Friday, October 9, 2020

Video - Jimmy Kimmel Breaks Down Pence Harris VP Debate

Video - #DailyShow #TrevorNoah #VPDebate Pence’s Fly and Harris’s Expressions Steal The Debate | The Daily Social Distancing Show

Video Report - #Democrats #USElection2020 US election 2020: Democrats gain popularity among youth in Texas

Video Report - US election 2020 | Trump refuses to debate remotely, and Americans expect post-result violence

Video Report - Ex-vaccine director: President Trump is giving a very mixed message right now

In Pakistan, ‘Modi ka jo yaar hai, woh ghaddar hai’ mood is on

 

 

If Pakistan continues the onslaught of giving out ‘traitor' and 'Indian agent’ certificates, then the day is not far when Indian population will increase by about 22 crore.

Winter is coming, but in Pakistan, the season of ‘Modi ka jo yaar hai, woh ghaddar hai’ is setting the mood. Yes, whoever is Narendra Modi’s friend in Pakistan is a traitor. The Pakistan Tehreek-e-Insaf government is telling opposition leaders that when they criticise Prime Minister Imran Khan and his policies, they tend to make India happy. And when you make India happy, you make Indian Prime Minister Modi happy. That’s not all. According to this new doctrine, anyone happy on this side of the border is making Modi happy. Makes no sense, right?

However, in all this happiness, the ‘Prime Minister’ of Pakistan’s Kashmir has been made unhappy. Raja Farooq Haider just became the latest victim of the government’s hobby of declaring every opposition politician an agent of India and by virtue, a traitor. Haider was named in the mysterious sedition FIR against 40 leaders of Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N). He was in the august company of two former Pakistani prime ministers, Nawaz Sharif and Shahid Khaqan Abbasi, three retired army officers, former Sindh governor, and former defence, interior and law ministers.

The FIR stated that Nawaz Sharif’s speech was aimed to indirectly “benefit his friend Indian Prime Minister Narendra Damodardas Modi.” The complainant believed Sharif supported the policies of India and his speeches were to divert world’s attention from Indian atrocities in Kashmir. Also, Sharif wanted to isolate Pakistan globally and defame Pakistan Army as “an anti-democratic institution”.

Kashmir cause with a bias

So, what did PM Haider do that made him ‘Raja Hindustani’? He heard Nawaz Sharif’s fiery speech on Zoom, then raised his hands in solidarity — and the rest, as they say, is history. So much for the ‘Kashmir cause’ that an elected prime minister is booked for raising hands while watching an online speech. A self-goal for a government that claims to be the loudest voice for the Kashmiris living in India but takes a U-turn when it comes to Kashmiris at home. But let’s focus on the bigger issue of making Modi happy.


Looking at this performance of PM Khan, the self-proclaimed ambassador of the Kashmiris, even Sharif took a dig at him saying that Iske sar mein bhoosa bhara hua hai (his head is full of hay).

After facing harsh criticism on the obnoxious sedition case and labelling others as traitors, the Imran Khan government first distanced itself from the complaint and then the complainant, a PTI labour wing office-bearer with a criminal record. While the sedition charge can’t be registered without the State’s compliance, it was said that PM Imran Khan was unhappy over such a case. Also, that the government doesn’t know who was behind the case. Now that is hardly surprising anymore since the PTI government also doesn’t know who runs it. As a great leader once said, “Doing a U-turn to reach one’s objective is the hallmark of great leadership.” The U-turn of social distancing from the sedition FIR was taken. After all, it is the hallmark of the PTI government.

It’s difficult to understand, though, why such a U-turn would be taken. PM Khan is what he calls ‘100 per cent convinced’ that Nawaz is working on India’s behest and foreign minister Shah Mahmood Qureshi says India and its media are happy over Sharif’s revelations. What, then, stopped the government from pursuing the sedition case? Or is it difficult to measure Indian happiness?

PML-N leader Maryam Nawaz clapped back that India gets happy when a three-time elected former prime minister is booked for treason, and when the ‘Fall of Kashmir’ takes place. India becomes happy when you present Kashmir on a tray to them or when elections are rigged in Pakistan. As a result, a selected government weakens the country, then India gets happy.  

بلوچستان کی بیٹیاں: جبری طور پر گمشدہ افراد کے خاندانوں کا نوحہ


کل کوئٹہ کے سڑکوں پر،کڑکتی دهوپ کے چهاؤں تلے،اداس چہروں میں  ایک امید لے کے بلوچستان کی دو بیٹیاں سراپا احتجاج تهیں۔ ان میں سے ایک اپنے بهائی اور دوسرے اپنی شوہر کی بازیابی کے لیے آئی تهی،دونوں میں خاص خاندانی و علاقائی  فرق نہیں تها۔ ایک شبیر بلوچ کی بہن اور دوسرا شبیر بلوچ کی بیوی تهی.
شبیر بلوچ کی اہلیہ نفسیاتی طور پر کنفیوز تهی. اسکے ہاتھ میں موجود بینر بهی کنفیوز تهی یہ بینر نما چارٹ کی فوٹو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ناظرین بهی کنفیوز ہوئے،اس احتجاج میں موجود بلوچستان کی ہر بیٹی کنفیوز ہوئی ،اس لیے ہم بهی کنفیوز ہیں۔ بظاہر چار  انچ لمبا اور ساڑهے تین انچ چوڈا ایک چارٹ بھلے کیسے کنفیوز کرنے کی صلاحیت رکهتا ہے۔ لیکن چارٹ پر لکهے الفاظ ہر دل کو مقناطیس کی طرح کهینچ لیتے ہیں۔ شبیر بلوچ کی بیوی کہہ رہی تهی “کہ میں خود کو شبیر کی بیوه سمجهوں یا بیوی”ایک  نا تمام جملے کو بیان کرنے کے لیے شبیر کے خاندان آواران سے آیا ہوا تها۔
وه آواران جہاں لوگ احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ جس سے پاکستان کا ہر بچہ سوائے ان طبقے  کے جو سوشل اور الیکٹرونک میڈیا سے دور ہیں۔  شاید انہیں پتا نہ ہو وگرنہ حامد میر کی 7 ستمبر کی نشریات تو سب نے دیکھ لیا ہوگا۔ آواران کی محرومی ،پسماندگی سے لگ ایسا رہا تها کہ کہیں آواران ایک ایسا علاقہ ہو جو گویا آج آزاد ہوا ہو،آج بنا ہو، گورنمنٹ کی تشکیل آج ہوا ہو۔ وہاں کے لوگ صاف پانی بجلی جیسی سہولیات سے محروم  ہیں۔
صحت اور تعلیم جیسے بنیادی اور انمول تحفے آج تک آواران کے باسیوں کی نصیب میں نہیں آئے۔ صاف پانی،بجلی،روڈ،صحت اور تعلیم کے پیسے آج تک آواران میں نہ پہنچ سکے وه پیسے کہیں کوئٹہ کے رہائشی مکانوں میں آپکو ملیں گے۔ جعلی اکاؤنٹ سے بنک تک ملیں گے یا پهر آواران کے لیے فنڈ بیرونِ ملک اور اندورنِ ملک  جائیدادوں اور کمپنیوں کی شکل میں  ملیں گے۔  بلکہ صرف آواران نہیں پورا بلوچستان اسی طرح پسمانده ہے مگر وہاں تک ہماری رپورٹنگ ناکافی ہے۔
گوادر کو اگرسمندر نے ترقی دلوائی تو “شکریہ سمندر”،گوادر کے باسی  سمندر کی خاطر بنائی گئی  پارک ضرور دیکهیں گے۔ سمندر کے لیے بنائی گئی روڈ بهی، چین  کی خاطر دیا ہوا  صاف پانی بهی شاید گوادریوں کے کهاتے میں جمع ہو۔ گر اسی طرح گوادر کا ساحل  چین کے لیے آباد  رہے تو ہو سکتا ہے گوادر کو ایک یونیورسٹی بهی نصیب ہو،وہاں بلوچستان کی بیٹے اور بیٹیاں صاحب اور صاحبہِ تعلیم بنیں۔  “بلوچستان کی بیٹیوں” نے تعلیم کو چنا ہے،بلوچستان کی بیٹیاں  تعلیم سے استفاده کرکے مستقبل میں بلوچستان کو  محرومیوں سے نکالنے کے عزم میں  ثابت قدم ہیں۔  وه آئنده آواران کو اسی طرح پسمانده نہیں دیکهنا چاہتے۔ وه بلوچستان کو وہاں تک پہنچانے کے عزم میں ہیں جہاں بلوچستان کا حق بنتا ہے۔ 
بلوچستان کی بیٹیاں خاندانی اور معاشرتی قید و بند سے نکل کر حصولِ علم کی خاطر دور دراز علاقوں تک جانے میں کامیاب تو رہی ہیں مگر وه کالجز اور یونیورسٹیز تک نہ پہنچ سکے ہیں جہاں وه ایک خواب لے کے گئے تهے بلوچستان کی بیٹیاں کہیں ہمیں کوئٹہ کے سڑکوں پر دهکے کهاتے ہوئے ملیں گے،کہیں ہم انکی تلاش جیلوں تک کریں گے،کبهی وه سڑکوں پر بهوک ہڑتال میں مشعول  ہونگے  کبهی وه اسپتالوں کے آئی سی یو میں   بے ہوش ہوتے ملیں گے،کبهی  وه اپنے بنیادی حقوق کے لیےسوشل میڈیا میں ہیش ٹیگ چلا رہے  ہونگے اور کبهی وه بہاالدین زکریا یونیورسٹی کے گیٹ کے باہر احتجاج کرتے ہوئے ملیں گے۔
بلوچستان کی بیٹیاں تعلیم جیسی عظیم ہستی تک پہنچنے سے بالکل قاصر ہیں،  تعلیم کی خاطر آدها کلومیٹر کا سفر  طے کرکے کہیں انتظار گاه میں بیهٹے  ہیں کہ کہیں حکومتی گاڑی ہمیں لینے آجائے۔
تعلیم نے انہیں مزاحمت سکها دی ہے،لڑتے لڑتے جیتنے کا ہنر سکهایا ہے۔ بهوک ہڑتال کرنا،بهوک و افلاس میں زنده رہنے کی برداشت سکهایا ہے، تعلیم نے انہیں جیل بهی دکهائے ہیں،حکمرانوں کو  بیدار کرنا انہوں نے سکهایا ہے۔

 شاید آنے والے حکمرانِ وقت ان سے کچھ سیکھ  جائیں،شاید بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ انکی بدولت ختم ہو،شاید ان کی بدولت کل کا بلوچستان  “پسمانده” نہ ہو۔ 

https://urdu.nayadaur.tv/47262/

عدم اعتماد اور استعفوں کا آپشن ہے، قمر زمان کائرہ


پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ہم اداروں کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہیں، ہمارے پاس عدم اعتماد اور استعفوں کا آپشن ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ اگر ہم حکومت کو ہٹادیتے ہیں تو تمام جماعتوں کو پہلے سے زیادہ ووٹ پڑیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر دوبارہ الیکشن ہوں تو ہمیں پہلے سے زیادہ ووٹ ملنے کا امکان ہے، بتائیں تو ہم کیوں نہ استعفے دیں؟

قمر زمان کائرہ نے یہ بھی کہا کہ اداروں کی سیاست میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ہمارا مطالبہ ہے کہ شفاف انتخابات ہوں اور تمام ادارے آئین کے تحت کام کریں۔

https://jang.com.pk/news/829906 

چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جزائر کے متعلق صدارتی آرڈیننس فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کردیا

 


پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جزائر کے متعلق صدارتی آرڈیننس فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہم اِس معاملے پر وفاقی حکومت سے مزید کوئی بات نہیں کریں گے۔ آج رات کے اندھیرے میں صدارتی آرڈیننس جاری کرکے جزائر پر قبضہ کیا جا رہا ہے، کل اِس طرح شہروں پر بھی قبضہ کرلیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی میں میڈیا سیل بلاول ہاوَس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

 پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہم نیک نیتی سے کام کر رہے تھے، ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا کہ وفاقی حکومت اس طرح رات کے اندھیرے میں صدارتی آرڈیننس جاری کرے گی۔ کوئی پاکستانی اسے برداشت نہیں کرسکتا کہ ایک صدارتی آڈیننس کے ذریعے سندھ یا بلوچستان کے جزائر پر قبضہ کرلیا جائے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس تضحیک آمیز و غیر آئینی آرڈیننس کو واپس لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پورے صوبے نے ایک آواز ہوکر اس قدم کی مذمت کی ہے، حکومت اپنی غلطی مانے اور آرڈیننس واپس لے، ہم کسی بھی صورت میں اپنی زمین کے ایک بھی ٹکڑے پر بھی غیرآئینی طریقے سے قبضہ نہیں کرنے دیں گے۔ پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ جب ایک کرکٹر کو جب وزیراعظم بنایا جاتا ہے تو اس کو سمجھ نہیں آتا کہ اِس قسم کی حرکتوں سے وفاقی نظام کو کیا نقصان ہوگا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان کو اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر ریاستی اداروں کو استعمال کرکے متنازعہ نہیں کرنا چاہیئے، فوج کسی ایک پارٹی نہیں، بلکہ پوری قوم کا ادارہ ہے۔ ایسا نہیں کہنا چاہئیے کہ فوج آپ کے ساتھ ہے، جبکہ کرپشن کو دیکھنا فوج کا کام نہیں ہے۔

 انہوں نے مزید کہا کہ اندرونی و بیرونی فورمز پر ہمارا ملک اس لیے ناکام ہورہا ہے کیونکہ ایک نالائق و نااہل سلیکٹڈ وزیراعظم کے عہدے پر برجمان ہے جسے میں کام کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سلیکٹڈ حکومت کا مزید بوجھ برداشت نہیں کرسکتا، وقت آگیا ہے کہ اب عوام کو نہیں، بلکہ عمران خان کو گھبرانا پڑے گا۔ سلیکٹڈ حکومت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ موجودہ حکومت کا رویہ غیرجمہوری ہے، مخالفین کے بغض میں انتقامی سیاست پر اتر آتی ہے اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم پر بغاوت کے الزامات لگا دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام اب سلیکٹڈ حکمرانوں کا ظلم برداشت نہیں کرسکتے، جو ہر روز نیا ظلم کرتے ہیں۔ دن بدن بجلی کی قیتموں میں اضافہ ہوتا ہے، صوبے کو اس کے آئینی حق کے مطابق گیس نہیں دی جارہی، جبکہ گیس کی لوڈ شیڈنگ کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ موجودہ حکومت نے عوام کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ 

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی پہلے دن سے موجودہ حکومت اور اس کے سہولت کاروں کے خلاف آواز اٹھاتی آئی ہے اور آج تک اپنے مؤقف پر قائم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں عوامی حکومت اور جمہوری نظام کو واپس لانا ہوگا۔ جمہوری نظام میں عوام کا اسٹیک ہوتا ہے، انہیں سنا جاتا لیکن اِس نظام میں ایسا کچھ نہیں ہے، پارلیمینٹ کو ربر اسٹیمپ بنا دیا گیا ہے، اسپیکر اسمبلی نے حکومت کے کہنے پر آمرانہ طریقہ کار اختیار کیا ہوا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ گلگت بلتستان میں آئندہ انتخابات صاف و شفاف ہی ہوں گے، اگر نہ ہوے تو اس کے نتائج کو سلیکٹڈ حکومت اور اس کے سہولتکاروں کو بھگتنا پڑے گا۔ ہم کب تک برداشت کریں گے کہ کوئی ہمارے ووٹوں پر ڈاکہ ڈالتا رہے۔


https://www.ppp.org.pk/pr/23880/ 

په پاکستان کي د زيارتونو، پیرانو او ځاى ناستو سیاسي ګټې

ژباړونکى: ح حقوېش،

دا وخت په پنجاب کي د زيارتونو شمېر 598 دى، په دې کي د 64 زيارتونو مينجور(ملنګان)، متوليان او پیران مستقماً په سياست كي برخه لري. سرګوده (سرګودھا)، جنګ (جهنګ)، پاکپتن، ساهیوال، وهاړي، منډي بهاوالدین، اوکاړہ، حجرہ شاہ مقیم، ملتان، چشتیان او د خیرپور ټامیوالا ګدۍ نشين مستقيماً په ټولټاکنو کي برخه اخلي. د دې ځاى ګدۍ نشين لومړى ځل د ازادۍ په جنګ کي د مجاهدينو د ځپلو لپاره د ختیځ هند  (ايسټ انډيا) کمپنۍ سره لاس يو کړ او د انګريزانو په حق کي يې فتوې ورکړې جنګ يې بغاوت ياد کړ او په امتياز کي يې مځكي ترلاسه کړې. همدا لامل وو چي دا ګدۍ نشين انګريزانو د نوې آبادي د واک سره په پاور سټرکچر کي ورګډ کړل او د کورټ آف وارډز له لارې هغوى ته مستقل سیاسي طاقت ورکړل شو، د کورټ آف وارډز سسټم له لاري چي کومو ګدۍ نشینو ته مځكي ورکړل شوې د هغوى تفصیلات په لاندي ډول دي:

په 1930ز کال کي د شاہ پور غلام محمد شاہ، ریاض حسین شاہ ته 6423 ایکټره مځکه، د اټک سردار شېر محمد خان ته 25185 ایکټره، د جهنګ د شاہ جیونا کورنۍ خضر حیات شاہ، مبارک علي، عابد حسین ته 9564 ایکټره، د ملتان سید عامر حیدر شاہ، سید غلام اکبر شاہ، مخدوم پير شاہ ته 11917 ایکټره، د ملتان ګردیزي سید جن کي سید محمد نواز شاہ، سید محمد باقر شاہ، جعفر شاہ ته 7165 ایکټره، د جلالپور پیر والا سید غلام عباس، سید محمد غوث ته 34144 ایکټره، ګیلاني سید آف ملتان په هغه كي سید حامد شاہ او فتح شاہ په نوم 11467 ایکټره، د دولتانه کورنۍ اللہ یار خان آف لډھن ته 21680 ایکټره، د ډیرہ غازي خان میاشاہ نواز خان آف حاجي پور ته 726 ایکټره، د مظفر ګړ د ډیرہ دین پناہ کورنۍ ملک اللہ بخش، قادر بخش، احمد یار او نور محمد ته 2641 ایکټره او د ستپور مخدوم شیخ محمد حسن ته 23500 ایکټره مځكه ورکړل شوه. نن ددې کورنيو ځاى ناستي او اولادونه د ولايتي شورا(صوبائي اسمبلي) او ولسي جرګې(قومي اسمبلي) په څوکيو ناست دي او د ولسواکي دفاع کوونکي دي.

بریتانیايي استعمار د مځکو ورکولو سره سره د درباريانو ګدۍ نشينو کورنيو ته د ذیلدار(چي يوڅه سيمي يې تر واک لاندې وي) عهدې هم ورکړې، په دې کي د مظفر ګړ څخه دیوان محمد غوث، سید باندې شاہ، خان صاحب مخدوم محمد حسن، سید تراب علي شاہ، سید عامر احمد شاہ، سید غلام سرور شاہ، سید جندوډا شاہ، د میانوالې څخه سید قايم حسین شاہ، غلام قاسم شاہ، د شاہ پور څخه پیر چن پیر، سید نجف شاہ، فیروز دین شاہ، پیر سلطان علي شاہ، علي حیدر شاہ، د جهنګ څخه محمد شاہ، اللہ یار شاہ، محمد غوث او بهادر شاہ ته د ذیلدار عهده ورکړل شوه.

په هندستان د برتانيې له تسلط څخه 180 کاله وروسته په 1937ز کال کي محدود جمهوري انتخابات ترسره شول چي په یونینسټ ګوند کي شامل همدا مځکوال، ګدۍ نشین او پیران انتخاب شول. د 1946ز کال په انتخاباتو کي بيا هم دغه کورنۍ واکمنۍ ته ورسېدلې، د جنوبي پنجاب څخه ګیلاني، قریشي، د ډیرہ غازي خان څخه پرته د منځني پنجاب څخه پیر نسیر الدین شاہ آف کمالیه، شاہ جیونا آف جهنګ، مخدوم سید علي رضا شاہ آف سندھلیانوالي، مخدوم ناصر حسین شاہ، پیر محی الدین لال بادشاہ آف مکهد شریف له اټک څخه په نښه وو. دې کورنيو د یونینسټ ګوند پرېښود په آل انډیا مسلم لیګ کي ورګډ شول او خپلي ګټي يې د پاکستان د حمايت سره وتړلې.

د پاکستان له جوړېدو وروسته دا ګدۍ نشينه پيران د قومي جمهوري او مارشال لا په سياست کي په مستقل ډول ورننوتل. د ایوب خان د ولسواکۍ له فکر څخه رانيولې د ضیاء الحق په مجلس شوریٰ کي د اسلامائزیشن فکر ته وده ورکول او د جنرال پرویز مشرف د روشن خیال فکرونو څخه په حمایت کي دا ګدۍ نشین له هر چا څخه لومړي وو.

په ملي او ولايتي سياست کي د درباري نمايندګانو د همدې اثر لرونكي ګدۍ نشينو او پيرانو حلقې که وڅېړل شي، نو دلته به د تعليم کچه په بوږنونکي ډول سره کمه وي. د دربارونو همدا مذهبي نمايندګان د خپلو مُریدانو څخه نظرانې، خوړې او خيراتونه اخلي. او د اوقافو په ادارې هر وخت ددوى کنټرول وي، څه موده وړاندي د پنجاب اسمبلۍ ته د اوقافو وزير راپور ورکړ چي د ادارې تر انتظام لاندې د 544 زيارتونو څخه د کال څه باندې 150 ميليارده روپۍ د حکومت ماليې ته د مُریدانو او سيلانيانو له خوړې او نظرانې څخه ورکول کيږي. او ددې مځکوالو مځكي سلګونه ايکټره دې، د ځينو زيارتونو ګدۍ نشين په اصل كي اوس په جانشين اوښتي دي، او هغوى د ګدۍ نشينو يا متوليانو په مټ د کلني عرُس لمانځغونډې جوړيږي.

https://www.taand.com/