Wednesday, December 11, 2013

یوم نجات 12 دسمبر: پاکستانی قوم چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ پر خوش کیوں؟

posted by Sarah Khan
نیوز رپورٹ: بارہ دسمبر پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چودھری کی ریٹائرمنٹ کا دن ہے اس دن جہاں چیف جسٹس کے کچھ حامی جن
کا تعلق طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف وغیرہ سے ہے اداس ہیں وہیں پاکستانیوں کی کثیر تعداد یوم نجات بھی منا رہی ہے – بی بی سی اور دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ، پنجاب اور گلگت بلتستان میں مختلف مذاھب، فرقوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے 12 دسمبر 2013 کو یوم نجات منانے کا اعلان کیا ہے چیف جسٹس افتخار چودھری مختلف وجوہات کی بنیاد پر پاکستان کی تاریخ کے متنازعہ ترین چیف جسٹس رہے ہیں – نیوز رپورٹس کے مطابق ان سے لوگوں کی ناراضی کی وجوہات حسب ذیل ہیں طالبان اور سپاہ صحابہ کی حمایت: افتخار چوہدری کے دور میں پاکستانی عوام اور فوج کے دشمن گرفتار شدہ تکفیری خوارج دہشت گردوں کو رہا
کیا گیا جن میں ملک اسحاق، خلیفہ عبدالقیوم، خادم ڈھلوں، ملا برادر وغیرہ شامل ہیں – افتخار چودھری کے قریبی رشتہ دار رانا ثنااللہ سپاہ صحابہ اور طالبان کے دہشت گردوں کی سرپرستی کرتے رہے اور ان کے اشارے پر کسی بھی گرفتار شدہ دہشت گرد کو سزا نہیں سنائی گئی ارسلان چودھری کی کرپشن: سموسے کی قیمت پر از خود نوٹس لینے والے اور حکومتی وزرا کو معزول کرنے والے چیف جسٹس نے اپنے بیٹے کی کروڑوں روپے کی کرپشن ہڑپ کر لی اور اس کو کوئی سزا نہیں دی نواز شریف کی خدمت: افتخار چودہری کے دور میں عدالت عظمیٰ پاکستان مسلم لیگ نواز کی حمایت میں کھل کر سامنے آئی – پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین صدر مملکت زرداری کے خلاف سیاسی مہم جوئی کی گئی ، وزیر اعظم گیلانی کو معزول کیا گیا لیکن نواز لیگ کے افراد خاص طور پر شریف فیملی کی کرپشن سے پردہ پوشی کی گئی شیعہ نسل کشی اور بلوچ نسل کشی: افتخار چوددھری نے گرفتار شدہ طالبان اور سپاہ صحابہ کے تکفیری دیوبندی دہشت گردوں کے انسانی حقوق کے لئے غائب شدہ افراد کے نام پر سیکیورٹی اداروں کو تنگ کرنے کی کوشش کی لیکن انہی تکفیریوں کے ہاتھوں شیعہ، سنی بریلوی، احمدی اور مسیحی پاکستانیوں کی شہادت پر چپ سادھ لی – بلوچستان میں سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں بلوچ نوجوانوں کی شہادت پر کوئی توجہ نہ دی جنگ گروپ کی خدمت: افتخار چودھری نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمن سے اپنے ذاتی تعلقات انصار عباسی اور نجم سیٹھی کی وساطت سے مستحکم رکھے اور جنگ و جیو کی ٹیکس چوری اور کرپشن کی پردہ پوشی کی
بی بی سی اردو میں شاہد ملک لکھتے ہیں کہ افتخار چودھری کی بحالی کی تحریک چلانے والے وکلا بھی ان کی ریٹائرمنٹ پر یوم نجات منا رہے ہیں تین نومبر سنہ دوہزار سات میں پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد جسٹس افتخار محمد چوہدری کی چیف جسٹس کے عہدے پر اور اعلیٰ عدلیہ کے دیگر ججز کو بحال کروانے کے لیے چلنے والی تحریک کے کرتا دھرتا افراد شاید افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ پر اُتنی ہی خوشی محسوس کر رہے ہیں جتنی اُنہیں 16 مارچ سنہ 2009 کو اُنہیں افتخار محمد چوہدری کی بطور چیف جسٹس بحالی پر ہوئی تھی اس عرصے کے دوران وکلا تحریک کے سرکردہ رہنما چیف جسسٹس سے دور ہوتےگئے شاید اس کی وجہ افتخار محمد چوہدری کے ایسے اقدامات ہیں جن پران رہنماؤں کو تحفظات تھے۔ اُن رہنماؤں میں چوہدری اعتزاز احسن ، علی احمد کُرد، جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود، سردار لطیف کھوسہ شامل ہیں
سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ کا شمار اُن افراد میں ہوتا ہے جنہوں نے ججز بحالی کے لیے وکلاء تحریک میں سب سے پہلے اپنا خون دیا۔ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر وکلا کے مظاہرے کے دوران پولیس نے جن کے سر پر سب سے پہلے لاٹھی برسائی وہ سردار لطیف کھوسہ ہی تھے۔ سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلاء نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنہیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔ سردار لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ وکلاء نے جس مقصد کے لیے عدلیہ بحالی کی تحریک شروع کی تھی وہ مقصد شائد پورا نہیں ہوا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس تحریک کا مقصد افتخار محمد چوہدری کی ذات کی بحالی نہیں بلکہ عدلیہ کو خود مختار بنانا تھا اور خاص طور پر ضلعی عدالتیں جہاں پر لوگ آج بھی انصاف کے حصول کے لیے آتے ہیں جہاں پر اُنہیں اپنا حق لینے کے لیے سالوں بیت جاتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ افتخار محمد چوہدری نے اس عرصے کے دوران جتنا وقت از خود نوٹس لینے اور ریاست کے دیگر اداروں کے امور میں مداخلت میں صرف کیا اتنا وقت وہ ضلعی عدالتوں میں اصلاحات پر صرف کرتے تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی۔ اُنہوں نے کہا کہ سنہ دوہزار سات کی تحریک کے بعد بحال ہونے والی اعلیٰ عدلیہ گذشتہ ادوار سے بہتر ضرور ہے لیکن اس کے اثرات نچلی عدالتوں تک نہیں پہنچے۔ سردار لطیف کھوسہ نے کہاکہ افتخار محمد چوہدری نے ایسے معاملات پر از خود نوٹس یا ایسے مقدمات کی سماعت کی جن کی وجہ سے وہ مقامی میڈیا پر چھائے رہے اور شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس دن اُن کا بیان یا اُن کے ریمارکس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی زینت نہ بنے ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں سردار لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اُنہیں وکلاء تحریک کا رہنما ہونے پر تو کوئی افسوس نہیں ہے البتہ مایوسی ضرور ہوئی کہ جس مقصد کے لیے اس تحریک کا آغاز ہوا تھا اُس کے ثمرات ابھی تک سامنے نہیں آئے۔ جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود کہتے ہیں کہ اُنہوں نے اُس وقت چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف کیا اور اُن پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جب عدالت عظمیٰ نے پارلیمنٹ اور انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت کرنا شروع کی۔ اُنہوں نے کہا کہ اس مخالفت کی وجہ سے اُنہیں مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا کیونکہ جب اُن کے کلائنٹس کو یہ احساس ہوا کہ طارق محمود چیف جسٹس کی پالیسیوں سے اختلاف ہے تو اُنہوں نے مقدمات واپس لے لیے۔ علی احمد کُرد بھی اُن وکلاء میں شامل ہیں جنہوں نے اس تحریک میں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے کارواں کی لمحوں کی مسافت کو گھنٹوں اور پھر دنوں میں طے کیا لیکن افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے بعد وہ چیف جسٹس کی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ کافی عرصے تک گوشہ نشینی اختیار کرنے کے بعد افتخار محمد چوہدری کی ریٹائرمنٹ سے کچھ عرصہ قبل وہ منظر عام پر آئے ہیں۔ چیف جسٹس کے حمایتی وکلا کے گروپ سے علیحدگی کے سوال پر وہ کُھل کر بات نہیں کر رہے۔ تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ’ چیف جسٹس کے وکلاء حمایتی گروپ سے علیحدگی کے سوال پر علی احمد کرد کُھل کر بات نہیں کر رہے تاہم یہ وہ ضرور کہتے ہیں کہ جس مقصد کے لیے اُنھوں نے لاٹھیاں کھائیں اور قید وبند کی صحبتیں برداشت کیں وہ رائیگاں چلی گئیں اور آج بھی لوگ انصاف کے حصول کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ وکلا نے عدلیہ بحالی کی تحریک افتخار محمد چوہدری کے لیے نہیں بلکہ عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے شروع کی تھی جس کا حصول آج تک ممکن نہیں ہوا۔ علی احمد کُرد شاید گیارہ دسمبر کے بعد جب افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے سے ریٹائر ہو جائیں گے، اس پر کُھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرسکیں۔ بیرسٹر اعتزاز احسن اور عاصمہ جہانگیر جیسے وکلاء کے سرکردہ رہنما بھی چیف جسٹس کے مخالف گروپ کا حصہ نظر آتے ہیں۔ ان وکلاء رہنماؤں نے بھی اعلیٰ عدالتوں میں ججز کو تعینات کرنے کے لیے نام تجویز کرنے کے چیف جسٹس کے اختیار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے دیگر ارکان کو بھی نام تجویز دینے کا اختیار ہونا چاہیے۔ افتخار محمد چوہدری کی عہدے پر بحالی کے بعد اُن کا حمایتی سمجھا جانے والا وکلا کا گروپ مسلسل چار سال سے پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں شکست کا سامنا کر رہا ہے۔ چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ پر چاروں صوبوں کی ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اُن کے اعزاز میں الوداعی تقریبات کا بھی اہتمام نہیں کیا
- See more at: http://lubpak.com/archives/295795#sthash.CsACsnt5.dpuf

No comments: