بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع کچلاک شہر میں ایک کار میں سوار ہزارہ خاندان پہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد تنظیم لشکر جھنگوی/سپاہ صحابہ پاکستان کے موٹر سائیکل پہ سوار دہشت گردوں نے اس وقت فائرنگ کی جب وہ ایک پٹرول پمپ پہ تھوڑی دیر کے لئے رکے تھے۔فائرنگ کے نتیجے ہزارہ شیعہ خاندان کے تین مرد افراد موقع پہ ہی شہید ہوگئے جبکہ ایک بارہ سالہ لڑکا ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاکر شہید ہوگیا۔اس فائرنگ کے نتیجہ میں کار میں سوار دو شیعہ ہزار خواتین بھی شدید زخمی ہوئی ہیں۔فائرنگ کرکے دہشت گرد آسانی سے فرار ہوگئے۔انگریزی روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق دہشت گردی کا نشانہ بننے والا ہزارہ شیعہ خاندان افغانستان سے چمن کے راستے کوئٹہ واپس لوٹ رہا تھا جب سلیم ہوٹل کے پاس کچلاک شہر میں ایک پٹرول پمپ پہ ان کو نشانہ بنایا گیا۔
ہزارہ شیعہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا جانے والا یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔بلوچستان کے اندر اس وقت تکفیری۔جہادی دیوبندی-سلفی وہابی دہشت گرد نیٹ ورک کے تحت کئی ایک گروپ کام کررہے ہیں جن میں لشکر جھنگوی العالمی ، داعش، جیش العدل،جند اللہ قابل ذکر ہیں۔اور ان تنظیموں کو کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان/اہلسنت والجماعت دیوبندی کی نظریاتی و لاجسٹک سپورٹ حاصل ہے۔جبکہ بلوچستان میں جاری وائلنس پہ کام کرنے والے تحقیقاتی اداروں اور تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی ایک تکفیری دیوبندی گروپوں کو مبینہ طور پہ بلوچستان میں ملٹری اسٹبلشمنٹ اور سویلین سیکورٹی فورسز کے اندر بیٹھی تکفیری لابی کی حمایت بھی حاصل ہے۔جبکہ بلوچ نیشنلسٹ گروپوں کی جانب سے یہ الزام بھی سامنے آیا ہے کہ ان تکفیری جہادی دہشت گرد تنظیموں کو اسٹبلشمنٹ بطور پراکسی بلوچ مزاحمت کاروں کے خلاف استعمال کررہی ہے جو اس آڑ میں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کو بھی نشانہ بناتے رہتے ہیں۔
بلوچستان میں تکفیری دیوبندی-سلفی وہابی دہشت گرد نیٹ ورک ہزارہ شیعہ کی بدترین نسل کشی کا مرتکب ہورہا ہے اور یہی نیٹ ورک بلوچستان میں صوفی سنّی ،زکری فرقہ، احمدی، ہندؤ اور بلوچ نیشنلسٹ ایکٹوسٹ ، دانشور، پروفیسرز ، سیاسی ورکرز کو بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ہزارہ شیعہ کی اکثریت آبادی کے علاقے کوئٹہ میں عملی طور پہ محصور محلوں اور گھیٹوز میں بدل چکے ہیں۔ہزاروں ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے افراد پڑوسی ملک افغانستان، ایران اور یورپی ممالک میں پناہ گزینوں کی زندگی گزار رہے ہیں۔جبکہ ہزاروں لوگ ابتک ٹارگٹ کلنگ، خود کش بم دھماکوں اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں میں شہید اور معذور ہوچکے ہیں۔
ہزارہ شیع کمیونٹی کی یہ نسل کشی روکنے میں بلوچستان حکومت ، وفاقی حکومت اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کی کوششیں کے بارے میں نیم دلانہ تاثر بہت پختہ ہوچکا ہے۔جبکہ مسلم لیگ کی اتحادی حکومت بارے بار بار یہ تنقید سامنے آتی ہے کہ وہ تکفیری دیوبندی دہشت گرد نیٹ ورک کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور اس کو نظریاتی و لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے والی تنظیموں اور گروپوں کے خلاف کاروائی میں سنجیدہ نہیں ہے۔جبکہ پاکستان کی ملٹری اسٹبلشمنٹ پہ بھی اس نیٹ ورک کے اندر کئی سیکشن کو بطور پراکسی استعمال کرنے کے لئے ان کی سرپرستی کرنے کا الزام سامنے آرہا ہے۔کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو مین سٹریم کرنے اور دہشت گردوں کو ہیرو بنانے جیسے اقدامات کو بھی اس نسل کشی کی ایک وہ قرار دیا جارہا ہے۔
اس وقت ہزارہ شیعہ کمیونٹی کے اندر اس جاری نسل کشی پہ سخت غصّہ اور برہمی پائی جارہی ہے اور ان میں سے یہ آوازیں سامنے آنے لگی ہیں کہ ان کا کیس حکومت اکر سننے کو تیار نہیں ہے تو پھر ان کو اپنا کیس اقوام متحدہ کے پاس لیکر جانے کی ضرورت ہے۔تشویش ناک امر یہ ہے کہ دی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سربراہ نصراللہ بلوچ نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے حکومت کو دو ماہ کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچ جبری گمشدگان کی بازیابی کے ٹھوس اقدامات نہ کئے گئے تو وہ اپنا کیس اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگان کے پاس لیجائیں گے۔
یہ رجحان پاکستانی ریاست اور حکومت پہ عدم اعتماد کی نشانی ہوگا جبکہ پہلے ہی امریکہ، علاقائی اتحاد برکس نے پاکستانی حکومت کو ملک میں متحرک دہشت گرد تنظیموں کے خلاف ٹھوس کاروائی کرنے کا مطالبہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔اور پاکستان کے حکام کو اس حوالے سے عالمی برادری اور دہشت گردی کا شکار متاثر نسلی ومذہبی کمیونٹیز کے تحفظات کو دور کرنے کی ضرورت ہے اور کالعدم تکفیری جہادی انتہا پسند تنظیموں کے لئے پیدا کی کئی سپیس فی الفور ختم کرنے کی ضرورت ہے
No comments:
Post a Comment