Saturday, November 16, 2013

راولپنڈی عاشورہ جلوس سانحہ کے اصلی حقائق Eyewitness account of the Ashura day violence in Rawalpindi

راولپنڈی عاشورہ جلوس سانحہ کے اصلی حقائ
شام کے وقت جب میں گھر پہنچا تو امی جی اور ابو جی کو بہت پریشان دیکھا۔ ٹی وی پر چلنے والی خبر نے مجھے بھی پریشان کر دیا۔ خبر تھی راجا بازار میں ہنگامہ، پتھراؤ ، فائرنگ اور مدینہ مارکیٹ کو آگ لگا دی گئی ہے۔ مدینہ مارکیٹ کی خبر نے تو جیسے سب کو ہی بہت پریشان کر دیا۔ پریشانی کی اہم وجہ ہمارا چھوٹا بھائی ثاقب تھا۔ جو پولیس میں ہے اور اس کی ڈیوٹی مدینہ مارکیٹ کی چھت پر لگی ہوئی تھی۔ وہاں دیوبندی مسجد بھی تھی۔ اور اسی مسجد میں ان کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ پریشانی کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ فیصلہ کیا گیا کہ میں خود جا کر وہاں کا جائزہ لوں اور ثاقب کو کسی طرح گھر لے کر آؤں۔ جب میں گھر سے نکلا تو میرے بعد میرا چھوٹا بھائی عمر بھی چلا گیا۔ میں نے جب وہاں جا کر دیکھا تو سپاہ صحابہ کے دیوبندیوں کا ایک ہجوم تھا کا سب لوگ شیعوں کے خلاف نارے لگا رہے تھے۔گنج منڈی والے پل سے آگے کسی کو جانے نہیں دیا جا رہا تھا۔ میں نے ثاقب کی تلاش کرنی تھی اس لیے میں نے دوسرے راستے کی طرف رخ کر لیا۔ باقی تمام طرف کوئی ہنگامہ نہیں تھا بس مدینہ مارکیٹ کی طرف جانے والے راستے پر ہی ہنگامہ تھا باقی تمام طرف اہل تشع ماتم کر رہے تھے اور پولیس نے ان کو سکیورٹی فرہام کی تھی لیکن راجا بازار اور مدینہ مارکیٹ کی طرف بہت ہنگامہ تھا وہاں لوگ دکانوں کو آگ لگا رہے تھے اور پتھراو کر رہے تھے اور اس طرف سے لوگوں کو پولیس اور آرمی آگے نہیں جانے دے رہی تھی۔ میں نے ہر طرف سے کوشش کی لیکن میرا رابطہ کسی بھی طرح ثاقب سے نا ہو سکا اور میں افسردہ خالی ہاتھ لے کر گھر کی طرف آ گیا۔ گھر آ کر میں میں والد صاحب کو تسلی دیتا رہا کہ نہیں جی کوئی ہنگامہ نہیں ہے حالات ٹھیک ہیں بس کچھ لوگ ہی پتھراو کر رہے ہیں۔ لیکن حالات خود دیکھ کر آیا تھا بہت خراب تھے۔ کچھ ہی دیر میں ثاقب کا گھر کے نمبر پر فون آ گیا کہ وہ خیریت سے ہے اور آفس پہنچ گیا ہے اور عمر بھی اس کے آفس میں ہے۔ سب کو تسلی ہوئی اور 9 بجے ثاقب گھر پہنچ گیا۔ سب سے پہلی خبر تو اس نے یہ سنائی کہ اس کا موٹرسائکل جلا دیا گیا ہے۔ پھر میں نے اس سے تفصیل پوچھی کہ ہوا کیا تھا یہ سارا مسئلہ کہاں سے شروع ہوا تو اس نے کچھ یوں تفصیل سنائی۔ مولوی صاحب جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ اور اس مسجد کے مولوی صاحب دیوبند مسلک کے تھے جو شیعوں کے خلاف بہت نفرت انگیز تقریر کر رہے تھے مسجد میں سپاہ صحابہ کے لوگ اسلحے سمیت موجود تھے اور لاؤڈ سپیکر پر کافر کافر شیعہ کافر، یزیدیت زندہ باد کے نعرے لگوا رہے تھے کچھ ہی دیر میں وہاں شیعوں کا جلوس آنا تھا اور مولوی صاحب انتہائی جوش سے شعیوں کے خلاف تقریر کر رہے تھے۔ جب جلوس وہاں پہنچا تو نفرت انگیز نعرے سن کر شیعوں نے پتھراو شروع کر دیا لیکن مولوی صاحب نے تقریر جاری رکھی تقریر میں انہوں نے میلاد اور عاشورہ کے جلوسوں میں شرکت کرنے والے سنی اور شیعہ مسلمانوں کو کافر اور مشرک قرار دے دیا جس کی وجہ سے جلوس میں شامل سنی اور شیعہ کو بھی غصہ آ گیا احتجاج کیا – اس پر دیوبندی مسجد سے پتھراو شروع ہو گیا اور سپاہ صحابہ کے راجہ بازار کے صدر اور اس کے رشتہ داروں نے جلوس پر فائرنگ شروع کردی اور انہوں نے پتھروں کے ساتھ ساتھ مارکیٹ میں کھڑے موٹر سائکلز کو آگ لگانا شروع کر دی اور جب آگ مارکیٹ میں لگنا شروع ہوئی تو سپاہ صحابہ کے مولوی حضرات نے پولیس سے اسلحہ چھیننے کی کوشش کی ۔ اسی دوران باہر شیعوں اور بریلویوں نے بھی پولیس سے اسلحہ چھین لیا اور اپنے دفاع میں فائرنگ شروع کر دی۔ ادھر ہم صرف دو پولیس والے تھے اس لیے پھر ہم بڑی مشکل سے چھتوں سے چھلانگے لگا کر وہاں سے نکلے اور آفس پہنچے” اس کے بعد کا جو ہنگامہ ہے وہ سب آپ کو سچی اور چھوٹی خبروں کے ساتھ سننے اور پڑھنے کو مل گیا ہے۔ میرے خیال میں ایک چھوٹی سی بات کی وجہ سے اتنا بڑا مسئلہ بنا ہے۔ اگر آج کے خطبہ میں دیوبند مولوی صاحب اہل تشیع اور سنی بریلویوں کے خلاف تقریر نا کرتے جب کہ وہ جانتے تھے کہ آج ان کا جلوس بھی یہاں ہی آنا ہے اور یہاں آ کر جلوس نے ختم ہونا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے تقریر کی اور خالص شعوں کے خلاف تقریر کی تو پھر ایسا مسئلہ تو ہونا تھا۔ پھر اس کے بعد سپاہ صحابہ کے مسلح لوگوں نے جلوس پر پتھراو اور فائرنگ شروع کر دی اور سنی بریلوی اور شیعہ کو اغوا کر کے دوبندی مسجد میں لے آئے کچھ بے گناہ شیعہ اور سنی زندہ جلا دیا گئے اور سپاہ صحابہ والے دیوبندی بھا گ گئے ایک مسجد شہید ہوگئی۔ سو سے زیادہ دکانوں کو آگ لگا دی گئی۔ کتنے ہی انسانوں کی جانے چلی گئی اور کتنے ہی زخمی حالت میں ہسپتالوں میں موجود ہیں۔ اور اس پر یہ چھوٹی خبروں نے اور نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقعے کی کوریج پرمامور اسلام آباد میں ایک ٹی وی کے رپورٹر نے بی بی سی کے نامہ نگار محمود جان بابر کو بتایا کہ وہ فوارہ چوک میں ڈیوٹی پرموجود ہیں اور ابھی کچھ دیر پہلے علاقے سے قریباً دیوبندی لوگوں نے ان کی گاڑیوں اورکیمروں پر ہلہ بول دیا اور انہیں زبردستی یہ کہتے ہوئے رہائشی علاقے کے اندر لے گئے کہ لاشیں اندر پڑی ہیں تباہی اندر ہوئی ہے اور میڈیا باہر سے کس چیز کی کوریج کررہا ہے - See more at: http://lubpak.com/archives/290445#sthash.cQSjfpuw.dpuf

No comments: