Wednesday, January 23, 2019

Video Report - French films 'Sink or Swim' and 'Custody' lead César nominations

Video Report - #protests #Venezuela #Maduro Turmoil in Venezuela

Video Report - #Venezuelan president breaks diplomatic ties with US

Video Report - Angela Merkel keynote speech at 2019 Davos World Economic Forum | DW Nachrichten

Video Report - Is #Davos Listening? Populist wind blows over the World Economic Forum

#Pakistan - Father arrested in Rawalpindi after daughter accuses him of raping, impregnating her



A man from Rawalpindi was arrested on Wednesday after his daughter accused him of having raped and impregnated her, said police.
The 16-year-old girl alleged that her father had been sexually abusing her over the past year and she had finally decided to approach the police after learning that she has become pregnant. Police have registered a case against the man on the complaint of his daughter under Section 376 of the Pakistan Penal Code.
According to the first information report (FIR), a copy of which is available with DawnNewsTV, the teenage victim is the second eldest child among three sisters and three brothers. The family lives on Rawalpindi's Girja road and her father works at a nearby brick kiln.
The girl's mother fled away to Peshawar after having grown tired of her husband's alleged cruelty and torture. After the mother left home, the father allegedly beat up the girl's elder brother, who too ran away to Peshawar, leaving the girl to take care of her siblings, all of whom are younger than her, the report quotes the complainant girl as telling the police.
Her father then allegedly turned his ire towards her, the victim said in her statement to police.
"He would beat me up and rape me throughout the past year. When I would beg him to stop, and tell him I would complain to the police, he would threaten to treat me like he had treated my mother and said he would kill me," the FIR quotes the girl as saying.
While speaking to DawnNewsTV, the girl said that the family had moved to Rawalpindi from Peshawar.
"I was left alone to take care of my siblings. My father crossed all limits of cruelty. I have come to police seeking deliverance from the oppression I have to face every day," she said.
DSP Farhan Aslam of Sadar Bairooni police station told DawnNewsTV that a medical examination of the girl had been conducted and doctors have confirmed that she is indeed pregnant. The initial medical report has further revealed that she was constantly raped, resulting in her pregnancy.
"True facts will emerge only after results from the DNA examination are released and it is ascertained whether it was the girl's father who impregnated her or someone else," said the police officer.
The DSP further said that the arrested accused will be presented before the court tomorrow, adding that the girl has been handed over to the care of the women's police.
The court will determine whether she should be shifted to Darul Aman or the child protection bureau, he said.

پاکستان یا شہرناپرساں؟ - #Sahiwalkillings


سانحہ ساہیوال، پہلا سانحہ ہے اور نہ آخری ہو گا۔ چند روز تک سیاستدان بیانات دیتے رہیں گے۔
چند روز تک وزرا بڑھکیں مارتے رہیں گے۔ چند روز تک ٹی وی ٹاک شوز میں ریٹنگ بڑھانے کے لئے سانحہ ساہیوال پر توتو میں میں ہوتی رہے گی۔ پھر ہم ایک نئے ڈرامے میں لگ جائیں گے یا پھر ایک نئے سانحے کا انتظار کریں گے۔ سانحہ ساہیوال میں جاں بحق افراد کے لواحقین در در کی ٹھوکریں کھاتے رہیں گے۔ اس واقعہ کے ذمہ داران دندناتے پھر رہے ہوں گے۔
وزیرداخلہ شہریار آفریدی اسی طرح اسمبلی میں اور پریس کانفرنس میں بڑھکیں مارتے رہیں گے لیکن نہ انہیں سانحہ ساہیوال یاد ہوگا اور نہ کوئی میڈیا پرسن یا اسمبلی ممبر ان سے اس واقعہ سے متعلق سوال پوچھنے کی زحمت گوارا کرے گا۔ ماضی بعید میں نہیں جاتے، ماضی قریب کے دو واقعات کی مثال لیتے ہیں۔ نقیب اللہ محسود اور ان کے ساتھ دو اور معصوموں کو جب اسی طرح بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تو اس وقت بوجوہ موجودہ سے بھی بڑا طوفان کھڑا ہو گیا۔
تب سیاستدانوں نے اس واقعے پر اس سے زیادہ سیاست چمکائی تھی اور تب میڈیا نے اس حادثے پر اس سے بھی زیادہ دکانداری کی تھی۔ نقیب اللہ محسود کے قاتلوں کے خلاف کارروائی کے لئے اسلام آباد میں کئی روز تک جو دھرنا دیا گیا، اس سے عمران خان سے لے کر اسفندیار ولی خان تک اور محمود خان اچکزئی سے لے کر مولانا فضل الرحمان تک، کم وبیش سب سیاسی رہنماؤں نے اپنے خطابات کے جوہر دکھائے۔ اور تو اور جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے سے لے کر ٹی وی اینکرز تک نے وہاں غمزدہ پختونوں کے جذبات کو گرمایا۔
ریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان صاحب تو پختونوں کا ووٹ ہتھیانے کے لئے کراچی کے دھرنے میں بھی تشریف لے گئے اور وہاں اپنے خطاب میں راؤ انوار جیسے ظالموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کا عزم ظاہر کیا۔ ساہیوال کے سانحہ کا تو ابھی کسی عدالت نے نوٹس بھی نہیں لیا لیکن نقیب اللہ محسود کے معاملے کا اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے سوموٹو نوٹس بھی لیا۔ نقیب اللہ محسود کے مظلوم والد کو یقین دہانیاں بھی کرائیں۔
حتیٰ کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی وزیرستان میں واقع ان کے گھر پر تشریف لے گئے اور نقیب اللہ محسود کے یتیم بچوں کے سروں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انصاف دلانے کا عزم ظاہر کیا۔ تاہم ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ عمران خان کے سر پر وزیراعظم کا تاج بھی سج گیا۔ نقیب اللہ محسود کے نام پر جذباتی تقاریر کے ڈرامے رچانے والے شہریار آفریدی وزیرداخلہ بن گئے۔ قرآنی آیات کے حوالے دے کر، نقیب اللہ محسود اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے نام پر آنسو بہانے والے علی محمد خان بھی وزارت سے سرفراز ہوئے۔ لیکن نقیب اللہ محسود اور ان جیسے سینکڑوں معصوموں کے قاتل راؤ انوار آج بھی دندناتے پھر رہے ہیں۔
آج دو بندوں (ایک جبران ناصر اور دوسرے کا نام بوجوہ نہیں لکھا جا سکتا) کے سوا باقی سب نے نقیب اللہ محسود کو بھلا دیا ہے۔ ان کے بچے بے آسر ا پڑے ہیں اور راؤ انوار یواے ای کے محلات میں رہنے والے اپنے بچوں کے پاس جانے کے لئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔ سردست تو عدالت نے انہیں جانے کی اجازت نہیں دی لیکن جلد یا بدیر ہمیں خبر مل جائے گی کہ راؤ انوار وہاں پہنچ گئے۔ dوسری طرف نقیب اللہ محسود کے بوڑھے والد انصاف کے لئے کبھی کراچی کی عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں تو کبھی اسلام آباد کے۔ وسعت اللہ خان، مبشر زیدی اور ضرار کھوڑو کے سوا کسی اینکر کی ہمت نہیں ہو رہی کہ نقیب اللہ محسود کے والد اور بچوں کی فریاد سے دنیا کو آگاہ کرے۔ جبران ناصر کے سوا کسی وکیل، کسی سیاستدان اور کسی مذہبی رہنما کو فرصت نہیں کہ نقیب اللہ محسود کے والد کی فریاد سنے یا پھر راؤ انوار کے معاملے کا فالواپ کرے۔
 مذکورہ واقعہ کو تو ایک سال گزر گیا۔ ایک اور تازہ ترین واقعہ ملاحظہ کیجئے جوریاست مدینہ کے نام لیوا عمران خان کے اقتدار میں وقوع پذیر ہوا۔ پشاور کے شہریو ں کی زندگیوں کے محافظ اور ایس پی پشاور محمد طاہر داوڑ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے اغوا ہوئے۔ جس طرح سانحہ ساہیوال کے بارے میں وزراء بھانت بھانت کی بولی بول رہے ہیں، اسی طرح ان سے متعلق بھی وزیرداخلہ کچھ کہتے رہے تو وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کچھ کہتے رہے۔
 طاہر داوڑ غائب تھے لیکن وزیراعظم کے ترجمان افتخار درانی وائس آف امریکہ پر آکر میڈیا والوں کا مذاق اڑاتے رہے کہ انہوں نے اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے طاہر داوڑ کو مغوی مشہور کر رکھا ہے۔ جس طرح سانحہ ساہیوال کے مقتولین سے متعلق وزرا کے دہشت گردی کے الزامات سے ان کے لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی ہو رہی ہے، اسی طرح طاہر داوڑ کے بھائی اور بچے بھی افتخار درانی کے بیان سے تڑپ اٹھے تھے۔ پھر ایک دن خبر آئی کہ پشاور کے شہریوں کی زندگیوں کے اس محافظ کی لاش افغانستان میں مل گئی۔
 چنانچہ سانحہ ساہیوال کی طرح اس پر بھی ملک بھر میں قیامت برپا ہوئی۔ سیاستدانوں کے بیانات آنے لگے۔ ٹی وی ٹاک شوز کا بھی کئی دن تک بازار سج گیا۔ وزیراعظم نے یقین دہانیاں کرائیں۔ اسمبلی فلور پر وزیرداخلہ نے سانحہ ساہیوال پر دیے بیان سے بھی بڑھ کرجذباتی تقریر کی۔ تب بھی انہوں نے یہی الفاظ بار بار استعمال کیے تھے کہ مجھے اللہ کو جان دینی ہے۔ اسی طرح تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم ظاہر کر کے عمران خان کی حکومت نے ایک جے آئی ٹی بنائی تھی لیکن آج کئی ماہ گزرنے کے باوجود کچھ پتہ نہیں۔
 اس جے آئی ٹی کا پتہ چلا اور نہ اس کی تحقیقات کا۔ اسی لئے مجھے کوئی امید نہیں کہ سانحہ ساہیوال کے مجرموں کو قرار واقعی سزا مل جائے گی اور نہ اس خوش فہمی کا شکار ہوں کہ یہ سانحہ آخری سانحہ بن جائے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ہم سب جھوٹ بول بول کر اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ جس طرح جمہوریت نہیں لیکن ہم جمہوریت جمہوریت کا ڈرامہ رچائے ہوئے ہیں اسی طرح اس ملک میں نظام انصاف نہیں لیکن ہم پولیس، وکیل اور عدالت کا ناٹک کرکے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ جیسے اس ملک میں واقعی کوئی قانون موجودہے۔
 حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں ایک طبقے کے لئے قانون ہے لیکن دوسرا طبقہ اس سے بالاتر ہے۔ ایک طبقہ کو پولیس اور عدالت وغیرہ کا خوف لاحق رہتا ہے لیکن کچھ طبقات ایسے ہیں جو ان دونوں کو اپنے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھتے ہیں۔ جن معاملات میں ان طبقات کا کردار آجاتا ہے، وہ کبھی منطقی انجام تک نہیں پہنچتے۔ لہٰذا جب تک اس ملک میں رہنے والے تمام طبقات اور تمام ٰشہریوں کو ایک لاٹھی سے ہانکنے والا نظام نہیں بنایا جاتا، یہ سانحات کم ہونے کی بجائے بڑھتے رہیں گے۔ تاہم جو لوگ اس دوئی کو برقرار رکھ رہے ہیں، انہیں مکافات عمل کا قانون بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔ آج دوسروں کے بچے خوفزدہ ہیں تو کل ان کے بچے بھی غیرمحفوظ ہوسکتے ہیں۔ اللہ کا واسطہ اس ملک کو شہرناپرساں نہ بنائیے، پاکستان رہنے دیں۔

‘Abbey kaale’: Racist slurs against SA player could land Pakistan cricket captain in dock




In 2nd ODI against South Africa at Durban, Sarfraz Ahmed used racist language to taunt all-rounder Andile Phehlukwayo, who starred in the home side’s win.
New Delhi: Pakistan cricket captain Sarfraz Ahmed racially abused South Africa all-rounder Andile Phehlukwayo during the second ODI between the two countries in Durban Tuesday.
In the 37th over of the South African innings, Ahmed could be heard shouting on the stump microphone: “Abbey kaale, teri ammi kahan baithi hui hain aaj? Kya parhwa ke aaya hai aaj?” This loosely translates to: “Hey black man, where’s your mother sitting? What prayers is she offering for you?”
Phehlukwayo had starred with ball and bat, taking four wickets and scoring a half-century as the home side defeated Pakistan to level the series.
As soon as Ahmed was heard making these comments, South African commentator Mike Haysman caught on and asked his co-commentator, former Pakistani batsman Ramiz Raja, for translation. Presumably embarrassed, Raja laughed nervously and said it was “difficult really to translate” as it was a “very long sentence”.
Ahmed was also recorded saying “Sahi hai, sahi hai, yeh hi kar, yeh hi kar is ko, nashebaazi karta hai yeh” about Faf du Plessis, the South African captain. This loosely translates to “This is good, this is good. Keep doing this to him, he takes drugs.”
Widespread social media condemnation
Former Pakistan fast bowler Shoaib Akhtar led the condemnation of Ahmed’s comments on social media. Akhtar, who was controversy’s child during his own playing career, said: “He shouldn’t have said what he said and I feel he has done a very shameful act. I think he should apologise for it, he should publicly apologise for what he said to this guy.”
However, Akhtar later deleted his Twitter post.
Senior cricket journalist Osman Samiuddin called it “pathetic and racist”, while many social media users from Pakistan hit out at Ahmed for his remarks.
Osman Samiuddin ✔ @OsmanSamiuddin This isn’t funny. Its pathetic and racist. Hassan @iamhassan9 Sarfraz to Pehuhlukwayo: "abbay kaale teri Ammi kahan bethi hoyi hain aaj, kya parhwa kay aaya hai aaj." 🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣🤣

Ahmed hasn’t issued an apology or a statement retracting his remarks.

What action can be taken?

The International Cricket Council (ICC) hasn’t yet taken note of the matter, but it could come down hard on Ahmed. The ICC Anti-Racism Policy for International Cricket, which has been in effect since 1 October 2012, states that no “inappropriate racist conduct” will be tolerated.
The offence can be reported by anyone from the match officials to players to even the ICC chief executive.
An offence under the Anti-Racism Code for Participants is defined as “engaging in any conduct (whether through the use of language, gestures or otherwise) which is likely to offend, insult, humiliate, intimidate, threaten, disparage or vilify any reasonable person in the position of a Player, Player Support Personnel, Umpire, Match Referee, Umpire Support Personnel or any other person (including a spectator) on the basis of their race, religion, culture, colour, descent, national or ethnic origin”.
The maximum punishment under the code for a first offence is eight suspension points. This means the player can be banned for a number of matches — each Test match is worth two suspension points, while each ODI and T20I are worth one each.

In Pakistan’s sweatshops, workers are fired for asking for toilet breaks

Women and men working in Pakistan’s garment factories are subject to serious labor rights abuses. The situation is so bad that even asking for something as basic as the right to go to the toilet can mean you get fired, says the Human Rights Watch in its report released on Wednesday, January 23.
The report, ‘No Room to Bargain: Unfair and Abusive Labor Practices in Pakistan’, details the poor working conditions at garment factories, which employ 4.2 million people, one of the largest by any sector. It identifies a range of labor rights violations affecting the lives of factory workers whose plight remains off the political agenda of the country’s ruling elite.
Workers, many of them women, said that they experienced verbal abuse, were pressured not to take toilet breaks, and were even denied clean drinking water, the report said, referring to a field survey of 140 people from 24 factories in Karachi, Lahore and Hafizabad. “I was fired last Sunday for not working overtime. On Monday, when I went to work, my name was listed with the security guard at the gate and he told me that I had been ‘gate stopped’,” the report said, quoting a worker at the manufacturing facility of a domestic brand in Karachi.
In two factories, the global human rights organization documented beatings of workers by managers. The survey findings point to the abusive treatment of workers by the factory owners who do not pay official minimum wages and pensions. These sweatshops force overtime on workers, don’t give them enough breaks, and ignore regulations requiring paid maternity and medical leaves. They are also clamping down on independent labor unions that demand workers’ rights, the report says.
In recent years, Pakistani garment workers have expressed serious grievances through strikes and protests.
In December 2018, the report says garment workers protested at a training institute in Lahore run by a major Pakistani brand, which they said abused a government incentive program. Workers alleged that the training institute actually operated as a factory, extracting free labor from “trainees.” In 2017, workers protested against Khaadi, a leading Pakistani apparel brand, which fired 32 workers for demanding their rights under Pakistani law, the report said.“In September 2012, a fire at the Ali Enterprises garment factory in Karachi killed 255 workers and injured more than 100. Investigations found a series of irregularities and an almost complete absence of fire and safety systems. Survivors reported that the management made no immediate efforts to rescue the workers and instead attempted to save their merchandise first,” it said.
Even that tragedy did not result in meaningful reforms and a sustained national conversation on labor rights. “The government is failing to enforce laws that could protect millions of garment workers from serious labor rights abuses,” Human Rights Watch said, identifying problems in the government’s labor inspection system.
It said Pakistan’s authorities should revamp labor inspections and systematically hold factories accountable for abuses.
“Pakistan’s government has long neglected its obligations to protect the rights of the country’s garment workers,” said Brad Adams, Asia director at Human Rights Watch. “Prime Minister Imran Khan’s government should urgently enforce the labor laws and adopt new policies to protect workers from abuse.”

https://www.samaa.tv/news/2019/01/in-pakistans-sweatshops-workers-are-fired-for-asking-for-toilet-breaks/

#Pakistan - SC dismisses petition seeking CM Murad's disqualification

The Supreme Court of Pakistan on Wednesday dismissed a petition seeking disqualification of Sindh Chief Minister Murad Ali Shah.
The petition sought the disqualification of CM Murad on the basis of dual nationality and work permit.
The hearing was conducted by a three-member judicial bench headed by Justice Umar Ata Bandial. Murad’s disqualification petition was dismissed by the returning officer, the court said and added that the petitioner did not challenge the returning officer’s decision on a legal forum.
The petitioner was a political rival of CM Sindh, the judges said in the judgment.
They said being a political rival does not confirm one’s intentions, adding that the high court rightfully rejected the petition previously.
“Despite there being a legal forum in place, why was the petition lodged in the high court,” questioned Justice Muneeb Akhtar adding that the petitioner can’t request to remove someone from the post all of a sudden.
“Everybody brings the petition to disqualify someone from their post to the Supreme Court and the high court,” Justice Akhtar lamented.
“There are legal forums available for such petitions.”
He said that the petitioner’s intention should be proven in order to remove someone from the post. Justice Bandial remarked that political rivalry could not be made the only basis to hear a disqualification petition. PTI submits motion against CM Murad, reiterates resignation demand.
Under the new legal regulations, a petition can be lodged in legal forums, Justice Bandial stated and added that under the new laws, anyone can use legal forums to lodge a petition.
Parliament has widened the scope to criticise a member’s candidacy, Justice Akhtar remarked during the proceeding.
Political opponents have rights as well, Justice Akhtar and Justice Bandial observed stating that the Murad’s position was only challenged on political basis.
Disqualification does not apply in this case, Justice Bandial informed the petitioner.
“Petitioner needs to give reasons to prove the case against Murad,” Justice Bandial commented.
Murad forfeited his dual nationality July 2013, Justice Bandial said hence after vacating nationality there isn’t a basis to disqualify him for dual nationality.