ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کے مطابق کرونا وائرس ایک ایسا 'بھیڑیا ہے جو بھیڑ کی کھال' پہن کر انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔
ایک تازہ تحقیق کے مطابق کرونا (کورونا) وائرس بڑی ہوشیاری سے انسانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔ یہ خود کو نشاستے سے بنے ایک لبادے میں چھپا کر'بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا' بن جاتا ہے۔
یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن کے سائنس دانوں نے معلوم کیا ہے کہ انسانی خلیوں میں داخل ہوتے وقت کرونا وائرس کا پتہ نہیں چلتا کیونکہ اس کے اردگرد نشاستے کا ایک غلاف ہوتا ہے جسے 'گلائیکین' (glycans) کہتے ہیں۔
تاہم کرونا کے گرد موجود غلاف دوسرے وائرسوں، جیسے کہ ایچ آئی وی کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے۔ تحقیق کرنے والی ٹیم کو امید ہے کہ وائرس کے کمزور غلاف کی بدولت ویکسین کی تیاری کے لیے کوششوں میں اہم اور حوصلہ افزا معلومات ملیں گی۔
تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفسر میکس کرسپِن نے وضاحت کی ہے کہ کرونا وائرس انسانی خلیوں میں داخل ہونے سے پہلے خود کو ان کے ساتھ چمٹانے کے لیے ایسے کانٹے استعمال کرتا ہے جوگلائیکین میں لپٹے ہوئے ہیں۔ یہ گلائیکین وائرس کی پروٹین کو انسانی جسم کے مدافعتی نظام سے چھپانے کے قابل بناتے ہیں۔
ڈاکٹر کرسپِن نے کہا: 'خود کو نشاستے میں چھپا کر وائرس بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا بن جاتا ہے، لیکن ہماری تحقیق کی ایک اہم بات یہ ہے کہ چاہے نشاستے کے جتنے بھی غلاف ہوں، اس کرونا وائرس کے گرد اتنی مضبوط حفاظتی تہہ نہیں ہے جتنی دوسرے وائرسوں میں ہوتی ہے۔'
انہوں نے مزید کہا کہ ایچ آئی وی جیسے وائرس گلائیکین کی حقیقی موٹی تہہ میں لپٹے ہوتے ہیں جب کہ کرونا کے گرد موجود غلاف پتلا ہے۔
پروفیسر کرسپِن نے کہا ہو سکتا ہے کہ ایسا اس وجہ سے ہو کہ یہ 'مارو اور بھاگو' (hit and run) وائرس ہو, یعنیٰ یہ تیزی سے ایک سے دوسرے شخص کو منتقل ہوتا ہے۔ گلائیکین کی پتلی تہہ کے نتیجے میں مدافعتی نظام کو وائرس پر قابو پانے کے لیے کم رکاوٹیں پار کرنی پڑتی ہیں۔
یہ ویکسین کی تیاری کی کوشش کرنے والے محققین کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ یونیورسٹی ساؤتھ ہیمپٹن کی تحقیق میں جو آلات استعمال کیے گئے، ان کے لیے اس سے پہلے بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے ایڈز کی ویکسین کی تلاش میں مصروف عالمی اتحاد کے توسط سے گرانٹ دی تھی۔
No comments:
Post a Comment