غریدہ فاروقی تجزیہ کار
عورت کا مارچ مرد کے خلاف نہیں بلکہ قدم کے ساتھ قدم ملاکر آگے بڑھنے کی تحریک ہے۔ جتنا جلد ہو اس تاریخ ساز مقدمے میں عورت کی دلیل کو سمجھیے وگرنہ تاریخ منصف ہے اور وہ مذکر نہیں مونث ہے۔
عورت مارچ کا اعلان کیا ہوا، پورے ملک میں طوفان کھڑا ہو گیا۔ ہر سال عورت مارچ ہوتا ہے اور ہر سال دو طرفہ نظریات کا جنگی معرکہ نظر آتا ہے۔ میرے نزدیک نظریات کے اس ٹکراؤمیں کوئی غلط یا پریشان کن بات نہیں بلکہ انشاء اللہ اسی میں سے بہتری کا راستہ نکلے گا۔
پہلی بات تو یہ سمجھنی ہو گی کہ پاکستانی معاشرہ ایک انتہائی شدید نظریاتی معاشرہ ہے جس کی جڑیں صدیوں کے مذہبی عقائد اور سماجی رسم و رواج کی زرخیز زمین میں مظبوطی سے پیوست ہیں ۔ ان جڑوں کو کاٹنا تو کیا انہیں کھودنا بھی انتہائی دشوار ہے ۔
غلط یا صحیح کی بحث میں جائے بغیر ، ایسے مذہبی اور سماجی گھمبیر معاشرے میں جب بھی کوئی کچھ نئی بات یا نئی سوچ سامنے لے کر آئے گا تو ایسی مخالفت تو یقینی ہے ۔ میر ے نزدیک راستہ اسی نظریاتی ٹکراؤ میں سے نکلے گا۔یہ نظریاتی جنگ ایک چھلنی کا کردار ادا کر رہی ہے ۔
دونوں اطراف سے خوب بحث ہو رہی ہے ،اپنے مقدمے کا بھرپور دفاع کیا جا رہا ہے ۔آپ گویا یوں سمجھیے کہ عورت اس مارچ کے ذریعے اپنا مقدمہ معاشرے کی بھری عدالت میں لے آئی ہے ۔دونوں اطراف کے مدعی بھی وکیل بھی اسی معاشرے کے لوگ ہیں ۔
منصف تاریخ ہے ۔معاشرے کا ایک طبقہ کورٹ روم میں پچھلی نشستوں پر بیٹھا ہے یا عدالتی احاطے میں کھڑا خاموشی سے یہ کارروائی دیکھ رہا ہے ۔ مقدمے کے گواہ بھی موجود ہیں اور دونوں اطراف کے ۔ میڈیا بھی موجود ہے جو اس تاریخ ساز مقدمے کی کارروائی بھرپور دیکھ بھی رہا ہے اور دکھا بھی رہا ہے ۔
یہ مقدمہ اپنا طبعی وقت ضرور پورا کرلے گا اور ضرورت ہے کہ عورت کے اس مقدمے کو اس کا قدرتی وقت اور مدت پوری کرنے دینی چاہیے ۔ تاریخ اس مقدمے کی منصف ہے اور جو فیصلہ وہ سنائے گی وہ تاریخ ساز ہو گا ۔معاشرے کی عدالت میں لگے اس مقدمے کے جاری دلائل کو روکیے نہیں ٹوکیے نہیں ۔
دونوں اطراف کو بھر پور طریقے سے جارحانہ انداز میں اپنا موقف پیش کرنے دیجیے ۔اسی میں سے نکھار اور ٹھہر اؤسامنے آئے گا۔عورت مارچ کے مقدمے کو اپنا قدرتی راستہ اختیا ر کرنے دیجیے لیکن ایک بات ضرور مدِنظر رکھیے ۔ایک دوسرے کی بات تحمل سے سنیں اور سمجھیں ۔
معاشرے کے ایک طبقے کو عورت مارچ کے چند نعروں سے شکوہ ہے۔ پہلی بات، عورت مارچ محض اور صرف پلے کارڈز پر درج نعروں تک محدود نہیں۔ آپ نے چند پلے کارڈز پر درج نعرے تو پڑھ لیے لیکن کیا ان کے پیچھے کھڑی عورت کو دیکھا؟ کیا اس کے ذہن کو پڑھا ؟ کیا اس سے بات کی ؟ کیا اس سے سننے اور سمجھنے کی کوشش کی کہ وہ اس نعرے سے مزین پلے کارڈ اٹھائے کیوں کھڑی ہے ؟یا آپ نے محض ایک جسم کو دیکھا جو کوئی ایسا پلے کارڈ اٹھا ئے کھڑا ہے جس پر لکھے الفاظ کو آپ کی نظروں نے اپنی مرضی کے زاویے سے پڑھا، آپ کے ذہن نے اپنی مرضی کی تشریح ڈالی اور آپ کی ذاتی سوچ آپ کی زبان کے پیرائے میں ڈھل گئی ؟
اگر ایسا ہے تو یقین جانیےاسی سوچ کے خلاف ہے عورت مارچ ! جب تک آپ عورت کی بات سنیں گے نہیں،سمجھیں گے نہیں۔ اس کے ذہن کو پڑھنے کو کوشش نہیں کریں گے تب تک نظریات کی یہ جنگ جاری رہے گی اور تسلی رکھیے،عورت تو ا س جنگ میں نہ تھکے گی نہ ہارے گی ۔
تاریخ کا حتمی فیصلہ آخرِ کار عورت کے ہی حق میں ہوگا کیونکہ تاریخ مذکر نہیں مونث ہے۔ تاریخ اپنا فیصلہ سناتا نہیں،سناتی ہے ۔عورت کے حقوق کی جنگ محض ایک نعرے 'میر ا جسم میر ی مرضی ' تک محدود نہیں ۔یہ جنگ سماجی ،معاشی ،معاشرتی ،مذہبی –ہر محاذپر لڑی جاتی ہے اور لڑی جاتی رہے گی ۔خاندان معاشرے کا بنیادی اور پہلا جزو ہے ۔عورت کے ساتھ ناانصافی کا آغاز تواس کی پیدائش کے ساتھ ہی خاندان میں ہو جاتا ہے بلکہ کئی بچیوں کے ساتھ تو ایسا ظلم ِعظیم کہ پیدا بھی نہیں ہونے دیا جاتا ۔
نہ ماں کو اپنے جسم میں پیدا ہونے والے ایک اور معصوم جسم پر اختیا ر اور مرضی دی جاتی ہے جس میں روح خدانے اپنی رضااور مرضی سے پھونکی ہے ۔اگر جسم اللہ کی امانت ہے اور اللہ ہی کی مرضی ہے تو پھر جواب دیجیے کہ جس بیٹی نے پید اہونا ہے یا جو بیٹی پیدا ہوئی ہے اور اس کا جسم ،اس کی روح اللہ کی امانت اور مرضی سے ہے تو پھر آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ اللہ کی اما نت اور مرضی کو جان سے مار دیں ؟ یا اسے پید ا ہی نہ ہونے دیں ؟
اگر آپ اس ظلم کے خلاف ہیں تو یقین جانیے آپ اس نعرے اس سلوگن ،اس پلے کارڈکے ساتھ ہیں، چا ہے آپ اس کو جو مرضی نام دے دیجیے،آپ عور ت مارچ کے ساتھ ہیں ۔
اور اگر آپ اس ظلم کو ظلم نہیں سمجھتے تو پھر آپ کی جنگ صرف عورت کے ساتھ نہیں،آپ کی جنگ قدرت کے نظام کے ساتھ ہے،آپ کی جنگ خدا کے ساتھ ہے اور اس جنگ میں آپ ہر گز ہر گز نہ جیتیں گے ۔
اگر آپ اس ظلم کے خلا ف ہیں کہ معصوم بچیوں، لڑکیوں، عورتوں (یہاں تک کہ روح کانپ جائے )ضعیف بوڑھی بزرگ عورتوں اور ان کے مردہ جسموں کے ساتھ ریپ کیا جاتا ہے توپھر آپ اس نعرے ،اس سلوگن،اس پلے کارڈکے ساتھ ہیں ۔
اگر آپ اس ظلم کے خلاف ہیں کہ عورت کے جسم کوراہ چلتے،بازار میں ،دفتر میں،گھر میں کوئی اس کی مرضی کے بغیر چھوئے ،اسے ہراسا ں کرے ،توپھر آپ اس نعرے ،اس سلوگن ،اس پلے کارڈکے ساتھ ہیں ۔اگر آپ اس ظلم کے خلاف ہیں کہ عورت کسی مردسے تعلق بنانے سے انکار کرنے پر تیزاب سے جلا دی جائے ،اگر آپ اس ظلم کے خلاف ہیں کہ جہیز نہ لانے یا توقعات سے کم یا کم تر لانے پر عورت کو ماراپیٹا جائے،جلا دیا جائے یا مار دیا جائے۔
اگر آپ اس ظلم کے خلاف ہیں کہ بیٹا پیدا کرنے کی امید میں عورت کو کرب اور تکلیف سے گزارا جائے تو پھر یقین جانیے آپ اس نعرے ،اس سلوگن،اس پلے کارڈکے ساتھ ہیں ۔چاہے آپ اس کو جو مرضی نام دے دیجیے ،آپ عورت مارچ کے ساتھ ہیں ۔
اگر آپ اس حق میں ہیں کہ بچیوں کو کھانے پینے ،اٹھنے بیٹھنے ،اوڑھنے بچھونے ،تعلیم حاصل کرنے ،کھیل کود کے یکساں مواقع اور سہولت حاصل ہو ۔اگر آپ اس حق میں ہیں کہ کم عمری میں بچیوں کی شادی نہ ہو ۔اگر آپ اس
حق میں ہیں کہ عورت کی شادی اس کی مرضی کے خلاف نہ ہو،اگر آپ اس حق میں ہیں کہ عورت کو تعلیم ، ذریعہ معاش ،سماجی ،معاشی و معاشرتی ، سیا سی ترقی میں یکساں موقعے اور سہولت حاصل ہو ،اگر آپ اس حق میں ہیں کہ عورت کو وراثت میں پورا حق حاصل ہو ،اگر آپ اس حق میں ہیں کہ کام کی جگہ پر عورت کو مردکے مساوی کام کے مساوی دام حاصل ہو ں تویقینا ًآپ ہر لحاظ سے عورت مارچ کے ساتھ ہیں ۔
اور اگر آپ ان باتوں کے حق میں نہیں تو پھر آپ کی جنگ قدرت کے نظام کے ساتھ ہے ،آپ کی جنگ خدا کے ساتھ ہے اور اس جنگ میں آپ ہر گز ہر گز نہیں جیتیں گے ۔
آخر میں ایک گزارش خواتین کے لیے کہ آپ جس چال ڈھال ،جس لباس ،جس طور اطوار،جس زبان ،جس انداز،جس عقیدے ،جس سوچ کے ساتھ اپنی مرضی سے بے شک اپنے حق کے لیے آواز اٹھایے،ہم عورتوں کو ایک دوسرے کی طاقت بننا ہے کیونکہ اس مقدمے میں یہی ہماری کامیابی ہے ۔
ہمارے آپسی نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں مگر ہمارا مقصد ایک ہے ۔سو اس بڑے مقصد کی خاطر ہمیں اک دوجے کا سہا را بننا ہے اور اپنا حق حاصل کرنا ہے ۔ اپنی الہامی کتاب قرآن میں بھی خدانے تمام مذاہب اور عقائد کو دعوت دی کہ آپسی اختلافات بھلا کر ان باتوں کی طرف آؤجو یکساں ہیں، سو ہم بھی تو اسی واحد کی مخلوق ہیں ۔
اختلافات کو دور رکھ کر اس مقصد کی جانب آئیں جو ہم میں واحد اور مشترک ہے اور آخر میں مرد حضرات سے گزارش ہے کہ عورت مارچ پر ناک بھوں چڑھانے کے بجائے اور نعروں کے محض الفاظ تک محدود رہ کر جارحیت کی طرف مائل ہونے کی بجائے اس بار ان نعروں اور ان پلے کارڈز کے پیچھے کھڑی عورت سے بات کریں اور مسئلہ سمجھنے کی ایک پر خلوص کوشش کی طرف پہلا قدم اٹھائیں ۔
عورت کا مارچ مرد کے خلاف نہیں بلکہ قدم کے ساتھ قدم ملاکر آگے بڑھنے کی تحریک ہے۔ جتنا جلد ہو اس تاریخ ساز مقدمے میں عورت کی دلیل کو سمجھیے وگرنہ تاریخ ہی منصف ہے اور وہ مذکر نہیں مونث ہے۔ تاریخ اپنا فیصلہ سناتا نہیں سناتی ہے۔
شاید کہ تِرے دل میں اتر جائے مِری بات۔ ۔ ۔ ۔
No comments:
Post a Comment