’لڑکی ہنسی تو پھنسی‘ کی سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، ہنسی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکی راضی ہے وہ کبھی کبھی ہنس کر ٹال دینا بھی چاہتی ہے، ہنس کر نظر انداز بھی کرنا چاہتی ہے اور جان چھڑانا بھی چاہتی ہے۔
جام شورو میں واقع سندھ یونیورسٹی میں جاری تین روزہ لاہوتی میلے میں سماجی ورکرز، شعبہ تعلیم، تحقیق و ادب سے وابستہ خواتین نے خواتین کی ہراسگی، رضامندی اور طاقت کے استعمال پر موضوعات پر بحث مباحثوں میں اس بات پر زور دیا کہ ‘رضامندی’ کی تعریف کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
نوجوان صوفی سنگر سیف سمیجو گزشتہ چارسالوں سے لاہوتی میلے کا انعقاد کرتے آئے ہیں، انھوں نے بتایا کہ جب انھوں نے اس میلے کا موضوع خواتین کی ہراسگی پر رکھا تو کئی سپانسرز نے تو معاونت کرنے سے ہی انکار کردیا تھا۔
نامور مصنف اور صحافی محمد حینف کا کہنا تھا ’ہمیں جو محدود زبان ملی جس کو مردوں نے قبول کیا ہے وہ بھی کافی محددو قسم کی ہے۔ اس میں ہم رشتوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں کہ ماں ہے تو پیار کرے گی، بہن ہے تو قربانی دے گی، بیٹی ہے تو خدمت کرے گی۔ ہمیں ایک نئی زبان کی ضرورت ہے۔‘
’خود مختار عورت کون ہے یہ فیصلہ کوئی مرد نہیں کرسکتا۔ عورت جب آزاد ہوجائے تو مرد کو بھی اس کی مردانگی سے آزاد کرائے، حالانکہ کام اپنا ہے لیکن کرانا پھر بھی عورتوں سے ہے۔‘
وومین ایکشن فورم کی رہنما، کالم نویس اور متحقق نازش بروہی کا کہنا تھا کہ اگر تعلق برابری کا نہیں تو اس میں رضامندی نہیں ہوسکتی۔
’جہاں جبر اور زور کا استعمال کیا جاتا ہے اس کو سمجھنا بہت آسان ہے کہ یہ غلط ہے۔ جیسے ریپ ہے یا جنسی حملہ ہے۔ اور جہاں ہنسی خوشی رضامندی شامل ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگوں کی اپنی مرضی ہے اس میں کوئی مسئلہ نہیں، لیکن مسئلہ درمیان میں ہوتا ہے جب ہمیں واضح نظر نہ آئے کہ اظہار ہے کہ نہیں ہے ۔‘
نازش بروہی کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے ایک شخص کسی چیز کی رضامندی دے رہا ہو لیکن دوسرے شخص کے ذہن میں اس رضامندی کے معنی کچھ اور ہوں۔ یعنی لڑکی کے لیے یہ رضامندی ہو کہ اس سٹال سے جا کر کولڈ ڈرنک پی لیتے ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ اس کو دوسرا شخص مختلف انداز سے سوچے کہ کس چیز کی رضامندی دی گئی ہے۔
’اگر آپ انڈین فلمیں یا گانے دیکھیں جس میں ایک لڑکا مسلسل لڑکی کے پیچھے ہے اور وہ منع کر رہی ہے لیکن وہ گانا گائے جا رہا ہے کیونکہ آگے جاکر اس نے ہاں ہی کہنا ہے۔ دیکھیں یہ کس طرح کا پیغام دیا جارہا ہے کہ یہ جو نا ہے وہ دراصل نا نہیں، اگر نا ہے تو آگے جاکر ہاں بن جائیگی۔
جامشورو میں سندھ یونیورسٹی کے ساتھ لیاقت میڈیکل یونیورسٹی، مہران انجنیئرنگ یونیورسٹی اور فائن آرٹس کالیج بھی واقع ہیں۔ ان کے طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور مباحثے میں جامعات میں طالبات کے ساتھ ہراسگی پر بھی بات ہوئی۔
سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر اور وومین ایکشن فورم حیدرآباد کی سرکردہ رہنما عرفانہ ملاح کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں اور بدقسمتی سے کئی مرتبہ طالبہ اور استاد کے تعلق کی شکایات سامنے آتی ہیں لیکن استاد کہتے ہیں کہ لڑکی راضی تھی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا استاد اور طالبہ میں کوئی رضامندی پائی جاتی ہے، کیونکہ ان کے تعلق میں طاقت کا عدم توازن موجود ہے۔
’استاد زیادہ با اختیار ہے اور لڑکی بے اختیار، ان کے درمیان ایک احترام اور اعتماد کا بھی رشتہ ہے۔ کوئی ٹیچر آگے بڑھتا ہے تو لڑکی خاموش رہتی ہے۔ اس کو رضامندی تصور کیا جاتا ہے کہ اس نے انکار نہیں کیا، اس نے روکا نہیں یا اس نے مزاحمت نہیں کی اس کا مطلب ہے وہ راضی ہے۔‘
عرفانہ ملاح کا کہنا تھا کہ تعلیمی اداروں میں ہمیں دیکھنا پڑیگا کہ اساتذہ اور طالبات میں کوئی رضامندی نہیں ہوتی جیسے کسی بالغ اور نابالغ کے تعلق میں کسی قسم کی رضامندی نہیں ہوتی۔ اسی طرح استاد بااختیار ہے، طلبہ انکار نہیں کرسکتی کیونکہ اس کے ساتھ کئی خوف و خطرات اور مارکس جڑے ہوتے ہیں۔
’لڑکی آپ کے دفتر میں آئی تو وہ اس پر راضی نہیں تھی کہ آپ اس کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالیں۔ وہ اس پر بھی راضی نہیں تھی کہ آپ پہل کریں کہ آپ مجھے اچھی لگتی ہیں۔ یہ اس لیے نہیں آئی تھی کہ آپ اس کے ساتھ کوئی بھی حرکت کریں۔‘
سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر فتح محمد برفت کا کہنا تھا کہ جو رویے گلی محلوں میں نظر آتے ہیں ان کی جھلک جامعات میں بھی ہوتی ہے۔ انھوں نے ہراسگی کے حوالے سے پولیس اور انتظامی سیل بنائے ہیں جس میں ڈی ایس پی سطح کا افسر اور ٹیچرز شامل ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں 32،000 طالب علم ہیں جن میں سے 40 فیصد طالبات ہیں اور اسی طرح فیکلٹی میں بھی خواتین کا اضافہ ہوا ہے۔
ٹیلیویژن اور فلم میں ہراسگی پر بھی ان مذاکروں میں بات کی گئی۔ سماجی کارکن اور کلنک اور ورکنگ ودھ شارکس کی مصنف ڈاکٹر فوزیہ سیعد کا کہنا تھا کہ اداروں میں جو سیل بنائے جا رہے ہیں ضروری ہے کہ ان کے رکن تربیت یافتہ ہوں، اور خاص طور پر جو تخلیق کا شعبہ اور پروڈکشن ہاؤسز ہیں وہاں اس پر عملدارآمد نہیں ہو رہا۔
’میڈیا ہاؤسز سوال پوچھنے میں سب سے آگے ہوتے ہیں لیکن ان میں ایسے سیل قائم نہیں کیے گئے صرف سب سے پہلے جیو اور بعد میں ڈان نے ہراسگی سیل قائم کیے ہیں۔‘
رکن سندھ اسمبلی اور جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں پی ٹی وی پر دوپٹہ پہننے سے انکار کرنے والی میزبان مہتاب اکبر راشدی نے بتایا کہ وہ ہم ٹی وی کے ساتھ وابستہ رہی ہیں۔ ’وہاں ایک صاحب نے دیوار کے ساتھ ہاتھ رکھ کر لڑکی کو کہا کہ آپ یہاں سے نہیں جا سکتیں۔
ان کے پاس جب شکایت ملی تو انھوں نے ان صاحب کو کہا کہ آپ مستعفی ہو جائیں اور اسی طرح دو بار سینئر پوزیشن والے افسران کو مستعفی ہونا پڑا۔‘
’لڑکیاں دن رات مختلف شعبوں میں کام کرتی ہیں۔ مالکان کو، ملازمین کو تحفظ فراہم کرنا ہوگا اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔‘
نامور فلم ڈائریکٹر جامی محمود کا کہنا تھا کہ فلم انڈسٹری میں آپ کسی عورت سے وہ سب چیزیں کرا سکتے ہیں جو عام زندگی میں کسی مہذب معاشرے میں نہیں کرا سکتے۔
’پروڈیوسر کے ساتھ جب سکرپٹ کی پہلی میٹنگ ہوتی ہے تو اس میں کہانی پر بات نہیں ہوتی، سب سے پہلے پوچھا جاتا ہے کہ لڑکی کون ہے؟ پھر لباس کی بات ہوتی ہے کہ وہ کتنا لباس پہنے گی اور کتنا جسم دکھائے گی۔‘
جامی نے میشا شفیع کے گلوکار علی ظفر پر ہراسگی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جب میشا شفیع نے بات کی تو اس کو مذاق بنا دیا گیا۔ اس صورتحال میں کون باہر آ کر بات کرے گا؟
آکسفرڈ پریس کی سابق ڈائریکٹر اور پبلشر امینہ سید کا کہنا تھا کہ وہ زندگی میں ہر چیز کا منہ توڑ جواب دے کر آگے بڑھی ہیں۔ انھوں نے مینجر کی سطح پر کام کیا ہے لیکن ماتحت لوگ حکم نہیں مانتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ دوسرے کسی کا حکم مان لیں گے لیکن آپ کا حکم نہیں مانیں گے۔
امینہ سید کا کہنا تھا کہ عورت کی خود مختاری معمولی چیز نہیں ہے۔ پہلے تعلیم پر معاشی آزادی ملنے کے بعد ہی عورت خودمختار ہو سکتی ہے۔
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-47188786
No comments:
Post a Comment