M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Tuesday, February 11, 2020
#AsmaJahangir: ’ان کی روح یہی کہہ رہی ہو گی کچھ کام خود بھی کر لیا کرو‘
محمد حنیف
بچپن میں ہی یہ سبق پڑھا دیا گیا تھا کہ اگر قائداعظم پاکستان کے قیام کے فورا بعد اس جہان فانی سے کوچ نہ کرتے تو پاکستان ایک مختلف ملک ہوتا اور کچھ نہیں تو چھوٹی موٹی سپر پاور ہوتا۔
چولہوں میں گیس پوری آ رہی ہوتی، فوج سرحدوں پر جنگی مشقیں کر رہی ہوتی، عامر اور آصف پاؤنڈ لے کر نو بالیں نہ کرتے، عمران خان کو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر سے ملنے دبئی نہ جانا پڑتا بلکہ پاکستان اتنا پرسکون، خوشحال اور بورنگ سا ملک ہوتا کہ شاید عمران خان کو سیاست میں آنا ہی نہ پڑتا۔
اگر قائداعظم کچھ سال اور زندہ رہ جانے والی داستان سے شاید یہ سب دکھانا مقصود ہے کہ ان کے پاس پاکستان کو چلانے کے لیے کوئی خفیہ نسخہ تھا جسے وہ اپنے ساتھ قبر میں لے گئے اور تب سے ہم تکے لگا کر اس ملک کو چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
عاصمہ جہانگیر کو ہم سے بچھڑے ایک برس بیت گیا۔ اس سال میں ہر ہفتے کم از کم ایک دن ایسا ضرور آیا جو ہمارے دلوں سے آواز نکلی کہ کاش آج عاصمہ ہوتیں تو ہماری جان پر آنے والے اس نئے عذاب کا کچھ کرتیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جو ہسپتالوں کے دورے کرتے تھے اور ڈیم کی چوکیداری کرنے کے دعوے کرتے تھے، اس پر عاصمہ کیا کہتیں۔
جو انتخابی مہم عمران خان کو حکومت میں لے کر آئی اس پر عاصمہ کیا فرماتیں۔ جو ہر دوسرے دن پی ٹی ایم کے کارکنوں، حمایتیوں کو اٹھایا جا رہا ہے ان کی ضمانتیں کروانے پہنچتیں، نوکری سے نکالے جانے والے صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتیں اور یہ سب کرتے ہوئے سپریم کورٹ بار کے الیکشن کی دھڑے بندی میں بھی لگی رہتیں۔
ہم سب کو بخوبی اندازہ ہے کہ وہ کیا کہتیں، کیا کرتیں کیونکہ وہ اس قوم کے ضمیر کا کردار 40 برس تک نبھاتی رہیں۔ ہماری زبانوں پر جو تالے لگائے جا رہے ہیں اس کی چابی عاصمہ جہانگیر اپنے ساتھ نہیں لے گئیں بلکہ ہمارے پاس ہی چھوڑ گئی ہیں۔
جانے والے کو یاد کرنا ضروری ہے۔ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا اس کا ذکر بھی ضرورت ہے لیکن عاصمہ کے پاس ایسا کوئی خفیہ نسخہ نہیں تھا جسے وہ اپنے ساتھ لے گئیں۔ ان کا نسخہ سیدھا تھا، ڈفر کو ڈفر کہو، فوجی کو فوجی اور مولوی کو مولوی۔ مصلحت اندیشی بزدلی کا نام ہے۔ جب مشرف کا مارشل لا آیا تو پاکستان کی بڑی آوازیں ابھی اپنا گلا ہی صاف کر رہی تھیں عاصمہ نے ببانگِ دہل اعلان کیا کہ یہ مارشل لا ہے اور پھر وہی جنرل مشرف یہاں سے بھگوڑا ہو کر دبئی سے ان سے درخواست کرتا تھا کہ وہ اس کا مقدمہ لڑیں۔
عاصمہ جہانگیر کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ اکیلی کچھ نہیں کر سکتیں اور اس کےلیے لوگوں سے جڑنا بہت ضروری ہے۔ بلوچستان، کے پی، اندورنِ سندھ جہاں سیاستدان صرف الیکشن کے وقت جاتے تھے اور صحافی کسی قدرتی آفت کے بعد، عاصمہ جہانگیر پشین سے پشاور تک گھومتی تھیں۔
جتنا بولتی تھیں اس سے کہیں زیادہ وہ سنتی تھی۔ اگرچہ ان کے ناقدین انھیں ہمیشہ ایک بھنائی ہوئی عورت کے طور پر پیش کرتے تھے، انھیں ہنسنا بھی آتا تھا اور ہنسانا بھی اور بعض دفعہ غصے کا اظہار بھی پنجابی سٹائل کی جگتوں میں کرتی تھیں۔
ایک دفعہ میں بھولا بھٹکا ایک ٹی وی مباحثے میں پھنس گیا جس میں ایک مفتی صاحب ریپ کے کیس میں ڈی این اے ٹیسٹ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ان کی دلیل وہی پرانی کے اس سے عورتوں میں بےحیائی پھیلے گی۔ عاصمہ جہانگیر بولیں، مفتی صاحب آپ کو کیوں لگتا ہے کہ پاکستان کی ساری عورتیں آپ کی محبت میں مبتلا ہیں اور آپ کا کردار خراب کرنا چاہتی ہیں۔ ایک لمحے کے لیے مفتی صاحب شرما سے گئے، جتنا کوئی مفتی صاحب شرما سکتے ہیں۔
وہ پاکستان کی صحافت پر آنے والے عذاب کے بارے میں بھی خبردار کرتی رہی تھیں۔ ایک دفعہ میری موجودگی میں چند سینیئرصحافی اپنے مالکان کا رونا رو رہے تھے۔ انھوں نے توجہ سے بات سنی، پھر پوچھا کہ جو صحافیوں کی یونین ہے اس میں ہو۔
انھوں نے فرمایا ہاں رکن تو ہوں لیکن زیادہ ایکٹو نہیں۔ تو ہو جاؤ ایکٹیو، عاصمہ نے کہا۔ ’کج کم آپ وی کر لیا کرو‘ وہ پنجابی میں بولیں۔
ان کی روح ہم سے مخاطب ہو کر بھی یہی کہہ رہی ہو گی کہ کچھ کام خود بھی کر لیا کرو۔
Prominent Gov’t Critic Gul Bukhari Threatened With Terrorism Charges In Pakistan
A Pakistan law enforcement agency has threatened to slap terrorism charges on one of the country’s most prominent government critics.
The counterterrorism wing of the Federal Investigation Agency (FIA) has asked Gul Bukhari, a columnist and democracy activist, to appear before an inquiry probing online propaganda against the government, national security organizations, and the judiciary.
“If she fails to appear [before the FIA inquiry], we will register a court case under PECA and the Anti-terrorism Act,” a February 11 statement by the FIA said while referring to the Prevention of Electronic Crimes Act by its acronym. Global media watchdog Reporters Without Borders says the law is “often used by the authorities to silence journalists who dare to cross the regime's implicit red lines.”
The FIA, however, is threatening dire consequences for Bukhari.
“After obtaining court orders, extradition procedures will be employed against the accused,” the statement said. “Interpol will be requested to help in completing the legal procedures,” it added. “The court will be approached to forfeit all the moveable and immovable property of the accused.”
Bukhari, in her 50s, now lives in self-exile in Britain. She was briefly kidnapped by unknown gunmen in the eastern city of Lahore in June 2018. She emerged as a prominent critic of Pakistan’s powerful military after supporting former Prime Minister Nawaz Sharif’s campaign for civilian supremacy following his sacking by the country’s Supreme Court for undeclared assets in July 2017.
Bukhari has used her large following on social media, Twitter in particular, to criticize the military for allegedly facilitating Prime Minister Imran Khan’s rise to power in the July 2018 election. She regularly wrote critical columns and regularly tweeted about the sporadic crackdown on the Pashtun Tahafuz Movement, a civil rights movement, and other instances of government highhandedness against journalists, activists, and politicians.
Government threats to Bukhari followed the February 2 attack on Ahmad Waqass Goraya. Two unidentified men attacked the exiled Pakistani blogger outside his house in the western Dutch city of Rotterdam.
Bilawal Bhutto urges govt to give relief to masses or go home
Pakistan Peoples Party (PPP) Chairman Bilawal Bhutto urged the incumbent government to either provide relief or go home as they will not tolerate anymore economic slaughtering of the people.
Addressing the National Assembly (NA) session, he termed the Parliament as powerless, expressing that inflation is being discussed in the House but Finance Advisor is not present.
He further said that PM Imran used to say that the people of Pakistan do not pay taxes because the leaders were dishonest. He asserted that the incumbent government, itself, mentioned that there is a shortfall of Rs700 billion of taxes. “Is the PM now honest or incompetent? Is the reason same for not receiving taxes now? PM Imran should answer which of his corruptions is causing inflation”, he emphasized.
The scion of Bhutto dynasty expressed that the Bureau of Statistics stated that the inflation which has been witnessed in the past year has never been seen before, even in the last 10 years; while the food commodities has inflated by 78%. He slammed the government for turning the "floundering economy into a sinking economy”.
Meanwhile, Bilawal Bhutto Zardari said that this government is sabotaging the Benazir Income Support Programme (BISP), which was initiated by his late mother and former premier Benazir Bhutto. He termed the programme as the first social security net for the people, saying that the whole politics of Benazir Bhutto was for the people of Pakistan.
He added: “Only those who came into power without even getting elected are saying that there is no inflation and the economy is growing.
“PM Imran used to say that he would not borrow any loan and rather commit suicide whereas, his own State Bank of Pakistan (SBP) mentioned that he has debts of Rs11,000 billion.
"We do not want PM Imran to commit suicide, but we demand that he acknowledges he is incompetent and selected".
اپنی اپنی فوجیں کشمیر سے نکالو! کشمیری قوم پرستوں کا پیغام - کشمیری قوم پرست رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا
کشمیری قوم پرست رہنماؤں نے پاکستان اور بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاستی سطح پر مذہبی انتہاپسندی کی سر پرستی بند کی جائے، کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کیا جائے اور جنوبی ایشیا کو جنگ کے شعلوں میں نہ جھونکا جائے۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں معروف کشمیری قوم پرست رہنما مقبول بٹ کی چھتیسویں برسی کے موقع پر قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک خود مختار کشمیری حکومت بنائی جائے اور اس کا اسلام آباد میں ایک سفارت خانہ کھولا جائے تاکہ وہ کشمیرکا مقدمہ خود عالمی سطح پر لڑ سکیں۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف شہروں، بشمول مظفر آباد، باغ، میر پور، کوٹلی، کھوئی رتہ اور راولا کوٹ میں آج کی دن کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں، جہاں مقررین نے خودمختاری کے حق میں پر جوش نعرے لگائے اور پاکستان سے الحاق کی باتیں کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا۔ کئی مظاہرین نے ایسے بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں آویزاں تھیں۔ جموں وکشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جموں کشمیر لبریشن اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت کئی طلبا تنظیموں کے کارکنان نے ایسی شرٹیں پہنی ہوئیں تھیں، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں پرنٹ کی گئی تھیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خود مختاری کے نعرے لگانے والی تنظیموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی ریاست نے ان تنظیموں پر ماضی جیسی سختیاں بند کر دی ہیں۔ مختلف جلسوں میں مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا حل کسی جہاد یا جنگ سے ممکن نہیں بلکہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی کشمیر کو آزادی و خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔
مقبول بٹ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں رہے۔ وہ انیس سو اڑتیس میں کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کشمیر سےکی اور پھر انیس سو اٹھاون میں وہ پاکستان آ گئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوئے۔ مقبول بٹ انیس سو اڑسٹھ میں دوبارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر گئے، جہاں وہ پکڑے گئے لیکن وہ انیس سو انہتر میں جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور واپس پاکستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کا نام دنوں ممالک کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آیا۔
بعدازں کچھ کشمیری نوجوانوں نے بھارت کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا۔ مقبول بٹ کو اس ہائی جیکنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور برسوں کی قید سے رہائی پانے کے بعد وہ انیس سو چھہتر میں ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور گیارہ فروری انیس سو چوراسی کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ کشمیری قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ مسئلہ کشمیر مقبول بٹ کے دیے گئے فارمولے ک تحت ہی حل ہو سکتا ہے۔ مقبول بٹ کے سیاسی شاگرد اور ان کے ساتھ جیل میں ایک سال گزارنے والے ہاشم قریشی، جن کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسان جنگ کی آگ سے بچ سکتے ہیں اگر وہ اس فارمولے پر عمل کریں۔ نئی دہلی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مقبول بٹ نہ پاکستان کی غلامی چاہتے تھے اور نہ ہندوستان کی۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر ایک خودمختار ملک بنے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھائیوں کی طرح رہیں۔ لیکن یہ بات نہ پاکستان کو پسند تھی اور نہ بھارت کو۔ اسی لیے مجھے اور مقبول بٹ کو پاکستان میں بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور بھارت میں پاکستان کا ایجنٹ کہا گیا۔ ہم نے دونوں ممالک میں جیل کاٹی۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر اتنظام کشمیر میں برسوں تک جہادی تنظیمیں کشمیر کا حل مسلح جدوجہد میں بتاتی رہیں لیکن ہاشم قریشی کا خیال ہے کہ مقبول بٹ مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائیوں کے سخت خلاف تھے، ''پاکستان نے جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا، جو صرف پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس نام نہاد جہاد سے کشمیری مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئے۔ مقبول بٹ ایسی کسی بھی مذہبی تحریک کے شدید مخالف تھے۔ اور پاکستان کی جہادی پالیسی کی وجہ سے بھارت میں بھی انتہاپسند قوتیں مذہب کو استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ لہذا دونوں ممالک کو سرکاری سطح پر اس انتہاپسندی کی ترویج کو بند کرنا چاہیے اور کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے، اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو اپنی فوجیں ہمارے علاقوں سے نکالنی چاہیئں۔‘‘
مقبول بٹ کی پارٹی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج مقبول بٹ کے فلسفے کو وہ لوگ بھی مان رہے ہیں، جو ان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے، ''مقبول بٹ سرحد کے دونوں اطراف آج سب سے مقبول اور ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔ ان کا فلسفہ صرف کشمیریوں کے لیے نہیں تھا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے بھی تھا، جن کو حاکم طبقات نے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی سے محروم رکھا ہوا ہے اور سارے پیسے ہتھیار اور فوجوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ہماری خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالیں تاکہ خطے کے ایک ارب سے زیادہ انسان ترقی و خوشحالی دیکھ سکیں اور ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات پا سکیں، جس کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کشمیری قوم پرست اتحاد پیپلز نیشنل الائنس کے رہنما میر افضل کا کہنا ہے کہ مقبول بٹ کا مشن منقسم کشمیر کو متحد کرنا تھا، ''لیکن اس میں رکاوٹ صرف نئی دہلی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اسلام آبادکی طرف سے بھی ہے۔ اسلام آباد نے بھی اسٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے کوئی کشمیریوں سے دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کشمیریوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کرے اور کشمیریوں کو اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑنے دے کیونکہ کشمیری نہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں اور نہ اسلام آباد کے ساتھ۔ ان کی منزل آزادی ہے۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر میں معروف کشمیری قوم پرست رہنما مقبول بٹ کی چھتیسویں برسی کے موقع پر قوم پرست تنظیموں کے رہنماوں نے اسلام آباد پر زور دیا کہ کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر ایک خود مختار کشمیری حکومت بنائی جائے اور اس کا اسلام آباد میں ایک سفارت خانہ کھولا جائے تاکہ وہ کشمیرکا مقدمہ خود عالمی سطح پر لڑ سکیں۔
پاکستان اور اس کے زیر انتظام کشمیر کے مختلف شہروں، بشمول مظفر آباد، باغ، میر پور، کوٹلی، کھوئی رتہ اور راولا کوٹ میں آج کی دن کی مناسبت سے ریلیاں نکالی گئیں، جہاں مقررین نے خودمختاری کے حق میں پر جوش نعرے لگائے اور پاکستان سے الحاق کی باتیں کرنے والوں کو ہدف تنقید بنایا۔ کئی مظاہرین نے ایسے بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں آویزاں تھیں۔ جموں وکشمیر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور جموں کشمیر لبریشن اسٹوڈنٹس فیڈریشن سمیت کئی طلبا تنظیموں کے کارکنان نے ایسی شرٹیں پہنی ہوئیں تھیں، جن پر مقبول بٹ کی تصویریں پرنٹ کی گئی تھیں۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں خود مختاری کے نعرے لگانے والی تنظیموں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا لیکن کئی ناقدین کا خیال ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی ریاست نے ان تنظیموں پر ماضی جیسی سختیاں بند کر دی ہیں۔ مختلف جلسوں میں مقررین کا کہنا تھا کہ کشمیر کا حل کسی جہاد یا جنگ سے ممکن نہیں بلکہ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی کشمیر کو آزادی و خودمختاری حاصل ہو سکتی ہے۔
مقبول بٹ پاکستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے دونوں حصوں میں رہے۔ وہ انیس سو اڑتیس میں کپواڑہ میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کشمیر سےکی اور پھر انیس سو اٹھاون میں وہ پاکستان آ گئے اور یہاں صحافت سے وابستہ ہوئے۔ مقبول بٹ انیس سو اڑسٹھ میں دوبارہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر گئے، جہاں وہ پکڑے گئے لیکن وہ انیس سو انہتر میں جیل توڑ کر فرار ہو گئے اور واپس پاکستان پہنچ گئے۔ اس کے بعد ان کا نام دنوں ممالک کے اخبارات کی شہ سرخیوں میں آیا۔
بعدازں کچھ کشمیری نوجوانوں نے بھارت کا ایک طیارہ ہائی جیک کیا۔ مقبول بٹ کو اس ہائی جیکنگ کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا گیا۔ ان پر مقدمہ چلا اور برسوں کی قید سے رہائی پانے کے بعد وہ انیس سو چھہتر میں ایک بار پھر بھارت کے زیر انتظام کشمیر چلے گئے، جہاں انہیں گرفتار کر لیا گیا اور گیارہ فروری انیس سو چوراسی کو انہیں پھانسی دے دی گئی۔ کشمیری قوم پرستوں کا دعوی ہے کہ مسئلہ کشمیر مقبول بٹ کے دیے گئے فارمولے ک تحت ہی حل ہو سکتا ہے۔ مقبول بٹ کے سیاسی شاگرد اور ان کے ساتھ جیل میں ایک سال گزارنے والے ہاشم قریشی، جن کا تعلق بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ایک ارب سے زیادہ انسان جنگ کی آگ سے بچ سکتے ہیں اگر وہ اس فارمولے پر عمل کریں۔ نئی دہلی سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مقبول بٹ نہ پاکستان کی غلامی چاہتے تھے اور نہ ہندوستان کی۔ وہ چاہتے تھے کہ کشمیر ایک خودمختار ملک بنے، جس میں مسلمان، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے بھائیوں کی طرح رہیں۔ لیکن یہ بات نہ پاکستان کو پسند تھی اور نہ بھارت کو۔ اسی لیے مجھے اور مقبول بٹ کو پاکستان میں بھارت کا ایجنٹ کہا گیا اور بھارت میں پاکستان کا ایجنٹ کہا گیا۔ ہم نے دونوں ممالک میں جیل کاٹی۔‘‘
پاکستان اور اس کے زیر اتنظام کشمیر میں برسوں تک جہادی تنظیمیں کشمیر کا حل مسلح جدوجہد میں بتاتی رہیں لیکن ہاشم قریشی کا خیال ہے کہ مقبول بٹ مذہبی بنیادوں پر لڑی جانے والی لڑائیوں کے سخت خلاف تھے، ''پاکستان نے جہادی تنظیموں کے ذریعے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو نقصان پہنچایا، جو صرف پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس نام نہاد جہاد سے کشمیری مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئے۔ مقبول بٹ ایسی کسی بھی مذہبی تحریک کے شدید مخالف تھے۔ اور پاکستان کی جہادی پالیسی کی وجہ سے بھارت میں بھی انتہاپسند قوتیں مذہب کو استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے پورے خطے میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے ہیں۔ لہذا دونوں ممالک کو سرکاری سطح پر اس انتہاپسندی کی ترویج کو بند کرنا چاہیے اور کشمیر کی خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے، اسلام آباد اور نئی دہلی دونوں کو اپنی فوجیں ہمارے علاقوں سے نکالنی چاہیئں۔‘‘
مقبول بٹ کی پارٹی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ پاکستان کے زیر اتنظام کشمیر چیپٹر کے صدر ڈاکٹر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آج مقبول بٹ کے فلسفے کو وہ لوگ بھی مان رہے ہیں، جو ان پر ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے، ''مقبول بٹ سرحد کے دونوں اطراف آج سب سے مقبول اور ہر دلعزیز لیڈر ہیں۔ ان کا فلسفہ صرف کشمیریوں کے لیے نہیں تھا بلکہ بھارت اور پاکستان کے مظلوم عوام کے لیے بھی تھا، جن کو حاکم طبقات نے تعلیم، صحت اور پینے کے صاف پانی سے محروم رکھا ہوا ہے اور سارے پیسے ہتھیار اور فوجوں پر لگائے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک ہماری خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیر سے فوجیں نکالیں تاکہ خطے کے ایک ارب سے زیادہ انسان ترقی و خوشحالی دیکھ سکیں اور ایٹمی جنگ کے خوف سے نجات پا سکیں، جس کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔‘‘
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں کشمیری قوم پرست اتحاد پیپلز نیشنل الائنس کے رہنما میر افضل کا کہنا ہے کہ مقبول بٹ کا مشن منقسم کشمیر کو متحد کرنا تھا، ''لیکن اس میں رکاوٹ صرف نئی دہلی کی طرف سے نہیں ہے بلکہ اسلام آبادکی طرف سے بھی ہے۔ اسلام آباد نے بھی اسٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کر کے کوئی کشمیریوں سے دوستی کا ثبوت نہیں دیا۔ اسلام آباد کو چاہیے کہ کشمیریوں کی خود مختاری کو تسلیم کرتے ہوئے آزاد کشمیر اور گلگت و بلتستان پر مشتمل ایک آزاد ریاست قائم کرے اور کشمیریوں کو اپنی آزادی کی لڑائی خود لڑنے دے کیونکہ کشمیری نہ بھارت سے الحاق چاہتے ہیں اور نہ اسلام آباد کے ساتھ۔ ان کی منزل آزادی ہے۔‘‘
پی ٹی آئی کی معاشی پالیسی: بےیقینی، بےروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ
اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا میں واقع سہالہ فلور اینڈ جنرل ملز کے مالک طارق صادق آج کل کاروبار میں سست روی اور آمدن میں کمی سے پریشان ہیں۔ آمدنی میں کمی کی وجہ سے انہوں نے حال ہی میں اپنی مل کے 45 افراد پر مشتمل عملےمیں کٹوتی کرکے پانچ افراد کو فارغ کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر حالات ایسے ہی رہے تو جلد ہی وہ عملے میں مزید کمی لا سکتے ہیں۔
نہوں نے بجلی کا بل انڈپینڈنٹ اردو کو دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ بھی زیادہ آ رہے ہیں اور اب تو حکومت نے عندیہ دے دیا ہے کہ فلور ملز اور متوسط کاروبار کے لیے دی جانے والی سبسڈی بھی ختم کر دی جائے گی۔ ’بجلی اور گیس کا اضافی بوجھ ان دیگر اخراجات اور بڑھتے ہوئے محصولات کے علاوہ ہے، جو بس بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘
فلور ملز تو پھر بھی متوسط درجے کا کاروبار ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بوجھ کسی حد تک برداشت کر سکتا ہے اور آٹے کے قیمتوں میں کمی بیشی کے لیے لابنگ بھی کرسکتا ہے لیکن گیس اور بجلی کے بلوں سے براہ راست متاثر ہونے والے چھوٹے کاروبار، جیسے ہوٹل کے لیے حالات اور بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مجبوری کے تحت پہلے سے غیر رسمی شعبے میں موجود مزدوروں اور بیروں کی تعداد میں کمی کر کے بیروزگاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ادھر سٹیٹ بینک نے بھی آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گذشتہ روز مہنگائی دگنی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بینک کا کہنا تھا: ’ایک سال میں مہنگائی کی شرح 3.8 سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق گذشتہ تین ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا۔ تاہم زیادہ خطرے کی بات بینک کی جانب سے آئندہ سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کی پیشگوئی ہے۔
وفاقی کابینہ کا ایک اجلاس آج وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں توقع ہے کہ ملک کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کاجائزہ لیا جائے گا۔ توقع ہے کہ اجلاس کوآئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دی جائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد ہوٹلوں کے مالکان سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ گیس کے بل اب 20 یا 25 ہزار کی بجائے 80 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ جی 8 میں واقع ایک ہوٹل کے مالک سہیل گجر کا کہنا تھا کہ اضافی بلوں کا رجحان پانچ ماہ سے چل رہا ہے اور کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ’مزدوروں کو کام نہ ملنا تو دور کی بات، اب ہمارا اپنا روزگار بھی خطرے میں ہے کیونکہ قیمتیں بڑھانے سے سیل پر اثر پڑے گا۔‘
لیکن یہ رجحان اسلام آباد تک محدود نہیں اور نہ صرف چھوٹے کاروبار ان حالات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ غیر واضح پالیسیوں کی وجہ سے ایسی صنعتیں بھی تذبذب کی وجہ سے اعتماد کھو رہی ہیں جن کا انحصار مصنوعات کی برآمدات پر ہے اور جو کچھ عرصہ قبل تک اچھا خاصہ منافع بھی کما رہے تھے۔
پاکستان کی ہوزری سے وابستہ صنعت کی کارکردگی منافع کے لحاظ سے ابھی تک بہتر رہی۔ لیکن موجودہ حالات کی پیش نظر اس صنعت سے وابستہ لوگ بھی بےاطمینانی کا شکار ہیں۔ فیصل آباد میں پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین میاں کاشف ضیا نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں جو عندیہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ بلوں اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ہوزری کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے پاکستانی مصنوعات باہر ممالک کے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے حال ہی میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا لیکن بہتری کے آثار کم ہی ہیں۔ اس قسم کا تذبذب اور غیرواضح صورتحال کا سامنا تقریباً پاکستان کی اکثر صنعتیں کر رہی ہیں جو معاشی نقطہ نظر سے کسی بھی کاروبار کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہوتی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے زہر قاتل۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کاروبار مثال کے طور پر سریے یا سیمنٹ کی صنعت تو پہلے سے مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ایک تو ملک میں تعمیرات سست روی کا شکار ہیں اور دوسری وجہ خطے میں کشیدگی ہے جس سے سیمنٹ کے خام مال کی برآمدات پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس ایند ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ نہ صرف برآمدات بلکہ درآمدات کے متعلق بھی حکومت کی پالیسی تضاد کا شکار نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت ایک طرف تو نئی تعمیرات کی بات کرتے نہیں تھکتی اور دوسری جانب الیکٹرک مشینوں اور تعمیراتی مشینری کی درآمدات کم ہو گئی ہیں۔
انڈپنڈنٹ اردو نے سرکاری موقف جاننے کے لیے چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ ہارون شریف سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور دیگر عوامل کی وجہ سے کاروبار کے اخراجات پر اثر تو پڑے گا لیکن ایسے میں معاوضے کے طور پر کچھ اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ’اس حوالے سے بورڈ نے حکومت کو تجاویز دی ہیں، اب کاروبار میں آسانی کے لیے کیا اقدامات ممکن ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ حکومت ہی کر سکتی ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال مجموعی ملکی پیداوار کی نمو کم ہوکر 3.29 فیصد پر آ چکی ہے۔ اس سال بنیادی شعبوں (جس طرح زراعت، مینوفکچرنگ اور تعمیرات) کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں رہی۔ صرف گندم کی پیداوار قدرے بہتر رہی۔ اس سال روپے کی قدر میں بار بار کمی آئی، فی کس آمدن کم ہوئی، اور ڈالر کے اعتبار سے قومی معیشت سکڑ گئی، سرمایہ کاری میں منفی رجحان سامنے آیا، جبکہ قومی بچت اور برآمدات بھی کم ہوئیں۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم بھی بڑھا ہے۔ تاہم کچھ مثبت رجحان جیسے کہ کرنٹ اکاونٹ اور تجارتی خسارے میں کمی بھی سامنے آئی ہے۔ ایسی حالت میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف یا پھر عالمی بینک اور دوست ممالک سے مدد پر انحصار کرنا پڑا
عام اشارے یہی ہیں کہ اس صورتحال نے مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے خدشات اور ملک میں بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے اعداد و شمار تو موجود نہیں لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ظہور اعوان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں ان کی انجمنوں کی طرف سے زیادہ تعداد میں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ’نجی شعبہ میں تو شاید ہی کوئی صنعت ایسی ہو جس نے کارکن فارغ نہ کئے ہوں، صرف میڈیا کی صنعت میں ہزاروں لوگ بےروزگار ہوئے ہیں۔‘
ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ بےروزگاری17 سے 18 فیصد رہی جس کا مطلب ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ بےروزگاری سے گزر رہے ہیں اور ایسی حالت میں معاشی دباؤ بھی بڑھا ہے۔
20 مئی کو بلاول ہاؤس، اسلام آباد میں ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں سیاسی افطار پارٹی کے میں اکٹھی ہوئیں۔ افطاری کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سمیت شرکا نے عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلانے اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے صدر دارو خان اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں تو بہرحال کاروبار و روزگار پر اثرانداز ہو رہی ہیں، حکومت کی کئی جگہوں پر پالیسی بھی واضح نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کاروبار و تجارت میں آسانی کے لیے فیڈریشن نے حکومت کو تجاویز دی ہیں جن پر ابھی تک کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آئی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اتحاد بنانے کی بات ایک ایسے وقت میں کر رہی ہیں جب بگڑتی معاشی صورتحال کی وجہ سی عوام پریشانی کا شکار ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت کے لیے معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں کراچی میں تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین دلایا کہ معیشت میں آئندہ چند ماہ میں بہتری کے امکانات ہیں۔ انہوں نے بےروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی کہا کہ نوجوانوں کی صلاحیت بڑھانے کی تربیت کا بندوبست کیا جائے گا۔
Subscribe to:
Posts (Atom)