی کی پالیسیوں پر جس دوستانہ تنقید کا فوقتا فوقتا اظہار کیا اس تنقید کو پی پی پی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے بہت سنجیدگی سے لیا اور صورت احوال میں خاصی بہتری نظرآرہی ہے بلاول بھٹو جس ترقی پسند ریڈیکل سوچ کے ساتھ پارٹی کی قیادت کررہے ہیں اور ابھی کچھ عرصے بعد ان کی آواز بطور قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی میں بھی گونجے گی اس سے پاکستان کی سیاست میں ترقی پسند سیاست کا نیا باب وا ہوتا نظر آرہا ہے بلاول بھٹو ٹھیک ٹھیک نشانہ لگارہے ہیں-اس بات کا اندازا ان کے مخالفین کے بیانات سے ہوتا ہے آئی ایس آئی اور پنجابی اسٹبلشمنٹ کی کمائی پر راج کرنے والی شریں مزاری اور کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان کے سرپرست رانا ثناءاللہ کی بدزبانی بلاول بھٹو کو کوئی نقصان پہنچا نہیں سکتی بلکہ یہ بلاول بھٹو کی سیاست کی کامیابی کی علامت ہے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے تجزیہ نگار نے بلاول بھٹو کی بے نظیر بھٹو شہید کی برسی پر کی جانے والی تقریر کے دوران بلاول بھٹو زرداری کے انداز اور لہجے کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے ٹھیک ہی کہا ہے کہ “انداز بھٹو جیسا اور لہجہ بے نظیر جیسا” اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بلاول بھٹو کی سوچ میں آج کے حالات کی جھلک بھی نظر آتی ہے-بلاول بھٹو جتنی بے باکی سے پاکستان کی نسلی اور مذھبی اقلیتوں کے حق میں بات کررہا ہے اتنی بے باکی سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی بلاول کے بارے میں تعمیر پاکستان ویب سائٹ کی ٹیم کا تبصرہ بس یہی ہوسکتا ہے کہ “ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات”
- See more at: http://lubpak.com/archives/300561#sthash.E1pszttm.dpuf

No comments: