سانحہ بھکر پولیس کی سرپرستی میں ہوا، عینی شاہد کا انکشاف
http://www.urdu.shiitenews.com/
بھکر کی تحصیل دریا خان میں ایک بار پھر کالعدم سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں نے شہر کا امن تہہ و بالا کر دیا ہے۔ ابتک کی رپورٹ کے مطابق بھکر سمیت مختلف علاقوں میں فائرنگ کے مختلف واقعات میں نو شیعہ افراد کو ناحق قتل کر دیا گیا ہے۔ واقعہ کے عینی شاہد دریا خان کے رہائشی کمیل رضا نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ دو روز قبل بھکر میں کالعدم جماعت کا سابقہ رکن ذاتی تنازع کی بنیاد پر قتل ہوگیا۔ اس واقعہ کے بعد کالعدم سپاہ صحابہ کے مرکزی رہنماء مولوی حمیداللہ نے اس واقعہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیتے ہوئے اس کی ذمہ داری اہل تشیع پر ڈال دی۔ انتظامیہ کو 48 گھنٹوں کے اندر قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم جیسے 48 گھنٹے مکمل ہوئے تو جمعہ کی صبح مولوی حمیداللہ کی قیادت اور پولیس کی سرپرستی میں بھکر کے علاقے پنجگرائیں سے مسلح افراد نے ریلی نکالی، جو مختلف علاقوں سے ہوتی ہوئی بھکر شہر پہنچی، جہاں کالعدم جماعت کے رہنماؤں نے احتجاج کیا اور شیعہ مخالف نعرے لگوائے۔ اس دوران پولیس انتظامیہ نے کوئی ایکشن نہیں لیا اور حسب رویت خاموش تماشائی کا کردار ادا کیا۔
کمیل نے بتایا کہ احتجاج کے بعد شہر سے ریلی واپس دریا خان کی جانب روانہ ہوئی تو راستے میں ریلی جیسے ہی شیعہ آبادی کوٹلہ جام حسینی چوک پر پہنچی تو شرکاء مشتعل ہوگئے اور فرقہ وارانہ نعرے بازی شروع کر دی، اس دوران چند مسلح افراد دکانوں میں گھس گئے اور چار شیعہ دکانداروں کو ناحق قتل کر دیا۔ جاں بحق ہونے والوں میں علی رضا اور کامران نامی افراد شامل ہیں۔ کالعدم جماعت کے دہشتگرد مسلسل فائرنگ کرتے رہے، لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، اس دوران دہشتگرد چار افراد کو بھی ساتھ لے گئے۔
ذرائع کے مطابق ریلی جیسے ہی دریا خان واپس پہنچی تو کالعدم دہشتگردوں نے مین بازار میں دوبارہ فائرنگ کا سلسلہ شروع کر دیا جو تقریباً نصف گھنٹے تک جاری رہا۔ فائرنگ کے نتیجے میں تین مزید شیعہ دکاندار قتل کر دئیے گئے۔ شہید کئے جانے والوں میں سید عمران شاہ شیرازی، ریڑھی بان خان محمد اور سید صفدر حسین شاہ نامی افراد شامل ہیں۔ کمیل کے مطابق شہر کی مختلف مساجد سے باقاعدہ اعلانات کیے گئے کہ جہاد کا وقت آگیا ہے اور کفر کے مقابلے کے لئے اب گھروں سے باہر نکل آؤ، یہ اعلانات دریا خان کے علاوہ کوٹلہ جام، پنجگرائیں اور بھکر میں بھی سنے گئے۔
No comments:
Post a Comment