Saturday, May 25, 2019

Video Report - #FemalePleasure: The search for the clitoris

Video - #YellowVests #Paris #France Police use tear gas against demonstrators during 28th week of Yellow Vest protests in France

Video Report - Theresa May resigns, battle lines drawn as Europe votes, Modi's landslide win

Video Report - #Brexit #TheresaMay 🇬🇧 What will Britain's leadership change mean for Brexit?

Video - #WestPoint 2019 class - The 2019 graduating class at The United States Military Academy features the most African-American women graduating together in the school's history.

Video - Roterdero: Bilawal Bhutto Press Conference on HIV AIDS and NAB Chairman

#PPP Video - Ab Waqt Ki Zaban Hai BILAWAL

Bilawal says HIV can be treated, Sindh government to take care of patients

Pakistan People Party Chairman Bilawal Bhutto Zardari on Saturday said the Sindh government would take full care of HIV patients in Sindh.
There is a huge difference between HIV and aids," said he while addressing a press conference.
He said there was lack of awareness about HIV in Pakistan, adding that it could develop into aids withing 10 years only if it is not treated.
"Every one should be aware of HIV so that they can protect themselves against disease," he said.
He dismissed the impression that Larkana and Rato Deo were facing an HIV plague.
Bilawal Bhutto Zardari said he has directed the SIndh government to establish an endowment fund for treatment of HIV patients.He said patients would be provided with the facility of treatment for rest of their lives.He said while the disease can be treated and people need to understand that they would not contract the illness by merely touching the HIV patients.
"HIV is not a death punishment, it can be treated," he said.
"HIV patients are as much Pakistanis as we are," said Bilawal.
The PPP chairman said he would not tolerate naming of the HIV patients.
NAB
Asked to comment on a leaked video purported to show NAB chairman, he said he condemns the airing of a video by a TV channel that is run by prime minister's assistant.
He said the prime minister was blackmailing the NAB to use its powers against his political opponents.
https://www.thenews.com.pk/latest/476177-bilawal-says-hiv-can-be-treated-sindh-government-to-take-care-of-patients

پی ٹی آئی کی معاشی پالیسی: بےیقینی، بےروزگاری اور مہنگائی میں اضافہ



سٹیٹ بینک نے بھی آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گذشتہ روز مہنگائی دگنی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

اسلام آباد کے انڈسٹریل ایریا میں واقع سہالہ فلور اینڈ جنرل ملز کے مالک طارق صادق آج کل کاروبار میں سست روی اور آمدن میں کمی سے پریشان ہیں۔ آمدنی میں کمی کی وجہ سے انہوں نے حال ہی میں اپنی مل کے 45 افراد پر مشتمل عملےمیں کٹوتی کرکے پانچ افراد کو فارغ کر دیا ہے۔ ان کے مطابق اگر حالات ایسے ہی رہے تو جلد ہی وہ عملے میں مزید کمی لا سکتے ہیں۔
انہوں نے بجلی کا بل انڈپینڈنٹ اردو کو دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ بھی زیادہ آ رہے ہیں اور اب تو حکومت نے عندیہ دے دیا ہے کہ فلور ملز اور متوسط کاروبار کے لیے دی جانے والی سبسڈی بھی ختم کر دی جائے گی۔ ’بجلی اور گیس کا اضافی بوجھ ان دیگر اخراجات اور بڑھتے ہوئے محصولات کے علاوہ ہے، جو بس بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘
فلور ملز تو پھر بھی متوسط درجے کا کاروبار ہے جو مہنگائی میں اضافے کا بوجھ کسی حد تک برداشت کر سکتا ہے اور آٹے کے قیمتوں میں کمی بیشی کے لیے لابنگ بھی کرسکتا ہے لیکن گیس اور بجلی کے بلوں سے براہ راست متاثر ہونے والے چھوٹے کاروبار، جیسے ہوٹل کے لیے حالات اور بھی بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ مجبوری کے تحت پہلے سے غیر رسمی شعبے میں موجود مزدوروں اور بیروں کی تعداد میں کمی کر کے بیروزگاری میں اضافہ کر رہے ہیں۔ یہ رجحان بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
ادھر سٹیٹ بینک نے بھی آئندہ دو ماہ کے لیے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے گذشتہ روز مہنگائی دگنی ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بینک کا کہنا تھا: ’ایک سال میں مہنگائی کی شرح 3.8 سے بڑھ کر 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ مرکزی بینک کے اعلامیے کے مطابق گذشتہ تین ماہ میں خوراک، ایندھن اور دیگر اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا۔ تاہم زیادہ خطرے کی بات بینک کی جانب سے آئندہ سال مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کی پیشگوئی ہے۔
وفاقی کابینہ کا ایک اجلاس آج وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہو رہا ہے جس میں توقع ہے کہ ملک کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورتحال کاجائزہ لیا جائے گا۔ توقع ہے کہ اجلاس کوآئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں سے متعلق بریفنگ دی جائے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے متعدد ہوٹلوں کے مالکان سے بات کی جن کا کہنا تھا کہ گیس کے بل اب 20 یا 25 ہزار کی بجائے 80 ہزار روپے سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ جی 8 میں واقع ایک ہوٹل کے مالک سہیل گجر کا کہنا تھا کہ اضافی بلوں کا رجحان پانچ ماہ سے چل رہا ہے اور کوئی ان کی بات سننے کو تیار نہیں۔ ’مزدوروں کو کام نہ ملنا تو دور کی بات، اب ہمارا اپنا روزگار بھی خطرے میں ہے کیونکہ قیمتیں بڑھانے سے سیل پر اثر پڑے گا۔‘
لیکن یہ رجحان اسلام آباد تک محدود نہیں اور نہ صرف چھوٹے کاروبار ان حالات سے متاثر ہو رہے ہیں۔ غیر واضح پالیسیوں کی وجہ سے ایسی صنعتیں بھی تذبذب کی وجہ سے اعتماد کھو رہی ہیں جن کا انحصار مصنوعات کی برآمدات پر ہے اور جو کچھ عرصہ قبل تک اچھا خاصہ منافع بھی کما رہے تھے۔
پاکستان کی ہوزری سے وابستہ صنعت کی کارکردگی منافع کے لحاظ سے ابھی تک بہتر رہی۔ لیکن موجودہ حالات کی پیش نظر اس صنعت سے وابستہ لوگ بھی بےاطمینانی کا شکار ہیں۔ فیصل آباد میں پاکستان ہوزری مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سینیئر وائس چیئرمین میاں کاشف ضیا نے ٹیلیفون پر گفتگو کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ہمیں جو عندیہ ملا ہے وہ یہ ہے کہ بلوں اور ٹیکسوں کا مزید بوجھ ہوزری کو بھی برداشت کرنا پڑے گا۔ اس سے پاکستانی مصنوعات باہر ممالک کے مارکیٹ میں مقابلہ نہیں کرسکیں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسوسی ایشن کے عہدیداروں نے حال ہی میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ سے کراچی میں ملاقات کی اور ان کو اپنے خدشات سے آگاہ کیا لیکن بہتری کے آثار کم ہی ہیں۔ اس قسم کا تذبذب اور غیرواضح صورتحال کا سامنا تقریباً پاکستان کی اکثر صنعتیں کر رہی ہیں جو معاشی نقطہ نظر سے کسی بھی کاروبار کے لیے ایک خطرناک صورتحال ہوتی ہے اور سرمایہ کاری کے لیے زہر قاتل۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض کاروبار مثال کے طور پر سریے یا سیمنٹ کی صنعت تو پہلے سے مشکلات کا شکار ہے کیونکہ ایک تو ملک میں تعمیرات سست روی کا شکار ہیں اور دوسری وجہ خطے میں کشیدگی ہے جس سے سیمنٹ کے خام مال کی برآمدات پر بہت منفی اثر پڑا ہے۔
نیشنل یونیورسٹی آف سائنس ایند ٹیکنالوجی سے وابستہ ماہر معاشیات ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ نہ صرف برآمدات بلکہ درآمدات کے متعلق بھی حکومت کی پالیسی تضاد کا شکار نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت ایک طرف تو نئی تعمیرات کی بات کرتے نہیں تھکتی اور دوسری جانب الیکٹرک مشینوں اور تعمیراتی مشینری کی درآمدات کم ہو گئی ہیں۔
انڈپنڈنٹ اردو نے سرکاری موقف جاننے کے لیے چیئرمین انویسٹمنٹ بورڈ ہارون شریف سے رابطہ کیا جن کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور دیگر عوامل کی وجہ سے کاروبار کے اخراجات پر اثر تو پڑے گا لیکن ایسے میں معاوضے کے طور پر کچھ اور اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ ’اس حوالے سے بورڈ نے حکومت کو تجاویز دی ہیں، اب کاروبار میں آسانی کے لیے کیا اقدامات ممکن ہو سکتے ہیں، یہ فیصلہ حکومت ہی کر سکتی ہے۔‘
اطلاعات کے مطابق رواں مالی سال مجموعی ملکی پیداوار  کی نمو کم ہوکر 3.29 فیصد پر آ چکی ہے۔  اس سال بنیادی شعبوں (جس طرح زراعت، مینوفکچرنگ اور تعمیرات)  کی کارکردگی زیادہ بہتر نہیں رہی۔ صرف گندم کی پیداوار قدرے بہتر رہی۔ اس سال روپے کی قدر میں بار بار کمی آئی، فی کس آمدن کم ہوئی، اور ڈالر کے اعتبار سے قومی معیشت سکڑ گئی، سرمایہ کاری میں منفی رجحان سامنے آیا، جبکہ قومی بچت اور برآمدات بھی کم ہوئیں۔ پاکستان کے قرضوں کا حجم بھی بڑھا ہے۔ تاہم کچھ مثبت رجحان  جیسے کہ کرنٹ اکاونٹ اور تجارتی خسارے میں کمی بھی سامنے آئی ہے۔ ایسی حالت میں پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف یا پھر عالمی بینک اور دوست ممالک سے مدد پر انحصار کرنا پڑا۔
عام اشارے یہی ہیں کہ اس صورتحال نے مہنگائی کے ساتھ ساتھ کاروباری طبقے کے خدشات اور ملک میں بے روزگاری میں اضافہ کیا ہے۔ پچھلے چند مہینوں کے اعداد و شمار تو موجود نہیں لیکن پاکستان ورکرز فیڈریشن کے سیکریٹری جنرل ظہور اعوان کا کہنا ہے کہ پچھلے چند مہینوں میں ان کی انجمنوں کی طرف سے زیادہ تعداد میں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ ’نجی شعبہ میں تو شاید ہی کوئی صنعت ایسی ہو جس نے کارکن فارغ نہ کئے ہوں، صرف میڈیا کی صنعت میں ہزاروں لوگ بےروزگار ہوئے ہیں۔‘
ڈاکٹر ظفر محمود کا کہنا ہے کہ بےروزگاری17 سے 18 فیصد رہی جس کا مطلب ہے کہ بڑی تعداد میں لوگ بےروزگاری سے گزر رہے ہیں اور ایسی حالت میں معاشی دباؤ بھی بڑھا ہے۔
20 مئی کو بلاول ہاؤس، اسلام آباد میں ملک کی تقریباً تمام اپوزیشن جماعتیں سیاسی افطار پارٹی کے میں اکٹھی ہوئیں۔ افطاری کے بعد مشترکہ اخباری کانفرنس سے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں سمیت شرکا نے عید کے بعد کل جماعتی کانفرنس بلانے اور مہنگائی و بیروزگاری کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
دی فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس انڈسٹری کے صدر دارو خان اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ٹیلیفون پر گفتگو میں کہا کہ بجلی اور گیس کی قیمتیں تو بہرحال کاروبار و روزگار پر اثرانداز ہو رہی ہیں، حکومت کی کئی جگہوں پر پالیسی بھی واضح نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کاروبار و تجارت میں آسانی کے لیے فیڈریشن نے حکومت کو تجاویز دی ہیں جن پر ابھی تک کوئی واضح پالیسی سامنے  نہیں آئی ہے۔
اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف اتحاد بنانے کی بات ایک ایسے وقت میں کر رہی ہیں جب بگڑتی معاشی صورتحال کی وجہ سی عوام پریشانی کا شکار ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت کے لیے معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ دنوں کراچی میں تاجر برادری سے ملاقاتیں کیں اور انہیں یقین دلایا کہ معیشت میں آئندہ چند ماہ میں بہتری کے امکانات ہیں۔ انہوں نے بےروزگاری کے خاتمے کے لیے بھی کہا کہ نوجوانوں کی صلاحیت بڑھانے کی تربیت کا بندوبست کیا جائے گا۔

چیئرمین نیب ویڈیو سکینڈل کی خاتون اپنے الزام پر قائم - طیبہ فاروق کون ہیں؟

قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال کی ان کے دفتر میں طیبہ فاروق نامی خاتون سے مبینہ غیر اخلاقی گفتگو پر مبنی ویڈیو سکینڈل کے اثرات گہرے ہونے لگے ہیں۔
ایک نجی چینل نیوز ون پر جمعرات کو متنازع ویڈیو نشر ہونے کے بعد سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی۔ حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف، چیئرمین نیب کے حق میں وضاحتیں دے رہی ہے تو حزب اختلاف کی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی معاملے کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
نیب نے متنازع ویڈیو کو منفی پروپیگنڈا قرار دے کر مسترد کر دیا ہے لیکن مبینہ ویڈیو میں موجود خاتون طیبہ فاروق اپنے موقف پر قائم ہیں۔
طیبہ فاروق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں الزام عائد کیا کہ چیئرمین نیب نے ان کے خاوند فاروق نول کی رہائی کے لیے ان سے ناجائز تعلق قائم کرنے کی کوشش کی اور معاملے کو منظرعام پر لانے کی پاداش میں ایک ہی دن (21 مئی) میں اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مختلف نوعیت کے تین مقدمات درج کرا دیے گئے۔
طیبہ نے اپنے آڈیو پیغام میں دعویٰ کیا کہ جمعے اور ہفتے کی درمیانی شب نامعلوم افراد نے ان کے مکان میں گھسنے کی کوششش کی، جس کے بعد وہ گھر سے بھاگ کر نامعلوم مقام پر پہنچیں۔
طیبہ کے مطابق ان کی جان کو خطرہ ہے اور انہیں فون پر بھی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
طیبہ فاروق کون ہیں؟
طیبہ کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ان کی پہلی ملاقات لاپتہ افراد کمیشن میں ان کے شوہر کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بزنس مین اور وہ خود قانون کی طالبہ ہیں۔ ان کے شوہر کی چچی گم شدہ افراد میں شامل ہیں اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ان کی چچی کی بازیابی کے لیے مسنگ پرسن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملنے گئی تھیں۔
طیبہ نے الزام لگایا کہ ملاقات کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ان کے شوہر کی موجودگی میں ان کا فون نمبر لیا اور بعد ازاں انہیں ہراساں کرتے رہے۔

طیبہ فاروق کون ہیں؟
طیبہ کا کہنا ہے کہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ان کی پہلی ملاقات لاپتہ افراد کمیشن میں ان کے شوہر کے ساتھ ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر بزنس مین اور وہ خود قانون کی طالبہ ہیں۔ ان کے شوہر کی چچی گم شدہ افراد میں شامل ہیں اور وہ اپنے شوہر کے ہمراہ ان کی چچی کی بازیابی کے لیے مسنگ پرسن کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال سے ملنے گئی تھیں۔
طیبہ نے الزام لگایا کہ ملاقات کے دوران جسٹس (ر) جاوید اقبال نے ان کے شوہر کی موجودگی میں ان کا فون نمبر لیا اور بعد ازاں انہیں ہراساں کرتے رہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ چیئرمین نیب انہیں اپنے گھر اور اسلام آباد کلب میں ملنے کا کہتے رہے لیکن جب انہوں نے غیراخلاقی مطالبات نہیں مانے تو ان پر مقدمات قائم کیے گئے۔
طیبہ نے کہا: ’میں نے یا میرے شوہر نے کبھی کرپشن کی اور نہ دھوکہ دیا۔ مجھے شوہر سمیت نامعلوم وجوہات کی بنا پر گرفتار کیا گیا۔ 15 جنوری 2019 کی صبح میرے شوہر کو نیب نے اسلام آباد سے حراست میں لیا۔ اسی رات نیب نے رات ساڑھے 12 بجے مجھے بھی پکڑ لیا۔‘
’ہمیں موٹر وے کے ذریعے نیب لاہور لے جایا گیا اور اگلے دن سہ پہر چار بجے ہمیں عدالت میں پیش کیا گیا۔ مجھے نیب عدالت نے جیل بھجوا دیا اور دو مئی کو ضمانت پر میری رہائی ہوئی۔‘
طیبہ فاروق کا کہنا ہے کہ ان کے شوہر جیل میں ہیں اور انہوں نے اپنے شوہر کی رہائی کے لیے تنگ آ کر زبان کھولی ہے۔
طیبہ اورفاروق نول کے خلاف پریس کانفرنس
متنازع ویڈیو سامنے آنے کے بعد نیب نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ویڈیو کے پیچھے ایک بلیک میلر گروہ ہے۔
جمعے کو لاہور پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس ’گروہ‘ کے مبینہ متاثرین سردار اعظم رشید، صبا حامد، شمشاد جہاں سامنے آئے اور الزام لگایا کہ طیبہ اور فاروق نول چیئرمین نیب کی وڈیو بنانے والے گروہ کے کارندے ہیں۔
ان کا الزام تھا کہ گروہ میں خواتین سمیت پولیس، آئی بی، سی آئی اے، ایف آئی اے سمیت دیگر اداروں کے افسران ملوث ہیں اور یہ گروہ اغوا، زمینوں پر قبضے اور جعلی ویزے پر بیرون ملک بھیجنے کا کام کرتا ہے۔
سردار اعظم رشید نے کہا کہ یہ گروہ لوگوں سے اب تک کروڑوں کا فراڈ کرچکا ہے اور متاثرہ افراد کے خلاف ایف آئی آردرج کرا کے بلیک میل کرتا ہے یا پھر ان کے بچوں کو اغوا کے بعد ڈرا کر ماہانہ بنیادوں پر لاکھوں روپے ہتھیاتا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ طیبہ اور فاروق جدید سسٹم کے ذریعے واٹس ایپ ویڈیوز بنا کر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔
ان کا دعویٰ تھا کہ چیئرمین نیب کی وڈیو جعلی ہے اور انہیں ٹریپ کیا گیا، اس گروہ کے مختلف سیاست دانوں کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔
پریس کانفرنس کو ملک کے تقریباً تمام بڑے چینلز نے غیر متوقع طور پر لائیو نشر کیا۔
سکینڈل کے سیاسی اثرات
نیب جیسے ادارے کے سربراہ سے متعلق مبینہ غیر اخلاقی ویڈیو نشر کرنے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنے مشیر اور نیوز ون کے مالک طاہر اے خان کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا۔
وفاقی مشیر اطلاعات ونشریات فردوس عاشق اعوان نے بھی میڈیا سے گفتگو میں چیئرمین نیب کا بھر پور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ملکی ادارے کے سربراہ پر الزامات جھوٹ ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنماؤں شاہد خاقان عباسی ودیگر نے جمعے کی دوپہر پریس کانفرنس میں اس سکینڈل کی انکوائری کے لیے پارلیمانی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا اور پیر کو پارلیمانی رہنما خواجہ آصف کی جانب سے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قرارداد جمع کرانے کا اعلان کیا۔
اسی طرح پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے معاملے کو حساس قراردے کر متنازع ویڈیو کا فورینزک معائنہ کرانے کے بعد قانونی چارہ جوئی کا مطالبہ کیا۔
سوشل میڈیا ٹرینڈ
سوشل میڈیا پر جمعے کو بھی اس معاملے کا خوب چرچا رہا اور ٹوئٹر پرChairmanNabScandal، #NABChairmanPhoneLeaks# کے نام سے ٹاپ ٹرینڈ چلتے رہے۔
فیس بک پربیشتر افراد کے سٹیٹس بھی اسی واقعے سے متعلق تھے، جن میں شہریوں نے مختلف رائے کا اظہار کیا۔ کسی نے چیئرمین نیب کا دفاع کیا تو کسی نے خاتون سے ہمدردی دکھاتے ہوئے چیئرمین کے استعفے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس تیزی سے تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں نیب کا اگلا قدم انتہائی اہم مانا جا رہا ہے۔

#Pakistan - Media ethics and empathy - Unprofessional Pakistani Journalists

This is clearly no way to notify the next of kin. A basic principle in written as well as verbal communication is to build a buffer before delivering bad news. The appropriate way would have been for the reporter to whisper the information to the person standing next to Kaira who would then have conveyed it in a suitably sensitive manner. May be the word “accident” could have been avoided early on. Kaira might have been informed that that his son had been taken to a hospital. In a matter of 15 to 20 minutes, he might have the complete story. Also, the information might have been communicated in whispers and not shouted around.
The way the situation was handled speaks of poor ethics and poor professional standards. Saying that reporters grow numb in the line of work on account of the high frequency of receiving and transmitting bad news is no excuse. If any thing, the exposure, if not training, should teach them how to break bad news with appropriate sensitivity. It was not a question of reporting a random accident to a politician, but of delivering tragic news to a father.
A news channel should not seek to annoy the victims, infuriate the guests or be indifferent to the developing story.
The electronic media in Pakistan has made great advances in terms of its reach and therefore the power over people. It’s about time news channels, which are ever mindful of ratings, pay attention to the training of their journalists and presenters. This is not the first time electronic media reporters have shown callous apathy to the bereaved. In trying to be the first to interview relatives of those who have lost lives in tragic incidents, many reporters simply barge into their homes and ask sensitive questions, sparing no thought for their feelings. A talk show host recently insulted Nasir Khan Jan, a video blogger, who had agreed to be a guest but did not agree with the host’s opinions. Earlier this year, a news presenter persisted in questioning a child about her father who had been killed in a police shooting in Sahiwal.
A news channel should not make standard practice of annoying the victims of tragedy, infuriate the guests or be indifferent to the developing story. The purpose is to present the news, to ask questions in a decent manner and to conduct a show in such a way that the message is clear to the audience. Those hired for news channels work need to receive training on how to be ethical and considerate when on camera and exhibit similar traits when they are off camera. The Pakistan Electronic Media Regulatory Authority has a duty to lay down and enforce policies and procedures to ensure that journalists and hosts do not cross the limits of decent behaviour.
It may be argued with some justification that the right time for the exercise was in 2001-2002 when independent new media was in its infancy. However, it can never be too late to correct the wrong. News channel managements will do well to act in this regard on their own without waiting for authorities to coerce them. In the absence of a common minimum code of standards reporters and presenters will continue to ask inappropriate questions that demean, defame and disgrace guests and harm innocents.

Pakistan: Stifled Media – Analysis

By Sanchita Bhattacharya
On April 30, 2019, unidentified assailants shot dead journalist Malik Amanullah Khan near Landa Sharif Adda on the Multan-Dera Road in Paroa Tehsil (revenue unit) of Dera Ismail Khan in Khyber Pakhtunkhwa. Amanullah Khan was a local reporter who wrote for Urdu daily Meezan-e-Adl and was Chairman of Paroa Press Club.
Earlier, on December 3, 2018, Nurul Hasan, a Nowshera-based reporter of a private television channel, was shot dead by unknown motorcyclists in Peshawar, the provincial capital of Khyber Pakhtunkhwa.
According to South Asia Terrorism Portal (SATP) database, available since March 2000, the first incident of killing of journalists was recorded on February 7, 2005, when two journalists were shot dead by armed assailants in Wana, the headquarters of the then South Waziristan Agency of the Federally Administered Tribal Areas (FATA).
Since then, according to partial data collated by SATP, at least 38 journalists have been killed in Pakistan. A high of six journalists were killed in the year 2013 followed by five in 2010; four each in 2009, 2011 and 2012; three each in 2014 and 2015; two each in 2005 and 2017; and one each in 2006, 2007, 2008, 2018 and 2019. No such fatality was recorded in years 2000 to 2004. These numbers are likely underestimates. 
Also, according to the Committee to Protect Journalists (CPJ), at least 61 journalists have been killed in Pakistan between 1992 and 2018. A maximum of eight journalists were killed in 2010 followed by seven each in 2011 and 2012; five each in 2007, 2008 and 2013; four in 2009, three in 2014; two each in 1994, 2002, 2005, 2006 and 2016; one each in 1997, 2000, 2003, 2004, 2015, 2017 and 2018. No fatality was recorded in years 1992, 1993, 1995, 1996, 1998, 1999 and 2001.
Journalists in Pakistan have been subjected to abduction; murder by beheading, target killing, throat-slitting, hurling of bombs and beating to death; physical torture and suicide attack. And it is not just terrorists, insurgents, separatists, gangsters and drug traffickers whom journalists have to fear: state sponsored actors, including intelligence agencies, also pose a threat.
In one prominent case, on May 29, 2011, Saleem Shahzad, Pakistan Bureau Chief of Asia Times Online, was abducted after he exposed links between al Qaeda, a group of Naval personnel and the Inter-Services Intelligence (ISI) in the attack at the Pakistan Naval Station (PNS) Mehran within Faisal Naval Airbase in Karachi. 10 Security Force (SF) personnel were killed in the terrorist attack. Later on, June 1, 2011, his body was found with signs of torture, in the Mandi Bahauddin District of Punjab Province. In July 2011, The New York Times reported that US officials had reliable intelligence that showed that the ISI was responsible for Shahzad’s murder. Predictably, in January, 2012, Pakistan’s official commission of inquiry concluded that the perpetrators were unknown, a finding that was widely criticized as lacking credibility.
Though the available data clearly indicates that fewer journalists have been killed over past few years, reports show that the media is more stifled than it was earlier. The CPJ Annual Report 2018 thus observes,
…Despite a decline in fatal violence against journalists the media environment is worse today than it has been in recent years… Intimidation and threats of assault have led journalists and editors to avoid reporting stories on topics that would lead them into trouble. These topics include a wide range of touchy issues: religion, Chinese investment, relations with India, militant groups, and criticism of the military.
Another CPJ report, Acts of Intimidation: In Pakistan, journalists’ fear and censorship grow even as fatal violence declines, based on interviews with journalists across Pakistan, released on September 12, 2018, highlighting the plight of journalists in the country, noted that “the deterioration in the climate for press freedom in Pakistan accompanied a reduction in murders and attacks against the media” and “the two trends are linked, with measures the military took to stomp out terrorism directly resulting in pressure on the media”. The report adds, further, “conditions for the free press are as bad as when the country was under military dictatorship, and journalists were flogged and newspapers forced to close”.
More importantly, the September report, underlined the role of military in suppressing Press freedom,
The military garnered widespread praise for its crackdown on militancy after the school attack, which resulted in a sharp decline of terrorist incidents — and in turn, violence against journalists. Yet the stepped-up activity put the military in position to exert even greater control. The military has quietly, but effectively, set restrictions on reporting: from barring access to regions including Balochistan where there is armed separatism and religious extremism, to encouraging self-censorship through direct and indirect methods of intimidation, including calling editors to complain about coverage and even allegedly instigating violence against reporters. The military, intelligence, or military-linked and political groups were the suspected source of fire that resulted in half of the 22 journalist murders in the past decade. Hence it is easy to see how the military’s widening reach is viewed as a source of intimidation. The military has clashed with Pakistan’s elected government, which tried and ultimately failed to assert civilian control. Journalists find themselves in the middle of this battle, struggling to report while staying out of trouble.
Significantly, during the months before the 2018 General Elections of Pakistan, several journalists were beaten, abducted and otherwise intimidated, with just one thread tying them together – their criticism of the military.The witch-hunt against the media began after journalist Matiullah Jan wrote highly critical articles against Pakistan’s military and judiciary. On June 4, 2018, military spokesperson Major General Asif Ghafoor held a press conference where he claimed that a handful of journalists and bloggers were “anti-State and anti-military”. Unsurprisingly just a day later, on June 5, 2018, columnist and political commentator, Gul Bukhari was abducted in an Army-controlled area of Lahore by unknown attackers, including men in military uniform. She was, however, freed a few hours later.
On the same night, BOL TV broadcast journalist Asad Kharal’s car was intercepted by masked men near Lahore airport, and he was taken out of the car and beaten. He received severe injuries and was taken to Lahore Services Hospital for medical treatment.
Earlier, on January 10, 2018, prominent Pakistani journalist Taha Siddiqui was beaten and threatened by armed men, during an attempt to kidnap him in broad daylight, as he took a taxi to the airport in the capital, Islamabad. A few weeks after the incident, he relocated to Paris (France). According to a July 2018 report, Siddiqui claimed,
The army and intelligence agencies were threatening me and I suspect the people who tried to kidnap me were from the army. They do not like investigative reporting that uncovers the wrongdoings of those institutions.
According to an October 2018 report, several journalists and editors were of the opinion that the ongoing hostility towards media, was more dangerous than it had been under previous Governments. They saw it as coming from all pillars of the state, with Imran Khan’s government considered closely in sync with the courts and the military. The military is accused of pressuring the courts to block any opposition or even criticism of Pakistan’s Army.
Indeed, impunity and a lack of prosecution has characterised many of the attacks on journalists in Pakistan. The impunity enjoyed by killers of journalists in Pakistan is among the highest in the world. According to a report shared by International Center for the Protection of Media Freedom and Defending the Rights of Journalists (ICPFJ) on October 31, 2018, murdered journalists and their families had received justice in only one of 26 cases over the preceding five years. Iqbal Khattak, the Executive Director of Freedom Network, which prepared the report, observed, “Journalists continue to get target killed and threats against them continue to grow and the State’s legal system (police failure) and justice system (courts failure) have failed to provide them justice.”
Significantly, amidst this enveloping environment of intimidation, fear and state failure, Cyril Almeida, the Assistant Editor of Dawn, was awarded the 2019 World Press Freedom Hero award by the International Press Institute for his ‘critical’ and ‘tenacious coverage’ of the Pakistani military-security complex. Significantly, Almeida is under trial for treason – an offence that carries a potential death penalty – for an interview with former Prime Minister Nawaz Sharif, in which the latter accused the Pakistan Army of aiding the terrorists who carried out the 2008 Mumbai attacks, which killed 175 people, including 144 civilians, 22 Security Force personnel and all nine attackers. Afzal But, President of the Pakistan Federal Union of Journalists, notes, “This is the darkest period for journalism in the country’s history, no doubt about it.”
Assessing the overall situation of media, CPJ Asia Program Coordinator, Steven Butler, stated,
While the decline in the killing of journalists is encouraging, the government needs to counteract pressures that have resulted in rampant self-censorship and threats to the media. Pakistan must address the disturbing trend of impunity and attacks on journalists to shore up this faltering pillar of democracy.
Against this backdrop, Pakistan saw its first-ever two-day (May 2 and May 3, 2019) Sahafi (Journalist) Summit held in Karachi, the provincial capital of Sindh, to discuss at length the fast-emerging challenges to journalism in the country, including threats to independent news media from digital disinformation and financial cuts. The summit reportedly generated robust and inclusive discussions on the current challenges faced by the news industry in Pakistan, focusing, inter alia, on the coordinated and malicious spread of disinformation, the crisis of media literacy, regulations and the broadcast media’s struggling business model for revenue generation. The challenges faced by Pakistani women reporters were also discussed along with Pakistan’s media economy, including the issue of mass layoffs, investment in digital news and services and the role of news media owners.
In a society fixated on ‘righteous’ conduct overwhelmingly defined by religious extremism and militarized hypernationlism, journalists have come to dread violence for doing their job. With repeated physical attacks, fear has taken over the media, resulting in unprecedented self-imposed censorship. 

#Balochistan: #Pakistani forces abducted scores of #Baloch students

The Pakistani military, intelligence agencies and other forces have recently intensified the arrest and forcible disappearance of Baloch students.
In the past few weeks, several Baloch students have been abducted from different districts of Balochistan, Karachi and Punjab.
Pakistani forces have conducted raids in Niya Abad area of Gwadar and abducted at least one person.
The abducted man has been identified as Naseer son of Murad Baloch a resident of Dasht in district Kech Balochistan.
In the early morning of 18 May, the Pakistani forces carried out offensives in Dazen are of Tump Balochistan and abducted two Baloch.
The forces have harassed and terrorised women and children during the offensive and abducted Ismael son of Dad Karim and Siddique son of Nako Ali.
On May 16, 2019, Pakistani intelligence agencies have abducted Altaf Naseer resident of Turbat Balochistan from the Campus of Islamia University Bahawalpur in Punjab.
The victim is a 3rd-year student of BS Education.
On the same day, Pakistani forces have abducted two residents of ward no 6 of Pasni in district Gwadar Balochistan.
The victims have been named as Haji Rahmat Kalmati and Engineering student Shah Hussain Kalmati Baloch.
Both men were abducted from Gwadar city.
On 15 May 2019 Pakistani forces abducted a Baloch student and his cousin from a house in Gulshan-e-Iqbal area of Karachi.
The abducted student of MPhil Zoology from Karachi University has been named as Nasir son of Azim and his cousin has been identified as Rahmdil Saba.
The victims originally hail from Turbat area of Balochistan’s district Kech.
Pakistani whisked away three persons from Gwadar city of Balochistan on Monday 13 May 2019.
The victims have been identified as, Abid son of Khalid Baloch, Murad son of Abdul Samad, and Waju son of Abdul Wahid.
On the same day, Pakistani force disappeared another Baloch student from Quetta city of Balochistan.
The victim Noor Khan son of Kahoor Baloch was abducted from Essa Nagri area of Quetta.

#Pakistan - FIR filed against PTM's Gulalai Ismail for allegedly inciting violence, defaming state

Islamabad police on Wednesday filed a case against Gulalai Ismail — a leader of the Pashtun Tahaffuz Movement (PTM) — for allegedly defaming state institutions, creating unrest and inciting violence.

The first information report (FIR) lodged against the PTM leader mentions sections 500 (punishment for defamation), 153-A (promoting enmity between different groups, etc) and 124-A (sedition) of the Pakistan Penal Code, as well as sections 6/7 of the Anti-terrorism Act, 1997.According to the FIR, a copy of which is available with Dawn, Ismail purportedly incited law-abiding citizens to commit treason and violence, while addressing a protest demonstration against the brutal rape and murder of a 10-year-old girl named Farishta.
The FIR accuses Ismail of delivering hate speech, inciting ethnic sentiments against the state and Pakistan Army, and causing a sense of fear and terror among people.PTM is a rights-based alliance that, besides calling for the de-mining of the former tribal areas and greater freedom of movement in the latter, has insisted on an end to the practices of extrajudicial killings, enforced disappearances and unlawful detentions, and for their practitioners to be held to account within a truth and reconciliation framework.
https://www.dawn.com/news/1484127

بلاول بھٹو نے عمران خان کو بلیک میلر قرار دے دیا

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیراعظم عمران خان کو بلیک میلر قرار دے دیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں بلاول نے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی وڈیو لیک کیے جانے کو وزیراعظم کا بلیک میلنگ کا حربہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ جب بات پرویز خٹک اور اتحادیوں پر آئی تو عمران خان بلیک میلنگ پر اتر آئے، وہ وڈیو لیک کر نے پر حکومت وقت وزیراعظم اور ان کے معاونین خصوصی کی مذمت کرتے ہیں۔
پی پی چیئرمین نے کہا کہ خان صاحب نیب کو دباؤ اور دھمکی سے چلانے کے لیے بلیک میلنگ تک چلے گئے ہیں،وزیراعظم کے 2 معاونین خصوصی کے ذریعے وڈیو کا میڈیا پر آنا محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ پیپلزپارٹی نے کبھی ذاتیات کی سیاست نہیں کی، ہم کو صرف چیئرمین نیب کے انٹرویو پر اعتراض ہے۔