خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں مقامی افراد نے جمعہ کو مبینہ طور پر فائرنگ کے نتیجے میں دو افراد کی ہلاکت کے خلاف میرانشاہ بازار میں دھرنا دیا ہوا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ذمہ دار افسران کا کورٹ مارشل کیا جائے۔
شمالی ویرستان سے نومنتخب رکن قومی اسمبلی اور پختون تحفظ موومنٹ کے رہنما محسن داوڑ اس دھرنے میں موجود ہیں۔
انھوں نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’پرامن احتجاج کرنے والے مقامی افراد پر فائرنگ کی گئی ہے جس کے خلاف یہ دھرنا دیا گیا ہے۔‘
محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’کہیں بھی اگر کوئی دھماکہ ہو جاتا ہے تو اس علاقے میں آپریشن شروع کر دیا جاتا ہے، لوگوں کو گرفتار کر کے ان پر تشدد کیا جاتا ہے اور لوگوں کی بے عزتی کی جاتی ہے۔ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ذمہ دار افسران کا کورٹ مارشل نہیں کیا جاتا۔‘
تاہم مقامی لوگوں نے بتایا کہ مظاہرین نے شام کے وقت ایک 11 رکنی کمیٹی قائم کی ہے جو انتظامیہ اور دیگر حکام سے مذاکرات کر رہے ہیں۔
جمعے کے روز میرانشاہ سے چند کلومیٹر دور مغرب میں ہمزونی گاؤں کے افراد غیر قانونی گرفتاریوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے اور جب مظاہرین سکیورٹی فورسز کی چوکی کے قریب پہنچے تو وہاں فائرنگ کی گئی۔
مقامی لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین پر فائرنگ کی ہے جس میں اب تک دو افراد ہلاک اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔
یہ دھرنا میرانشاہ بازار ہسپتال کے سامنے دیا گیا ہے جہاں عینی شاہدین کے مطابق بڑی تعداد میں لوگ موجود ہیں۔
اس دھرنے کے لیے مختلف علاقوں جیسے جنوبی وزیرستان، باجوڑ اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے لوگ پہنچے ہیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ جمعہ کو فائرنگ کے واقعے کے بعد لوگ مشتعل ہو گئے تھے اور بھرپور احتجاج کیا اور سنیچر کی صبح سے دھرنا جاری ہے۔
اس بارے میں ضلعی انتظامیہ کے دفتر رابطے کی کوششیں کی گئیں لیکن کسی سے رابطہ نہیں ہو سکا تھا۔
یہ احتجاج علاقے میں دھماکوں کے بعد کی جانے والی گرفتاریوں کے خلاف کیا جا رہا تھا ۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے میں چند روز پہلے ایک دھماکے کے بعد سرچ آپریشن میں سکیورٹی فورسز نے گرفتاریاں کی تھیں۔
اسی علاقے میں کچھ عرصہ پہلے بھی گرفتاریاں کی گئی تھیں جس پر مقامی لوگوں نے احتجاج کیا تھا جب شدت پسندوں کے حملے میں ایک فوجی افسر ہلاک ہو گئے تھے۔
چند روز پہلے میرانشاہ سے چند کلومیٹر دور ڈانڈے کلے میں سکیورٹی فورسز کے بم ڈسپوزل سکواڈ کے قریب دیسی ساختہ بم دھماکہ ہوا تھا جس میں ایک اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب جون سال 2014 میں شروع کیا گیا تھا جس سے کوئی دس لاکھ لوگوں نے نقل مکانی کی تھی۔ گذشتہ سال اکثر متاثرین اپنے علاقوں کو واپس چلے گئے تھے لیکن اب بھی کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں متاثرین کی واپسی نہیں ہو سکی۔
No comments:
Post a Comment