M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Sunday, May 31, 2020
زرداری صاحب کے ’’جرائم‘‘ کی فہرست!
تاریخ جہاں دلنواز ہوتی ہے وہاں دل سوز اور دلخراش بھی۔ اقوام کی اٹھان اور تنزلی کی تاریخ دیکھ کر ان کے رویوں، حالات اور نتائج کو سمجھا اور پرکھا جاتا ہے۔اپنا المیہ یہ ہے کہ سوہنی دھرتی کی تاریخ کو مؤرخ کم ملتے ہیں اور ’’انجینئر‘‘ زیادہ۔
اس سے بھی بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تاریخ کی حقیقت، ہیئت اور اصلیت کے بجائے اس کی اختراعات پر زیادہ ایمان لے آتے ہیں۔ جس دن مؤرخ کامل مل گیا سمجھ لیجئے پیر کامل میسر آگیا۔ میرے جیسے بندے کو ویسے ہی پیر کہاں نصیب، مگر امید پر دنیا قائم ہے۔ کل پرسوں ہمیں ایک ولی اللہ ملا بھی تو وہ روحانی کم تھا اور سائنسی زیادہ۔
اس دنوں کے بعد لاک ڈاؤن سے نکلے بھی تو کبھی لگے لاک اپ سے نکلے ہیں تو کبھی محسوس ہو اسمارٹ لاک ڈاؤن میں ہیں، بہرحال تھوڑا خوش اس لئے تھے کہ اسمارٹ تو ہم ہیں نہیں چلو نصیبوں کیلئے اسمارٹ لاک ڈاؤن ہی بھلا۔ ٹڈی دل سے بھی اللہ ہی بچائے گا جو کووڈ انیس سے بچا رہا ہے۔ خیر ہم بھی کہاں پھنس گئے، چلئے کہانی بتاتے ہیں ملنے والے ولی اللہ کی:
بابا! کیا سیاست کا روحانی علاج بھی ہے؟ جواب ملا نہیں بچہ، نہیں! (ہم اتنے ہی میں خوش کہ مدتوں بعد کسی نے بچہ تو کہا) کیوں بابا سیاست کا روحانی علاج کیوں نہیں؟ بچہ! سیاست ازخود ایک علاج ہے بشرطیکہ یہ جمہوریت کا آمیزہ ہو! ہم سمجھ گئے بابا فارغ ہے جس بابے کو یہ معلوم نہ ہو کہ مقتدر اور مقدر میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، وہ کس چیز کا بابا ہے، پھر لوگ ہم پر الزام دھرتے ہیں کہ ہم بابا شناس نہیں۔
خیر ہم لگے رہے، پوچھا کہ بابا جی زرداری صاحب کو جانتے ہیں؟ ہاں، تعصب کا زرداری اور ہے، ضمیر کا زرداری اور۔ بابا جی یہ کیا نیا کٹا کھول دیا، زرداری، زرداری ہے آپ نے نئی سیاسیات شروع کر دی... بابا جی جلال میں آگئے اور ہماری شوخی بھی ہوا ہوئی۔
پھر بولتے ہی چلے گئے:باطن کی آنکھ کہتی ہے زرداری کی مسکراہٹ، صبر، تشکر اور تدبر قابلِ ستائش و قابلِ تقلید ہیں اور میرا ظاہر کہتا ہے زرداری صاحب بقول حسین حقانی 10پرسنٹ ہیں جو حقانی سے میاں برادران نے کہلوایا تھا۔ میرا ظاہر اس لئے مانتا ہے کہ ایک تو میاں برادران دایاں بازو، دوسرا اگر حسین حقانی نے بدنام کیا تھا تو بعد میں پیپلز پارٹی نے حقانی کو سفیر، اس کی بیوی کو سینیٹر کیوں بنایا؟
سیاست میں اتنا بڑا دل گردہ کیوں؟ حتیٰ کہ پرویز الٰہی کو ڈپٹی وزیراعظم تک بنادیا قلب میں اتنی وسعت کیوں؟ جمہوری رویے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے یہ بھلا آمریت کی طرح بے حد تو نہیں ہوتا۔ اوپر مصلحت پسندی ایسی جیسے شوق شہادت ہو۔ بچہ! اپنا دل نون لیگی اور دماغ تحریکی جبکہ نیت مقتدری ہے لہٰذا ہم ایک سیریز ہیں جو اینٹی زرداری ہیں۔ بھلا عمران خان کا کیا قصور، کرپشن کا نام تو نون لیگ نے دیا تحریک انصاف تو محض قوالی کر رہی ہے، اور نیب سلسلہ جاریہ ہے۔
بابا جی! میں نے عرض کیا نا، یہ معرفت شارفت اور ظاہری و باطنی فلسفے سے نابلد ہوں۔ آپ کو زیادہ چڑھاوا چڑھانے والے مریدوں کا واسطہ ہے۔ بات حق سچ بتائیں ووٹ چاہے شریفوں ہی کو دیں۔ بابا جی پھر ایسے نان اسٹاپ غصیلے ہوئے کہ بریکیں ہی نہ لگیں، معلوم ہوا کہ واقعی غصے اور مذاق میں اکثر بندہ سچ بول جاتا ہے۔
سنو میاں! زرداری صاحب کا ’جرم‘ یہ ہے کہ وہ نصرت بھٹو کے داماد، بینظیر بھٹو کا شوہر اور بلاول کے والد ہیں۔ اس کا ناقابلِ معافی جرم یہ ہے کہ اس نے ایوانِ صدر کی طاقت‘ حوصلے اور فہم و فراست کی ساتھ پارلیمنٹ کو دی، کون اپنی طاقت دیتا ہے؟ جرم یہ بھی کہ وہ 18ویں ترمیم کرانے والا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ اس کا جرم۔
پختونوں کی مان کر صوبے کا نام بدلنا اس کا جرم، گلگت- بلتستان صوبے کی بنیاد اس کا جرم، اپنے دور میں عالمی منڈی میں پٹرول اور کوکنگ آئل کی ہوشربا قیمتوں کے باوجود مہنگائی اور بجلی کے نرخوں پر کنٹرول اس کا جرم، بی بی کا دہشت گردی کا سامنا، 2008ء کی حکومت کو دہشت گردی کا سامنا، دہشت گردی کو کنٹرول نہ کرانے کی پاداش میں اپنی ہی حکومت کا بلوچستان سے خاتمہ اس کا جرم، چین کے بار بار دورے اور اقتصادی راہداری منصوبے اور گوادر کو جلا بخشنا اس کا جرم، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی بنیاد ایک الگ جرم، نواز شریف کو سمجھانا کہ میثاق جمہوریت پر رہو اور افتخار محمد چوہدری اینڈ لا ایسوسی ایٹس پر اندھا دھند تکیہ نہ کرو، یہ کہنا بھی زرداری کا جرم۔
’’جرائم‘‘ کی زنجیر جب آصف علی زرداری کے گلے کا ہار ہوگی تو پھر امتحانات کے دریچے کھلنا صداقت عامہ تو ہوگا۔ اوپر سے سندھ حکومت کے اینٹی کورونا امور، پھر صحت و تعلیم کے شاندار و جاندار منصوبے، علاوہ ازیں بلاول کا مدبرانہ طرزِ عمل اور بالغ نظری کا لوہا منوا کر اسٹیٹس مین ثابت ہو جانا۔
یہ سب آصف علی زرداری پر وزن نہ ہو تو کیا ہو؟ کسی شخص نے لمبی قید، صدارت کے بعد تک جیل کی سلاخیں چومی ہوں اور ایک جید نظریاتی مسلم لیگی نے مردِ حُر کا خطاب دیا ہو (لوگ تو کمر درد سے بھاگ جائیں) پھریہ زرداری بیماری میں بھی تبسم نہ چھوڑے تو ’محبت کرنے والے‘ اُسے کیسے چھوڑیں؟ اور آخر میں آگ بگولا بابا جی غصے میں یہ کہہ کر چلے گئے ’’بچہ! یہ ہے اصل تاریخِ زرداری! اور تم ٹھہرے انجینئرڈ تاریخوں کے قاری!‘‘
قارئین! راقم کا بابا جی سے متفق ہونا ’لازم نہیں‘ تاہم اتنا ضرور کہوں گا کہ پاکستان کی تاریخ کو چارچاند لگانے ہیں تو سیاسیات ذوالفقار علی بھٹو، اخلاقیات سید مودودی، ترقیات نواز شریف اور سیاسی ترجیحات زرداری والی اپنانا ہوں گی! بس، جتنا تم تاریخ کے متعلق زیادہ جانو گے اتنا ہی بہتر مستقبل تراش سکو گے!
Pakistan reports record cases, deaths from COVID-19
Aamir Latif
Health experts demand 'strict' lockdown to contain surging coronavirus cases across countryPakistan has reported its highest numbers of COVID-19 deaths and infections in a single day since the pandemic struck the South Asian nuclear state in March, prompting health experts to call for a "strict" lockdown to contain it.
According to the Health Ministry, a record 3,039 new cases, and 88 deaths from the disease have been reported in the country over the past 24 hours.
The country has recorded 223 deaths in the past three days, and over 8,000 new infections, with health experts warning of a steep rise in the number of cases in coming days.
On Saturday, the tally of confirmed cases reached 69,224 with 1,483 deaths so far.
According to the official's statistics, the southern Sindh province tops the tally with 27,360 cases, followed by the northeastern Punjab where 25,056 people have so far been infected with the virus.
Lockdown demanded
The government has declared wearing face mask mandatory at the public places in a desperate attempt to stem the fast-expanding pandemic. In the capital Islamabad, violators will be fined and could be sent to the jail, according to official notification. The government of Sindh province -- the worst hit by the pandemic -- suggests a 14-day "effective" lockdown to slow down the pace of the rising number of cases."Only an effective lockdown throughout the country for 14 days can stem from the rising wave of coronavirus cases. But the federal government seems to be in no mood to go for that," Murtaza Wahab, a spokesman for the Sindh government told reporters, referring to the lifting of lockdown restrictions, including the resumption of train service, and flight operation.
Echoing Wahab's view, Dr. Qaisar Sajjad, the secretary-general of Pakistan Medical Association -- a nationwide body of health professionals -- said: "The lockdown at this stage can yield some results only if it is enforced across the country under a uniform policy. Otherwise, it will have no impact".
"And there should be no confusion this time," he told Anadolu Agency referring to Prime Minister Imran Khan's continuous opposition to complete lockdown. Globally, more than 6 million cases have been confirmed in 188 countries and regions since the virus emerged in China last year.
The pandemic has killed nearly 370,000 people worldwide, while over 2.58 million people have recovered so far, according to figures compiled by the Johns Hopkins University of the US.
#Pakistan - #Lahore - 8 doctors of Sheikh Zayed hospital,Lahore test positive for Covid-19
Eight doctors of Lahore Shaikh Zayed hospital tested positive for coronavirus on Saturday, creating a grave concern among the medical staff figting against the pandemic on the frontline.
Sources in SZMCH told this correspondent that, Dr Mahboob Gillani of Services Hospital has also been diagnosed with coronavirus.
According to statistics provided by the official government website on the coronavirus situation in Pakistan, Pakistan topped its previous record number of new COVID-19 cases reported over 24 hours, 2,636, on May 28.
Pakistan had reported a record number of coronavirus deaths in a single day when 88 new fatalities took place across the country on May 30. A day before, it had set the record for the most number of COVID-19 deaths over the past 24 hours when 78 people succumbed to the virus.
The country has so far reported more than 69,400 COVID-19 cases with doctors and health experts warning that the number of coronavirus cases will continue to rise unless a strict lockdown is not imposed.
https://dailytimes.com.pk/619692/8-doctors-of-sheikh-zayed-hospital-test-positive-for-covid-19/
#CoronavirusPandemic #COVID19 #Pakistan - Infectious stories - Mixed messages from political and social leaders have fed the doubts
By Anjum Altaf
Many are having a hard time comprehending the coronavirus in Pakistan.
They have not seen it before; it has no distinctive symptoms; there have been very few deaths in most communities; it hasn’t yet penetrated rural areas where half the population lives. This lived experience makes it hard to relate to what they are being told by the rest of the world — that they are threatened by a lethal pandemic that calls for extreme constraints on how they live.
Many are having a hard time comprehending the coronavirus in Pakistan.
They have not seen it before; it has no distinctive symptoms; there have been very few deaths in most communities; it hasn’t yet penetrated rural areas where half the population lives. This lived experience makes it hard to relate to what they are being told by the rest of the world — that they are threatened by a lethal pandemic that calls for extreme constraints on how they live.
Mixed messages from political and social leaders have fed the doubts. From the prime minister down, many in government have underplayed the threat likening it to the flu and comparing the number of deaths to those from road accidents. The chief justice has turned denier-in-chief, ordering the immediate opening of markets for Eid shopping. Partisan in-fighting has convinced many that this is just politics as usual. Clerics, who have most sway with people, insist it is just a manifestation of divine will. The prime minister has telegraphed himself sitting with folded hands behind a leading cleric who has advocated praying for mercy rather than defying the will of the Almighty. Unable to resist, he has also ascribed the divine wrath to the sartorial immodesty of women.
These people may well turn out to be right but that would be gambler’s luck. The optimistic inference is based on past experience with the flu, a sense of security from the small number of deaths to date, and faith in God. It is not informed by an understanding of how infections spread, of reproduction rates, or of the deceptive inception of exponential growth. It does not anticipate that if indeed the growth turns out to be exponential, the curve flattens and reverses only in response to much harsher measures or after almost the entire population is infected.
As a result, Covid-deniers and conspiracy theorists are having a field day forwarding increasingly intense WhatsApp messages by the minute. Religiously oriented groups are convinced Muslims are being targeted while politically oriented ones believe the government has concocted the crisis to obtain debt relief, centralize power and crush dissent.
The people are not to be blamed for this state of affairs since Pakistan’s elite has deliberately kept its population scientifically illiterate and a number of such benighted cohorts are now in positions of leadership. In a manner of speaking, almost the entire country has been infected by the blight of ignorance and has developed herd immunity to reason. It would be a huge surprise if a representative sample were to reveal more than a few percent of the population familiar with exponential growth, the idea of an equation, or the ability to comprehend a graph. Concepts like inflexion points or ‘flattening the curve’ mean nothing to a very large majority. A gradual rise in numbers, displayed daily on countless dashboards, is just that; leaders and people alike are akin to Russell’s chickens who, quite oblivious of the approach of the feast, believe that the future will be an extrapolation of the past.
What can be done given this state of comprehension? Perhaps stories might communicate the reality better. The first analogy that comes to mind is of a forest fire that can be sparked by a solitary stray match.
What can be done given this state of comprehension? Perhaps stories might communicate the reality better. The first analogy that comes to mind is of a forest fire that can be sparked by a solitary stray match. The most effective response is to stamp the fire out before it spreads. But if it does, either because of negligence or strong winds, other stricter measures are needed. One of them is to cordon off the forest so that the damage is contained and the fire does not jump to neighbouring communities. The other is to identify and neutralize any particularly vulnerable patches within the forest. A fire typically spreads slowly through mature and healthy trees but whenever it crosses areas with decaying logs, scrub, or tinder, it consumes them in a flash and gains strength before slowing down again.
Countries like Italy and the USA have a relatively high proportion of old people with comorbidities, many concentrated in nursing homes run indifferently by for-profit corporations. The USA also has severely disadvantaged ethnic groups lacking access to care. Hidden away in a much-lauded city like Singapore are migrant workers tightly packed away in dormitories. Huge spikes in sudden mortalities have come from such tinderbox locations.
The Pakistani forest is different. It is all brown with no blacks and whites except that some are less brown than others. The population is much younger and there is no tradition of outsourcing the care of the old and vulnerable to specialized institutions. As a result, there have been no dramatic spikes in the daily count of deaths attributed to the virus which has encouraged a sense of complacency. However, the number of trees being consumed continues to grow by the day. And now that the protective cordon has been dismantled, the danger of the fire jumping to other communities has increased.
The second story is of the man-eating tiger that South Asians have encountered in their lore. The relentless encroachment on the tiger’s natural habitat has pushed it closer and closer to populated areas and there have been many cases of its straying into communities. When that happens, the prudent first response is to retreat into houses and to lock the doors. The tiger generally has a nose for avoiding difficult targets but as soon as it senses a weak one, it pounces. These weak elements of the population are the homeless, the malnutritioned, the handicapped who cannot run fast enough, and those who have no option but to venture out to find food to eat or visit a field to relieve themselves. The tiger does not spare the easy targets.
While retreating into houses and bolting the doors is a sensible first response, people know well that it is not a solution to the problem because a lockdown cannot be sustained indefinitely. People will run out of essentials just as used to happen in old times when those besieged behind city walls finally had to surrender. The real solution is to neutralize the tiger. Only when the predator is removed from the human community can normal life be resumed.
One can’t begin to communicate these analogies in the midst of a pandemic but incorporating them in books for the young can yield mental models that might help when the next epidemic comes around as it inevitably will given the continued encroachment on the natural habitats of wild animals. Telling such stories might even generate respect for natural habitats and the appreciation for a renewed relationship with nature.
Needless to say, such stories are not a substitute for the cultivation of a scientific attitude, numeric literacy, an ability to reason that enables people to understand why and how infections spread and what factors contribute to their decay or exponential growth. But the stories can serve as intermediate steps to rational elaborations. The process of education is facilitated by a move from simple and familiar models to elaborate and more complex ones. It is indeed ironic that the first popular illustration of exponential growth, the story of the king and the chess player who wished his reward to be one grain of rice placed on the first square of the chessboard and doubled on each subsequent one, is said to have originated in South Asia.
Saturday, May 30, 2020
#BLACK_LIVES_MATTER #US #Racism - How the Supreme Court Lets Cops Get Away With Murder
The courts protected police abuses for years before George Floyd’s death. It’s time to rethink “qualified immunity.”
Floyd’s neck for nearly nine minutes until the life left his body, has been fired, arrested and charged with third-degree murder and manslaughter. That is a step toward justice. Those who take a life should face a jury of their peers. But the rarity of the arrest, the fact that police officers who brutalize or even kill other people while wearing a badge so seldom end up facing any consequences is an ugly reminder of how unjust America’s legal system can be.
Floyd’s neck for nearly nine minutes until the life left his body, has been fired, arrested and charged with third-degree murder and manslaughter. That is a step toward justice. Those who take a life should face a jury of their peers. But the rarity of the arrest, the fact that police officers who brutalize or even kill other people while wearing a badge so seldom end up facing any consequences is an ugly reminder of how unjust America’s legal system can be.
There is a common refrain from street protesters in the wake of death after death after death after death of men of color at the hands of the police: “No justice, no peace.” In the absence of justice, there has been no peace.
Demonstrations in nearly a dozen cities, some of which turned violent, erupted in response to the killing of Mr. Floyd. At least seven people were shot in Louisville. Windows were broken in the state capitol of Ohio. And a police station was set ablaze in Minneapolis, where National Guard troops will again patrol the streets on Friday. The president tweeted early Friday that “when the looting starts, the shooting starts,” which frames the problem backward. It is not a defense of torching a Target to note that police abuse of civilians often leads to protests that can spiral out of control, particularly when met with force.
Police officers don’t face justice more often for a variety of reasons — from powerful police unions to the blue wall of silence to cowardly prosecutors to reluctant juries. But it is the Supreme Court that has enabled a culture of violence and abuse by eviscerating a vital civil rights law to provide police officers what, in practice, is nearly limitless immunity from prosecution for actions taken while on the job. The badge has become a get-out-of-jail-free card in far too many instances.
In 1967, the same year the police chief of Miami coined the phrase “when the looting starts, the shooting starts” to threaten civil rights demonstrators, the Supreme Court first articulated a notion of “qualified immunity.” In the case of police violence against a group of civil rights demonstrators in Mississippi, the court decided that police officers should not face legal liability for enforcing the law “in good faith and with probable cause.”
That’s a high standard to meet. But what makes these cases nearly impossible for plaintiffs to win is the court’s requirement that any violation of rights be “clearly established” — that is, another court must have previously encountered a case with the same context and facts, and found there that the officer was not immune. This is a judge-made rule; the civil rights law itself says nothing about a “clearly established” requirement. Yet in practice it has meant that police officers prevail virtually every time, because it’s very hard to find cases that are the same in all respects. It also creates a Catch-22 for plaintiffs, who are required to hunt down precedents in courts that have stopped generating those precedents, because the plaintiffs always lose. As one conservative judge put it in a U.S. district court in Texas, “Heads defendants win, tails plaintiffs lose.”
In the five decades since the doctrine’s invention, qualified immunity has expanded in practice to excuse all manner of police misconduct, from assault to homicide. As the legal bar for victims to challenge police misconduct has been raised higher and higher by the Supreme Court, the lower courts have followed. A major investigation by Reuters earlier this year found that “since 2005, the courts have shown an increasing tendency to grant immunity in excessive force cases — rulings that the district courts below them must follow. The trend has accelerated in recent years.” What was intended to prevent frivolous lawsuits against agents of the government, the investigation concluded, “has become a highly effective shield in thousands of lawsuits seeking to hold cops accountable when they are accused of using excessive force.”
The vast majority of police officers are decent, honest men and women who do some of society’s most dangerous work. They should be forgiven good-faith mistakes or errors in judgment. But in case after case, well documented now by body cameras and bystanders, too many bad cops go unpunished for policing their fellow citizens in ways that often leave them abused or dead. No official tally of deaths at the hands of police officers is maintained in the United States, a reality that defies common sense in our hypercataloged society, but estimates from journalists and advocacy groups put the number of Americans killed by the police north of 1,000 per year. Black Americans are killed by the police at a much higher rate than white Americans.
When citizens dare to protest police violence, say by kneeling at a sporting event, they are branded “anti-police” and un-American. With a shrinking recourse in the courts and a fierce headwind of social resistance to reforming the way the nation is policed, is it any wonder that many enraged Americans take to the streets — in the midst of a global pandemic, no less — to demand that their country change?
As the militarization of police tactics and technology has accelerated in the past two decades, pleas from liberals and conservatives to narrow the doctrine of qualified immunity, and to make it easier to hold police and other officials accountable for obvious civil rights violations, have grown to a crescendo. The Supreme Court is considering more than a dozen cases to hear next term that could do just that. One case involves a police officer in Georgia who, while pursuing a suspect, held a group of young children at gunpoint, fired two bullets at the family dog, missed and hit a 10-year-old boy in the arm. Another involves officers who used tear gas grenades to enter a home when they’d been given a key to the front door.
There are few things that Justice Sonia Sotomayor and Justice Clarence Thomas agree on, at least when it comes to the letter of the law. Both have expressed deep concern over the court’s drift toward greater and greater qualified immunity for police officers. (“By sanctioning a ‘shoot first, think later’ approach to policing, the Court renders the protections of the Fourth Amendment hollow,” Justice Sotomayor once wrote.) With the next George Floyd just a bad cop away, one hopes the other justices will be moved to ratchet back qualified immunity to circumstances in which it is truly warranted. When bad cops escape justice and trust between the police and the community shatters, it isn’t just civilians who suffer the consequences, it’s the good cops, too.
Iran and Turkey seek to support riots in the US
By SETH J. FRANTZMAN
Iran’s Ayatollah Khamenei tweeted that “if you’re dark-skinned walking in the US, you can’t be sure you’ll be alive in the next few minutes.”
Regimes based in Turkey and Iran both sought to exploit and support violent protests in the US over the weekend. Turkey is one of the world’s largest jailors of journalists and Iran’s government murdered 1,500 protesters last year, but leaders in both countries cynically sought to exploit recent protests in the US for their own ends.
Iran’s Ayatollah Khamenei tweeted that “if you’re dark-skinned walking in the US, you can’t be sure you’ll be alive in the next few minutes.” Former Iranian president, and Holocaust denier, Mahmoud Ahmadinejad claimed that the killing of George Floyd, the African-American man who was killed by police in Minneapolis, was “deeply disturbing and upsetting’ and that it was part of a plot by world powers and the “current world order.” He even used the word “nigga” in his tweet, apparently trying to make his tweet seem relevant to Americans.
It is not clear who writes the tweets for Ahmadinejad and Khamenei in English, some of them appear to be taken more from college activists in the US than from the usual terminology of the Iranian regime, which is a theocratic regime with a long history of suppressing minorities and murdering protesters. Even as Iran’s regime was supporting the protests in the US, which turned violent in many cities over the weekend, the regime in Tehran was gunning down peaceful Kurdish “kolbars” or people who move goods across the border. Turkey’s President Recep Tayyip Erdogan, who is known for ethnically cleansing Kurds in northern Syria and whose army carried out a drone strike that killed two civilians on Saturday in Iraq, also supported the US protests.
He called the US “racist and fascist” and said that the US city of Minneapolis behavior was the result of a “painful manifestation of the unjust order we stand against across the world.” Both Ahmadinejad and Erdogan referenced the need to stand against this “world order” which is apparently a reference to working together against the US. Erdogan also said that Turkey condemns he “inhuman mentality” in the US and that Turkey stands against all attacks targeting humanity. Despite these claims, Turkey launched an invasion of Syria last year that resulted in the widespread persecution of Kurds in Tel Abyad, including the lynching of Hevrin Khalaf, a young female Kurdish activist. Over the weekend Kurdish and Yazidi women were found being held in a secret prison run by Turkish-backed Syrian rebel extremists in Syria. Almost every week in Turkey journalists and activists are arrested.
Turkey claimed that it hoped that “perpetrators of this inhuman act shall receive the punishment they deserve” and that Turkey would be monitoring America. Ankara’s comments are in contrast to how the US State Department does not critique Turkey for its widespread human rights abuses are mass detention of journalists and oppression of Kurdish municipalities. Turkey has recently sought to jail and remove more opposition mayors in Kurdish areas. Ankara carries out drone strikes regularly killing civilians in Iraq, even bombing refugee camps. In May 2017 Erdogan’s body guards attacked peaceful protesters in Washington, DC. Yet Turkey’s regime media has now been celebrating the protests and looting in the US over weekend. It is in contrast to how Turkey’s pro-government calls any protesters or dissidents in Turkey “terrorists.” The decision by Turkey and Iran to involve themselves in the current protests in the US is part of a process of these regimes seeking to adopt a “progressive” face abroad, usually in English language tweets or video via their state media, the diametric opposite of what the regime does at home.
The same Iranian regime that killed more than 1,500 protesters last year, pretends to stand in sympathy with protesters in the US. The same Tehran regime that suppresses minorities at home speaks up for them abroad. The same Erdogan who tweets about Floyd doesn’t mention the thousands of minorities persecuted in Turkey, the jailed journalists or those like Hevrin Khalaf who were murdered during Turkey’s invasion of Syria.
The disingenuous comments by Ankara and Tehran and their use of the term “world order” appear to be a form of similar messaging that represents a view that Iran and Turkey could work together increasingly against the US and to reduce the US role in the world. In the past the Muslim Brotherhood, which influences the leading party in Ankara, and the Islamic Revolutionary Guard Corps in Iran, met in 2014 in Turkey to coordinate efforts in the Middle East. When Erdogan said that there is an “unjust order we stand against across the world” and Ahmadinejad wrote that there is a “current world order which we all must unite against,” either their similar tweets were written by the same person or this talking point is being circulated in Ankara and Tehran as a way to exploit the protests to confront the US.
From China - Watch out! 'Beautiful sight' in HK is spreading across the US
By Hu Xijin
US House Speaker Nancy Pelosi once called the violent protests in Hong Kong "a beautiful sight to behold." Now, the "beautiful sight" is extending from Hong Kong to over a dozen US states. US politicians now can enjoy this sight from their own windows. Quite a few places across the US are witnessing protesters setting police stations on fire, smashing shops, blocking roads, attacking places and destroying various public facilities, as if the radical rioters in Hong Kong somehow snuck into the US and created a mess like they did last year in Hong Kong.
A quick question for Pelosi and Secretary of State Mike Pompeo: Should the Chinese government and National People's Congress issue a statement to support the protests by African-Americans and the grassroots of US society? It seems to be what Beijing should do according to the logic of Washington cheering for the rioters in Hong Kong. Otherwise, if China does not support the protests in the US, how could the latter keep playing its Hong Kong card? After all, US President Donald Trump just announced Friday to impose sanctions against China over Hong Kong affairs.
Trump really had the nerve to make the announcement when a group of furious Washington citizens were storming toward the White House, which frightened people inside leading them to erect an emergency blockade.
Washington must have failed to anticipate that retribution could come that fast. It should be thinking about it though. Racial discrimination and social inequality in the US have always been severe. Look at how many poor, ethnic minorities have died of the novel coronavirus. The odds of outbreaks of riots in the US are much higher than they are in China. How could politicians in Washington possibly define the disturbances in other countries as "beautiful sights" publicly? It is stupid to do so simply because they want to attack China. Let's wait and see which country will encounter more chaos.
The US political system is declining. Worse, the process is accelerating, while the US showed no strength to carry out substantial reforms. The grievances of the grassroots are still left unheard. Since their difficulties can hardly be resolved, those people have no alternative but to resort to extreme ways to vent their anger.
The novel coronavirus pandemic has brought fundamental impacts to the country, the US seems to have become increasingly incapable to calm the outrage from the bottom of society. US politicians need no longer enjoy the "beautiful sight" from far away, they will see it in their own cities and even find themselves among the "beautiful sight" when they don't see it coming.
#BLACK_LIVES_MATTER #US #Racism - Statement from President Bill Clinton on the death of George Floyd
Statement from President Bill Clinton on the death of George Floyd
In the days since George Floyd’s death, it is impossible not to feel grief for his family—and anger, revulsion, and frustration that his death is the latest in a long line of tragedy and injustice, and a painful reminder that a person’s race still determines how they will be treated in nearly every aspect of American life.
No one deserves to die the way George Floyd did. And the truth is, if you’re white in America, the chances are you won’t. That truth is what underlies the pain and the anger that so many are feeling and expressing—that the path of an entire life can be measured and devalued by the color of one’s skin. Fifty-seven years ago, Dr. King dreamed of a day when his “four little children would be judged not by the color of their skin, but by the content of their character.” Today, that dream seems even more out of reach, and we’ll never reach it if we keep treating people of color with the unspoken assumption that they’re less human.
We need to see each other as equally deserving of life, liberty, respect, dignity, and the presumption of innocence. We need to ask ourselves and each other hard questions, and listen carefully to the answers.
Here’s where I’d start.
If George Floyd had been white, handcuffed, and lying on the ground, would he be alive today?
Why does this keep happening?
What can we do to ensure that every community has the police department it needs and deserves?
What can I do?
We can’t honestly answer these questions in the divide and conquer, us vs. them, shift the blame and shirk the responsibility world we’re living in. People with power should go first—answer the questions, expand who’s “us” and shrink who’s “them,” accept some blame, and assume more responsibility. But the rest of us have to answer these questions too.
It’s the least we can do for George Floyd’s family, and the families of all other Americans who have been judged by the color of their skin rather than by the content of their character. The future of the country depends on it.
’عقل سے کام نہ لیا تو حالات اٹلی سے بدتر ہو جائیں گے‘
اگر ہم نے ہنگامی اقدامات نہ کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔
ہسپتال سے مسلسل 24 گھنٹے ڈیوٹی کر کے ابھی ہاسٹل پہنچا ہی تھا۔ اس دوران نہ سونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں، بنا کچھ کھائے پیے، میں بستر پر سونے کے لیے لیٹ گیا، ابھی آنکھیں بند ہی کی تھیں کہ میسج آیا، میں نے دیکھا کہ میرے سینیئر ڈاکٹر تحسین کا میسج تھا۔
میں نے کھول کر پڑھا، اس پر لکھا تھا کہ ’شافع، بڑے بھائی فوت ہو گئے ہیں۔‘
ان کے بڑے بھائی کرونا (کورونا) وائرس سے متاثرہ تھے اور وینٹی لیٹر پر تھے۔ میں نے ان کی مغفرت کے لیے دعا کی، اب نیند پھر مجھ سے روٹھ چکی تھی۔ میرا دل چاہا کہ میں گلا پھاڑ کر چیخوں، لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں اٹک کر رہ گئی۔
میں نے سوچا کہ فیس بک ہی سکرول کر لوں لیکن ایک انہونے خوف کی وجہ سے نہ کر سکا۔ اس خوف کی بھی ایک وجہ ہے۔ میں نے فیس بک کا اکاؤنٹ دس پہلے بنایا تھا، ان دس سالوں میں پہلی مرتبہ مجھے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا سے ڈر لگنے لگا ہے۔ اب میں جب بھی فیس بک سکرول کرتا ہوں تو یہ خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ فلاں ڈاکٹر کو کرونا ہو گیا، فلاں ڈاکٹر کرونا سے جان کی بازی ہار گیا، خیبر پختونخوا کی نرس کرونا کی وجہ سے انتقال کر گئی، میڈیکل سٹوڈنٹ کا کرونا ٹیسٹ مثبت آ گیا۔
مجھے گذشتہ 24 گھنٹوں میں اس فیس بک نے تین ڈاکٹروں، ایک نرس اور ایک میڈیکل سٹوڈنٹ کی وفات کی خبر دی ہے اور یوں مجھے فیس بک سے مزید ڈر لگنے لگ گیا ہے۔
وطن عزیز کے تمام ڈاکٹروں اور ان کی تنظیموں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ عید کے موقعے پر لاک ڈاؤن میں نرمی مت کریں، لیکن حکومت نے تاجروں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ اوپر سے چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس دے کر کہ ’عوام نے صرف عید پر نئے کپڑے پہننے ہوتے ہیں‘ لاک ڈاؤن ختم کروا دیا۔ لوگ جو بھوک سے مر رہے تھے، اب بازاروں پر ٹوٹ پڑے۔ غلطی حکومت کی ہے، عدلیہ کی یا عوام کی، لیکن اس غلطی کی سب سے زیادہ سزا ڈاکٹر بھگت رہے ہیں جو دھڑا دھڑ اپنی جانوں سے ہاتھ دھوتے جا رہے ہیں۔
بجائے اس کے کہ ڈاکٹروں کا حوصلہ بڑھایا جاتا، الٹا ان کے خلاف گھٹیا مہم شروع کر دی گئی۔ کہا گیا کہ ڈاکٹر کرونا کے مریضوں کو چیک نہیں کرتے، کرونا کے مریضوں کو زہر کا ٹیکہ لگا کر خود مار دیتے ہیں، بعد میں ان کے گردے نکال کر بیچ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ڈاکٹروں کی تضحیک کا طوفان برپا ہے۔
ان عقل سے عاری لوگوں سے کوئی پوچھے، اگر ڈاکٹر کرونا کے مریض نہیں چیک کر رہے، تو خود ڈاکٹروں کو کرونا کیسے ہو رہا ہے؟ اگر کرونا کے مریضوں کو مار کر یہ ڈالر لے رہے ہیں تو خود مر کر ان ڈالروں سے اپنی قبریں پکی کر رہے ہیں؟
ایک طرف ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل سٹاف ہے، جو کرونا کے خلاف اگلے محاذ پر مورچے سنبھالے لڑ رہا ہے اور مر رہا ہے اور دوسری طرف عوام ہیں، جو ابھی بھی اس کو ڈراما اور یہودی سازش سمجھتے ہیں۔ یہ عوام عجیب ہے، جب وبا شروع میں تھی، انہوں نے نام نہاد لاک ڈاؤن پر عمل کیا، ماسک پہنے، بازار بند کیے، اجتماعات میں نہیں گئے، بے وقت اذانیں دیں، لیکن جیسے ہی وبا اپنی انتہا کو پہنچی، اس قوم نے ماسک پہننا چھوڑ دیے، بازار کھول دیے، اجتماعات ہونے لگ گئے، دل کھول کے شاپنگ کرنے لگے، ٹرانسپورٹ کھل گئی۔
اگر کرونا کی کوئی عقل ہے تو خود بھی اس قوم کی عقل پر ماتم کر رہا ہو گا۔ افسوس ناک ترین بات یہ ہے کہ ہماری قوم ابھی بھی انکاری ہے، جو ابھی بھی یہی سمجھتی ہے کہ ’کتھے اے کرونا؟‘ اور یہ کہ ڈاکٹر جھوٹ بول رہے ہیں۔
عید پر شاپنگ کرنے کے اثرات اب نظر آنا شروع ہو گئے ہیں، جس عوام کے سمندر نے شاپنگ کا رخ کیا تھا، اب یہی عوامی سمندر، بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری کی علامات لیے ہسپتالوں کی ایمرجنسی کا رخ کر رہا ہے۔ پنجاب کی حد تک تمام سرکاری ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں مکمل بھر گئی ہیں، آئی سی یو میں تل دھرنے کی جگہ نہیں بچی، جتنے وینٹی لیٹر تھے، وہ مریضوں کو لگ چکے۔ اب وینٹی لیٹروں کے لیے مریضوں میں دوڑ لگی ہوئی ہے اور ہسپتالوں میں لواحقین وینٹی لیٹروں کے لیے ایک دوسرے سے جھگڑتے نظر آتے ہیں۔ اب بندہ انہیں کہے کہ اور کرو شاپنگ!
پچھلے 24 گھنٹوں میں ملک میں کرونا کے 20 ہزار سے زائد نئے کیسز آئے ہیں، جو کہ اٹلی، سپین اور چین کی نسبت کہیں زیادہ ہیں، 57 لوگ اس مرض کی وجہ سے جان کی بازی ہار بیٹھے ہیں، لیکن بازاروں میں اسی طرح بھیڑ ہے۔
اس وقت سے ڈریں جب یہاں بھی اٹلی کی طرح دن میں سینکڑوں اموت ہوں گی اور ڈاکٹر چاہتے ہوئے بھی آپ کی جان بچا نہیں پائیں گے۔
ڈاکٹر حفاظتی سامان نہ ہونے کے باوجود بھی کرونا کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں، اس عمل میں وہ خود کرونا کا شکار ہو رہے ہیں۔ میرے اپنے کئی سینئیر ڈاکٹر اس مرض کا شکار ہوکر قرنطینہ میں چلے گئے ہیں۔
کچھ ایسے ڈاکٹر بھی ہیں، جو اپنے خاندان کے اکلوتے کفیل ہیں، انہیں اپنے سے زیادہ اپنے گھر والوں کی فکر ہوتی ہے، اگر خدانخواستہ انہیں کچھ ہو گیا تو ان کے گھر والوں کا کیا ہو گا؟ ان کی پریشانی بالکل جائز ہے۔ میرے بڑے بھائی جیسے سینئیر ڈاکٹر ارسلان کی کرونا وارڈ میں ڈیوٹی ہے، انہیں اپنے گھر والوں سے ملے ایک مہینے سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ہم آٹھ دوستوں کی ڈیوٹی الائیڈ ہسپتال میں ہے، وارڈ مختلف ہیں، جب بھی کسی کی ڈیوٹی ہوتی ہے، ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہمارے اس دوست کو اپنی حفظ و ایمان میں رکھے، یہ ہماری نہیں ہر ڈاکٹر کی کہانی ہے۔
مجھے کرونا سے ڈر لگتا ہے، میں اس ڈر کی وجہ سے باہر نہیں جاتا، بھیڑ والی جگہ نہیں جاتا۔ بازار گئے ہوئے عرصہ ہو گیا، لوگوں سے نہیں ملتا، ہر وقت ماسک پہنتا ہوں، ہاں اگر یہ سب اختیار کرنا بزدلی ہے، تو ہاں میں بزدل ہوں، ڈرپوک بھی ہوں، مجھے اس کرونا کی وجہ سے مرنے سے ڈر لگتا ہے۔ میں جب بھی ڈیوٹی کرنے ہسپتال جاتا ہوں، میں دعائیں پڑھ کر جاتا ہوں۔ شاید ہر ڈاکٹر آج کل یہی کر رہا ہے۔
میں اب جب کرونا سے لڑتے کسی ڈاکٹر کی وفات کی خبر سنتا ہوں، میں روتا ہوں، اندر سے ٹوٹ جاتا ہوں، میں خود کو بڑی مشکل سے سنبھالتا ہوں، ابھی سنبھلتا ہی ہوں تو ایک اور افسوس ناک خبر آ جاتی ہے، میں پھر ٹوٹ جاتا ہوں، تین ہفتوں سے یہی کیفیت ہے۔
28 مئی: ایک دن میں کرونا وائرس سے جان دینے والے ڈاکٹر
1۔ ڈاکٹر ثنا فاطمہ (لاہور)
2۔ ڈاکٹر محمد سلیم (لاہور)
3۔ ڈاکٹر خانزادہ شنوری (ہنگو)
4۔ ڈاکٹر زبیر احمد (کوئٹہ)
5۔ ڈاکٹر سلمان طاہر (فورتھ ائر ایم بی بی ایس)
6۔ ڈاکٹر نعیم اختر (گوجرانوالہ)
کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ جو ڈاکٹر چلے گئے، انہیں ’شہید‘ کہنا کتنا آسان ہے۔ لیکن کیا شہید کہنے سے ان کے گھر والوں کے غم آسان ہو جائیں گے؟
میرا ارباب اختیار سے سوال ہے، حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے جو ڈاکٹرز مر رہے ہیں، ان کی ایف آئی آر کس کے خلاف کٹوائی جائے؟ ان کے گھر والوں کے دکھ کا مداوا کسیے کیا جائے؟ کیا ڈاکٹروں اور نرسوں کی زندگیاں اتنی سستی اور بے وقعت ہیں کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی؟
اگر ڈاکٹروں پر رحم نہیں آتا تو ان کے خاندان والوں پر ہی رحم کر لیں۔ میری حکومت، چیف جسٹس سے اپیل ہے کہ خدارا فی الفور لاک ڈاؤن کا اعلان کریں، اجتماعات، پبلک ٹرانسپورٹ پر دوبارہ پابندی لگائی جائے، بازاروں کو بند کیا جائے، ڈاکٹروں کو حفاظتی سامان کی بلاتعطل فراہمی ممکن بنائی جائے۔
اگر ہم نے ہنگامی اقدامات نہ کیے، تو حالات اٹلی سے بھی زیادہ برے ہو جائیں گے اور دفنانے کے لیے قبرستانوں میں جگہ کم پڑ جائے گی۔
میری عوام سے بھی درخواست ہے کہ خدا کے لیے خود پر نہیں تو اپنے عزیزوں پر ہی ترس کھائیں۔ یہ شاپنگز، سینما دیکھنا اور دیگر تفریحات کرونا کے ختم ہونے تک موخر کر دیں۔ گھروں میں بیٹھیں، ماسک پہنیں اور اجتماعات میں جانے سے گریز کریں۔
ہاں، اگر آپ کو اب بھی یہ سب کچھ ڈراما اور یہودی سازش لگتی ہے تو کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کرونا وارڈ کا چکر لگا لیں۔ وہ آپ جیسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو کہ کرونا کو ڈراما کہتے تھے۔
نوٹ: اس تحریر کے مصنف فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال میں ڈاکٹر ہیں۔ ان کے سینیئر ڈاکٹر تحسین کے بڑے بھائی کرونا کی وجہ سے اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔ ان کے فوری غم میں یہ تحریر لکھی گئی۔
کیا ضلع صوابی بھی کرونا وائرس کا گڑھ بننے جارہا ہے؟
خیبر پختونخؤا کے ضلع صوابی میں کرونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد کئی گنا زیادہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔
اطلاعات کے مطابق سرکاری ذرائع کے پاس صرف ان لوگوں کا ریکارڈ ہے جو یا تو خود ٹیسٹ کروانے جاتے ہیں، یا جن کے بارے میں عوام اداروں کو مطلع کرتے ہیں۔
ان خدشات کا اظہار صوابی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ بات چیت کے دوران کیا ہے اور اپنے اپنے علاقے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ضلع کے بیشتر گاؤں اس وائرس کے لپیٹ میں آچکے ہیں۔
ان میں پابینی، پنجمن، جھنڈا، بوقو، پلوڈنڈ، ڈاگئی، سلیم خان، تلاندئی، کرنل شیر کلے، چھوٹا لاہور اور دیگر کئی گاؤں شامل ہیں۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ وائرس کس قدر تیزی سے ملک کے دور افتادہ علاقوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔
ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (ڈی ایچ او) ڈاکٹر کلیم اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پورے ضلع صوابی میں اس وقت کرونا وائرس کے کل مشتبہ افراد کی تعداد 514 ہے جن میں مثبت کیسز کی تعداد 159 ہے ۔جب کہ 50 لوگوں کے ٹیسٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
’297 لوگوں کے رزلٹ نیگیٹیو آچکے ہیں۔ 75 لوگوں کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ اور 73 لوگ صحت یاب ہو چکے ہیں۔ ‘
ڈاکٹر کلیم اللہ نے بتایا کہ ضلع صوابی میں اب تک کرونا وائرس سے 11 افراد کی موت واقع ہو چکی ہے۔
’لوگوں کی فون کالز روزانہ موصول ہورہی ہیں اور روزانہ عوامی شکایات کی بنیاد پر آٹھ ، نو لوگوں کو ہم ہسپتال بھجواتے ہیں۔لیکن دوسری جانب لوگوں میں لاپرواہی اور شعور کی کمی بھی ہے۔ لوگ ٹیسٹ دینے سے ڈر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ڈاکٹر ٹیسٹ لینے کے لیے ناک میں انجیکشن لگاتے ہیں، حالانکہ اصل میں ڈاکٹرانجیکشن نہیں لگاتے بلکہ ’سواب‘ لیتے ہیں جس سے لوگ خواہ مخواہ ڈر گئے ہیں۔‘
میڈیا رپورٹس کے مطابق کیسز میں اضافہ عید سے پہلے لاک ڈاون میں نرمی کے بعد ہوا ہے۔ اگرچہ دیہات میں شروع وقت سے حکومتی تاکید اور ہدایات کو بالائے طاق رکھ کر زندگی معمول کے مطابق رواں دواں تھی۔ تاہم جب حکومت کی جانب سے لاک ڈاون میں سختی کی گئی اور عوامی ٹرانسپورٹ کو بند کر دیا گیا تو وائرس پھیلنے کی روک تھام بہت حد تک ممکن ہوئی۔
عید سے پہلے لاک ڈاؤن ہٹانے کے بعد نہ صرف ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے میں ٹرانسپورٹ کی بندش ختم ہوئی بلکہ متاثرہ افراد اپنے ساتھ وائرس بھی لے گئے۔
دوسری جانب ماسک پہننے کا کوئی رجحان نہیں پایا جارہا ہے۔ گھروں میں تقریبات جاری ہیں جن میں دوست احباب کو مدعو کیا جارہا ہے اور و ہ بخوشی قبول کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ گرمی میں شدت پکڑنے کے ساتھ لوگوں نے دریاؤں اور نہروں کا بھی رخ کر لیا ہے ، ان میں ایک مشہور جگہ پیہور کینال ہے جہاں پر مرد حضرات مزے لے لے کر بغیر کسی ڈر و خوف کے نہاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
صوابی کے ایک گاؤں مینی کے رہائشی بہادر شیر کا کہنا ہے کہ پڑوس کے ایک گاؤں پابینی میں دو ڈاکٹروں اور ان کے ایک دوست جو میڈیکل ٹیکنیشن ہیں اور گاؤں میں ایک کلینک چلاتے ہیں ان کو یہ وائرس لگ گیا تھا۔ جو ان کی فیمیلیز میں بھی منتقل ہو گیا۔ بہادر شیر نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ وائرس کئی اور لوگوں میں بھی منتقل ہوا ہوگا۔
ضلع صوابی کے ایک رپورٹر امیر اختر کے مطابق جن دنوں تمام صوبے میں مکمل لاک ڈاؤن تا ان دنوں میں بھی صوابی میں دکانیں اور بازار کھلے رہے۔ جو دکانیں بند تھیں وہ یا تو مرکزی شاہراہ پر ہونے کی وجہ سے پولیس کے خوف سے بند تھیں یا پھر کچھ لوگوں نے اپنے بچاؤ کی خاطر خود بند رکھیں۔
کیا لاک ڈاون دوبارہ لاگو کرنے یا اس میں سختی لائے جانے کا امکان ہے اس حوالے سے جب مشیر اطلاعات اجمل وزیر سے بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ لاک ڈاؤن دوبارہ لگانے کے حوالے سے کوئی ارادہ نہیں رکھ رہے البتہ آئندہ میٹینگز میں وہ مشترکہ مشاورت سسے کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں گے۔
’ایک طرف کرونا وائرس ہے تو دوسری طرف معیشت ہے۔ ہم ایک سے جان چھڑانا چاہتے ہیں اور دوسرے کو بچا رہے ہیں۔ اس لیے ہمارا زیادہ زور عوام میں شعور بیدار کرنے پر ہے۔ اگر وہ تعاون کریں تو کام آسان ہو جائے گا ورنہ مریضوں میں اضافہ ہوتا رہے گا۔'
'میں کل صدر بازار کا جائزہ لینے گیا اتنی خواتین تھیں کہ میں حیران رہ گیا۔ دکانداروں کو دیکھا وہ ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں کر رہے۔ نتیجتاً ہمیں سختی کرنی پڑے گی۔ ‘
اگر کرونا وائرس کیسز کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے دیگر اضلاع کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بعض اضلاع جیسے کہ پشاور، مردان، چارسدہ، سوات، بونیر، دیر اور ملاکنڈ میں یہ تعداد صوابی سے کہیں زیادہ ہے۔ اسی لیے عوام کے باشعور طبقے کا کہنا ہے کہ اگر لاک ڈاؤن میں بروقت دوبارہ سختی لائی گئی تو صوابی اور کم کیسز والے دیگر علاقوں میں اس تعداد میں مزید اضافہ ہونے سے روکا جاسکتا ہے۔
کورونا وائرس: پاکستان میں کووڈ 19 کے نئے مریضوں کے علاج کے لیے جگہ اور وسائل کم پڑنے لگے
عزیز اللہ خان
پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار اس بات کا ثبوت پیش کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن اب اس کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ اور وسائل کم پڑنے لگے ہیں۔
ملک کے بعض ہسپتالوں میں حکام اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کے پاس کووڈ 19 کے مزید مریضوں کا علاج کرنے کے لیے گنجائش ختم ہوچکی ہے یا انھیں اس حوالے سے خدشات ہیں۔ اس طرح نئے آنے والے مریضوں کو شہر کے کسی دوسرے ہسپتال بھیجا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر اب تک خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں، حکام کے مطابق، سب سے زیادہ 43 فیصد وینٹیلیٹر اور بستروں پر مریض پہلے سے موجود ہیں۔ جبکہ صوبہ سندھ میں حکام کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے صرف کچھ ہسپتالوں میں سہولیات بچی ہیں۔
قومی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 64 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ جبکہ اس مرض سے اموات کی تعداد 1300 سے زیادہ ہے۔
ادارے کی جانب سے پیش کردہ 20 مئی کے اعداد و شمار کے مطابق کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے ملک کے 726 ہسپتالوں میں 20 ہزار 960 بیڈ مختص کیے گئے تھے۔ اس وقت تقریباً 11 ہزار مریض موجود تھے جس کا مطلب ہے کہ ملک میں کورونا کے لیے مختص 50 فیصد سہولیات پہلے سے زیر استعمال ہیں۔ ممکن ہے کہ کورونا کے نئے مریضوں کی آمد کے بعد یہ تعداد مزید کم ہوچکی ہوگی۔
پشاور/خیبرپختونخوا میں صورتحال
صوبہ خیبرپختونخوا میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ متاثرین کا تعلق پشاور سے ہے۔ قومی ادارہ صحت کی 20 مئی کی رپورٹ کے مطابق پشاور میں 47 فیصد وینٹیلیٹر، جو کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کیے گئے تھے، زیر استعمال ہیں۔
پشاور میں حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں کورونا وائرس کے لیے مختص بیڈ اور آئسولیشن سینٹروں میں 90 مریضوں کے لیے بیڈ مختص ہیں جن میں سے 85 بیڈ پر مریض موجود ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کملیکس کی ترجمان توحید ذوالفقار نےبتایا ہے کہ صوبے میں اس وقت سب سے زیادہ مریض چونکہ یہاں آرہے ہیں اس لیے اب وہ مزید آنے والے مریضوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھیج رہے ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس صوبے کا واحد ہسپتال ہے جہاں اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج پلازما تھیراپی سے کیا جا رہا ہے۔
توحید ذوالفقار کے مطابق اس وقت وہ ان مریضوں کا علاج کر رہے ہیں جو پہلے سے ہسپتال میں داخل ہیں۔ اس لیے وہ نئے مریضوں کو اب داخل نہیں کر رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف بیڈز کی فراہمی بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انھیں آکسیجن اور وینٹیلیٹر بھی فراہم کرنا ہوتے ہیں۔
حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر شہروں سے بھی مریض ان کے ہسپتال بھیجے جا رہے ہیں جس سے یہاں ایچ ایم سی میں بیڈ کم پڑ گئے ہیں۔ اس لیے وہ اب مزید مریضوں کو داخل نہیں کر رہے۔
اس وقت یہاں آٹھ مختلف وارڈز کے بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص کیے جا چکے ہیں۔ صوبائی ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر زبیر کے مطابق جس رفتار سے کورونا وائرس کے مریض سامنے آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بہت جلد پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں میں مختص تمام بیڈز پر مریض آ جائیں گے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے حکام کے مطابق یہاں کے انتہائی نگہداشت کے وارڈ (آئی سی یو) سمیت 105 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جہاں اس وقت تک 33 مریض داخل ہیں۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان میں 13 مریضوں میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ باقی مریضوں پر شبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 25 وینٹیلیٹر مختص کیے جا چکے ہیں جن میں سے 17 مریض ایسے ہیں جو اس وقت وینٹیلیٹرز پر ہیں جبکہ آکسیجن کی فراہمی ہر بیڈ پر یقینی بنائی جا چکی ہے۔
یاد رہے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں بڑی تعداد میں ڈاکٹر اور دیگر عملہ اس وائرس سے متاثر ہوا ہے ان میں امراض نسواں کے وارڈ کا عملہ بھی شامل ہے جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا تھا لیکن بعد میں کھول دیا گیا۔ ہسپتال ترجمان کے مطابق اب ہسپتال میں تمام وارڈز میں مریضوں کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کی جا چکی ہے جہاں روزانہ 70 بڑے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔
محمد عاصم نے بتایا کہ اس وقت تک ان کے پاس بیڈز موجود ہیں لیکن ’اگر مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس بھی جگہ کم پڑ جائے۔‘
خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاور میں کل 63 بیڈ رکھے گئے ہیں جن میں لگ بھگ پچاس فیصد بیڈز پر مریض موجود ہیں۔ کے ٹی ایچ کی ترجمان عالیہ نے بتایا کہ ان کے پاس بھا اس وقت تک مریضوں کے لیے بیڈز اور دیگر تمام ضروریات موجود ہیں۔ اس ہسپتال میں آیسو لیشن کے 15 کمرے سٹاف کے لیے مختص کیے گئے ہیں جبکہ صرف پانچ کمرے عام لوگوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔
بلوچستان میں صورتحال کیا ہے؟
کوئٹہ سے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق علاقے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں آئیسو لیشن سینٹرز کی تعداد 71ہے۔ ان میں سے 13 کوئٹہ میں واقع ہیں جبکہ باقی بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہیں۔
حکومتی رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے 13 آئسولیشن مراکز میں سے 927 بستروں کی سہولت ہے جبکہ باقی 58 مراکزمیں 680 بستروں کی سہولت ہے۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے مطابق کوئٹہ میں آئسولیشن کی سہولیات کو بڑھا کر چار ہزار کیا جائے گا۔
محکمہ صحت کے حکام کے مطابق اس وقت بلوچستان میں 73وینٹیلیٹرز ہیں جن میں سے 24کورونا کے مریضوں کے لیے مخصوص ہیں۔
تاہم ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان ڈاکٹر رحیم بابر کے مطابق ان کے علم میں یہ بات نہیں کہ آیا بلوچستان میں وینٹیلیٹرز کی اتنی بڑی تعداد موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وینٹیلیٹرز کی کمی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سول ہسپتال سے 12 اور بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال سے آٹھ وینٹیلیٹرز کو شیخ زید ہسپتال منتقل کیا گیا جن میں سے چھ فعال ہیں۔
بلوچستان میں کورونا کے نئے متاثرین سامنے آنے کے بعد حکومت نے اس ہسپتال کو کورونا کے مریضوں کے لیے مختص کردیا تھا۔
ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن بلوچستان کے ترجمان کے مطابق شیخ زید ہسپتال کوئٹہ 215 بستروں پر مشتمل ہسپتال ہے جس میں کورونا کے صرف 28مصدقہ اور 22 مشتبہ مریض زیر علاج ہیں۔
فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال میں کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے 80 بستر مخصوص ہیں۔
ہسپتال کے ایک سینیئر ڈاکٹر نے بتایا کہ ہسپتال میں اس وقت کورونا کے 40 مریض زیر علاج ہیں جبکہ مزید 40 مریضوں کے داخلے کی گنجائش ہے۔
بلوچستان میں ابھی تک کورونا کا کوئی ایسا مریض سامنے نہیں آیا جسے کسی ہسپتال میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے داخل نہ کیا گیا ہو۔ تاہم مریضوں کے رشتہ داروں کی جانب سے یہ شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی ہے اور ان کا عملہ مریضوں کا قابلِ اطمینان خیال نہیں رکھتا۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان نے لیاقت شاہوانی نے گذشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ کورونا سے متاثرہ 2200 افراد اپنے گھروں میں آئسولیشن میں ہیں۔
پنجاب میں صورتحال
پنجاب میں 22 ہزار سے زیادہ کورونا کے مریض موجود ہیں۔ رواں ماہ کی 10 تاریخ کو اخبار ڈان کی خبر میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ صوبے بھر میں 54 فیصد بیڈز کورونا کے مریضوں کے زیر استعمال ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبہ پنجاب کے تین بڑے شہروں لاہور، ملتان اور راولپنڈی کے مختلف ہسپتالوں میں کل لگ بھگ 1200 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختص ہیں جن میں 300 کے قریب وینٹیلیٹر ہیں۔
ان تین شہروں میں 40 سے 45 فیصد تک بیڈز پر مریض موجود ہیں۔ مقامی لوگوں کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے میو ہسپتال میں 420 بیڈز کورونا وائرس کے مریضوں کے لیے مختصں ہیں جہاں 70 فیصد تک بیڈز پر مریض موجود ہیں۔
میو ہسپتال کے ڈاکٹر راشد ورک نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ’(ہسپتال میں) گنجائش ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ ای این ٹی کا کوئی مریض آج ہسپتال میں داخل کرنا چاہیں تو ایسا ممکن نہیں ہوسکے گا۔‘
جیو کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ہپستال میں تقریباً تمام بیڈز زیر استعمال ہیں۔
قومی ادارہ صحت کی 20 مئی کی رپورٹ کے مطابق راولپنڈی میں کووڈ 19 کے لیے مختص 20 فیصد وینٹیلیٹر پہلے سے زیر استعمال ہیں۔
صوبہ سندھ میں صورتحال
اس وقت صوبہ سندھ میں کورونا وائرس کے سب سے زیادہ مریض موجود ہیں جن کی تعداد 25 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جمعرات کو کہا تھا کہ کیسز کا بڑھنا عوام کی جانب سے احتیاط نہ کرنے کا نتیجہ ہے۔
صوبے کے دس بڑے ہسپتالوں میں جمعرات تک 13 ہزار سے زیادہ مریض زیر علاج تھے۔
ذرائع ابلاغ میں شائع سرکاری معلومات کے مطابق 200 سے زیادہ مریضوں کی حالت تشویشناک ہے جن میں لگ بھگ 40 مریض وینٹیلیٹرز پر ہیں۔ صوبے میں 60 وینٹیلیٹر اب بھی دستیاب ہیں لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت انتہائی کم بیڈ خالی پڑے ہیں۔
یہ خدشتہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اگر اسی رفتار سے کورونا وائرس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ چند خالی بیڈ بڑی تعداد میں آنے والے مریضوں کے لیے کم ہوں گے۔
صوبہ سندھ میں کراچی سمیت بڑے شہروں میں سرکاری اور نجی سطح پر 10 ایسے طبی مراکز ہیں جہاں اس مرض کا علاج کیا جاتا ہے اور ان شہروں میں صحت کی سہولیات دیگر تمام صوبوں کے طبی مراکز سے بہتر ہیں یہی وجہ ہے کہ ملک کے مختلف شہروں سے مریض علاج کے لیے کراچی کو ترجیح دیتے ہیں۔
کراچی میں اس وجہ سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور وہاں صحت کی سہولیات اب کم پڑ رہی ہیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)