Sunday, October 3, 2021

80 ہزار گھر اجڑنے پر آواز اٹھانے والی پاکستان پیپلز پارٹی… زندہ باد




حکومتی ترجمان اور میڈیا میں موجود ’سرکاری تجزیہ نگار‘ تسلسل سے مسلم لیگ (ن) میں بیانیہ کی بنیاد پر پیدا ہونے والے
 اختلافات کو پارٹی کے لئے مہلک قرار دیتے ہوئے پیش گوئی کرتے رہتے ہیں کہ یہ پارٹی انتخابات سے پہلے ہی کئی حصوں میں بٹ جائے گی۔ یہ تو غیر واضح ہے کہ بیانیہ کا اختلاف مسلم لیگ (ن) کے لئے کس قدر مہلک ثابت ہوتا ہے لیکن انتہاپسندی کے بارے میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی خاموشی ضرور یہ بتا رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سیاست شدید اور سنگین خطرے سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اگست میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے علاوہ اب وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا اعلان اور یہ فیصلہ کہ ہتھیار پھینکنے والے دہشت گرد عناصر کو حکومت پاکستان عام معافی دے گی یعنی وہ انسانوں کے خلاف ہلاکت خیزی کے سنگین جرم سے بری ہوجائیں گے اور انہیں عام شہریوں کے طور پر زندہ رہنے اور سہولتوں سے استفادہ کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ 

یہ دونوں معاملات پاکستان کی خارجہ پالیسی کے علاوہ ملکی سلامتی، سماجی اطمینان اور معاشی بحران کے حوالے سے انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے قبضہ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں وزیر اعظم عمران خان بھی یہ اعتراف کرتے رہتے ہیں کہ اگر امریکہ اور دیگر حلیف ممالک نے فوری طور سے افغانستان کی معاشی امداد بحال نہ کی تو یہ ملک شدید اقتصادی بحران کا شکار ہوجائے گا جس سے پاکستان براہ راست متاثر ہوگا۔ اس کے باوجود ملک سے صرف پیپلز پارٹی نے حکومت کی افغان پالیسی کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کے اعلانات پر احتجاج کیا ہے اور قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بعد یہی پارٹی سب سے بڑی ہے اور پنجاب میں تحریک انصاف کو انتخابی سطح پر چیلنج کرنے کا مسمم ارادہ رکھتی ہے۔ پارٹی کے صدر شہباز شریف اس وقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں جبکہ ان کے صاحبزادے اور پارٹی کے نائب صدر حمزہ شہباز پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اس کے باوجود افغانستان کے بحران، اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی سیاسی و سفارتی بے چینی کے بعد اب پاکستان تحریک طالبان سے حکومتی مذاکرات اور اس گروہ سے متعلق دہشت گرد عناصر کو عام معافی دینے کے اعلانات پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت مکمل طور سے خاموش ہے ۔ پارٹی نے ان اہم معاملات پر کسی قسم کا رد عمل دینا ضروری نہیں سمجھا۔ ملک کی اہم ترین اپوزیشن پارٹی کے اس رویہ سے یہی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پارٹی ان دونوں معاملات پر کوئی خود مختارانہ رائے نہیں رکھتی اور حکومتی پالیسی کے بارے میں کسی قسم کے تحفظات کا اظہار ضروری نہیں سمجھتی۔ اس کے برعکس پیپلز پارٹی نے افغانستان پر طالبان کے قبضہ کے بعد پارلیمنٹ کو انگیج کرنے پر اصرار کیا تھا اور کہا تھا کہ اس بارے میں متوازن اور انسان دوست پالیسی اختیار کرنا ضروری ہے۔

 ترک ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان نے تحریک طالبان پاکستان کے بعض عناصر کے ساتھ طالبان کی مدد سے افغانستان میں مذاکرات کا انکشاف کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچی اور یہ لوگ ہتھیار پھینکنے پر آمادہ ہوگئے تو انہیں عام معافی دے دی جائے گی اور وہ عام شہریوں کے طور پر زندگی گزارنے کے مجاز ہوں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے متعدد لیڈروں نے اس سرکاری پالیسی پر شدید رد عمل ظاہر کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر اور اس اہم مسئلہ پر قومی مکالمہ کے بغیر حکومت کیسے ایک اہم مسئلہ پر یک طرفہ طور سے عام معافی کا اعلان کرسکتی ہے۔ یہ ایک جائز اور درست سیاسی مؤقف ہے جس میں نہ صرف حکومت کی کمزور حکمت عملی کی نشاندہی کی گئی ہے بلکہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں کو معاف کرنے کا فیصلہ حکومت یا وزیر اعظم کسی سیاسی تنہائی میں نہیں کر سکتے۔ اگر یہ تصور کر لیا جائے کہ تحریک انصاف کی حکومت فوج کی سرپرستی میں مفسد عناصر کے ساتھ مکالمہ شروع کرنے اور انہیں معاف کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں تو پیپلز پارٹی ہی کیوں اس خطرناک اور قومی مفاد کے برعکس فیصلہ کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے۔ کیا ملک کی باقی سب سیاسی پارٹیوں کو اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور وہ قومی منظر نامہ پر دہشت گردوں کے ساتھ مفاہمانہ طرز عمل اختیار کرنے کے اثرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ کیا ملک میں انتہا پسندی اور مذہبی بنیاد پر دہشت گردی صرف پاکستان پیپلز پارٹی کا مسئلہ ہے۔ کیا یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ پارٹی کی چئیر پرسن اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت چونکہ ان عناصر کے ہاتھوں ہوئی تھی، اس لئے پیپلز پارٹی انفرادی ناراضی کی وجہ سے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت مؤقف اختیار کررہی ہے، اس کا وسیع تر قومی مفاد سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قیاس کو درست مان کر ایک اہم قومی مسئلہ پر خاموشی اختیار کرنا خاص طور سے مسلم لیگ (ن) جیسی بڑی پارٹی کا ناقابل قبول سیاسی طرز عمل ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) اسٹبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے اس معاملہ پر خاموش ہو۔ اس کا خیال ہو کہ اگر تحریک انصاف کی حکومت عسکری عناصر کی خوشنودی سے ایک ناخوشگوار سیاسی فیصلہ کرتی ہے تو مسلم لیگ (ن) بعد میں اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکے گی۔ اس حوالے سے بھی مسلم لیگ (ن) کا سیاسی طریقہ افسوسناک حد تک قومی حساسیات سے نابلد ہونے کا مظہر ہے۔ 

 اس ملک کے 80 ہزار گھروں میں تحریک طالبان پاکستان کی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے شہدا کے وارث رہتے ہیں۔ ان لوگوں کا دکھ درد پوری قوم کا سانجھا المیہ ہے۔ اس دہشت گردی نے پاکستانی سماج پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اور ملک میں مذہبی انتہا پسندی کو فروغ ملا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت بالواسطہ طور سے مذہبی انتہا پسندی کو راسخ کرنے کا سبب بنتی رہی ہے اور اب ٹی ٹی پی کو عام معافی دے کر مصالحت کا ڈول ڈال کر معاشرے میں تشدد کی طرف رجوع کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ملک کی اہم ترین اپوزیشن پارٹی اس پہلو پر رائے دینے اور حکومت کو دباؤ میں لانے سے گریز کررہی ہے۔ اس کی ایک واضح وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) بھی تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں اسٹبلشمنٹ کو خوش کرنے کے علاوہ خود بھی مذہبی انتہا پسندی کے بارے میں وہی رویہ رکھتی ہے جس کا اظہار عمران خان کی حکومت کررہی ہے۔ ایسے میں پیپلز پارٹی کے علاوہ شاید اے این پی مذہبی انتہا پسندی کے خلاف دیوار بننے کی کوشش کرے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر مذہبی و نیم مذہبی سیاسی جماعتیں تمام تر تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کے باوجود مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والے عناصر کے بارے میں نرم گوشہ رکھتی ہیں تاکہ آئندہ انتخابی مہم میں اسے اپنی ’اسلام دوستی‘ کے طور پر پیش کرکے عوام کے ووٹ اینٹھنے کی کوشش کرسکیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان جمہوری تحریک نامی اپوزیشن اتحاد میں پیدا ہونے والے اختلافات کے بعد مسلم لیگ (ن) نے پیپلز پارٹی اور آصف زرادری پر اسٹبلشمنٹ کی ’بی‘ ٹیم ہونے کا الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ نواز شریف کے ’ووٹ کو عزت دو ‘ والے بیانیہ کے مقابلہ میں پیپلز پارٹی نے عسکری عناصر کے ساتھ مل کر سیاسی اقتدار کی راہ ہموار کرنے کی سازش کی ہے۔ تاہم المیہ یہ ہے افغانستان کی صورت حال کے بعد اب ٹی ٹی پی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ درحقیقت اسٹبلشمنٹ کو راضی کرنے کی اپنی سی کوشش ہی ہے۔ 

 مسلم لیگ (ن) میں نواز شریف اور مریم نواز نے خود کو ’اینٹی اسٹبلشمنٹ‘ لیڈروں کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔ نواز شریف یہ دعویٰ کرتے رہتے ہیں کہ سیاسی معاملات میں عسکری قیادت کی مداخلت ہی دراصل ملک کے حقیقی مسائل کی بنیاد ہے۔ اس دو ٹوک اور دلیرانہ مؤقف کے برعکس شہباز شریف مصالحت اور مل جل کر چلنے کی بات کرتے ہیں۔ ان کی سیاست کی پہچان ہی یہ اصول ہے کہ اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کی بجائے، اس کی شرائط مان کر سیاسی اصول متعین کئے جائیں۔ اسی لئے حال ہی میں کنٹونمنٹ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے شہباز شریف کی قیادت میں ’کارکردگی کو ووٹ دو ‘ کا نعرہ متعارف کروایا اور پنجاب کی حد تک کامیابی حاصل کی۔ مریم نواز اس دوران خاموش رہیں اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کی گونج بھی سنائی نہیں دی۔ ان حالات میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نواز شریف بھی سیاسی فائدے کے لئے دراصل وہی طریقہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جو شہباز شریف سے منسوب کیا گیا ہے لیکن جمہوریت کے پاسبان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے اسٹبلشمنٹ پر دباؤ بڑھانے اور بہتر شرائط تسلیم کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یعنی اول و آخر یہ جمہور کی بالادستی کی بجائے سیاسی اقتدار کے حصول کی جنگ ہے۔ تاہم ملک میں گزشتہ دو دہائی سے خوں ریزی کا سبب بننے والے عناصر کے بارے میں پیپلز پارٹی کا کھرا مؤقف اور مسلم لیگ (ن) کی خاموشی سے نواز شریف کے سیاسی بیانیہ کی حقیقت کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ 

اگر انتہا پسند عناصر کے ساتھ مفاہمت پر لین دین کرکے سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ ملک و قوم کے مستقبل کے لئے بری خبر ہے۔ لیکن یہ راستہ مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کے لئے بھی کوئی اچھی خبر ثابت نہیں ہوگا۔ ملک کے جو جمہوریت پسند عناصر نواز شریف کے واضح سیاسی مؤقف کی وجہ سے ان کا ساتھ دے رہے تھے ، وہ اب پیپلز پارٹی 
کو ہی پاکستان میں متوازن جمہوری و روشن خیال سیاست کی واحد امید سمجھنے پر مجبور ہوں گے۔

https://www.humsub.com.pk/423020/syed-mujahid-ali-1923/

No comments: