Wednesday, April 1, 2020

#Pakistan - #COVID19Pandemic - #NajamSethiOfficial - Najam Sethi discusses PM’s claim of advance preparations and Dr. Javed Akram's announcement that Pakistan can make PPE kits,

مراد علی شاہ کیوں لائق تحسین ہیں

    
عاقل ندیم 

حالیہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے جس طرح وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے آگے بڑھ کر اس بحران کا سامنا کیا ہے اس سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ماضی کی تمام مبینہ ناکامیوں اور نااہلی کے الزام دھل گئے ہیں۔

سیاسی قیادت کی اصل اہلیت، سمجھ بوجھ اور بصیرت کا پتہ بحرانوں میں لگتا ہے۔ حالیہ کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے جس طرح وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے آگے بڑھ کر اس بحران کا سامنا کیا ہے اس سے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی ماضی کی تمام مبینہ ناکامیوں اور نااہلی کے الزام دھل گئے ہیں۔
عوام نے تیسری مسلسل بار پیپلز پارٹی کو ووٹ کی طاقت سے سندھ میں حکومت جاری رکھنے کا جو مینڈیٹ دیا تھا اس اعتماد پر مراد علی شاہ موجودہ بحران میں اب تک پوری طرح کامیاب نظر آتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح صوبے کی تمام سیاسی قوتوں اور انتظامی اداروں کو ساتھ ملا کر اس بحران سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کی وہ قابل تحسین ہے۔
پاکستان میں انہوں نے سب سے پہلے مسئلے کی شدت کو سمجھا اور اس پر مختلف اقدامات کا بروقت آغاز کیا۔ سندھ کی سیاسی قیادت نے بحران پر قابو پانے کے لیے تمام اطراف میں فوری پیش قدمی شروع کی۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں سے رابطے کیے اور انہیں اس مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کیا اور یہی پیغام ان مذہبی رہنماؤں کے ذریعے ان کے پیروکاروں اور عام عوام تک پہنچایا گیا۔ مسجدوں کو بند کرنے کا قدم بھی سندھ میں سب سے پہلے اٹھایا گیا اور تقریبا تسلسل سے یہ پیغام جاتا رہا کہ اگر ان پابندیوں پر عمل نہ کیا گیا تو سندھ حکومت مزید سخت اقدامات سے گریز نہیں کرے گی۔
تعلیمی اداروں کو بند کرنے میں بھی مراد علی شاہ حکومت نے پہل کی جس سے وبا کو تیزی سے پھیلنے سے روکنے میں اہم پیشرفت ہوئی۔ تمام کھانے پینے کی جگہوں پر مرحلہ وار پابندی لگائی گئی جو کہ تمام ریسٹورنٹس کے مکمل بند ہونے پر ختم ہوئی۔ سب سے پہلے سندھ میں تمام شادی ہالوں کو بند کیا گیا اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔
لوگوں کی ٹیسٹنگ میں بھی سندھ آگے رہا ہے۔ منسٹری آف نیشنل ہیلتھ کی ویب سائٹ کے مطابق سندھ میں پنجاب سے دوگنا ٹیسٹنگ کی گئی ہے۔ اسی طرح سب سے پہلے سندھ میں ایک بڑے ریلیف پروگرام کا بھی آغاز کیا گیا جس میں وزیر اعلی نے بجلی اور گیس کے محکموں کو بھی ساتھ شامل کیا۔ اس طرح بحران سے نمٹنے کی قیادتی ذمہ داری مراد علی شاہ حکومت نے بخیروخوبی ادا کی۔
اس کے مقابلے میں پنجاب حکومت ایک جمود کا شکار نظر آرہی ہے۔ پنجاب حکومت کی سست روی سے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پنجاب کی سیاسی قیادت خصوصاً وزیراعلی اعلی عثمان بزدار میں اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ پنجاب حکومت کے زیادہ تر اقدام صرف ردعمل نظر آتے ہیں اور وہ آگے بڑھ کر اس مسئلے سے نمٹنے کے نت نئے طریقے ڈھونڈنے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔ شاید وزیراعلی کی ان صلاحیتوں کے مسئلہ کی وجہ سے اطلاعات کے مطابق پنجاب کابینہ کے وزیر راجہ بشارت اب ان تمام مسائل کو دیکھ رہے ہیں۔
پنجاب حکومت کی سب سے نمایاں ناکامی رائیونڈ کے بڑے اجتماع کو مناسب طریقے سے سنبھالنا تھا۔ کرونا وبا کے بارے میں خوفناک معلومات واطلاعات کافی دیر سے سب کی نظر میں تھیں۔ سعودی حکومت نے خانہ کعبہ کو طواف کے لیے بند کر دیا۔ ترکی نے وبا کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام مساجد میں نماز کی ادائیگی پر پابندی لگا دی۔ اسی طرح دیگر ممالک نے احتیاطی اقدامات اٹھائے۔ ہمارے اپنے صوبہ سندھ میں اس قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن حکومت پنجاب نے رائیونڈ میں تبلیغی اجتماع کے بارے میں اقدامات میں تاخیر کی۔ یقینا اگر اجتماع کے منتظمین سے پہلے سے بات کی جاتی اور مسئلے کی سنگینی سے آگاہ کر دیا جاتا تو وہ اجتماع کو موخر کرنے پر رضامند ہو جاتے۔ اس اجتماع کو نہ روکنے نے وبا کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔ نتیجتا اجتماع میں شریک بڑی تعداد میں لوگ نہ صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی اس وبا کے پھیلاؤ کا سبب بنے۔ فلسطین میں کچھ دن پہلے ہی رائیونڈ سے آنے والوں میں اس وائرس کی موجودگی پائی گئی۔ پنجاب حکومت کی نااہلی سے پورے ملک میں اس وبا کے بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
تفتان سے پنجاب آنے والے زائرین کی ٹیسٹنگ میں ناکامی اور غیراطمینان بخش قرنطینہ سہولیات نے پنجاب حکومت کی نااہلی پر مزید مہر ثبت کر دی۔ فیصلوں میں غلطیاں کرنا بہت بڑی ناکامی نہیں ہوتی لیکن فیصلہ نہ کرنے کی صلاحیت رکھنا بہت بڑی ناکامی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے پنجاب کی موجودہ سیاسی قیادت میں اس سنجیدہ بحران سے نمٹنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے۔ اسی لیے سوشل میڈیا میں یہ کہانیاں زبان زد عام ہیں کہ پنجاب میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ بھی کہیں اور سے آیا۔
پنجاب یقیناً الجھنوں کا شکار ہے اور اس میں وفاقی قیادت مزید اضافہ کر رہی ہے۔ وزیر اعظم نے خود بھی کہا ہے کہ سندھ کے لاک ڈاؤن کے فیصلے کی وجہ سے انہیں دوسرے صوبوں میں لاک ڈاؤن کی طرف جانا پڑا۔ وہ یہ بتانے میں ناکام رہے کے لاک ڈاؤن نہ کرنے کی صورت میں ان کے پاس کیا متبادل حکمت عملی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم لاک ڈاؤن کو حزب اختلاف کا منصوبہ سمجھتے ہوئے اسے اپنانے سے گریز کر رہے تھے تاکہ اس کی کامیابی سے کہیں حزب اختلاف کو کوئی سیاسی فائدہ نہ مل جائے۔
وزیر اعظم کو احساس ہونا چاہیے کہ یہ وقت سیاسی فوائد حاصل کرنے کا نہیں بلکہ عوام کو اس موذی وبا سے بچانے کا ہے۔ اس کے لیے انہیں تمام سیاسی قوتوں اور اداروں کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ ان کا پارلیمانی رہنماؤں کی کانفرنس سے خطاب کے فورا بعد اٹھ جانا ان کی سیاسی ناپختگی اور سیاسی رواداری کی کمی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ انہیں تمام پارلیمانی رہنماؤں کی تجاویز کو سننا چاہیے تھا اور اس کے بعد ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا چاہیے تھا۔
یہ تعاون اس لیے بھی ضروری ہے کہ اگر یہ بحران طویل ہوتا ہے تو ہو سکتا ہے کہ خوراک کی سپلائی میں مشکلات پیدا ہوں جو کہ امن و امان کی صورت حال کو خراب کر دے اور وفاقی حکومت کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔
موجودہ حالات میں میں درج ذیل فوری اقدام اس وبا کی پیش قدمی کو روکنے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
• وفاقی حکومت کو ٹیسٹنگ کی صلاحیت بڑھانے کی فوری ضرورت ہے اور اس کے لیے ہنگامی طور پر اقدامات اٹھانے چاہیں۔ متاثرہ لوگوں کو علیحدہ کرنا اس وقت حکومت کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔
• مرکز اور صوبوں کے درمیان اس وقت رابطے کی شدید کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ وزیر اعظم کو فورا وزرائے اعلی کی ایک کمیٹی بنا کر اس کا روزانہ کی بنیاد پر ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس کرنا اور مشترکہ اقدام اٹھانا انتہائی اہم ہے۔
• مساجد کے بارے میں بھی مختلف فیصلے ہو رہے ہیں جبکہ ان میں یکسوئی ہونی چاہیے۔ مساجد میں بڑے اجتماع پر مکمل پابندی اور اس پر عمل درآمد کی کی فوری ضرورت ہے۔
• اس وقت عطیات کے لیے مختلف اکاؤنٹس کھولے گئے ہیں جن میں وزیر اعظم اور صوبائی حکومتوں کے علیحدہ علیحدہ اکاؤنٹس شامل ہیں۔ اور تو اور این ڈی ایم اے نے بھی اپنا اکاؤنٹ کھولا ہوا ہے۔ اس طرح کے اقدامات عوام میں الجھن کا باعث بنتے ہیں۔ وزیر اعظم کو چاہیے کہ ان تمام اکاؤنٹس کو ختم کر کے صرف ایک ہی کرونا فنڈ قائم کیا جائے جس میں باآسانی عطیات جمع کرائے جاسکیں۔
کرونا وہ وبا ہے جس نے بڑے بڑے عالمی رہنماؤں کی صلاحیتوں کو بےنقاب کر دیا ہے۔ وزیر اعظم بورس جانسن نے دو ہفتے لاک ڈاؤن نہ کر کے ضائع کیے جبکہ صدر ٹرمپ لاک ڈاؤن ختم کرنے کی جلدی میں ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم کو اس ’عظیم فہرست‘ میں اپنا نام نہیں شامل کرنا چاہیے۔ انہیں آگے بڑھ کر اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر اس وبا سے مقابلہ کرنے کے لیے قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وزیراعظم یہ قومی اتحاد پیدا نہ کر سکے تو پھر شاید یہ کام کوئی اور قوت سرانجام دے گی۔

لاک ڈاؤن ہے یا نہیں اور عمران خان کی منطق

جن غریبوں اور مزدوروں کی فکر میں آپ دن رات دبلے ہو رہے ہیں وہ گذشتہ ایک ہفتے سے گھروں میں محصور ہو کر بےروزگار ہوئے پڑے ہیں۔

جب سے مملکت خداداد میں کرونا وائرس کی وبا آئی ہے عمران خان نے پوری دنیا سے مختلف ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ لاک ڈاؤن نہیں کرنا۔ اگر ایسا کیا تو غریب مزدوروں کا کیا ہوگا؟
سب سے پہلے تو عمران خان سے یہ سوال کرنے کو جی چاہ رہا ہے کہ وزیر اعظم  صاحب پہلے تو وہ حدود بتا دیں کہ جہاں آپ کی حکومت ہے اور جہاں پر آپ لاک ڈاؤن نہیں چاہتے۔ دستیاب معلومات کے مطابق تو اس وقت سندھ، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان سمیت گلگت بلتستان میں بھی لاک ڈاؤن ہے۔
وہاں لاک ڈاؤن پر عمل درآمد جاری ہے۔ اکثر کارخانے، بازار، تجارتی مراکز، سکول، کالجز، یونیورسٹیاں، مدارس، ہوٹل، ریسٹورانٹ، ورکشاپس اور دفاتر سمیت نجی اور سرکاری تعمیراتی کام بھی بند پڑے ہیں۔ شہروں کے مابین سفر پر پابندی ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند ہے۔ شہر کے اندر ذاتی گاڑی میں بھی دو سے زیادہ افراد کو سفر کی اجازت نہیں ہے۔ گھر کے کسی بھی فرد کو دن میں صرف دو مرتبہ گھر سے کسی ضرورت کے لیے  باہر جانے کی اجازت ہے۔ تمام موٹرویز ہائی ویز سمیت شہر کی اندرونی سڑکوں پر بھی پولیس اور فوجی جوان تعینات ہیں۔
جن غریبوں اور مزدوروں کی فکر میں آپ دن رات دبلے ہو رہے ہیں وہ گذشتہ ایک ہفتے سے گھروں میں محصور ہو کر بےروزگار ہوئے پڑے ہیں۔ آپ جس خیالی دنیا میں رہتے ہیں یعنی بنی گالہ اور وہی وزیر اعظم ہاؤس جہاں اب تک عالمی معیار کی یونیورسٹی بن جانا چاہیے تھی صرف وہاں لاک ڈاؤن نہیں۔ مگر ملک کے طول وعرض میں زندگی کا پہیہ تقریباً رک چکا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ آپ کا اختیار شاید صرف بنی گالہ سے وزیر اعظم ہاؤس تک محدود ہوچکا ہے ورنہ آپ ایسے بیانات دینے اور لاک ڈاؤن اور کرفیو کی تفریق سمجھانے کے لیے تین مرتبہ قوم سے خطاب کی زحمت کیوں کرتے؟ حالانکہ آپ کے بار بار بیانات اور قوم سے خطابات نے یہ بات آشکار کر دی کہ آپ خود کرفیو اور لاک ڈاؤن میں کنفیوز ہیں۔
جناب والا! آپ کو اس بات پر اب یقین کر لینا چاہیے کہ آپ کے نہ چاہتے ہوئے بھی گذشتہ ایک ہفتے سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن ہوچکا ہے۔ اور آپ جن پابندیوں اور گھر میں نظر بندیوں کا ذکر کرتے ہیں اس کو عام اصطلاح میں کرفیو کہا جاتا ہے۔
باقی ملک تو آپ کے آبائی شہر اور حلقے میانوالی جتنا خوش نصیب بھی نہیں ہے۔ ایک طرف ملک بھر کے مزدوروں کو گھروں میں بٹھا کر سرکاری تعمیراتی کام تو درکنار عوام کے ذاتی کام بھی بند ہیں لیکن دوسری جانب ڈپٹی کمشنر میانوالی خصوصی ہدایات کے تحت تعمیراتی میٹیرئیل اور مزدوروں کو ان پابندیوں سے استثنا دینے کے احکامات جاری کرتے ہیں۔ تاکہ کم از کم آپ کے پاکستان کو بنی گالہ اور پی ایم ہاؤس سے میانوالی تک دراز کیا جاسکے۔ اور ملک میں اصطلاحی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں ایک نہیں دو پاکستان بنائے جاسکیں۔
وزیر اعظم صاحب! رات ساڑھے نو بجے آپ قوم سے خطاب میں لاک ڈاؤن نہ کرنے کا اعلان فرماتے ہیں اور ٹھیک آدھے گھنٹے بعد رات دس بجے مختلف ٹی وی پروگرامز میں  پی ٹی آئی کے حکمرانی والے تینوں صوبوں کے وزیر اور مشیر فخر سے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ لاک ڈاؤن نے ہمیں بہت فائدہ پہنچایا ورنہ اب تک صورت حال کنٹرول سے باہر ہوتی۔ خدارا عمران خان صاحب اپنے ذاتی انا کے خول سے باہر نکل آئیں اور لاک ڈاؤن اور کرفیو کے فرق کی اپنی کنفیوزن قوم کو منتقل کرنے سے اجتناب کیجیے۔
اگر آپ صرف اس وجہ سے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کا اعتراف نہیں کر رہے ہیں کہ بے چارے غریبوں اور مزدوروں کو کچھ دے نہیں سکتے ہیں تو یاد رکھیے کہ آپ مانیں یا نہ مانیں غریبوں پر لاک ڈاؤن کے اثرات شروع ہوچکے ہیں۔ ذخیرہ اندوزوں پر آپ کے روز روز کی زبانی جمع خرچ والی دھمکیاں بھی بےاثر ثابت ہو رہی ہیں۔ کوئی  بھی آپ کو سنجیدہ لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر آپ واقعی خود کو لیڈر سمجھتے ہیں تو واضح دوٹوک اور بروقت فیصلے کیجیے اور اپنے فیصلوں کی بھرپور ذمہ داری لیں۔ فیصلے ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں غلط بھی۔ مگر قومی اور بین الاقوامی سطح کے رہنما مشکل حالات میں مہینوں تک شش و پنچ میں نہیں رہتے۔
حکومت سنبھالنے کے ابتدائی چھ ماہ آپ یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینا ہے یا نہیں جس کا خمیازہ آج تک پاکستانی معیشت بھگت رہی ہے۔ اب ایک مہینے سے آپ لاک ڈاؤن اور کرفیو کے مابین پنڈولم بنے ہوئے ہیں۔
آپ صرف اتنا کیجیے کہ غریبوں پر اس کے اثرات کم سے کم کرنے کے لیے ایک تو ٹائیگر فورس اور کھانا پہنچانے جیسے لانگ ٹرم  خیالی منصوبوں کی بجائے غریبوں کو ان کے موبائل نمبر، ایزی پیسہ، بنک اکااؤنٹ یا سابق لوکل باڈیز ناظمین کی وساطت سے فوری نقد رقم فراہم کریں۔ مزید یہ کہ تعمیراتی کام اور اس سے متعلقہ دکانوں سمیت وہ پیداواری یونٹ (کارخانے) کھولنے کے احکامات جاری کر کے اس پر عمل درآمد کیا جائے جو حفاظتی اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے مزدوروں کو روزگار دے سکتے ہیں۔ ورنہ عوام یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارے وزیر اعظم ایک پاکستان میں ہیں جہاں لاک ڈاؤن نہیں اور باقی 22 کروڑ عوام دوسرے پاکستان میں جہاں وزیر اعظم کے اعتراف کے بغیر جاری لاک ڈاؤن نے ان کا جینا محال کر دیا ہے۔

What is Tablighi Jamaat? Organiser of Delhi event behind spike in India’s Covid-19 count




Tablighi Jamaat congregation at Banglewali Masjid in Delhi’s Nizamuddin area was attended by thousands on 10 March. Many among them have tested positive for Covid-19.
The Tablighi Jamaat has come under the spotlight amid the Covid-19 crisis, emerging as the “largest known viral vector” of the disease in South Asia, including in India.
As of the time of publication of this article, nearly 100 people who either attended or were close contacts of those who attended a mid-March event the Jamaat organised at the Alami Markaz Banglewali Masjid in Delhi’s Nizamuddin area have tested positive for the novel coronavirus.
According to the Pew Research Center’s Religion and Public Life project, the Tablighi Jamaat had in 2010 over 80 million followers spread out over more than 150 countries. The exact numbers are difficult to track, because the Jamaat doesn’t follow a centralised system.
Here is a look at what the Tablighi Jamaat is, and what it does.

What is Tablighi Jamaat?

Tablighi Jamaat (society for spreading faith) is a non-political global Sunni Islamic missionary organisation with its roots in India.
The movement was started in 1927 by Muhammad Ilyas al-Kandhlawi.
Its goal is to create the “golden age” of Islam (Khilafat) through invitation (tabligh) to nominal Muslims to return to the six pillars of Islam, as espoused by Prophet Muhammad, according to an article published by Georgetown University’s Berkley Center.
Tablighi Jamaat focuses on urging Muslims to return to primary Sunni Islam, particularly in matters of rituals, attires, and personal behaviour.
It has been called “one of the most influential religious movements in 20th century Islam”.

Started as a counter to Hindu revivalists in India

According to the Pew Research Center article, the movement began as an effort to counteract the activities of Hindu revivalists in India who, at the time, were attempting to convert Muslims to Hinduism.
“Worried that existing Islamic educational institutions were not capable of fending off the Hindu challenge, Ilyas envisioned a movement that would send missionaries to villages to instil Muslims with core Islamic values,” it says.
Despite its origins in inter-religious tensions, the Tablighi Jamaat had been, for decades, a generally apolitical and pacifist movement, the Pew report said, adding this helped the group expand its membership beyond the Indian subcontinent to the Middle East, North Africa and elsewhere.
Even though the Tablighi Jamaat is an Islamic missionary movement, it does not aim to convert non-Muslims. It focuses more on the revival of the Muslim faith.

The six pillars

Tablighi Jamaat focuses on six pillars — kalima (belief in the oneness of Allah), salah (daily prayers), ilm and zikr (remembrance of Allah and fellowship), ikraam-e-Muslim (to treat fellow Muslims with respect), tas’hih-i-niyyat (to reform and devote one’s life to Islamic ideals), and dawah (to preach the message of Allah).
The focus on dawah has prompted some to describe Tablighi as “Muslim Jehova’s Witnesses”.
Typically, adherents will go on a 40-day mission, or chillah, during which they preach to other Muslims, encouraging them to attend prayers at their mosques and listen to sermons. They do not seek to convert non-Muslims, the Frontier newspaper of Myanmar said in an article on the spread of the movement in that country.
The group encourages its followers to undertake short-term preaching missions away from home, known as khuruj. These missions can last from a few days to a few months.

Lifestyle of Tablighis

Male followers grow beards and wear long kurtas, their pajamas end above the ankles.
Women cover themselves in public and are generally confined, typically, to family and religious life.
Inside their homes, followers prefer a very simplistic design, and generally prefer to have carpets and cushions to sit on rather than plush sofas. They also desist TV and music.
Famous adherents of the Tablighi Jamaat include many Pakistani celebrities, including singer Junaid Jamshed, cricketers Shahid Afridi, Saeed Anwar, Inzamam-ul-Haq, Mushtaq Ahmed, Saqlain Mushtaq and Mohammad Yousuf (formerly Yousuf Youhana).
Lt Gen. Javed Nasir, former chief of Pakistan’s ISI, and Pakistan Army General Mahmud Ahmed are members of the Tablighi Jamaat.

Terror accusations

The Tablighis often are severely criticised by orthodox religious authorities (ulema), such as Sunni Wahhabi ulema in Saudi Arabia, who have issued fatwas prohibiting the Tablighis from preaching in the country and banning Tablighi literature from being imported into the country, according to an article in Stratfor.
In the years following the 9/11 terror attacks, there was increased focus on this group, with the American FBI and British intelligence sounding an alert.
While there is no direct involvement of the group in terror activities, some of its members and others who have attended meetings have been accused of them.
Some believe the movement is a fertile recruitment ground for extremists.
“In fact, it has been called the ‘antechamber of fundamentalism’, and ‘supremacist movement’ that promotes isolationism, mostly because the organisation doesn’t have any constitution or formal registration, which obviously means no one knows who gets in or out of it and no one keeps a track of the past or future of the members,” Mint had reported in 2013.
Kafeel Ahmed, one of the suspects from India arrested for the failed attack on the Glasgow airport, happened to be associated with the movement, the Mint report said.
Two of the 7/7 London bombers, Shehzad Tanveer and Mohammed Siddique Khan, had also prayed at a Tablighi mosque in Dewsbury, which did not proved in any way that the Tablighi Jamaat was involved, but added to the suspicion, the report added.
It also quoted the book, Islam on the Move, published in 2012 and written by Malaysian political scientist Farish Noor, which said the Sudanese member of Lashkar-e-Taiba, Hamir Mohammad, had tried to secure for himself a visa into Pakistan as a Tablighi member.
Similarly, Somalian Muhammad Sulayman Barre had tried to enter Pakistan from India by adopting the same guise.
“Abu Zubair al Haili, commander of the Mujahedeen Battalion of al Qaeda in Bosnia Herzegovina, travelled from Bosnia to Pakistan under the guise of being a Tablighi while Saudi national Abdul Bukhary who was on the watch list of numerous countries had managed to get himself into the Tablighi markaz in Nizamuddin, Delhi, while claiming to be a Tablighi too,” the Mint report said.

Tablighi Jamaat congregation and how religion has been the ‘super spreader’ of coronavirus

In episode 432 of #CutTheClutter, Shekhar Gupta talks about the role of religion in the spread of coronavirus.

Many people linked to the Tablighi Jamaat congregation, which was held in Nizamuddin in Delhi, have tested positive for coronavirus. Six deaths of people related to this event were reported in Telangana Tuesday and this communalised the coronavirus pandemic. Some people have started blaming Muslims. However, many religious congregations have spread this virus.
The first such group was in South Korea. A 61-year-old woman, Patient 31, of South Korea attended two congregations of a Christian cult in Daegu city. Both these events had more than a thousand attendees. Within a week, the number of coronavirus cases in South Korea crossed a thousand. Patient 31 was termed as a super spreader as the number of cases in Korea kept on increasing. 
Baldev Singh, a preacher, had gone to Italy and Germany. He violated the home quarantine order after returning to India. He attended the Hola Mohalla festival with tens of thousands of people and visited homes to give his blessings. Out of the first 33 cases in Punjab, 32 were directly linked to Singh. Now, Singh is termed as India’s super spreader.

What is Tablighi Jammat

Tablighi Jamaat, a non-political global Sunni Islamic evangelical movement of Indian origin, has now been termed as the “largest known viral vector” of the novel coronavirus in South Asia. Tablighi Jamaat (or society for spreading faith) is a missionary movement that focuses on urging Muslims to return to primary Sunni Islam, particularly in matters of rituals, attire and personal behaviour. Started in 1927 by Muhammad Ilyas al-Kandhlawi in Mewat, India, it has been called “one of the most influential religious movements in 20th century Islam”.
In February, approximately 16,000 Tablighis gathered at a mosque in Malaysia from across the region. More than 620 people connected to the four-day conclave have tested positive in Malaysia, prompting the country to seal its borders until the end of the month. Most of the 73 coronavirus cases in Brunei are tied to the gathering, as are 10 cases in Thailand. Even in Pakistan, 27 members of Tablighi Jamaat, out of the 35 screened at their headquarters in Raiwind, tested positive for coronavirus Sunday.
Many people returning from pilgrimages in Iran were also coronavirus-positive. It is reported that nine of the people in the Army’s quarantine facility, who were brought back from Iran are infected by the disease. Iran had closed down its shrines, but hardliners are seen forcing their way in. Other religious places are also closed due to the pandemic. 
Mecca has been closed by Saudi Arabia and Hajj is likely to be cancelled this year. It has been cancelled 40 times since the year 629. The Christian festival Easter, next month, too, will be affected by the pandemic.