Saturday, August 8, 2020

Arabic Music Video - سرين عبد النور - لو بص فى عينى

Video Report - #Saudi #MBS Is the US-Saudi Arabia relationship falling apart?

Video Report - Rising from the ashes | Beirut reels at shocking aftermath of massive blast that wrecked city

Video Report - #Lebanon #Beirut #Explosion Beirut anti-government protest turns violent

Saudis hold back oil to Pakistan after Qureshi’s nudge on Kashmir

BY IANS
Saudi Arabia has halted the provision of oil on loan for Pakistan after the Imran Khan government threatened to split the Organization of Islamic Countries (OIC) over Kashmir. Hit by a severe economic crisis, Pakistan had borrowed a $6.2 billion loan from Saudi Arabia in 2018.
The loan package included a provision under which Saudi Arabia granted Pakistan $3.2 billion worth of oil, a year on deferred payments.
Pakistani media on Saturday said that the provision meant for Islamabad expired two months ago and has not been renewed by Riyadh.
Instead, Islamabad has prematurely returned $1 billion Saudi loan, four months ahead of repayment period, The Express Tribune said quoting sources and Sajid Qazi, the spokesperson of the Petroleum Division.
Recently Pakistan’s Foreign Minister Shah Mehmood Qureshi during a talk show on a news channel had threatened that if the OIC headed by Saudi Arabia did not convene a foreign ministers’ meeting on Kashmir, Prime Minister Imran Khan would hold it on his own with his allies among the Islamic countries. “If you cannot convene it, then I’ll be compelled to ask Prime Minister Imran Khan to call a meeting of the Islamic countries that are ready to stand with us on the issue of Kashmir…,” he had threatened on Ary news channel.
The OIC, the biggest bloc of Islamic countries in the world, has repeatedly declined Islamabad’s several requests to hold a meeting on Kashmir.
Since August 2019 when India revoked the special status of the Jammu and Kashmir state and brought it directly under the control of the Central government by bifurcating it into two Union Territories, the Imran Khan government has been seeking support of the 57-member OIC over the issue in Pakistan’s favor.
https://www.thekashmirmonitor.net/saudi-holds-back-oil-to-pak-after-qureshis-nudge-on-kashmir/

Video Report - #NayaDaur #Blasphemy #Pakistan - Dr Sohail Gilani On Collective Rage And Extremism | Peshawar Incident

Video Report - #NayaDaur #Kashmir #India - Kashmiris Not Looking Towards Pakistan Anynore: Hamid Mir

تعلیم بلوچستان کی ترجیح نہیں؟



اگر صوبہ بلوچستان کے لیے بجٹ کا 17 فیصد تعلیم کے لیے مختص ہے تو اس کی کامل تحقیق اور مکمل تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں
بلوچستان میں اکثر دیہی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی تعلیم کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ بیشر علاقے ایسے ہیں جہاں سکول و کالجز سرے سے ہیں ہی نہیں۔
بہت کم ایسےاضلاع ہیں جہاں سیکنڈری سکول اور کالجز کی تعمیر پر توجہ دی گئی ہے۔ نتیجتا پرائمری سکول سے فراغت کے بعد بچوں کی تعلیم کا آگے کوئی مستقل نظام نہیں ہوتا ہے۔ پرائمری سکولز میں ایسے سیکڑوں سکول شمار کیے جاسکتے ہیں جو اساتذہ کی عدم توجہی، قابلیت کی کمی اور مناسب انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔
جہاں سندھی اور پنجابی وڈیروں پر یہ سوالیہ نشان داغ دیا جاتا ہے کہ وڈیرے لوگوں کو تعلیم فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں دکھاتے اور انہیں آگے بڑھنے سے روکتے ہیں، یا صوبائی حکومت اس معاملے میں کوئی حکت عملی تیار نہیں کرتی، وہیں صوبہ بلوچستان بھی انہیں محرومیوں کی وجہ سے اپنی نوجوان نسل کو تعلیم فراہم کرنے میں تاحال بری طرح ناکام ہے۔
کئی سکول ایسے ہیں جو محض ایک ہی کمرے پر مشتمل ہیں۔ اس معاملے میں اساتذہ کا تناسب قابل غور ہے۔ بلوچستان میں 10 ہزار کے قریب اساتذہ گھوسٹ ہیں جبکہ پورے بلوچستان میں اساتذہ کا شدید فقدان ہے۔ کئی مڈل سکولز تین سے چار استادوں پر ہی چل رہے ہیں اور کئی میں صرف ایک استاد تعلیمی عمل کو یقینی بنانے میں سرگرداں ہیں۔
ایسے والدین کی تعداد بہت ہی زیادہ ہیں جن کو یہ ادراک یا شعور تک نہیں ہے کہ وہ اپنی اولاد کو آنے والے زمانے کے اتار چڑھاؤ سے مقابلہ کرنے کے لیے تعلیم فراہم کریں۔ ایسے گھرانوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جہاں والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم کی کامل استطاعت ہو۔
تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بیروزگاری دیکھ کر والدین بچپن ہی سے اپنے بچوں کو چھوٹے موٹے کاموں میں لگا کر ان کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیتے ہیں۔ اس سے شرحِ ناخواندگی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ستائیس لاکھ میں سے انیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے ہیں۔ بلوچستان کے 36 فیصد سکولز میں پانی کا، 56 فیصد میں بجلی کا مسئلہ ہے اور 15 فیصد سکول بالکل بند پڑے ہیں۔
دوسری طرف جن طلبہ کو تعلیمی اداروں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ہے، انہیں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ رہائش گاہ کے مسئلے سے لے کر لائیبریریز یا پھر داخلوں میں میرٹ کے قتل تک کے جیسے امور انہیں علمی دنیا سے دور کرنے میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ مجبورا نوجوان نسل تعلیمی اداروں میں کم اور احتجاجی دھرنوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
حالیہ ایام میں یونیورسٹیز کی طرف سے آن لائن کلاسز کے انعقاد سے وہ طلبہ جن کے علاقوں میں انٹرنیٹ تک دستیاب نہیں، پریشان حال حکومت کی طرف نظریں لگا کر بیٹھے ہیں۔ وزیر اعلی صاحب کے نوٹس کے باوجود کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ہے۔ کب تک طلبہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو ترک کر کے پریس کلب کے سامنے بیٹھے رہیں گے؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ ہماری تعلیم یافتہ نسل کے قیمتی اوقات یا تو دھرنوں یا پھر ہڑتالوں کے نذر ہو رہے ہیں۔
کبھی ڈاکٹرز حقوق کی جنگ میں علاج سے ہاتھ اٹھا رہے ہیں تو کبھی وکلا پتھروں سے شہر کے امن پر سوالیہ نشان داغ رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ اساتذہ اگر اپنی ملازمت چھوڑ کر بکریاں چرانے پر آمادہ ہو رہے ہیں تو لازما تعلیمی 
نظام پر سوالیہ نشان اٹھنا کوئی عجیب بات نہیں ہے۔
جام حکومت کی تعلیمی ترجیحات کیا ہیں؟ شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے؟ صوبے کے لیے مالیاتی بجٹ اگرچہ 465 ارب روپے کا پیش کیا گیا ہے مگر تعلیم کے حوالے سے اس کے 17 فیصد کے دعوے کس طرح تعلیم کی تشنگی کو تکمیل دے پا رہے ہیں؟ کوئی ایسی حکمت عملی دکھائی نہیں دے رہی ہے جو سراپا احتجاج طلبہ یا پھر ان کے والدین کو مطمئن کر سکیں جو اپنے بچوں کا سنہرا مستقبل دیکھنا چاہتے ہیں۔ تاحال واضح یہی ہے کہ حکومت کی ترجیح میں تعلیمی سرگرمیاں ہرگز نہیں ہیں۔
اگر صوبہ بلوچستان کے لیے بجٹ کا 17 فیصد تعلیم کے لیے مختص ہے تو اس کی کامل تحقیق اور مکمل تفصیلات عوام کے سامنے پیش کی جائیں تاکہ نوجوان نسل کو کم سے کم یہ احساس ہو کہ ان کے مسائل پر حکومت کی نظر ہے۔
کونسی قوم ہوگی جو تعلیم سے اپنے بچوں کودور کرنا چاہے گی۔ آج جاپان اور فن لینڈ جیسے ممالک نے تعلیم کی فراہمی کے بعد ہی دنیا کے سامنے اپنی بہترین حیثیت پیش کی ہے۔ یہ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ ہم بلوچستان کے حقوق کے نعرے تو بہت لگاتے ہیں، قومیت سے اپنی عقیدت کا اظہار تو بہت کرتے ہیں مگر تعلیم کے معاملے پر ایک ایسی خاموشی چھا جاتی ہے جس کا اثر نہ صرف بلوچستان کو آج کے دن کے لیے اندھیرے میں دھکیلے گا، بلکہ آنے والے دنوں میں لاکھوں مشکلات ہمارے سر پر لادھ دے گا۔
اس وقت سب سے اہم امر یہی ہے کہ بلوچستان کے لوگ تعلیم کی اہمیت جان کر اپنے بچوں کو سکولوں کی طرف لائیں۔ انہیں تعلیم کے زیور سے آرستہ کریں۔ انہیں حق اور سچ کے مابین تمیز کروا کر تعلیمی آگاہی فراہم کریں۔ حکومتی سطح پر ہو یا مخیر حضرات کی تعاون سے تعلیم کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں تاکہ کسی نہ کسی صورت وہ تعلیم حاصل کرنے پر آمادہ ہوں۔ تعلیم کے لیے اپنی آواز بلند کریں، بلوچستان کو آپ کی اشد ضرورت ہے۔

Lesbian lovers and a boxer in a burqa: a new look for Pakistani TV


 By Alia Waheed

 Aburqa-clad boxer, a high-society wedding planner and an ex-convict may sound more like the wish list for the next series of Big Brother, but they are just some of the characters in a groundbreaking new Pakistani drama show.
Dubbed “Lock, Stock and Four Smoking Burqas”, the series, called Churails, is the first made in Pakistan to feature a lesbian relationship. It was written and directed by British Pakistani film-maker Asim Abbasi, and tells the story of four women who start a detective agency to catch out cheating husbands, behind the facade of a burqa boutique.
Churails is a story about women on the fringes of society,” said Abbasi. “In Pakistan, being a woman is the equivalent of being a sexual or ethnic minority because of the power dynamics of patriarchy. The series is very culturally specific, but also very universal.”
However, the series, which starts this week is more than just Desperate Housewives in hijabs. The smoking and swearing of the main characters has proved controversial, as has the tackling of issues such as child abuse and domestic violence, as well as same-sex relationships, which are illegal in Pakistan.
 The title of the show literally translates to mean witches, but is more commonly used as an insult for rebellious women


Asim Abbasi, film-maker
“Because we are showing such a diverse range of women, it was important to show the entire spectrum of sexuality. It would have been wrong if they were all straight because not all women in Pakistan are straight,” said Abbasi, who is based in Leeds.
There is also a transgender character. “The reason the women open the detective agency is to level the playing field for everyone who identifies as a woman, so a transgender character who identifies as a woman should be included.”
He added: “The fact that she’s transgender is not addressed on the show and that is deliberate. It’s not that I was overlooking her identity or ashamed of it. It was to show the women coming to the agency were all equal.” The title of the show literally translates to mean witches, but is more commonly used as an insult for rebellious women. “The associations of women who don’t conform with witchcraft is a global phenomenon, but in Pakistan specifically, any woman who is sexually and emotionally liberated, who has the ability to be aggressive when threatened is called a churail. We are taking it as a badge of honour.”

Character boxer Zubaida in boxing ring.


Abbasi, who was born in Pakistan and moved to the UK as a teenager, was approached by Indian streaming service Zee5 to make the series, following the success of his debut film, Cake. “When people say this is not representative of our culture, what they mean is they don’t want to acknowledge these women exist in our society. What people think is vulgar today will not be considered vulgar in 10 years’ time. If we are going to change things, we as film-makers have to push boundaries.”
With TV dramas in Pakistan traditionally female-oriented, they tend to focus on domestic issues such as cheating husbands and hard-to-please in-laws. However, with Churails, Abbasi hopes to capture not only the young generation in Pakistan who are more influenced by Breaking Bad than Bollywood, but also global audiences who have more exposure to foreign TV shows thanks to streaming services.

You could say that Churails should have been made by a woman, but those opportunities aren’t there for women in Pakistan yet. I want to be an ally so their stories can be told
Asim Abassi

 Actress Mehar Bano, 26, who plays a boxer, Zubaida, said: “The fact that we have moved on from pandering to a national audience and are now targeting a global market is a feat in itself. To initiate this with a show about women taking charge of their own lives, claiming their space and dismantling the patriarchal structures is outrageous and groundbreaking, especially for a country like Pakistan where female characters on local TV reinforce misogynist values.”
The launch of the series comes at a time when the representation of Asian women on British TV has been in the spotlight in shows such as the BBC’s A Suitable Boy, and Indian Matchmaking on Netflix, but for many it has not been as progressive as it could be, with critics saying they were regurgitating the same arranged marriage narratives.
“While we aren’t where we should be in terms of diversity, we have to start somewhere and adaptations are culturally rich,” said Abbasi. “You could say that Churails should have been made by a woman, but those opportunities aren’t there for women in Pakistan yet so I want to be an ally so their stories can be told.”
So at a time of A Suitable Boy, could a series about a group of unsuitable girls be the one that brings radical change to Asian representation on TV? “I hope so,” he said.

#Pakistan - The Assembly cannot tell anyone what his/her sect would be.

Parliamentary Leader Pakistan Peoples Party Punjab Syed Hassan Murtaza while expressing reservations in the Punjab Assembly on the Protection of Islam Bill (Punjab Tahaffuz-e-Bunyad-e-Islam Bill 2020) has said that the Assembly cannot tell anyone what his/her sect would be. Describing his dissociation from the bill, he said, “My name was also included in the committee. Although I do not know what the bill was and when and how it was passed, I have never been attended the meeting of the committee and I have never been involved in the whole legislative process, nor was I informed of any kind of the meetings, We were kept in the dark about this bill and without our knowledge, this controversial bill was passed, he added.
Demanding the withdrawal of the bill, he said, “We believe in ‘Khatam-un-Nabiyeen’ (The Last Prophet), we greatly respect all the companions, but we cannot give anyone the right to interpret my or anyone else’s creed, sect.” Let the people live according to their faith, sect, creed. He asked whether the politicians, parliamentarians have solved the basic issues, problems of the citizens, like employment, health and education, have they eliminated the exploiting classes from the society? So, now they are correcting and interpreting peoples’ sects and cults? He said that textbooks should not contain hateful and malicious material that would offend anyone, insult anyone, and hurt the beliefs, feelings, and sentiments of any sect, jurisprudence. But the officer of the Directorate General Public Relations cannot be given the authority to tell the nation what education to get. The matter of the nation’s education cannot be left to the discretion of a government official, he noted. He maintained that the duty of politicians is to provide relief to the citizens and to legislate in this regard. It is not our job to interpret any creed or sect; rather, such issues belong to the religious institutions, the Ulema Board, the Islamic Ideological Council, in which all schools of thought are represented, he concluded.