M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Saturday, December 4, 2021
U.S. to Urge Democracies to Sanction Corrupt Foreign Officials, Human-Rights Abusers
https://www.wsj.com/articles/u-s-to-urge-democracies-to-sanction-corrupt-foreign-officials-human-rights-abusers-11638566102?mod=politics_lead_pos6
#Sialkot blasphemy: The murder of a Sri Lankan is the latest example of a rising trend
https://www.pakistantoday.com.pk/2021/12/04/sialkot-blasphemy/
سیالکوٹ میں قتل: یہ ایک جرم نہیں، قومی مزاج کا پرتو ہے
سیالکوٹ میں لاقانونیت کے ایک واقعہ پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کی مذمت اور قصور واروں کو عبرت ناک سزائیں دینے کے بیانات سے کیا یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکومت اور ریاست ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے پر آمادہ ہے اور مذہب کی آڑ میں انسانی جانوں کو ضائع کرنے کا طریقہ قومی سطح پر ناقابل قبول عمل کہلائے گا؟ بادی النظر میں یہ قیاس کرلینا ممکن نہیں ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے شبہ میں ایک فیکٹری منیجر کو زد و کوب کر کے ہلاک کرنے کے بعد اس کی لاش کو جلا کر بھسم کرنے کا واقعہ عقیدہ کی وجہ سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا نہ تو پہلا واقعہ ہے اور نہ ہی یہ امکان ہے کہ یہ آخری واقعہ ثابت ہو گا۔ حالیہ تاریخ میں لاقانونیت کے ملتے جلتے ایک واقعہ میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو موت کی سزا ہوئی تھی جس پر عمل بھی کیا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد کے نواح میں اس قانون شکن اور قاتل کا عالیشان مقبرہ اور وہاں ’حاضری‘ دینے والوں کی کثیر تعداد، اب بھی یہ چغلی کھاتی ہے کہ توہین مذہب و رسالت کے معاملہ کو عوامی جذبات کی نفسیات کا یوں حصہ بنا دیا گیا ہے کہ ایسے واقعات میں دلیل یا عقل کا استعمال ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ ملکی نصاب سے لے کر سیاسی مزاج اور ضرورتوں تک نے اس شدت پسندانہ مذہبی رویہ کی آبیاری کی ہے اور اب یہ اتنا تناور درخت بن چکا ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کے ایک بیان سے اسے شاخوں سمیت گرا دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔
سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں منیجر کے عہدے پر کام کرنے والے سری لنکا کے ایک شخص کے بارے میں یہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ اس نے توہین رسالت کی ہے۔ کسی بھی ذریعہ سے ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ متوفی پریا نتھا کمارا سے کیا قصور سرزد ہوا تھا۔ کوئی کہتا ہے اس نے کوئی ایسے کاغذ نذر آتش کر دیے تھے جن پر قرآنی آیات درج تھیں۔ کسی کا کہنا ہے کہ دیوار پر لگا ہوا کوئی پوسٹر اتار پھینکا تھا جس پر مقدس ہستیوں کے اسمائے گرامی درج تھے یا ایک بیان یہ کہ کسی پرنٹر پر رسول پاک ﷺ کے اسٹیکر لگے ہوئے تھے جنہیں منیجر نے اتار دیا تھا۔
تاہم فیکٹری میں کام کا آغاز ہوتے ہی یہ افواہ زور پکڑ گئی کہ توہین رسالت کی گئی ہے پھر حالات کسی کے کنٹرول میں نہ رہے۔ بعینہ جیسا کہ ملک میں ایسے جذبات، مزاج اور طریقہ کار کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہے کیوں کہ انہیں پروان چڑھانے کے لئے ہر حکومت اور ریاست نے گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل کوشش کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی سیاست کی بنیاد تو مدینہ ریاست کے بیانیہ سے شروع ہو کر رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام تک پہنچ چکی ہے۔
وہ دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف خود کو ’مجاہد اعظم‘ کا درجہ دیتے ہیں عمران خان کا سیاسی پیغام کرپشن ختم کرنے کے وعدوں کی ناکامی کے بعد اب قوم کا اخلاق سدھارنے اور انہیں دین کے راستے پر لگانے کے عظیم مشن کی تکمیل میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ایسی حکومت اور اس کا سربراہ کس منہ سے سیالکوٹ میں اپنا ’دینی فریضہ‘ ادا کرنے والوں کو سزا دلوانے کا اہتمام کرسکے گا؟
حکومت نے حال ہی میں ممتاز قادری کی پھانسی کے واقعہ سے جنم لینے والی تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ معاہدہ کیا ہے اور اسے محب وطن مذہبی اور سیاسی پارٹی تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے لیڈروں کے خلاف ہمہ قسم الزامات واپس لے لئے گئے ہیں، پارٹی کے فنڈز بحال کر دیے گئے ہیں اور اس کے لیڈر کو باعزت طریقے سے جیل سے گھر بھیجنے کے بعد حکمران جماعت کا ایک مقامی لیڈر، سعد رضوی کو پھولوں کے ہار پیش کر کے مستقبل کے سیاسی عزائم کے لئے اس انتہاپسند گروہ کی ضرورت کا اعتراف کرچکا ہے۔
تحریک لبیک تو پھر چند پولیس والوں کو ہلاک کرنے، چند ارب روپے کی املاک کی تباہی اور عوام کو چند روز پریشان کرنے کا موجب بنی تھی لیکن حکومت تو تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بھی معاہدہ کر کے اس کے خوں خوار لیڈروں کو عام معافی دینے کے عزم کا اظہار کر رہی ہے جس نے گزشتہ بیس سال کے دوران 80 ہزار پاکستانیوں کو ناحق قتل کیا ہے۔
ان میں سب سے ہولناک واقعہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں پیش آیا تھا جہاں دہشت گردوں نے حملہ کر کے اسکول کے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوان طالب علموں کو گولیوں سے بھون دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ واقعہ پاکستانی ریاست اور فوج کے لئے ویک اپ کال کی حیثیت رکھتا تھا اور دہشت گردی اور مذہب کے نام پر قانون ہاتھوں میں لینے والوں سے ہمہ قسم تعلق اور رشتہ توڑ لیا جائے گا۔ تاہم ہمارا سفر حقانی نیٹ ورک کی دوستی سے لے کر تحریک لبیک کی سرپرستی اور سیاسی مقاصد کے لئے ان کے استعمال تک جاری رہا۔
اب بھی ہم دنیا کو افغان طالبان کی انسان دوستی کا یقین دلاتے ہوئے ان کی سرپرستی پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انہی افغان طالبان کے مشورہ و ہدایت پر ٹی ایل پی کے ساتھ ’مذاکرات‘ کیے جا رہے ہیں۔ یوں آپریشن ضرب عضب کے بعد آپریشن رد الفساد بھی ان عوامل کا خاتمہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا جن کا اعتراف اے پی ایس کے سانحہ کے بعد ’قومی ایکشن پلان‘ کے تحت کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان ایک سے زائد بار ان دونوں فوجی آپریشنز کو مسترد کرتے ہوئے اسے ماضی کی غلطی قرار دے چکے ہیں۔ تاہم انہوں نے ابھی تک واضح نہیں کیا ہے کہ مستقبل میں درست راستہ کا تعین کیوں کر ہو گا؟
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیالکوٹ میں جس بے رحمی سے ایک غیر ملکی منیجر کو ہلاک کیا گیا ہے، اس کے بعد محض بیانات جاری کرنے اور کسی صورت معاف نہ کرنے کے مبہم اور ناقابل عمل دعوؤں کی بجائے بطور قوم اس بات کا جائزہ لینے کی کوشش کی جاتی کہ قوم کو اس دلدل سے کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ کسی سانحہ کی تکلیف کو پر زور بیانوں کے جوش سے رفع کرنے والے لیڈر البتہ ایسا کوئی قدم اٹھانے کی تاب نہیں رکھتے۔ اس موقع پر سرکاری عہدوں پر متمکن یا سرکار کی خوشنودی کے لئے دین کی لاٹھی فراہم کرنے والے ملاؤں کے ان بیانات سے کیا فرق پڑے گا کہ ’یہ واقعہ انسانی عمل نہیں ہے۔ جب پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین موجود ہیں۔ تو ان کے ہوتے ہوئے اس طرح کی حرکت کرنا یہ واضح کرتا ہے کہ یہ جہالت اور وحشت ہے جس کا اسلام اور انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے‘ ۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی یہ بیان دیتے ہوئے اس سچ سے دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ درحقیقت ملک کے بلاسفیمی قوانین جو فوجی آمر ضیا الحق کی ملک و قوم کو دین ہیں، ملک میں دہشت، لاقانونیت، جھوٹی دینی حمیت اور عقیدے کو ذاتی عناد نکالنے کا ذریعہ بنانے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر بے گناہوں کو ہلاک کرنے والے لوگوں کو انہی قوانین کے ذریعے طاقت فراہم کی گئی ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے انسان کے بنائے ہوئے ایک قانون پر تنقید کو درست و جائز قرار دینے کے باوجود اور توہین مذہب کے عذر پر گورنر پنجاب کو ہلاک کرنے والے ممتاز قادری کو موت کی سزا دینے کے باوصف، ملک میں اس نام کو حرمت رسولﷺ کی علامت بنا دیا گیا ہے۔ کسی حکومت میں حوصلہ نہیں کی وہ توہین مذہب کے مروجہ قوانین کی ہلاکت خیزی کو سمجھتے ہوئے ان میں ترمیم کا لفظ بھی زبان پر لا سکے اور کوئی یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ ان کمزور، ناجائز اور متعصبانہ قوانین کے تحت درجنوں افراد کو کسی مقدمہ کے بغیر جیلوں میں قید رکھنا خلاف انسانیت فعل ہے۔
مسئلہ کسی شخص کو سزا دینے کا طریقہ نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کسی معاملہ کو کیوں کر دین کی ضرورت سے منسلک کرتے ہوئے عام شہریوں کو یہ باور کروا دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص ’توہین مذہب‘ کا مرتکب ہوا ہے تو اسے بہر طور سزا دینا اہم ہے۔ اگر ایسے قوانین بنا کر انہیں قبول کرنے کا مزاج بنایا جائے گا تو پھر عام لوگوں کو کیسے یہ یقین دلایا جائے گا کہ مذہب کے احترام میں اگر وہ کسی دنیاوی قانون کو ہاتھ میں لیتے ہیں تو یہ کوئی ’جرم‘ نہیں ہے؟
چند روز پہلے چارسدہ میں ایک شخص کو ایسے ہی الزام میں پکڑا گیا۔ مشتعل ہجوم کا دعویٰ تھا کہ اسے اس کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ اپنی دینی حمیت و جذبہ کے مطابق ’انصاف‘ کرسکیں۔ پولیس نے جب یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا تو ناراض ہجوم نے پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ تاکہ نہ بانس رہے گا اور نہ بانسری بجے گی۔
سیالکوٹ میں ایک انسان کی بے حرمتی اور المناک قتل کی واردات اگر کسی طور سے بھی اس قوم کے ضمیر کو بیدار کرنے کا سبب بن سکتی ہے تو اس کا اظہار بیانات اور گرفتاریوں کے دعوؤں کی بجائے سیاسی اقدامات سے ہونا چاہیے۔ اس سے مرنے والے یا اسے مارنے کی تڑپ رکھنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ملک کا وزیر اعظم اور آرمی چیف ایک معاملہ پر متفق ہیں اور اپوزیشن لیڈر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں۔ یہ مزاج اسی وقت ختم ہو گا اگر اس ملک میں دین کے دعوے دار یہ جواب دینے کی زحمت کریں گے کہ عقیدے کے نام پر انسانوں کو ہلاک کرنے کا جو کام دنیا کے کسی دوسرے اسلامی ملک میں نہیں ہوتا اور نہ ہی وہاں کے قوانین اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، وہ پاکستان میں کیوں مروج ہو چکا ہے۔ جب تک یہ جاننے کی کوشش نہیں کی جائے گی کہ اسلامی شعائر کے بارے میں ضیا الحق کی ’تحقیق‘ سے پہلے کیوں اس ملک میں ’توہین مذہب و رسالت‘ کا کوئی واقعہ دیکھنے سننے میں نہیں آتا تھا یا اس کی پرواہ نہیں کی جاتی تھی۔
وقت آ گیا ہے کہ عقیدہ کے نام پر ہلاکت کا اصول اسکولوں و کالجوں میں ازبر کروانے کی بجائے یہ پیغام عام کیا جائے کہ ہر عقیدہ محبت کا داعی ہوتا ہے۔ مذہب کے نام پر خوں ریزی کا سبق سکھانے والے خود بھی مذہب سے دور ہیں اور ملک کو بھی خود ساختہ تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہے ہیں۔ یہ رویہ ملک میں شدت پسندی کو پروان چڑھاتا رہے گا اور دنیا دن بدن پاکستان کو مسائل کا حل سمجھنے کی بجائے مسئلہ کی وجہ قرار دینے لگے گی۔
https://www.humsub.com.pk/432615/syed-mujahid-ali-1980/
انتہا پسندی کی فیکٹریاں!
ہم دہشت گردی کو تو شاید مات دے چکے لیکن انتہا پسندی کے نتیجے میں ہم اتنے سانحات در سانحات کا شکار ہوئے لیکن یہ کنفیوژن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آیا ہم نے اس سے نمٹنا کیسے ہے؟
اقبال ؒ کے شہر میں صبح سے ہی افواہیں زیرِ گردش تھیں کہ کوئی توہین مذہب کا مرتکب پایا گیا ہے۔ لہٰذا بڑی عدالت لگنے سے پہلے ہی ایک عدالت لگ چکی تھی۔
سیالکوٹ میں وزیر آباد کی ایک فیکٹری سے نکلنے والی افواہ بہت تیزی سے پھیل چکی تھی، ایسی کے ’گلی کوچوں کے خود ساختہ مفتیوں‘ کے بھی کان کھڑے ہوگئے اور وہ جا پہنچے اس کارخانے میں جہاں پہلے سے موجود ایک مشتعل ہجوم کسی پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔ کسی پر صرف یہ الزام لگا تھا کہ اس نے مذہب کی توہین کر دی ہے۔
لیکن الزام لگانے والے فیصلہ لکھ چکے تھے اور اس فیصلے پر عمل درآمد کی تیاری بھی کرچکے تھے۔ وزیر آباد کی فیکٹری کا ایکسپورٹ مینیجر پریانتھا کمارا سری لنکن نژاد شہری تھا۔ وہ شاید اپنے انجام سے بےخبر تھا۔
پہلے تو ’افواہ کاروں‘ نے فیکٹری کے اندر احتجاج کیا اور پھر جتھے کی شکل میں فیکٹری کے اندر جا گھسے اور گھسیٹتے مارتے پیٹتے اس شخص کو باہر لے آئے۔ ہجوم مشتعل تھا لہٰذا پولیس اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر موجود تو تھیں لیکن کسی انجام کے انجانے خوف نے انہیں بھی آگے بڑھنے سے روک رکھا تھا۔ اس موقع پر کسی بھی قسم کی مداخلت کا مطلب موت کو گلے لگانے کے مترادف تھا۔
پریانتھا کمارا ہجوم کے بہیمانہ تشدد سے ہلاک ہو چکا تھا۔ لیکن ابھی ایک اور انسانیت سوز کام انجام دیا جانا باقی تھا۔ کیمرے کی آنکھ نے یہ ظلم بھی دیکھا کہ مقتول کی لاش کو گھسیٹ کر بیچ چوراہے لے جا کر جلایا گیا۔
یہاں نامور شاعر افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
رحمتِ سیدِ لولاک پہ کامل ایمان
اُمت سیدِ لولاک سے خوف آتا ہے
مقتول کی لاش تقریبا راکھ بن چکی تھی جب ہسپتال کی چوکھٹ پہ پہنچائی گئی۔ اس طرح سیالکوٹ میں انسانیت کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ لیکن حالات اب قابو میں ہیں کیونکہ جو ہونا تھا ہو چکا۔ ایک شخص نے مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھنا تھا وہ چڑھ چکا۔ مقتول کی لاش کے ڈھیر سے اب کڑے سوالات کی صورت میں دھواں اٹھ رہا ہے۔
سوال ان زندہ لاشوں سے جو اس غیراسلامی غیرانسانی فعل کے ذمہ دار ہیں۔ کون ذمہ دار ہے انسانیت کی اس توہین کا؟ کون ہے جس نے پیغمبر اِسلام اور دین کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا۔ ماورائے عدالت قتل کی اجازت تو دنیا کا کوئی دین نہیں دیتا۔ تو پھر توہین مذہب کی آڑ میں رحمت اللعالمین کے دین پر ڈاکہ کیوں؟
امت کو کتاب کی بجائے جذبات کا یہ بیانیہ تھمایا کس نے؟ کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ توہین کی تشریح کیا ہے اور ایسی صورت حال میں نبی کریم کی حکمت عملی کیا ہوا کرتی تھی۔ کیا تاجدار ریاست مدینہ کی حیات مبارکہ میں ہمیں کوئی ایسا عمل دیکھنے کو ملا؟ یقینا نہیں، تو پھر کتاب اور سنت کے منہج سے ہٹ کر دلیل کی بجائے تلوار اور تیر سے جواب کیوں دیے جا رہے ہیں؟
جذبات نے کتاب سے اس قدر دور کر دیا کہ اب گلی گلی انسانیت کا قتل ہو رہا ہے۔ جو نام نہاد دین کی جذباتی ڈاکٹرائن کھڑی کی جا چکی ہے اس کے خوفناک نتائج تو پہلے سے ہی ہم بھگت رہے ہیں۔ دنیا اب امت کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ دین پر براہ راست سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔
بجائے کے جس ہستی کو رول ماڈل بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے ہم اسی ہستی کے دین کی جگ ہنسائی کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ ایک بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ حکمرانِ وقت تو واقعے کی مذمت کر رہے یہ کہہ کر کے یہ غیرانسانی اور غیراسلامی فعل ہے اور کسی کو اجازت نہیں قانون ہاتھ میں لینے کی لیکن افسوس صد افسوس؛ واقعات رونما ہو جانے کے بعد ایسے بیانات پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔
کیوں ریاست اور حکومت ان ہجوموں کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے؟ آخر یہ رجحان بڑھتا ہی کیوں چلا جا رہا ہے۔ بات عدم برداشت کے فقدان سے کہیں آگے ہی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ افسوسناک اور شرمناک جیسے الفاظ بھی اب تو چھوٹے پڑ گئے ہیں۔
یقینا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہر واقعے کے بعد توقع کی جاتی ہے کہ شاید یہ آخری واقعہ ہوا۔ پاکستان میں شدت پسندی کا عنصر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کو تو ہم شکست دے چکے لیکن انتہا پسندی کے خلاف ابھی تک خاطر خواہ نتائج پر مبنی کوئی آپریشن نہیں ہوا۔
ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ریاست اور حکومت انتہا پسندوں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ انتہا پسند سڑکوں پر آ جائیں تو ریاست کی ٹانگیں کپکپانے لگتی ہیں۔ پھر انہی انتہا پسندوں کو ’اپنے لوگ‘ قرار دے دیا جاتا ہے اور جب اس بارے میں حکومت سے سوال کریں تو کہا جاتا ہے یہ ’حساس‘ معاملہ ہے۔ یعنی ریاست اور حکومت بالکل مجبور معذور اور لاچار ہے۔
لیکن آج اس مجبوری معذوری اور لاچاری کی کنفیوژن کو ہمیں دور کرنا ہوگا۔ ایک وقت تھا جب پوری قوم دہشت گردی کے خلاف کنفیوژن کا شکار تھی لیکن 2014 کے ایک سانحہ (سانحہ اے پی ایس) نے پوری قوم کو یکسو کر دیا اور دہشت گردی کے خلاف وہ ابہام ختم ہوگیا اور سب ایک پیج پر آگئے جس کے بعد دہشت گردوں کو شکست سے دوچار کیا۔
ہم دہشت گردی کو تو شاید مات دے چکے لیکن انتہا پسندی کے نتیجے میں ہم اتنے سانحات در سانحات کا شکار ہوئے لیکن یہ کنفیوژن ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آیا ہم نے اس سے نمٹنا کیسے ہے؟
ایک طرف ہم سیالکوٹ جیسے واقعات کی مذمت بھی کرتے ہیں اور دوسری طرف ایسے انتہا پسندوں کو سپورٹ بھی کرتے ہیں۔ صرف مذمتی بیانات ریاستی اور حکومتی سطح پر کافی نہیں ہیں۔ ایک فیصلہ کن آپریشن کی اس ملکِ پاکستان کو اشد ضرورت ہے جو کہ انتہا پسندی کی ’فیکٹریوں‘ کے خلاف کیا جائے۔
https://www.independenturdu.com/node/86651