Tuesday, August 6, 2013

جھوٹ اور دروغ گوئی کے شرمناک فعل کے باوجود بھی خود درخواست گزار راجہ ظفر الحق اور ان کے صدارتی امیدوار ممنون حسین تک نے عمرے کی سعادت حاصل کرنے اور اعتکاف میں بیٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اعجاز درانی

http://mediacellppp.wordpress.com/
27 رمضان المبارک کی مقدس شب اور پورا دن گزر گیا ۔ 24 جولائی کو ن لیگ کی جانب سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی جانے والی درخواست جھوٹی اور بے بنیاد ثابت ہوئی۔ ن لیگ کے اراکین پارلیمنٹ کی ایک فیصد تعداد بھی عمرے پر روانہ ہوئی اور نہ ہی کوئی کسی نے اعتکاف میں بیٹھنے کی زحمت گوارا کی اور تو اور درخواست گزار سینیٹر راجہ ظفر الحق اور مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار نے بھی عمرے پر جانے اور اعتکاف میں بیٹھنے سے اجتناب کیا جو سراسر توہین عدالت کے مترادف ہے۔ بلاول ہاؤس کے ترجما ن اعجاز درانی نے کہا ہے کہ صدارتی انتخاب کی تاریخ کی تبدیلی کے لیے ن لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق کی جانب سے “عمرے اور اعتکاف” کے نام پر دائر کی جانے والی درخواست اور خودساختہ مذہبی دلائل اب 27 رمضان المبارک کا دن گزر جانے کے بعد مکمل طور پر جھوٹ اور بے بنیاد ثابت ہوچکے ہیں کیونکہ 30 جولائی کے یکطرفہ انتخابی نتائج کے حصول کے بعد ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کے اراکین پارلیمنٹ کی 5 فیصد تعداد نے بھی عمرے کی سعادت حاصل کی اور نہ ہی وہ 20 رمضان المبارک کو اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے مساجد میں تشریف لے گئے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ 24 جولائی کو دائر کی جانے والی مذکورہ درخواست کے مقاصد پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہوجانے کے بعد نہ صرف صدارتی انتخابات کی حیثیت مزید غیر آئینی ہوگئی ہے بلکہ درخواست گزار رجہ ظفر الحق سمیت ن لیگ اور ان کے اتحادیوں کے تمام اراکین پارلیمنٹ کے عدالتی بیانات توہین عدالت کے زمرے میں داخل ہوگئے ہیں۔ جو سپریم کورٹ آف پاکستان کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا یہ امر بھی انتہائی حیرت کا باعث ہے کہ جھوٹ اور دروغ گوئی کے شرمناک فعل کے باوجود بھی خود درخواست گزار راجہ ظفر الحق اور ان کے صدارتی امیدوار ممنون حسین تک نے عمرے کی سعادت حاصل کرنے اور اعتکاف میں بیٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اعجاز درانی نے کہا کہ معزز قانون دان، وکلاء برادری، قومی میڈیا اور سول سوسائٹی اس حقیقت کو بھی اپنے سامنے رکھیں کہ 30 جولائی کے صدارتی انتخاب میں ن لیگ اور ان کے اتحادیوں نے اپنے صدارتی امیدوار کے حق میں 878 ووٹ کاسٹ کیے تھے لیکن وزیر اعظم میاں نواز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور چند بااثر حکومتی شخصیات کے علاوہ کسی نے بھی سپریم کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست کی نہ صرف پاسداری نہیں کی بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کے سامنے پاکستان اور یہاں کی اعلی عدالتوں کی جگ ہنسائی کی۔

No comments: