Tuesday, October 5, 2021

#COVID #Coronavirus #Corruption Who is profiting from COVID-19 in Africa?

Video Report - #IraqElection2021 #IraqProtests - Iraqi youth call for boycott of Sunday’s parliamentary vote

Video Report - Macron meets top US diplomat Blinken for first talks since submarine crisis

Video Report - Fauci: 700,000 Covid-19 deaths is 'staggering' and 'painful'

Video Report - We've reached the 'Red Covid' phase of the pandemic

کرپٹ زرداری ہے پکڑے علیم خان وغیرہ جاتے ہیں


 

جو شخص بھی سنہ 1988 سے پاکستانی میڈیا ملاحظہ کر رہا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ پاکستان کا کرپٹ ترین شخص آصف زرداری ہے۔ سنہ 1988 کی پیپلز پارٹی کی حکومت میں میڈیا پر بتایا گیا کہ آصف زرداری ہر حکومتی کام میں دس پرسنٹ کمیشن لیتے ہیں۔ پھر جب 1993 کی پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو قوم کو بتایا گیا کہ اب ریٹ دس فیصد نہیں رہا، سو فیصد ہو گیا ہے۔ سنہ 2008 کی پیپلز پارٹی کی حکومت آنے پر بتایا گیا کہ اب حالات اس حد تک بگڑ چکے ہیں کہ برطانوی وزیراعظم یا امریکی صدر وغیرہ آصف زرداری سے مصافحہ کرنے کے بعد اپنی انگلیاں گنتے ہیں کہ پوری ہیں یا کرپٹ آصف زرداری نے غائب کر دی ہیں۔
چند سیٹھ وغیرہ بھی سامنے آئے جنہوں نے قوم کو بتایا کہ آصف زرداری نے ان کی ٹانگ سے بم باندھ کر ان کی جائیداد ہتھیانے کی کوشش کی۔ باقی معاملات بھی میڈیا میں آتے رہے جن سے قوم کو پتہ چلا کہ نہ صرف آصف زرداری دنیا کے کرپٹ ترین شخص ہیں بلکہ پیپلز پارٹی بھی کائنات کی کرپٹ ترین جماعت ہے۔
پھر پانامہ پیپرز آ گئے۔ یہ آصف زرداری اور پیپلز پارٹی والے تو کمال کے کرپٹ نکلے۔ نہ صرف یہ کہ ان پیپرز میں باقی سب بڑی جماعتوں کے نام آ گئے لیکن نہ آیا تو دنیا کے کرپٹ ترین لیڈر اور کائنات کی کرپٹ ترین جماعت کا۔ اور اب پنڈورا کا بکسا کھلا ہے تو اس میں پھر وہی معاملہ ہوا ہے کہ آصف زرداری کا نام نہیں ہے۔ لیکن شکر ہے کہ اس مرتبہ شرجیل میمن کا نام آ گیا ہے۔ چلو کوئی ایک بندہ تو سامنے آیا اس کرپٹ جماعت کا۔
اب بعض شدید محب وطن افراد کہیں گے کہ آصف زرداری کا نام اس لیے نہیں آیا کہ وہ لانچوں میں سونا اور ڈالر دبئی بھیجتے تھے۔ اور ساری کمائی وہ پاکستان میں فالودے والوں اور لچھے والوں کے اکاؤنٹ میں ڈال لیتے تھے۔ ادھر سے پتہ نہیں وہ پیسے کہاں جاتے تھے کہ نہ تو پانامہ پیپرز میں سامنے آئے نہ پنڈورا میں اور نہ ہی نیب یا ایف آئی اے کو مل سکے۔
دوسری طرف ان غیر ملکی طاقتوں کی بدمعاشی دیکھیں کہ کرپٹ لوگوں کا تو ذکر ہی نہیں کیا، لسٹ میں ڈالا ہے تو ان کو کہ فرشتے جن کا دامن نچوڑیں تو وضو کریں۔ پانامہ میں ”نیازی سروسز لمیٹڈ“ کی آف شور کا نام ڈال کر کپتان کو بدنام کر دیا۔ وہ تو شکر ہے کہ سپریم کورٹ نے نام صاف کر دیا کہ کپتان نے حق حلال کی کمائی سے یہ کمپنی بنائی تھی اور اس میں غبن، رشوت یا ٹیکس چوری کا پیسہ نہیں تھا اور جس وقت یہ معاملہ ہوا اس وقت وہ عوامی عہدہ بھی نہیں رکھتے تھے۔ اور پاکستان کے رہائشی بھی نہیں تھے کہ یہاں ٹیکس دیتے۔
احمد نورانی چیختے ہی رہ گئے کہ یہ کمپنی اور اکاؤنٹ 2002 سے 2004 اور 2012 سے 2015 کے درمیان موجود تھے جب عمران خان ممبر اسمبلی تھے جبکہ نواز شریف کو جس زمانے میں تنخواہ وصول نہ کرنے پر نا اہل کیا گیا یعنی 2006 سے 2013 تک، اس زمانے میں وہ ممبر اسمبلی نہیں تھے۔ بہرحال احمد نورانی بھی پانامہ اور پنڈورا ٹیم کے ممبر ہیں ان کی بات پر کان نہیں دھرنا چاہیے۔
یہ تو اسحاق ڈار کے فرزند علی ڈار بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ پاکستانی رہائشی نہیں تو پاکستانی ٹیکس ادا کرنا ان کا مسئلہ نہیں۔ صاحب یہی موقف حسن اور حسین نواز کا بھی ہے۔ دیکھیں وہ جو مرضی صفائی دیں یا قانونی نکتہ اٹھائیں، ہمیں یقین ہے کہ وہ کرپٹ ہیں کیونکہ وہ عمران خان نہیں۔
اب پنڈورا پیپرز میں دیکھ لیں۔ آصف زرداری کا نام ڈالا نہیں اور کہہ دیا کہ علیم خان، شوکت ترین، مونس الہی، خسرو بختیار، اور فیصل واؤڈا نے آف شور کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ اب یہ لوگ لاکھ کہیں کہ آف شور کمپنی بنانا غیر قانونی نہیں بلکہ انہیں ٹیکس کے کاغذوں میں چھپانا غیر قانونی ہے، مگر کون سنتا ہے۔ علیم خان تو بتا بھی رہے ہیں کہ انہوں نے ٹیکس میں ذکر کیا ہے۔
مگر صاحب یہ ظالم میڈیا کہاں ایسی باتوں پر کان دھرتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں ہی میڈیا نے شور مچایا ہوا تھا کہ علیم خان کے سما ٹی وی خریدنے کی پیمرا نے غیر قانونی طور پر منظوری دے دی ہے۔ بی بی سی نے کیسے دھڑلے سے لکھ دیا کہ ”سما ٹی وی کے ذمے کروڑوں کے واجبات باقی ہیں اور پیمرا قوانین 2009 کے مطابق کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت کی منتقلی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک اس کے تمام واجبات ادا نہیں کر دیے جاتے“ ۔ یہ بھی لکھا کہ ”پیمرا قوانین کے تحت کسی بھی چینل کے سو فیصد شیئرز یا ملکیت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک اس کے ذمے واجب الادا رقم ادا نہیں کی جاتی“ ۔ بہرحال علیم خان نے کہہ دیا کہ انہوں نے قانونی کام کیا ہے تو تمام دیگر لاہوریوں کی طرح ہم ان کی بات پر یقین کرتے ہیں کہ کیونکہ وہ کبھی غیر قانونی کام کرتے ہوئے پکڑے نہیں گئے۔
خیر مٹی ڈالیں پنڈورا بی بی پر۔ آئیے ولایتی دانش سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ ہمارا تجربہ ہے کہ ولایتی لطیفے ہمیشہ ولایتی کاغذات سے بہتر ہوتے ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ فرانسیسی ماہرین نے پیرس میں ایک سو گز زمین کھودی تو انہیں ایک ہزار برس پرانے تانبے کے کچھ تار ملے اور انہوں نے نتیجہ نکالا کہ قدیم فرانسیسی اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ ہزار برس پہلے پیرس میں ٹیلی فون نیٹ ورک بنایا جا چکا تھا۔ انگریزوں کو یہ خبر ملی تو انہیں نے لندن میں دو سو گز زمین کھود ڈالی اور بیان دیا کہ لندن میں دو ہزار برس قدیم آپٹک فائبر کیبل کے آثار ملے ہیں اور قدیم انگریز اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ وہ آپٹک فائبر استعمال کیا کرتے تھے۔
یہ خبر پا کر آئر لینڈ والوں نے سوچا کہ ہمیں بھی تحقیق کرنی چاہیے۔ انہوں نے ڈبلن میں سو گز زمین کھودی، کچھ نہیں ملا، دو سو گز کھودی کچھ نہیں ملا، پانچ سو گز زمین کھود ڈالی لیکن انہیں کچھ نہیں ملا۔ ان کی حکومت نے اعلان کیا کہ پانچ سو گز زمین کھود کر بھی ڈبلن میں نہ تو تانبے کے تار ملے ہیں اور نہ ہی آپٹک فائبر۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ قدیم آئرش باشندے اتنے زیادہ ترقی یافتہ تھے کہ وہ موبائل فون استعمال کیا کرتے تھے اور وہ لینڈ لائن کے محتاج نہیں تھے۔
تو صاحبو، ان پانامہ اور پنڈورا کاغذات میں آصف زرداری اور پیپلز پارٹی کے کوئی آثار نہیں ملے تو اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آصف زرداری پاکستان کے اور پیپلز پارٹی کائنات کے کرپٹ ترین عناصر ہیں کیونکہ وہ کرپشن میں اتنے ماہر ہیں کہ کہ کسی کو خوب کھدائی کر کے بھی ان کی کرپشن کا ثبوت ہی نہیں ملتا۔
https://www.humsub.com.pk/423248/adnan-khan-kakar-1335/

پنڈرو ا پیپرز کے انکشافات پر پاکستانی وزیر اعظم کی ڈھٹائی

 

وزیر اعظم عمران خان نے پنڈورا پیپرز میں شامل پاکستانی شہریوں کے خلاف تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی تازہ رپورٹ کا خیر مقدم کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اس نانصافی کے خلاف اسی طرح متحد ہوکر کام کرے جس طرح ماحولیاتی آلودگی کے خلاف آواز اٹھائی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے اشرافیہ اپنے ملکوں سے دولت لوٹ کر غریبوں کو ان کی بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ اس کا تدارک ہونا چاہئے۔
متعدد ٹوئٹ پیغامات میں پنڈورا پیپرز میں کئے جانے والے انکشافات پر وزیر اعظم کی یہ تشویش اس وقت زیادہ وزنی محسوس ہوتی اگر ان کا پنا دامن صاف ہوتا اور وہ اپنی کابینہ اور پارٹی کے اعلیٰ مناصب پر فائز لوگوں کا نام ان دستاویز میں آنے پر فوری طور سے ان سے قطع تعلق کا اعلان کرتے ۔ اور وزیر اعظم کے ٹوئٹ کی بجائے ، باقاعدہ حکومتی اعلان سامنے آتا کہ حکومت، پارٹی اور سرکاری عہدوں پر فائز ایسے تمام لوگوں کے خلاف ترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کی جائیں گی جن کے نام پنڈورا پیپرز کی دستاویزات میں شامل ہیں۔ اپنے ساتھیوں کا نا م لے کر ان کے خلاف تمام حقائق منظر عام پر لانے کا اعلان کرنے کی بجائے عمران خان اپنا مخصوص سیاسی ہتھکنڈا بروئے کار لاتے ہوئے ، دنیا کے ممالک سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ غریبوں کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے میں مدد کریں۔ کیوں کہ وہ گزشتہ بیس سال سے اس معاملے پر کام کررہے ہیں اور اب اس بارے میں دستاویزی شواہد بھی سامنے آئے ہیں۔
عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر کی بنیاد ہی مخالفین کی کرپشن کو بنایا تھا۔ وہ الزام تراشی کی سیاست کی وجہ سے ہی اسٹبلشمنٹ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے کیوں کہ اس ملک میں سیاسی عمل کا راستہ روکنے کے لئے روز اول سے سیاست دانوں کی بدعنوانی کو تمام قومی مسائل کی جڑ قرار دیا گیا تھا۔ یکے بعد دیگرے اس ملک پر حکمرانی کرنے والے تمام فوجی جرنیلوں نے اسی قسم کے دعوے کئے تھے جو اس وقت عمران خان کا تکیہ کلام ہیں ۔ پھر وقتی ضرورت کے تحت اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لئے ایسے ہی سیاست دانوں کا سہارا بھی لیا گیا۔ ایسا کرتے ہوئے بدعنوانی اور چوری کے تمام الزامات بھلا کر آمرانہ حکومتوں کا ساتھ دینے والے لوگوں کو اعلیٰ عہدوں سے سرفراز بھی کیا گیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ ستر برس سے جاری اس بازی گری میں کبھی نظام کو درست کرنے، معاشرے سے بدعنوانی کا چلن ختم کرنے اور سماج سدھار کا کوئی اقدام کرنے کی کبھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر نعروں اور دعوؤں کے باوجود پاکستانی نظام اوپر سے نیچے تک کرپٹ ہے۔ کسی سرکاری، نیم سرکاری حتی کہ نجی اداروں سے متعلق معاملات رشوت دیے بغیر طے کروانا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر حکومت نظام کی اصلاح کا اعلان کرتی ہے اور بالآخر خود اسی نظام کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے مناسب سمجھتے ہوئے اسے گلے لگا لیتی ہے۔ یہ کام اس وقت عمران خان بھی بطور وزیر اعظم کررہے ہیں۔ ایک بدعنوان معاشرے میں ایک ایسی ٹیم کے ساتھ حکمرانی کرنے والا وزیر اعظم نہ جانے کس منہ سے دنیا کو کرپشن سے نمٹنے کا سبق پڑھانا چاہتا ہے جس کے اپنے رفقا میں سے متعدد کے مالی معاملات کے بارے میں شبہات سامنے آتے رہے ہیں ۔ اور اب پنڈورا پیپرز میں بھی اس بات کی تصدیق ہوئی ہے۔ حتی کہ ملک کے وزیر خزانہ کے بارے میں بھی آف شور کمپنیوں کا مالک ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ لیکن دیانت دار معاشرہ تعمیر کرنے کا خواب دکھانے والا وزیر اعظم یہ حقائق نظر انداز کرکے کرپشن کے خلاف اپنا سیاسی نعرہ بیچنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
اس سے پہلے عالمی صحافیوں کا یہی کنسورشیم 2016 میں پاناما پیپرز کے نام سے بڑی تعداد میں دستاویز ات جاری کرچکا تھا۔ متعدد ممالک میں ان انکشافات کی بنیاد پر ملکی قوانین کے مطابق تحقیقات کی گئیں اور جن لوگوں پر ٹیکس چوری یا منی لانڈرنگ کا الزام ثابت ہوگیا، انہیں قانون کے مطابق سزائیں دی گئیں ۔ تاہم پاکستان وہ واحد ملک ہے جس میں پاناما پیپرز کے انکشافات کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا گیا اور ملک پر حکمران شخص اور جماعت کو بے آبرو کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ نواز شریف اور ان کے بچوں کو پاناما پیپرز میں سامنے آنے والی معلومات کو بنیاد بنا کر شدید انتقام کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہی دستاویزات میں جن دیگر 300 کے لگ بھگ پاکستانیوں کا نام آیا تھا، اس بارے میں کسی بھی فورم سے کوئی کارروائی سننے میں نہیں آئی۔ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی لے گئے تھے لیکن ایک ’غیر وصول شدہ‘ تنخواہ کا ٹیکس گوشوارے میں ذکر نہ کرنے پر ملک کے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے والی اعلیٰ ترین عدالت کو بھی اس معاملہ میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ حالات کی یہی گھناؤنی تصویر کرپشن کے خلاف تمام دعوؤں اور وعدوں کو باطل کرتی ہے کیوں کہ ملک میں بدعنوانی ختم کرنے کی بجائے اس نعرے کی بنیاد پر ناپسندیدہ عناصر کو سیاسی راستے سے ہٹانا اصل مقصد ہوتا ہے۔ عمران خان اس حکمت عملی سے مفاد اٹھانے والے لیڈر ہیں۔ اسی لئے انہیں بدعنوانی کے خلاف کوئی قابل رشک علامت قرار نہیں دیا جاسکتا۔
عمران خان کی حکومت کو تین برس مکمل ہوچکے ہیں۔ ان تین برسوں میں ان کا ٹارگٹ صرف سیاسی مخالفین رہے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن لیڈروں کی کردار کشی کا بھرپور اہتمام کیا ہے اور اپنی تمام صلاحیتیں اسی مقصد کے لئے صرف کی ہیں۔ وہ اب بھی سیاست دانوں کو این آر او دینے سے انکار کرتے ہیں لیکن دہشت گردوں کو این آر او دینے کے لئے بے چین ہیں۔ وہ بدعنوانی ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کا دائرہ نواز شریف سے شروع ہو کرآصف زرداری پر مکمل ہوجاتا ہے۔ سہ سالہ کارکردگی کے طور پر بھی وہ سیاسی مخالفین کی کردارکشی کو ہی اپنی سب سے بڑی کامیابی کے طور پر پیش کرسکتے ہیں، ورنہ معیشت، سفارت اور سلامتی کے امور میں پاکستان کی حالت مسلسل دگرگوں ہے۔ اگر کرپشن کے خلاف عمران خان کا مقدمہ مضبوط اور ارادے نیک ہوتے تو وہ اس تین برسوں میں سیاسی مخالفین کے خلاف زیر سماعت مقدمات پر جلسوں، انٹرویوز اور ٹوئٹ پیغامات میں فیصلے صادر کرنے کی بجائے، ان تمام لوگوں کے خلاف بھی تحقیقات کا اہتمام کرتے جن کے نام نوازشریف کے علاوہ پاناما پیپرز میں شامل تھے۔ تین سو لوگوں کے بارے میں خاموشی اور ایک شخص کے خلاف مہم جوئی کو صرف سیاسی سرکس کہا جائے گا۔ حصول اقتدار کے لئے کی جانے والی یہ کاوش بھی درحقیقت بدعنوانی ہی کی ایک بدترین قسم ہے جس میں ملک کے آئینی انتظام اور تقاضوں کو پس پشت ڈال کر طاقت ور عہدیداروں اور اداروں کو مطمئن و خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
بدعنوانی کے خلاف نعرہ زن جو حکومت پاناما پیپرز میں شامل تمام لوگوں کی تحقیقات کا ریکارڈ پیش نہ کرسکتی ہو، اس کے سربراہ کا یہ وعدہ کیسے قابل اعتبار ہوسکتا ہے کہ پنڈورا پیپرز میں جن کے نام سامنے آئے ہیں، ان کے خلاف تحقیقات ہوں گی اور قانون شکنی کرنے والوں کو سزا دی جائے گی۔ پاکستان میں عالمی سطح پر ہونے والے ایک اہم اور قابل قدر صحافتی کام کو محض سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ عمران خان بدعنوانی سے لوٹی ہوئی دولت کو امیر ملکوں سے واپس لانے کی جس جد و جہد کی بات کرتے ہیں، اسے مضبوط کرنے کے لئے تحریک انصاف کی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔ اس موضوع پر سیاست کرکے البتہ اس کاز کو نقصان پہنچانے کا اہتمام ضرور کیا گیا ہے۔ اب پنڈورا پیپرز سامنے آنے کے بعد بھی عمران خان وہی پرانا ہتھکنڈا اختیار کررہے ہیں۔
آئی سی آئی جے نے پہلے پاناما پیپرز اور اب پنڈروا پیپرز کے ذریعے دراصل اس بنیادی نکتہ کو سیاسی ایجنڈے کا حصہ بنانے کی کوشش کی ہے کہ متعدد ملکوں کے بااثر، دولت مند اور طاقت ور لوگ اپنی دولت کو چھپانے کے لئے آف شور کمپنیوں کا سہارا لیتے ہیں۔ ان کمپنیوں کے ذریعے عوام کو حقیقی مالکان کا پتہ نہیں چلتا لیکن اب صحافتی تحقیقات کے نتیجہ میں ایسے ہزاروں لوگوں کا انکشاف کیا گیا ہے جو ان کمپنیوں کے ذریعے متعدد کاروبار، املاک یا اثاثوں کے مالک ہیں۔ ان دستاویزات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان لوگوں نے واقعی قانون شکنی کی ہے لیکن متعلقہ ممالک کی حکومتیں ان معلومات کی بنیاد پر تحقیقات کرکے یہ اندازہ کرسکتی ہیں کہ کن لوگوں نے ٹیکس چوری کیا، بدعنوانی سے اثاثے بنائے یا وہ منی لانڈرنگ میں ملوث رہے۔ البتہ یہ کام صرف اسی صورت میں ممکن ہے اگر کسی ملک کا نظام ٹھوس قانونی بنیاد پر استوار ہو اور بدعنوانی سیاسی خواہش کے لئے نعرے کے طور پر استعمال نہ کی جاتی ہو۔
آئی سی آئی جے نے پنڈروا پیپرز کے تحت ایک کروڑ 19 لاکھ 3 ہزار 707 دستاویزات شائع کی ہیں۔ ان میں 29 ہزار کمپنیوں کے حقیقی مالکان کا سراغ لگایا گیا ہے۔ دنیا کے 117 ملکوں کی 120 میڈیا کمپنیوں کے 600 صحافیوں نے دو سال تک یہ معلومات جمع کرنے کے لئے کام کیا ہے۔ ان میں 90 ملکوں کے 300 سیاست دان شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ ایسی خفیہ کمپنیاں بناتے ہیں جنہیں ٹیکس میں سہولت دینے والے ملکوں کی کمپنیاں معمولی معاوضے پر یہ خدمات فراہم کرتی ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں جو نام نمایاں ہیں ان میں اردن کے شاہ عبداللہ دوئم، یوکرائن ، کینیا اور ایکواڈور کے صدور اور چیکیہ کے وزیر اعظم شامل ہیں۔ پاکستان کے 700 جبکہ ناروے کے 300 لوگوں کے نام اس فہرست میں موجود ہیں۔ تاہم آف شور کمپنیاں بنانے والوں میں روسی شہری سر فہرست ہیں۔ حالیہ انکشافات کے مطابق ان کی تعداد 4437 ہے۔ اس کے بعد برطانیہ، ارجنٹائین، چین اور برازیل کے نام آتے ہیں۔
تحقیقاتی رپورٹ تیار کرنے والے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس کا خیال ہے کہ آف شور کمپنیوں کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک سے 6 سے 32 کھرب ڈالر کو چھپایا گیا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا خیال ہے کہ اس طریقہ سے ہر سال دولت مند لوگ مختلف ممالک سے 600 ارب ڈالر ٹیکس خرد برد کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ تحقیقات اس عالمی تحریک کا حصہ ہیں جس کے تحت ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور بدعنوانی کے خاتمہ کے لئے کام کیا جارہا ہے۔ اس اہم کام میں ہاتھ بٹانے کے لئے تمام ممالک کو دولت چھپانے کے رجحان کے خلاف قوانین بہتر بنانے ہوں گے اور قانون شکنی کرنے والے تمام عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کرنا ہوگی۔
https://www.humsub.com.pk/423184/syed-mujahid-ali-1924/

آف شور کمپنیوں کے شور میں دبتا غریب عوام کا شور

ثروت رضوی

کہتے ہیں کہ کسی بھی آزاد ریاست میں سانس لینے والے ذی روح کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسے ریاستی اور بین الریاستی معاملات سے مکمل آگاہی حاصل ہوتی رہے۔ اس وضاحت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو آج کل ہمارے ملک کا میڈیا اپنی ذمے داریاں بخیر و خوبی نا صرف نبھا رہا ہے بلکہ عوام الناس چاہے یا نہ چاہے انھیں زبردستی میڈیا کی منشا کے مطابق خبریں دیکھنے اور سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ ایسا ماضی میں تو ہوتا ہی رہا ہے تاہم اگر ہم حال کی بات کریں تو پچھلے چند روز سے خبروں میں پنڈورا پیپرز کی دھوم تھی۔

ہر دوسرے چینل پر خبروں میں پنڈورا پیپرز کے حوالے سے خبریں نشر کی جا رہی تھیں تو دوسری جانب تمام ٹاک شوز کا موضوع بھی یہ ہی پنڈورا پیپرز تھے۔ ایسے میں میڈیا جیسے یہ بھول ہی بیٹھا کہ ملک کے حالات اس وقت حقیقتاً نازک دور سے گزر رہے ہیں، ملک میں غربت اور افلاس کس حد تک بڑھ چکا ہے۔ صبح سے پنڈورا پیپرز کی آمد کا انتظار ایسے کیا جا رہا تھا جیسے دنیا میں اس سے اہم کوئی اور بات ہے ہی نہیں۔ ہر جانب راوی چین ہی چین تو لکھ رہا ہے، پیٹرول کی قیمت عوام کی قوت خرید سے مطابقت رکھ رہی ہے، مہنگائی کا جن غریب آدمی نے اپنی مٹھی میں کر لیا ہے، ملک میں نہ چوری ہے نہ ہی ڈاکا زنی، ایسے میں تو یقیناً پنڈورا پیپرز کا انتظار بنتا ہی ہے تاکہ بلیٹن اور حالات حاضرہ کے پروگرامز کا پیٹ بھرنے کو خاطر خواہ مواد تو مل سکے۔

لیکن جناب یہ سب باتیں محض فسانہ ہی تو ہیں حقیقت تو اس کے یکسر برعکس ہے۔ ملک میں اس وقت مہنگائی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے، پیٹرول کی قیمت میں اضٓفہ ایک معمول کی بات بن چکی ہے لاگ حکومتی کارکردگی سے حد درجہ نالاں نظر آتے ہیں ایسے میں جہاں ایک آدمی کو اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کی فکر بے حال کیے ہوئے ہے وہاں بھلا کسے دلچسپی ہو سکتی ہے پنڈورا پیپرز میں۔ لیکن ہمارا معصوم میڈیا اسے عوام سے زیادہ خواس کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے تو شاید انھیں کو خوش کرنے کے لیے سب مل کے لگے تھے پنڈورا باکس کھولنے میں۔ یہ ہی نہیں بعضی جگہوں پر تو باقاعدہ کا ؤنٹ ڈاؤن بھی دیے جا رہے تھے کہ پنڈورا پیپرز کا راز فاش ہونے میں اتنے گھنٹے اتنے منٹ باقی ہیں جیسے کہ پنڈورا باکس نہ ہو گیا سال نو ہو گیا جس کا لوگوں کو شدت سے انتظار ہو گا۔

اگر اس صورتحال کا حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ سوال بھی ذہین میں آتا ہے کہ کتنے فیصد عوام ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ پنڈورا پیپرز ہے کس بلا کا نام اور آف شور کمپنیز بنانے کا مقصد کیا ہوتا ہے۔ یہاں ہم مختصراً ً اپنے جیسے کچھ نہ جاننے والے قارئین کی معلومات میں اضافہ کرتے چلیں کہ پنڈورا پیپرز اصل میں چودہ آف شور کمپنیوں کی فائلز پر مشتمل رپورٹ ہے جو دنیا بھر کے میڈیا کے ساتھ شیئر کی گئی ہے تاکہ اس ملک کے لوگ اپنے لوگوں کے اثاثوں کے بارے میں واقفیت حاصل کرسکیں۔

پنڈورا پیپرز میں یوں تو دنیا بھر کے مشہور لوگوں کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں بتایا گیا ہے تاہم ہمارے ملک میں آف شور کمپنیوں کی تاریخ کے باعث پنڈورا پیپرز کی اہمیت دیگر ممالک سے کہیں زیادہ سمجھی گئی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت مزید اہم ہے کہ آف شور کمپنی کا کسی کے نام پہ ہونے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ شخص کسی جرم کا مرتکب ہی ہوا ہے۔ آف شور کمپنیوں کا ہونا کسی شخص کو مجرم ثابت نہیں کرتا اور یہ کمپنیاں قانونی طور پر اپنا مقام بھی رکھتی ہیں تاہم ہمارے سیاستدانوں کے پس منظر کو دیکھتے ہوئے یہ گمان غالب آتا ہے کہ جس کی آف شور کمپنی ہوگی اس نے یقیناً اپنی رقم چھپانے کے لیے ہی بنائی ہوگی جو مکمل طور پر صحیح۔

اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان نے پہلے ہی عوام کو آگاہ کر دیا تھا کہ جرم میں ملوث ہر شخص کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔ ایسے میں شو مئی قسمت کے خود عمران خان صاحب کی پارٹی کے کئی اراکین پنڈورا پیپرز کے مطابق آف شور کمپنیوں اور کئی ملین ڈالر پر مشتمل ٹرسٹ کے مالک نکلے۔ ایسے میں حکومت کی جانب کئی سوال اٹھے جن کا دفاع کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے ڈالی۔ اس صورتحال میں حکومت مخالف ارکان اس پنڈورا باکس کو تابوت کی آخری کیل سے تشبیہ دیتے بھی نظر آئے تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کی کابینہ کے اراکین کے ملوث ہونے کی خبر اتنا وزن ہر گز نہیں رکھتی کہ پوری حکومت ہی کو ہڑپ کر جائے۔

جناب ابھی اور پر خطر اور دشوار گزار راستے آنے ہیں دھیرج رکھیں اور امید کا دامن نہ چھوڑیں۔ پنڈورا پیپرز کی بارہ مصالحے کی چاٹ میں فواد چوہدری کے ٹویٹس نے اور بھی ذائقہ پیدا کیا۔ جنید صفدر کی آف شور کمپنیاں ہیں یا نہیں ہیں یہ بات اب کافی حد تک واضح ہو چکی ہے تاہم عوام کی نگاہوں میں سوال اب بھی باقی ہیں۔

پنڈورا پیپرز کے حوالے سے میڈیا کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ اپنے تو اپنے پرایوں کی آف شور کمپنیوں کی خبر بریکنگ کی طرح چلائی گئی۔ گلوکارہ شکیرا سے لے کر ولادی میر پیوٹن تک سب ہی خوب رگڑا دیا گیا۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ای پنڈورا پیپرز کے حوالے سے غیر ملکی میڈیا کی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ وہاں ایک آدھ خبر سے زیادہ کچھ چلایا ہی گیا جبکہ ہمارے ہاں تو دیوانگی کا عالم نہ پوچھیے والا معاملہ دکھائی دیا۔

ایسے میں بس یہ ہی سوال ذہین میں اٹھتا ہے کہ ہم اور ہمارا نیوز میڈیا اس حد تک بے حس ہوچکے ہیں کہ ان کو عوام کا دکھ درد نہ نظر آتا ہے نہ وہ کسی اور تک یہ خبر پہنچایا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے اہم ہے تو بس سرکاری خبروں کی نشر و اشاعت باقی سب محج بلیٹن کا پیٹ بھرنے خانہ پری ہے؟ لمحہ فکریہ ہے یہ ہم سب کے لیے کہ من حیث القوم ہم کہاں جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں جس کا ردعمل آنے والے وقتوں میں دیکھنے کو مل سکتا ہے

https://www.humsub.com.pk/423392/sarwat-rizvi-14/

Breeding Grounds For Terrorists: Analyst To UN On Pak, Afghan Madrasas

"Leverage that must be used to prevent the loss of another generation of young Afghans to Madrassa-bred radicalism," UN Human Rights Session Anne Heckendorff said.
A research analyst at the European Foundation for South Asian Studies (EFSAS) has expressed concern over religious schools in Pakistan and Afghanistan becoming breeding grounds for terrorists.In her virtual speech at the 48th session of UN Human Rights Session Anne Heckendorff said, "It is well-known that the menace of terrorism in South Asia has largely grown out of religious schools, the so-called Madrassas. These schools that often times instill a distorted, ultra-conservative interpretation of Islam still flourish uninhibitedly in Pakistan and Afghanistan".
"The Taliban and the dreaded Haqqani network were born from such Madrassas in Pakistan. Lashkar-e-Taiba (LeT), Jaish-e-Mohammed (JeM) and other terrorist organisations continue operating such terror factories in Pakistan under the protection of the country's powerful intelligence agency," she said.
In Pakistan and Afghanistan, there are numerous illegal "madrasas'' or religious schools which force the youth towards "jihad''. They teach them hatred against other religions and motivate them towards gun culture.
"The International Community must not be appeased with the Taliban's false promises of education. What is schooling worth, if instead of raising a workforce capable of leading their country onto a path of peace and development, creates foot soldiers indoctrinated into a worldview defined by misogyny and hatred?," Ms Heckendorff told UNHRC.
"The lack of economic independence of the Taliban and their patron State next door has a silver lining: it gives leverage to the international community. Leverage that must be used to prevent the loss of another generation of young Afghans to Madrassa-bred radicalism", she said in her speech.
The research analyst concluded by saying, "Placing conditions on diplomatic and economic engagement to ensure human rights-conform education, without which the right to development can hardly be realized, is the most meaningful investment we can make in Afghanistan's future".
https://www.ndtv.com/world-news/madrasas-in-pakistan-afghanistan-becoming-breeding-grounds-for-terrorists-says-research-analyst-to-un-2563482

The PPP will form a government in the centre and all the provinces – Chairman PPP Bilawal Bhutto Zardari

The Chairman Pakistan Peoples Party, Bilawal Bhutto Zardari has said that if fair and transparent elections are held then the PPP will form governments in the centre and all the four provinces. The people of Kashmir have sent this message to the entire Pakistan in recently held elections in Kashmir.
Chairman PPP said this while addressing a huge public rally in Charhoi, Kotli Azad Kashmir in connection with the by-election scheduled for 10 October where the PPP candidate is Chaudhry Amir Yasin. Chairman Bilawal said that this puppet government in Azad Kashmir is busy in conspiracies against PPP so it has initiated a false case against Chaudhry Amir Yasin and he is languishing in jail. He said that the jiyalas are competing in two by elections against this puppet government. He said that these jiyalas have won wars against dictators and this puppet does not stand a chance against jiyalas. The Jiyalas will defeat the puppets once again.
Chairman Bilawal Bhutto Zardari said that he has travelled by road all over Sindh and south Punjab and has witnessed that the jiyalas are ready to defeat these puppets and fulfil the mission of Quaid-e-Awam Shaheed Zulfikar Ali Bhutto and Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto. We will provide relief to the growers, labourers and students. We will give them relief from poverty, unemployment and price-hike. There is only PPP which can provide relief to the people of Pakistan and Azad Kashmir.
Chairman PPP said that this PTI government is anti-people and anti-poor. This government presided over the sacking of 16000 employees. These employments were provided to the people by Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto. This government made 10 thousand employees of Pakistan Steel Mills Karachi unemployed. This is a government which is enemy of the people. This government came to power by making false promises to the people of Pakistan and Azad Kashmir. Where are 10 million jobs and 5 million houses, he asked. We have to hold this puppet government accountable. The next Prime minister and chief ministers of all four provinces will be jiyalas, Chairman PPP said.
https://www.ppp.org.pk/pr/25571/