صباحت خان
مجھے نہیں معلوم کتنے لوگوں کو یہ آرٹیکل پسند آئے گا اور کتنے لوگ میرے الفاظ کی بنیاد پہ مجھے جج کریں گہ مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت سے ایسے مسائل اور باتیں ہیں جن پہ بات کرنا ہمیں معیوب لگتا ہے، جن پر بات کرنے سے ہم کتراتے ہیں مگر آخر کب تک ہم حقیقت سے نظریں چرائیں گے؟
چند روز قبل میرے انسٹا گرام اکاؤنٹ پہ کچھ اخلاقی طور پر گرے ہوئے لوگوں کے پیغامات موصول ہوئے جن میں انھوں نے سیکس کی بڑے دھڑلے سے پیشکش کی، میں نے صرف ان کو جواب میں یہی لکھا کہ اپنے والدین سے کہیں احتیاط کریں آئندہ اور وہ میری اس بات کا برا مان گئے، خیر اس واقعے نے مجھے ایک بار پھر سے قلم اٹھانے پہ مجبور کر دیا کیونکہ میں صرف اس وقت ہی اپنی بات لکھ سکتی ہوں جب میں کچھ بڑی شدت سے محسوس کروں۔
مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اخلاقی طور پہ ہم پستی کا شکار ہو رہے ہیں، ایک عورت کو دیکھ کہ آپ کا کمزور ایمان مزید ڈگمگانے لگتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے ”
Lack of Sex education ”
سیکس ایک ایسا لفظ ہے جسے سن کر لوگ کانوں کو ہاتھ لگا دیتے ہیں کی توبہ یہ لفظ کیوں نکالا منہ سے۔ ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں جو سیکھنے کی چیزیں ہیں یا جن پہ بات کرنے کی ضرورت ہے ان پہ بات کرنا گناہ سمجھتے ہیں اور جو گناہ ہے وہ بخوشی کرتے ہیں، حد ہے منافقت کی۔ خیر سیکس ایجوکیشن کی مجھے لگتا ہے ہم سب کو ہی بہت ضرورت ہے۔ اور اس میں ہچکچاہٹ کی کوئی بات نہیں۔ ملک کے بہت سے نوجوان ایسا مواد دیکھتے ہیں جو کہ ان کو جسمانی اور اخلاقی طور پر کمزور کرتا ہے اور اس کی واحد وجہ ہے کہ ہمارے گھر والے اور ہمارا تعلیمی نظام ابھی تک ہمیں بتا ہی نہیں سکا کہ سیکس صرف دو مختلف جنسوں کے ملاپ کا نام نہیں یہ کہ خدا کی طرف سے عطا کی گئی نعمتوں میں سے ایک ہے جس کا غلط استعمال آپ کی اور آپ سے جڑے لوگوں کی زندگی برباد کر سکتا ہے۔
ہمارے لوگوں کے لئے سیکس، ایک فینٹسی بن چکا ہے، لوگوں کو لگتا ہے وہ اپنی ہوس کس بھی طریقے سے بجھا سکتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے کبھی اس حساس موضوع پہ بات کرنا مناسب نہیں سمجھا، تبھی تو لوگ گوشت کے بنے انسان کو دیکھ کر اپنا آپ کھو دیتے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ انسان کی ایک ضرورت ہے جو خدا نے اس لئے عطا کی کہ آپ میں محبت پروان چڑھے اور ہم گناہوں سے محفوظ رہ سکیں، مگر ہم نے اس میں بھی حیوانیت شامل کردی۔
اکثر ہم سنتے ہیں کہ ”Marital rape ” ہوا ہے اور ہم حیران ہوتے ہیں کہ شادی کے بعد یہ کیوں کہ رہے ہیں کیونکہ شادی کے بعد تو سب جائز ہو جاتا ہے، جو کہ سراسر غلط ہے، اگر آپ اپنے شریک سفر کو بغیر اجازت چھوتے ہیں تو ریپ ہی ہے، بغیر اجازت آپ کسی کو نہیں چھو سکتے چاہے وہ کوئی بھی ہو، مگر ان سب باتوں کا دھیان کون رکھے کیوں کہ سب کو اپنے سکون کی پڑی ہوتی ہے۔
اکثر بازار میں آتے جاتے کچھ خرافاتی مرد حضرات خواتین کے اتنے قریب سے گزرتے ہیں کہ پاس چلنے والی ہوا بھی شرما جائے، اور اس حرکت کے بعد ان کے چہرے پہ جو خوشی ہوتی ہے وہ ان کی گھٹیا شخصیت کا حال بیان کرتی ہے۔
صرف خواتین ہی نہیں، مرد حضرات بھی اکثر شکار ہو جاتے ہیں جنسی زبردستی کا، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ بچوں کو بڑے غیر مناسب انداز سے چھوتے ہیں، اپنی گود میں بٹھاتے ہیں، ان کا بوسہ لیتے ہیں اور بچے مسلسل تنگ ہو رہے ہوتے ہیں، تو جناب ان چیزوں کو نظر انداز نہ کیا کریں، چھوٹی چھوٹی باتیں ہی چنگاری سے آگ بھڑکا دیتی ہیں۔ دن بدن ہم غلاظت کے ڈھیر میں دھنستے جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پہ ہوس کا ننگا ناچ خوب دیکھنے کو ملتا ہے مگر وہ اس لئے کہ ہم میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں جو انسان کی کھال میں گدھ ہیں، جو یہ سب دیکھتے ہیں اور پھر اپنی تسکین کے لئے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اگر آپ مرد ہیں اور آپ کا غرور یہ ہے کہ آپ کسی بھی عورت کو زیر کر سکتے ہیں، اس کے جسم سے کھیل سکتے ہیں تو آپ جانوروں سے بھی بدتر ہیں اور یقین کیجیے ایسی گندی مردانگی کو جنم دینے والوں پہ تف ہے جو اپنے اندر پلتے جانور کو نہ پہچان سکے۔
لوگوں نے تسکین کے نام پہ خواجہ سراؤں تک کو نہیں چھوڑا۔ عورت کی پاکیزگی تو آپ جان لیتے ہیں، مرد کی پاکیزگی کیسے جانچی جائے؟ ایک خون کا قطرہ عورت کی پاکیزگی کا گواہ ہوتا ہے اور اگر وہ نہ بہے تو عورت بدکار؟ یہ سراسر غلط نظریہ ہے کہ عورت اگر پاکیزہ ہے تو شادی کہ پہلے روز اس کے جسم سے خون کا اخراج ہوگا، اس غلط فہمی کی وجہ سے کتنی ہی بچیوں کی زندگی جہنم بنی اور کتی ہی بچیاں جان سے گئیں۔
خواتین کے ”Vagina“ میں ایک پتلا سا ٹشو ہوتا ہے جس کو Hymen کہتے ہیں۔ کبھی کبھی جب کوئی شخص پہلی بار سیکس کرتا ہے تو آپ کی کی ہائمن کھلی ہوجاتی ہے، جو درد یا خون بہنے کا سبب بن سکتی ہے۔ لیکن آپ کا ہائمن قدرتی طور پر کھیلوں جیسی چیزوں سے بھی بڑھ سکتا ہے، ٹمپون کا استعمال کرتے ہوئے۔ اور بہت سے لوگ پیدائشی بہت کم ہائمن ٹشو کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں، لہذا ایسا لگتا ہے جیسے ان کے پاس ہائمن بالکل نہیں ہے، تو چاہے آپ نے سیکس کیا ہو یا نہیں آپ کی ہائمن کا مسئلہ ہو سکتا ہے، اس لئے اگر آپ بلیڈ نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کہ کردار میں کھوٹ ہے، بلکہ ان کے دماغ میں کھوٹ ہے جو صدیوں پرانی گھسی پٹی باتوں پہ آج تک آنکھ بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
سیکس ایجوکیشن کو شامل نصاب ہونا چاہیے تاکہ پہلے تو ہمارے لوگوں کے اندر سے یہ ہچکچاہٹ ختم ہو، دوسرا اس پہ بات کرنے کے لئے خصوصی ٹیمز تشکیل دی جائیں گورنمنٹ کی سطح پہ جو لوگوں کو یہ بتا سکے کہ سیکس ایک مزے کا نام نہیں۔ لوگوں کو شعور دیا جائے تاکہ ہم اپنی نسلوں کو پستی میں جانے سے روک سکیں اور اپنی بچیوں کو برباد ہونے سے روک سکیں۔
No comments:
Post a Comment