Saturday, March 28, 2020

Urdu Music - Naheed Akhtar - Teri Ulfat Mein Sanam

Video Report - #StayAtHomeAndStaySafe #Pakistan Mullahs Forcing You To Attend Religious Gatherings Biggest Conspirators

COVID-19: Pakistan losing time to ‘act decisively’



Think-tank casts doubts over the effectiveness of government response.
As COVID-19 positive cases continue to surge across Pakistan infecting nearly 1,400 people and killing 11 so far, a Washington-based think tank has said that Prime Minister Imran Khan is losing precious time to act decisively to fight the pandemic in his country.
Madiha Afzal, a researcher at Brookings Institute has said, “Khan’s handling of the COVID-19 crisis reveals the limits of his populism, the precariousness of his position, and his lack of experience in dealing with a crisis.”
“While many Muslim-majority countries, including Saudi Arabia, have canceled communal prayers, Pakistan’s mosques remain open. The country’s health system -- with dated and limited public health facilities, and costly private hospitals inaccessible to all but the rich -- is woefully unprepared to deal with COVID-19 and its influx of critically ill patients. Doctors lack personal protective equipment; at least one of the nine victims so far is a doctor,” the researcher said.
“The consequences of letting the disease spread further would be devastating. And Pakistan’s initial coronavirus response is already exposing concerning political patterns -- including the powerful army asserting competence over the civilian government-- that will persist beyond the pandemic,” she asserted.
“Internal government projections are dire,” Afzal noted while further questioning that should a federally mandated lockdown work amid such circumstances.
Pakistan’s army and police can be effective enforcers in Sindh, which has the strictest measures in place. Around 300 people have been arrested for violating the lockdown. But the military establishment may not be able to reach remote parts of the country, and will likely be ineffective, the report said.
“Pakistan’s prime minister is losing precious time to act decisively, and his dawdling is confusing the citizens,” it added.
In recognition of this fact, perhaps, the government’s press conference on March 26 did not feature Khan, but was led by Asad Umar, his planning minister.
“What Pakistan needs now is for Khan to back a lockdown wholeheartedly, including shutting down mosques, rather than hope for a miracle. The alternative is a disaster no country, least of all Pakistan, can afford,” the researcher added.

https://gulfnews.com/world/asia/pakistan/covid-19-pakistan-losing-time-to-act-decisively-1.1585395770299

#StayAtHomeAndStaySafe - کرونا وائرس نام نہاد لیڈر شپ نگل گیا

وزیراعظم تو خود کھلاڑی ہیں ان کو تو پتہ ہوگا کہ انسان آدھی جنگ اسباب سے تو باقی جنگ اعصاب سے جیتتا ہے، انہوں نے تو ابھی سے ہتھیار ڈال دیے۔

اسے مشیت خدا کہیے، قدرت کا نظام، فطرت کا انتقام کہیے، اسرائیل امریکہ کی سازش سمجھیں یا انسان کی غلطیوں کا خمیازہ، لیکن انسانی آنکھ سے نظر تک نہ آنے والا کرونا وائرس نوع انسانی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر چکا ہے۔
کچھ سال قبل جب ڈینگی نے پنجے گاڑے تھے تب یہ عجب لگتا تھا کہ ایک نازک سا مچھر اپنے ڈنک سے آدمی کے جسم میں موجود کیمکل کے توازن کو اُتھل پُتھل کرسکتا ہے۔ یہ ننھا سا مچھر، چہ پدی چہ پدی کا شوربہ، خون جمانے کی صلاحیت ختم کردیتا ہے۔ موا مچھر تو پھر ایک دو تالیوں کے بیچ پس سکتا تھا، اب اس ان دیکھے کرونا کا کیا کیجیے؟
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کرے ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
میر تقی میر نے کچھ غلط شکوہ نہیں کیا، دنیا کے اس گولے کے اوپر کشش ثقل سے چپکے انسان اپنی قسمت کے فیصلے خود نہیں کرسکتے۔ کہیں ان زندگیوں پر لوح محفوظ پر لکھا اچھا برا پورا اتر رہا ہے اور کہیں خدا کا نائب یعنی خود انسان ہی انسان پر مسلط ہے۔
ہم پہ مسلط انسان جنہیں ہم سسٹم چلانے کی خاطر لیڈر، نجات دہندہ کہہ کر دل بہلاتے ہیں، اکثر آڑھے وقت میں بھوسے کی ڈھیری ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ہی کرونا کا وائرس ہماری نام نہاد لیڈرشپ نگل گیا۔
جنوری فروری پورے دو مہینے ملے کہ تیاری پکڑ لو مگر نہیں پکڑی۔ ملکی سرحدوں پر کرونا چیک لگانے کے لیے انہیں ایک ماہ بھی کافی تھا مگر نہیں کیا۔ فروری کے پہلے ہفتے میں ایران سے کرونا وائرس کی شدت اور ہلاکتوں کی خبریں آنے لگیں مگر مزید زائرین کے ایران یا عراق جانے پر پابندی نہیں لگائی۔
میری ایران، عراق قافلے لے جانے والے قافلہ سالار شبیر رضا سے خاصی طویل گفتگو ہوئی۔ شبیر رضا سیالکوٹ سے زائرین کا گروپ لے کر پہلے عراق پھر ایران گئے تھے۔ وہ اس وقت پاک ایران تفتان سرحد پر بنائے ایک قرنطینہ مرکز میں موجود ہیں۔ میں نے صحت پوچھی تو کہنے لگے کہ بیابان علاقے تفتان میں رات کو اتنی ٹھنڈ پڑتی ہے کہ کرونا نہیں نمونیا مار دے گا۔
تفتان سرحد پر جہاں زائرین کے کیمپ ہیں، وہیں ان خیمہ بستیوں میں ایک گروپ پاکستانی تاجروں کا بھی ہے۔ ایک پاکستانی تاجر نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے خیمہ تکیہ رضائی تو دی ہے مگر صفائی نہیں۔ کئی سو افراد کے لیے گنتی کے 12 ٹوائلٹ ہیں۔
شبیر رضا نے شکوہ کیا کہ تفتان کسٹم ہاؤس کے ساتھ موجود جس عمارت میں عارضی ہسپتال بنایا گیا ہے، وہ خود کرونا وائرس کی نرسری بن گئی ہے۔
جن لوگوں کا اعتراض ہے کہ زائرین کو واپس آنے کیوں دیا، انہیں وہیں قم یا مشہد میں رہنے دیا ہوتا، ان سے عرض ہے کہ ایرانی حکومت وضاحت سے کہہ چکی ہے کہ عالمی پابندیوں کے باعث ایران اپنی عوام کو کرونا سے بچانے سے قاصر ہے کجا یہ کہ وہ زائرین کو طبی سہولیات دیتی۔
دوسرا یہ کہ آپ زبردستی اپنے شہریوں کو کسی دوسرے ملک میں نہیں رکھ سکتے، چین کی بات اور تھی۔ چین میں موجود پاکستانیوں کی اکثریت کے پاس مستقل رہائش یا ہاسٹل کا بندوبست تھا جبکہ زائرین صرف دس، پندرہ دن کے سفر کی تیاری کر کے گھر سے نکلتے ہیں اس لیے کسی دوسرے ملک میں ان کا مہینوں اپنے وسائل سے رہنا تقریباً ناممکن تھا۔
پاکستان کے پاس دوسرا آپشن وہ حکمت عملی تھی جو تہران میں بھارتی سفارت خانے نے اپنائی، یعنیٰ بھارتی شہریوں کے لیے قرنطینہ مرکز ایران کے بڑے ہوٹلوں میں قائم کر دیے۔ ایران میں پھنسے بھارتی زائرین بھی شکایت کر رہے ہیں مگر کم از کم یہ ایرانی ہوٹل اس پیمانے پر کرونا پھیلانے کا سبب نہیں بن رہے ہوں گے جو حال تفتان قرنطینہ میں ہو رہا ہے۔
چین کے وبا زدہ علاقے ہوبائی سے آنے والے ایک طالب علم نے مجھے واٹس ایپ پر پیغام بھیجا کہ جو چھچھورپن ہمارے یہاں کرونا وائرس کو لے کر ہو رہا ہے، جتنی غیر سنجیدہ ہماری حکومت ہے اسے دیکھ کر احساس ہو رہا ہے کہ واپس آنے سے تو بہتر تھا کہ ہم چین میں ہی رہ جاتے۔
رہ گئی بات زلفی بخاری کے مشتبہ کردار کی تو اب تک میں نے جتنے بھی شیعہ علما اور زیارت ٹور آپریٹرز سے بات کی، سب زلفی بخاری کی بے اعتنائی سے ناراض ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ زلفی بخاری نے کچھ مدد کی ہوتی تو زائرین پندرہ، بیس دن تفتان سرحد پر یوں خوار نہ ہوتے۔
خود زلفی بخاری اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ جو پاکستانی تفتان سرحد پر پاکستان کے دروازے تک آگئے آپ ان پر ان کے ملک کے دروازے کیسے بند کر سکتے تھے؟ زلفی بخاری کے سارے جواب قبول مگر جن پاکستانیوں کا آپ کو اتنا درد تھا ان کے لیے کچھ بہتر انتظامات بھی کرا لیے ہوتے۔
یہ زائرین حکومت پاکستان سے چوری چھپے ایران، عراق نہیں گئے تھے۔ ان کی تعداد، ویزہ کی مدت، واپسی کی ممکنہ تاریخ سب کچھ حکومت کے علم میں تھا سو ان کی واپسی پر خطرے سے نمٹنے کی تیاری حکومت کا کام تھا۔
ٹوئٹر پر ایک شہزادہ گلفام فرماتے ہیں کہ تفتان قرنطینہ مرکز سے فرار ہونے والے افراد کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا جائے۔ شہزادے سے یہ پوچھ لینا چاہیے کہ جن کی مجرمانہ غفلت سے کرونا وائرس درجنوں سے سینکڑوں افراد تک پھیل گیا ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟
اپنی نااہلی اور غفلت سے جو خطرہ وفاقی حکومت نے پیدا کیا ہے اس خطرے سے اس وقت اکیلی سندھ حکومت نمٹ رہی ہے اور خوب نمٹ رہی ہے۔
سکھر کے علاقے گولیمار میں حال ہی میں تعمیر لیبر کالونی کے فلیٹوں کو قرنطینہ مرکز بنایا گیا ہے۔ اس قرنطینہ مرکز میں کے ڈی سی (خیرپور ڈیزاسٹر مینجمنٹ سیل) نامی مقامی تنظیم بطور رضا کار کام کر رہی ہے۔
کے ڈی سی کے نمائندے اظہر بروہی نے بتایا کہ ان فلیٹس میں کرونا مریضوں کے لیے صحت و صفائی کے انتظامات بہترین ہیں۔
کے ڈی سی کے رضا کار کرونا مریضوں کے لیے پڑھنے کو کتابیں لا رہے ہیں۔ مشتبہ اور تصدیق شدہ مریضوں کا معائنہ ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیم کرتی ہے جبکہ طبی سہولیات کے لیے میڈیکل کے طلبہ بھی بطور رضاکار موجود ہیں۔
کراچی میں اس وقت نجی ہسپتال، بلامنافع کام کرنے والے ادارے، این جی اوز اور مقامی سیاسی قیادت مل کر کام کر رہی ہیں۔ جماعت اسلامی بھی ملک کے مختلف علاقوں میں اپنی بساط کے مطابق طبی مراکز قائم کر رہی ہے اور بارہا جتا رہی ہے کہ دعا کرو، دوا کرو۔
ہاں ایک جماعت ہے جس نے اپنے محلات میں بیٹھ کر بیان داغنے کا آسان کام پکڑا ہوا ہے۔
ضروری نہیں کہ لیڈرشپ کے جلوے اسی وقت دکھائے جائیں جب آپ حکومت میں ہوں، اس لیے کرونا کرائسسز میں حکومت کی نااہلی کے ساتھ ساتھ نام نہاد قائدین کے منفی کردار پر تنقید بنتی ہے۔
اس وقت پوری مسلم لیگ ن صرف عمران خان اینڈ کمپنی کے لتے لینے پر لگی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کا بحران کی اس گھڑی میں کردار صفر ہے۔
جہاں چاہ وہاں راہ، یہ وہی سندھ ہے جسے ہم پچھلے سال رو رہے تھے کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین تک موجود نہیں۔ آج وہی سندھ ہے جو بحران میں لیڈر بن کر ابھرا ہے۔ اگر ہم ٹشن کی بجائے کام کو اہمیت دیں تو مراد علی شاہ ہمارے نئے قومی ہینڈسم ہیں۔
سائنس دان کہہ رہے ہیں کرونا وائرس سے ہماری قوت مدافعت لڑتی ہے، ٹھیک ہے مگر اجتماعی مصیبت کے خلاف قوم کی اجتماعی قوت مدافعت بھی تو کوئی معنی رکھتی ہے۔
وزیراعظم تو خود کھلاڑی ہیں ان کو تو پتہ ہوگا کہ انسان آدھی جنگ اسباب سے تو باقی جنگ اعصاب سے جیتتا ہے، انہوں نے تو ابھی سے ہتھیار ڈال دیے

کورونا وائرس: پاکستان میں صوبائی حکومتوں کو وزیراعظم عمران خان کی مخالفت کا سامنا - تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے کو سیاست سے الگ کرکے قومی مسئلہ کے طورپر دیکھنے کو تیار نہیں

پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے، ملک میں مصدقہ کیسز کی تعداد چودہ سو سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت اس معاملے کو سیاست سے الگ کرکے قومی مسئلہ کے طورپر دیکھنے کو تیار نہیں۔
مبصرین کہتے ہیں کہ عمران خان بھی وہی غلطی کر رہے ہیں جو کورونا سے متاثر  چار بڑے ممالک کے سربراہان نے کی، امریکی صدر ٹرمپ اپنی قوم کو صورت حال کنٹرول میں ہونے کا جھوٹا دلاسہ دیتے رہے، اسپین میں کورونا وائرس کے کیسسز کی تصدیق کے باوجود عورت مارچ منعقد کرنے کی اجازت دی گئی، اٹلی کے عوام نے اپنی حکومت کی بات نہیں مانی اور حکومت نے بروقت لاک ڈاؤن نہیں کیا جبکہ ایران میں تو روحانی پیشوا اور حکومت دونوں نے ہی کورونا وائرس کی وبا کو امریکی سازش سمجھ کر عوام کو متنبہ کرنے کی بجائے تسلی اور دلاسے دیے۔ غیر معمولی صورت حال میں وزیراعظم عمران خان کو سوچنا ہوگا کہ کہیں وہ پچیس فیصد شہریوں کو درپیش ممکنہ خدشے کے باعث ایک سو فیصد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا یقینی بندوبست تو نہیں کر رہے۔ رفاعی تنظیموں کے اتنے بڑے نیٹ ورک کو استعمال کرنے کی بجائے رضا کاروں کی نئی فورس بنانے کا شوشہ بظاہر 
سیاست کے سوا کچھ نہیں ہے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے پہلے کیس کی تصدیق چھبیس فروری کو کراچی میں ہوئی اور ایک ماہ ہی کے دوران یہ تعداد صوبہ سندھ میں چار سو چوالیس ہوچکی ہے لیکن پاکستان میں مجموعی طورپر کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد انتہائی برق رفتاری سے چودہ سو سے تجاوز کر چکی ہے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صرف پندرہ روز میں کیسز سندھ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔
اس دوران سندھ حکومت ابتداء سے ہی اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے سنجیدہ اور متحرک نظر آئی اور اس حوالے سے وزیر اعلٰی مراد علی شاہ انتہائی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ قرنطینہ مراکز کا قیام ہو یا ایران سے آنے والے زائرین کے ٹیسٹ سندھ حکومت نے اب تک ہر کام بروقت کیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کئی مرتبہ وزیراعظم عمران خان سے لاک ڈاون کا مطالبہ کیا لیکن انہوں نے نہ صرف اس پر توجہ نہیں دی بلکہ قوم سے خطابات اور نیوز کانفرنس میں لاک ڈاؤن کو ملک کے پچیس فیصد سطح غربت سے نیچے رہنے والے افراد کے لیے قاتل قرار دے دیا۔

وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ ''چین نے لاک ڈاؤن کیا کیونکہ چین دنیا کا دوسرا بڑا امیر ملک ہے، پاکستان جیسے ملک میں یہ ممکن نہیں کہ پورا ملک اچانک بند کردیا جائے، ہمارے پاس اتنا بڑا نیٹ ورک ہی نہیں کہ ہم چھوٹے، شہروں، قصبوں اور گاوں دیہات میں رہنے والے لوگوں کے گھروں پر راشن پہنچا سکیں، لوگوں کو خود رضا کارانہ طور پر گھروں پر رہنا چاہیے۔‘‘
وفاقی حکومت نے مطالبات پر کان نہ دھرے تو سندھ حکومت نے تئیس مارچ سے صوبہ بھر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا جس پر عملدرآمد کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے، مگر وزیراعظم نے اس کی بھرپور مخالفت کی، لیکن اگلے ہی روز پنچاب، پھر خیبر پختونخواہ اور آخر میں بلوچستان نے بھی لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ یوں وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ بھی بلآخر لاک ڈاؤن پر مجبور ہوگئی۔
لاک ڈاؤن کی خلاف ورزیاں
ملک بھر میں یہ تالہ بندی مؤثر ہوتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ لوگ شاید گھروں میں بیٹھنے کو تیار ہی نہیں۔ صرف صوبہ سندھ میں گزشتہ پانچ روز کے دوران لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی پر تقریباﹰ دو ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ بلکہ نماز جمعہ کے اجتماعات منعقد کرنے والے پیش اماموں اور مساجد کی انتظامیہ سمیت پانچ سوسے زائد مقدمات بھی درج کیے گئے ہیں، پھر بھی صوبائی حکومت کو کورونا کے حوالے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیابی نہیں ہو رہی۔ ملک بھر کے علما نے صدر مملکت عارف علوی کو اختیار دیاکہ اسلامی ریاست کا سربراہ جمعہ کے اجتماعات پر پابندی عائد کرسکتا ہے لیکن صدر بھی اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی راہ پر چلتے ہوئے مشکل فیصلہ نہیں کر پائے اور سندھ حکومت کو یہ فیصلہ بھی تنہاہ ہی کرنا پڑ گیا۔

پاکستان میں صحت کی سہولیات کورونا وائرس سے پہلے بھی قابل زکر نہیں تھیں لیکن کورونا کی وبا کے بعد نہ صرف ڈاکٹرز بلکہ پیرامیڈیکل اسٹاف کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ کراچی کے دو بڑے ہسپتال عملاﹰ بند ہو گئے ہیں اور حکومت سندھ کو فوج کی مدد سے دس ہزار بستروں کا ہسپتال بنانا پڑا ہے۔ ایسے میں طبی عملہ بغیر کسی حفاظتی اقدام کے بہت زیادہ دیر تک خدمات سر انجام نہیں دے پائے گا۔