Friday, February 18, 2022

Video Report - Separatist leader announces evacuation of residents to southeast Russia

Video Report - Biden says he's "convinced" Putin has decided to invade Ukraine | Special Report

Video - Islamabad: PPP Senator Sherry Rehman expresses her views in Senate Session

Video - عدالتی سیل شدہ ریسٹورانٹ پر مونال گروپ کا دھاوا، اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں معطل

Countdown begins for Imran Khan's exit as the Pak Army helps opposition to get no-confidence numbers

In the last meeting of the Corps Commanders, Bajwa was cautioned by his faithful generals about how the "hybrid regime" has harmed the credibility of the establishment.
As the Pakistan National Assembly is set to start its session from February 18, all eyes are on the opposition parties, which have vowed to bring a no-confidence motion against Prime Minister Imran Khan in a bid to oust him. Unlike their failed attempts in the past, the united opposition is confident of getting the magic number in the Assembly."The opposition is trying to close all the loose ends before they go for the final. They want to be hundred per cent sure of getting 'blessings' from the military establishment. For them it is now or never because the situation is ripe and people are fed up with the Imran Khan government," says Ansar Abbasi, a Pakistani journalist.
But has the opposition got the magic number of 172 votes in the 342-member House to oust the Imran Khan government? The leaders of the united opposition front Pakistan Democratic Movement (PDM) are holding their cards close to their chests, leaving the government to guess about how their plans will unveil. Political hobnobbing among Imran Khan's ruling Pakistan Tehreek-i-Insaf (PTI) coalition partners and the PDM leaders have caused panic in the ranks of PTI leaders.
Imran Khan is laughing off the opposition's move to get the magic number because the Pakistan constitution empowers a party head to disqualify a member who votes or abstains from voting in the House against the direction of the Parliamentary Party to which he belongs. But according to Pakistani experts, allied parties do not come under this law. They are free to vote against the government."Ultimately the opposition would need support from the coalition partners of Imran Khan government like the Mutahida Quomi Movement (MQM) and Pakistan Muslim League Quaid-e-Azam (PMLQ) and they would not be on the side of the opposition if the military establishment so willed," said one Pakistani expert, adding that these allies will not join the opposition owing to personal rivalries and egos, but may vote against Imran Khan government. In addition, a group of 25-30 MPs of the ruling PTI has already formed a separate cluster within the party under Jehangir Tarin, a sugar baron who was at one time Imran Khan's right-hand man and according to Pakistani media. But this faction is now likely to be part of the opposition to oust Khan.
According to Pakistani analysts, the rift between Imran Khan and the Pakistan Army Chief, General Qamar Javed Bajwa, has gone to the point of no return but the military establishment is wary of taking direct power as it has done many times in the past. The reason behind it is that it was the establishment which bought Imran Khan after rigging the elections in 2018. The Pakistanis thus have been calling this government "hybrid regime", because of the military's visible hand in "selecting" the Imran Khan government. But now, it is evident that this experiment of political engineering has failed on every front, persuading the military led by the powerful Army Chief General Bajwa to a decision to get rid of Khan. Gul Bukhari, a Pakistani columnist was spot on when she said on her Twitter post: "No-confidence move is Bajwa's game. Do not be a facilitator. He who brought the baby (Imran Khan) should himself show him the door. Why are you helping? Let him do it."
Bajwa knows very well that if he does not get rid of Imran Khan now, the next few months will be crucial for his own survival. Bajwa is due to retire in November 2022 and it is unlikely that Imran Khan will agree to give him any extension. Imran Khan would prefer to appoint his favourite Faiz Hameed as the next Army Chief, with whose support he can ensure that he gets re-elected in next general elections in 2023. In the last meeting of the Corps Commanders, Bajwa was cautioned by his faithful generals about how the "hybrid regime" has harmed the credibility of the establishment.
Imran Khan is under immense pressure due to his failed policies -- an unprecedented economic meltdown and the highest inflation rate of 13 per cent, unemployment, industrial stagnation and a sharp polarisation in the country. The supply and demand side distortions have pushed the prices of commodities, electricity and gas sky high. Social stability undermined by red-hot radicalisation is at its nadir.
https://www.timesnownews.com/international/article/countdown-begins-for-imran-khans-exit-as-the-pak-army-helps-opposition-to-get-no-confidence-numbers/859839

ہم اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس حکومت کو جمہوری انداز سے چیلنج کریں گے۔ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری

 چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعرات کے روز لاہور میں لاہور بار ایسوسی ایشن سے اپنے خطاب میں کہا کہ قانون کے بغیر نہ تو کوئی پریس ممکن ہے اور نہ ہی کوئی مہذب معاشرہ اور نہ ہی جمہوریت۔ قانون معاشرے کو جوڑ کر رکھتا ہے اور ریات اور قوم کے درمیان ایک پل کا کام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور قانون کا ایک خاص رشتہ ہے۔ جب لاہور میں پاکستان پیپلزپارٹی وجود میں آئی تھی تو مشہور اخبار ڈان نے لکھا تھا کہ “بیروزگار وکیلو نے ایک پارٹی بنا لی ہے”۔ اب 50 سال بعد وہی پارٹی ملک میں قانون کی حکمرانی، آئین کی علمبرداری اور پاکستان کے عوام کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان ایک وکیل قائداعظم محمد علی جناح نے بنایا تھا اور پاکستان کو ایک آئینی، اسلامی مملکت بھی ایک وکیل شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وہ عدالتوں کا مشاہدہ اپنے بچپن سے کر رہے ہیں جب وہ اپنے والد اور والدہ کے ساتھ مختلف کیسوں کے سلسلے میں عدالت اور جیل جایا کرتے تھے۔

 ان کے والد نے ساڑھے گیارہ سال تک جیل کی صعوبتیں برداشت کیں اور ان کی والدہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو اور صدر زرداری 30سال سے ریاست اور حکومت وقت کے بنائے ہوئے مقدمات بھگتے رہے ہیں لیکن وہ نہایت شکرگزار ہیں کہ تاریخ نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے کہ “یااللہ یا رسول، بینظیر بے قصور”۔ وہ عدالتیں یہ مقدمات سماعت ہوتے تھے اور افتخار چوہدری کی عدالت ہی نے دونوں کو ہر کیس میں باعزت بری کر دیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ ہے جہاں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو فری ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا اور ان کے عدالتی قتل کی سازش تیار کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ صدر زرداری اور شہید بی بی کا فیصلہ تو تاریخ نے کر دیا ہے ار ان لوگوں کو فیصلہ بھی کر دیا ہے جنہوں نے ان کے خلاف سازشیں کی تھیں اور آج وہ سارے لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں پڑے ہوئے ہیں۔ ان سازشیوں کے نام ہمارے آئین، ہماری مملکت اور تاریخ میں کالے حروف سے لکھیں ہیں جبکہ شہید ذوالفقار علی بھٹو آج بھی عوام کے دلوں میں زندہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تاریخ اور پاکستانی عوام کا فیصلہ سب کے سامنے ہے لیکن ہم آج بھی اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ عدالتوں نے جو غطیاں کی ہیں ان کی تشریح کی جائے۔ یہ ہماری ذاتی درخواست نہیں اور یہ بات بھی نہیں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے داماد نے یہ کیس انصاف کے لئے عدالت بھیجا ہے بلکہ یہ کیس پاکستان کے عوام کے ساتھ ناانصافی کا ہے۔ میں نہ صرف لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلاءبلکہ پاکستان بھر کے وکلاءکا شکریہ اداکرتا ہوں کہ انہوں نے شہید ذوالفقار کے فیصلے کو اب تک تسلیم نہیں کیا اورآج تک اس فیصلے کو رد کرتے چلے آئے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستانی عدلیہ پر لگائے گئے دھبے کو صاف کیا جائے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ دنیا کو بتائیں کہ ہماری ملک میں آزاد عدلیہ موجود ہے تو عدلیہ نے جو تاریخ میں غلطیاں کی ہیں انہیں درست کریں۔ ہماری عدلیہ نے ڈکٹیٹرشپ کی توثیق کی ہے اور اس نے جنرل مشرف اور جنرل ضیاءکی بھی توثیق کی ہے لیکن قائد عوام کو پھانسی کے پھندے پر چڑھا دیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری وکلاءبرادری نہایت قابل احترام ہیں اور جج بھی، لیکن ہمیں عدلیہ کی کی ہوئی غلطیوں کو درست کرنا ہوگا۔ 

انہوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کسی بھی جمہوری نظام کی روح ہوتی ہے۔ موجودہ سلیکٹڈ حکومت قانون کی حکمرانی کو ختم کرنا چاہتی ہے اس لئے اس کی حفاظت کرنا تمام سیاستدانو ں، وکلاءاور ججوں پر عائد ہوتی ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ اکثراوقات انصاف کا ترازو عوام پر ظلم کرنے والے پلڑے کی طرف جھکا ہوا ہے۔ ہماری تاریخ میں بہت ساری اچھی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ہماری عدلیہ نے تاریخ میں عوام کا اعتماد کھو دیا ہے۔ ہم ایک ایسا عدالتی نظام چاہتے ہیں جو انصاف اور برابری پر مبنی ہو۔ ہم کسی ایک خاندان یا پارٹی کے لئے جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ ایک ایسے نظام کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں جس نے کروڑوں لوگوں کو ناکام کر دیا ہے۔ کوئی بھی جدید ریاست ایک انصاف پر مبنی قانونی نظام کے بغیر کام نہیں کر سکتی۔ پاکستان کو ایک انصاف غیرمتعصبانہ، شفاف اور کارآمد احتساب کا نظام چاہیے۔ موجودہ احتساب مخالفین کو دبانے اور ان لوگوں کو خاموش کرانے کے لئے ہے جو حکومت کے چہرے سے نقاب اٹھاتے ہیں۔ عدالتوں کا یہ فرض ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق اور انصاف پر مبنی مقدمات کی ذمہ داری نبھائیں۔ بدقسمتی سے عدلیہ ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے یہ میرا پہلا تجربہ ہے اور ایک نوجوان سیاستدان کی حیثیت سے میں کہتا ہوں کہ پارلیمان ہماری توقعات پر پورا نہیں اتری اور شاید یہ پاکستان کی تاریک کی سب سے خراب کارکردگی والی پارلیمنٹ ہے۔ ہم اپنے اداروں کی بہتری چاہتے ہیں اور یہ ہم پاکستان کے عوام کے لئے چاہتے ہیں۔ عام طور پر یہ تاثر ہے کہ پاکستان آہستہ آستہ جمہوریت کی طرف جا رہا ہے۔ ہم ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو دو قم پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور دو قدم آگے بڑھتے ہیں تو ایک قدم پیجھے ہٹ جاتے ہیں۔

 عمران خان کی حکومت میں ہم جمہوریت کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں بلکہ آمریت کی طرف جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہت چھوٹی ہی عمر میں انہوں نے عدلیہ کی آزادی کی مہم سے متاثر ہو گئے تھے جس میں کھوسہ صاحب کا سر پھٹ گیا تھا۔ مجھے آج تک 12مئی کا واقعہ یاد ہے جب عدلیہ کی آزادی کے لئے پی پی پی کے کارکن شہید ہوئے تھے۔ عدلیہ کی آزادی کی جدوجہد کسی ایک جج کے لئے نہیں بلکہ ایک ایس عدلیہ اور جمہوریت کے لئے تھی جو قانون کی حکمرانی کے تحت چلتی ہے۔ ہم عدلیہ کہ بہت عزت کرتے ہیں لیکن وکلاءکی تحریک سے لگائی گئی توقعات پوری نہ ہو سکیں۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ عدلیہ ایس جگہ ہے جہاں قانونی خیالات، آئینی امور اور بنیادی انسانی حقوق اور انسانی عزت کی بات کی جائے۔ یہ ایسی جگہ نہیں کہ جہاں یہ فیصلے کئے جائیں کہ کونسا ڈیم کہاں بنے گا۔ عدلیہ غریب ترین طبقے کا آخری سہارا ہوتا ہے لیکن کچھ ججوں نے اپنے اوپر یہ ذمہ داری لے لی ہے کہ فیصلہ کریں کہ کونسی عمارت گرائی جائے گی اور کونسی عمارت نہیں گرائی جائے گی۔ پاکستان کی عدلیہ اورجمہوریت وکلاءبرادری کے ہاتھ میں ہے۔ وکلاءکے پسینے اور خون نے وکیل کے پیشے کو عزت بخشی ہے۔ بہت سارے جج موجود ہیں جن کی عزت نہ صرف یہ کہ پاکستان اس خطے بلکہ دنیا بھر میں کی جاتی ہے۔ ہم وکلاءسے اپیل کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ اور پاکستان کے قانونی نظام کو بچائیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ ہماری سرحدوں کی ایک جانب انتہاپسندوں کی حکومت ہے اور سرحدوں کی دوسری جانب بھی انتہاپسند موجود ہیں۔ اس وقت پاکستان کے لئے یہ موقع ہے کہ ہم جمہوریت کے لئے روشنی کا منارا بن کر ابھریں۔ ہم اس دوراہے پر غلط سمت بھی جا سکتے ہیں۔ ہم اپنی پارلیمان کو مذاق بنا سکتے ہیں، ہمیں درست فیصلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک جمہوری، وفاقی اور کثیرالجہتی معاشرہ بنائیں۔ 

پاکستان کی وکلاءبرادری سے ہر ڈکٹیٹر ڈرتا ہے وہ وکلاءکے کالے کوٹ سے ڈرتا ہے۔ متحد وکلاءبرادری کے سامنے کوئی طاقت نہیں ٹھہر سکتی۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کی حکومت کو چیلنج کریں اور ہم وکلاءبرادری سے اپیل کرتے ہیں کہ جس طرح وہ قائد عوام اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے ساتھ کندے سے کندھا ملا کر جدوجہد کریں اور اس پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں جو بیروزگار وکلاءنے بنائی تھی تاکہ ملک میں آئین اور جمہوریت کی حفاظت کی جا سکے۔ احتجاج کرنا ہمارا جمہوری حق ہے، ہم جمہوریت پسند لوگ ہیں اور ہم پارلیمان اور پی ٹی وی پر حملہ کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہم اس سلیکٹڈ حکومت کے خلاف ایک تحریک شروع کریں گے اور یہ تحریک پاکستانی عوام کے ساتھ ہوگی۔ وہ عوام جن کا وزیراعظم پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔ ہم اس حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائیں گے اور اس حکومت کو جمہوری انداز سے چیلنج کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ کون عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور کون عوام کے ساتھ نہیں کھڑا۔ انشااللہ ہم پاکستان بچانے میں کامیاب ہوں گے اور ضرور کامیاب ہوں گے۔

https://www.ppp.org.pk/pr/26304/