Friday, December 27, 2019

- نہتی لڑکی نے بندوقوں والوں کو ڈرا دیا تھا - وہ لڑکی لال قلندر تھی #ZindaHaiBibiZindaHai #BenazirBhuttoShaheed



27 دسمبر کا دن اب ہمیشہ کے لیے کرب، دکھ اور غم کا دن بن گیا ہے کیونکہ اس دن جس پاپا کی پنکی کو موت کی نیند سلایا گیا تھا اس نہتی لڑکی نے بندوقوں والوں کو ڈرا دیا تھا۔

پانچ دن پہلے گڑھی خدا بخش میں بےنظیر بھٹو کے مزار پر مجھے ان کی سوانح حیات میں لکھا گیا ایک واقعہ یاد آیا جس میں بی بی لکھتی ہیں کہ وہ بہت چھوٹی تھیں جب ایک بار ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو ان کو شام کے وقت اپنے گھر کے ساتھ ملحق قبرستان میں لے گئے اور کہا: ’پنکی، یہاں پر ہمارے آبا و اجداد دفن ہیں۔ تم دنیا میں جہاں بھی چلی جاؤ مگر تمھیں لوٹ کر یہیں آنا ہے اور مرنے کے بعد دفن بھی یہیں ہونا ہے۔ کیونکہ یہ مٹی اور یہ لوگ ہی تمھارا اصل ہیں۔ اس لیے زندگی میں اپنے اصل کو مت بھولنا۔‘
پنکی کو اس طرح اپنے بابا کے پہلو میں مدفن دیکھ کر محسوس ہوا کہ انہوں نے کس طرح اپنے بابا کی لاج رکھی کہ 2007 میں تمام تر دباؤ کے باوجود اپنی جلا وطنی ختم کر کے ہر طرح کے خطرات کے باجود وہ وطن واپس آئیں۔ ان کو کہا گیا کہ اگر وہ آئیں گی تو ان کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔ ان کے آنے پر 18 اکتوبر 2007 کو کارساز کراچی میں ایک بم دھماکہ کر کے سینکڑوں بے گناہ کارکنوں کی جان لی گئی۔ بی بی اس دھماکے میں بال بال بچ گئیں۔ تب بھی اگر وہ چاہتیں تو اپنی جان بچانے کے لیے واپس جا سکتی تھیں مگر وہ اپنے بابا کی بات یاد رکھتے ہوئے نہ جھکیں اور نہ ڈریں۔ 
اور پھر وہ 27 دسمبر 2007 کا دن مجھے بی بی کی قبر پر بیٹھے ہوئے یاد آیا جب پنجاب یونیورسٹی سے چھٹیوں کی وجہ سے میں اپنے گاؤں میں تھا اور بی بی کی لیاقت باغ کے جلسے میں کی گئی تقریر سنی۔ تھوڑی دیر بعد ہی خبر آئی کہ وہاں پر بم دھماکہ ہو گیا ہے اور بی بی شدید زخمی ہیں۔ اضطراب کی اس کیفیت میں دل سے دعا نکلی کہ مولا بی بی کو بچا لے کیونکہ اس وقت وہ ایک ایسی امید بن کر آئی تھیں جو ہمارے ملک کی تقدیر بدل سکتی تھیں۔ مگر کچھ ہی دیر بعد ٹی وی پر ان کی ہلاکت کی خبر جب چلی تو میں سکتے میں آ گیا اور یہی محسوس ہوا کہ میڈیا پر غلط خبر بھی چلا دی جاتی ہے۔ کاش یہ خبر بھی غلط ہی ہوتی مگر ایسا نہ ہوا۔ 
اس خبر نے دل چیر کر رکھ دیا تھا۔ ایک ایسا درد تھا جو برداشت نہیں ہو پارہا تھا۔ بس آنکھوں سے آنسو رواں تھے کیونکہ یہ وہی وقت تھا جب بی بی کو سیاست میں ان کی ہمت اور کردار کی وجہ سے آئیڈیل ماننا شروع کیا تھا کہ وڈیروں اور سرداروں کی سرزمین پر ایک عورت اتنے مردوں کے مقابلے میں آ گئی تھی جس کے والد کو بغیر کسی قصور کے پھانسی لگا دیا گیا تھا۔ اس نے اپنے والد کی اس سیاست کو سنبھالا اور کیا کمال سنبھالا کہ ضیا الحق جیسا آمر بھی اس کے سامنے نہ ٹھہر سکا۔
پھر جب تک وہ سیاست میں رہیں، انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنوں سے ویسا ہی برتاؤ رکھا جیسا ان کے بابا رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1986 میں ضیاء الحق کی آمریت ہو یا پرویز مشرف کا 2007 کا دور، دونوں دفعہ جب بی بی باہر سے پاکستان آئیں تو ان کا ایسا فقید المثال استقبال کیا گیا کہ اسے آج بھی دنیا یاد رکھتی ہے۔ حکومت میں رہ کر بھی ان کا رابطہ اپنے کارکنوں سے نہ ٹوٹتا تھا اور اپوزیشن میں تو وہ اور بھی متحرک ہو جاتی تھیں۔ 
اس کے ساتھ ان کے اپوزیشن کے ادوار میں مسلم لیگ (ن) کی طرف سے ان پر کیا کیا ظلم نہیں ڈھائے گئے۔ جھوٹے مقدمات بنائے گئے۔ جیلوں میں ڈالا گیا۔ کردار کشی کی آخری حدوں کو چھوا گیا مگر ان باہمت خاتون نے اس سب کو نہ صرف خندہ پیشانی سے برداشت کیا بلکہ اس کے ساتھ اپنے بچے بھی پالے اور سیاسی طور پر متحرک بھی رہیں۔ یہی وجہ ہے یہ سب ظلم ڈھانے والے آج اس سب پر نہ صرف شرمندہ ہیں۔ بلکہ بی بی کی سیاست اور کردار کے معترف بھی ہیں۔
بی بی کو گزرے ہوئے آج 12 سال ہوگئے ہیں مگر وہ آج بھی لاکھوں، کروڑوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر بی بی زندہ ہوتیں تو شاید موجودہ حکمران کبھی اقتدار میں نہ آ سکتے۔ اب بلاول اگر اپنے والد آصف علی زرداری کی سوچ سے آزاد ہو کر اپنے نانا اور اپنی ماں کی سوچ اور فلسفے کو مکمل اپنا لیں تو شاید وہ کچھ بہتری لا سکیں۔
27 دسمبر کا دن اب ہمیشہ کے لیے کرب، دکھ اور غم کا دن بن گیا ہے کیونکہ اس دن جس پاپا کی پنکی کو موت کی نیند سلایا گیا تھا اس نہتی لڑکی نے بندوقوں والوں کو ڈرا دیا تھا، ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ڈرایا۔ یہی وجہ تھی کہ انہی بندوقوں والوں نے چھپ کر اس پر وار کیا کیونکہ وہ اس کی ہمت، حوصلے اور جذبے کو برداشت نہیں کر پا رہے تھے۔ مگر بی بی کی سوچ کو وہ ختم نہ کر سکے کیونکہ آج بی بی میرے جیسے لاکھوں لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ یہی کچھ حسن مجتبیٰ صاحب کی نظم کے ان ٹکڑوں میں کہا گیا ہے:
وہ لڑکی لال قلندر تھی
قریہ قریہ ماتم ہے اور بستی بستی آنسو ہیں
صحرا صحرا آنکھیں ہیں اور مقتل مقتل نعرہ ہے
وہ قوم کی بیٹی تھی
جو قتل ہوئی وہ خوشبو ہے
وہ عورت تھی یا جادو تھی
وہ مردہ ہوکر زندہ ہے
تم زندہ ہوکر مردہ ہو
وہ دکھی دیس کی کوئل تھی
وہ لڑکی لال قلندر تھی !

No comments: