http://www.bbc.co.uk/urdu
حملے کے بعد ٹانک میں لگائی گئی کرفیو بدستور نافذ ہے اور ڈی آئی خان میں کچھ دیر کے لیے کرفیوں میں نرمی کر دی گئی ہے
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں سینٹرل جیل پر حملے کے بعد فوراً کارروائی نہ کرنے پر ایلیٹ فورس کے افسران سمیت ستائیس دوسرے پولیس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔
ہمارے نامہ نگار عزیزاللہ خان کے مطابق یہ اقدام صوبائی آئی جی پولیس خیبر پختونخوا نے متعلقہ پولیس افسران اور ہلکاروں کی طرف سے جیل پر حملے کے بعد فوراً ردِ عمل ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ واقعے کے تیسرے دن بھی حکومت یہ صحیح طور پرواضح نہیں کر سکی کہ حملہ آور کتنی تعداد میں کس طرف سے آئے، حملہ کرکے قیدیوں کو کیسے آذاد کیا اور کس راستے سے جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
ایک سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ آور جیل کے مرکزی دروازے کو تھوڑ کر اندر داخل ہوئے اور انھیں جیل کے اندر نقل و حرکت کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں۔
یاد رہے کہ مسلح پسندوں نے ڈیرہ اسماعیل خان میں سینٹرل جیل پر پیر کی رات کو حملہ کرکے 243 قیدیوں کو رہا کروا لیا تھا جن میں تیس انتہائی خطرناک قیدی بھی شامل تھے۔
اس واقعے کی ابتدائی تفتیشی رپورٹ تھانہ چھاؤنی ڈیرہ اسماعیل خان میں درج کر دی گئی ہے۔
حملے کے بعد ٹانک میں لگائی گئی کرفیو بدستور نافذ ہے اور ڈی آئی خان میں کچھ دیر کے لیے کرفیوں میں نرمی کر دی گئی ہے جبکہ ڈی آئی خان کی طرف جانی والی چار اہم شاہراہیں بدستور بند ہیں۔
ایک ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ آور جیل کے مرکزی دروازے کو تھوڑ کر اندر داخل ہوئے اور انھیں جیل کے اندر نقل و حرکت کرنے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئیں
ان شاہرہوں میں ڈیرہ بنوں روڈ، ڈیرہ ٹانک روڈ، ڈیرہ چشمہ روڈ ا ور دربن روڈ شامل ہیں۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس حملے میں چھ اہلکاروں سمیت بارہ افراد ہلاک اور 13 زخمی ہوئے تھے۔
ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے کمشنر مشتاق جدون نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا’شدت پسندوں کے حملوں کے باعث کُل 243 قیدی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوئے تاہم سکیورٹی فورسز نے سرچ آپریشن کے دوران چودہ قیدیوں کو دوبارہ حراست میں لے لیا ہے۔‘
کمشنر مشتاق جدون نے بتایا تھا کہ حملے کے باعث جیل سے فرار ہونے والوں قیدیوں میں سے تیس قیدی انتہائی خطرناک قیدی تھے۔ انہوں نے کہا تھا ان تیس قیدیوں میں سے کوئی بھی قیدی دوبارہ گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
کالعدم شدت پسند تنظم تحریک طالبان پاکستان نے سینٹرل جیل پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے اس حملے میں دو سو کے قریب ساتھیوں کو رہا کرا لیا تھا۔
اس سے قبل سرکاری میڈیا پی ٹی وی کے مطابق ڈی آئی خان کے سینٹرل جیل کے سپرنٹنڈنٹ نے بتایا کہ جیل میں کُل 483 قیدی تھے جن میں سے 243 قیدی فرار ہو گئے ہیں۔
کمشنر مشتاق جدون کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے لاؤڈ سپیکرز پر اپنے ساتھیوں کے نام پکارے۔ مقامی افراد کے مطابق طالبان لاؤڈ سپیکرز پر ’اللہ اکبر‘ اور ’طالبان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے آئے تھے۔
گزشتہ سال اپریل میں خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کی سینٹرل جیل پر طالبان نے حملہ کر کے تین سو چوراسی قیدیوں کو رہا کروا لیاتھا، فرار ہونے والے قیدیوں میں زیادہ تر طالبان شدت پسند تھے۔
پاکستان میں 89 جیلیں ہیں جن میں سے 65 جیلوں کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ سب سے زیادہ حساس قرار دی جانے والی جیلیں صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں واقع ہیں
گزشتہ سال شدت پسندوں کی جانب سے ممکنہ حملوں سے متعلق کلِک بی بی سی کو موصول ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق کالعدم تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد نے خودکش حملوں، بم دھماکوں اور شدت پسندی کے مختلف مقدمات میں گرفتار ہونے اپنے ساتھیوں کی رہائی کے لیے جیلوں پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کی۔
ان اطلاعات کے بعد پاکستان فوج نے جیلوں پر شدت پسندوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے جیل کے عملے کو کمانڈو تربیت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔
No comments:
Post a Comment