Tuesday, February 8, 2022

بھٹو خاندان کی کرپشن اور زرداری




 پاکستان کی مرکزی سیاسی قیادت کو گزشتہ تین دہائیوں سے بڑے منظم انداز میں کرپشن میں لتھڑا ہوا ثابت کیا جا رہا ہے، اس کی اچھی اور بری ہر دو طرح کی وجوہات موجود ہیں۔

یہاں یہ بات باور کرانی بھی ضروری ہے کہ پاکستانی نظامِ حکومت چلانے والے حقیقی کارپردازان کا بڑا حصہ عملاً ہر طرح کے احتساب سے بالاتر ہو چکا ہے، احتساب کے اِس پھندے میں نچلے درجے کے چند بیوروکریٹ اور کچھ فراڈ قِسم کی ہاﺅسنگ سوسائٹیاں ہی پھنستی ہیں۔

یوں تو ملک میں بلا امتیاز احتساب کرنے کے لیے نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ادارے موجود ہیں لیکن جرنیلوں، ججوں ، سینئیر بیورو کریٹوں اور اب تو بڑے تاجروں تک کے معاملات بھی ان اداروں کے حیطہء اختیار سے باہر دکھائی دیتے ہیں۔

آئیے ذرا اُس کرپشن کو ماپنے کی کوشش کریں جو پاکستانی سیاست میں اس اصطلاح کے چلن سے لے کر اب تک بھٹو خاندان اور خصوصی طور پر آصف علی زرداری–مہارت سے تراشی گئی کرپشن کی علامت — کے نام سے منسوب کی گئی۔اس کا آغاز 1987ء میں اُس وقت ہوا جب آصف علی زرداری بے نظیر بھٹو سے شادی کر کے عوامی زندگی میں داخل ہوئے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو 33 برس کی عمر میں 1921ء میں بمبے پارلیمان کے کم عمر ترین رُکن تھے۔ 1921 سے لے کر 1933 تک وہ پارلیمانی وزیر کے طور پر خدمات سر انجام دیتے رہے۔ 1930ء میں انڈیا کے وائسرائے لارڈ ارون نے انہیں سَر کے خطاب سے سرفراز کیا۔ وہ دو قومی نظریے کے سخت حامی تھے اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ کام کرتے رہے۔ 1930-31 میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں انہوں نے تن تنہا سندھی مسلمانوں کی نمائندگی کا فریضہ سر انجام دیا اور سندھ کی بمبے سے علیحدگی جیسی اہم کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے نواب آف جونا گڑھ (انڈین گجرات) کے وزیر اعظم /دیوان کے طور پر نواب کو قائل کیا کہ وہ پاکستان سے الحاق کا اعلان کریں یوں انہوں نے استصوابِ رائے کے ذریعے کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے اخلاقی اور قانونی جواز مہیا کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ ان چالیس ہزار سے لے کر ڈھائی لاکھ ایکٹر زرعی زمین کے وارث تھے جو لاڑکانہ، جیکب آباد اور سکھر کے ارد گرد پھیلی تھی۔ پاکستان کے قیام کے آس پاس بھٹو خاندان جتنی زمین کا مالک تھا اس زمانے کے حساب سے بھی اس کی مالیت کئی ملین ڈالر کے مساوی بنتی ہے (اُس زمانے میں اوسطاً ایک ایکٹر زمین کی قیمت ایک ہزار روپیے تھی، ایک امریکی ڈالر 1946ء میں تقریباً پانچ روپیے کے مساوی تھا۔) اس زمین کا بڑا حصہ سر شاہنواز بھٹو نے 1935 سے 1955کے عرصے میں خریدا تھا۔

1946-47 کے زمانے میں (تقسیم سے پہلے) ذوالفقار علی بھٹو کو ایک لاکھ دس ہزار کی آمدنی تفویض کی گئی۔ اِس آمدن کا بڑا ذریعہ بمبئی کا مشہور آسٹوریا ہوٹل اور ”دی نیسٹ“ نامی خاندانی گھرسے حاصل ہونے والا کرایہ تھا (اِن دونوں عمارتوں کے مالک بھی سر شاہنواز بھٹو تھے۔ )سٹینلے والپرٹ کے بقول (قائداعظم اور ذوالفقار علی بھٹو کے سوانح نگار)

”جب اُس کے والد اور والدہ بیٹی کے ہمراہ جونا گڑھ منتقل ہو گئے تو زلفی بمبے میں اکیلا رہ گیا۔وہ اُس زمانے میں کارمیکیل روڑ پر واقع اپنے خاندانی گھر ”دی نیسٹ“ میں قیام پذیر تھا، اس کے علاوہ اسے بمبے کے مصروف کاروباری علاقے فورٹ میں واقع ایک اور بھٹو جائیداد، کئی منزلہ آسٹوریا ہوٹل کی دیکھ بھال بھی کرنی تھی، اُس زمانے میں اس عمارت کا خالص کرایہ ایک لاکھ دس ہزار روپیے تھے، -471946 کے زمانے میں ہر اعتبار اور پیمانے سے یہ رقم غیر معمولی تھی۔ اس کے علاوہ کئی سیکیورٹیز، قیمتی اشیاء اور نقد رقم بھی ذہین و فطین اٹھارہ برس کے ذوالفقار کے ہاتھوں میں تھی۔ ایک دہائی کے بعد اُسے اپنے والد کی اس جائیداد کا اکیلا وارث بننا تھا۔“

بھٹو، جو ایک تجربہ کار قانون دان تھے، 18ستمبر1957ء کو چھوڑی گئی ان دونوں جائیدادوں کے عوض 4,430,400 (چوالیس لاکھ تیس ہزار چار سو) کا کلیم انڈین متروکہ املاک کمشنر سے منظور کرانے میں کامیاب رہے۔ ابھی یہاں بھٹو خاندان کے ان اثاثوں اور قیمتی اشیاء کا ذکر نہیں کیا جا رہا جو راجہ آف جونا گڑھ کی طرف سے بھٹو خاندان کو ملیں (جس وقت تقسیم ہوئی اُس وقت سر شاہنواز بھٹو ریاست جونا گڑھ کے وزیر اعظم/ دیوان کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دے رہے تھے۔(

یوں یہ بات کلی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو — سر شاہنواز بھٹو کی سلطنت کا اکلوتا وارث1957ء — میں سیاست کی پر فریب دُنیا میں داخل ہونے سے پہلے ہی روپیوں میں نہیں بلکہ امریکی ڈالروں کے حساب سے لکھ پتی تھا۔

اب ایک خفطنزیہ کہانی سنیے کہ اسی ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی بیٹی اور سیاسی جانشین، سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر الزام لگایا گیا کہ انھوں نے ہیروں کا ایک ہار، جس کی مالیت 0.175 ملین امریکی ڈالر تھی، منی لانڈرنگ اور کمیشن کی رقم سے سوئٹزرلینڈ میں خریدا۔ اسی طرح ان پر اور اُن کے شوہر، سابق صدر، آصف علی زرداری کو موردِ الزام ٹھیرایا گیا کہ انھوں نے سرے، انگلستان میں راک وڈ اسٹیٹ چار اعشاریہ ایک ملین ڈالر میں خریدی ہے، یہ سب الزامات اُس وقت لگائے جا رہے تھے جب اس سے بھی کہیں بڑی مالیت کا کلیم ذوالفقار علی بھٹو کو، انڈیا میںمتروکہ املاک کمشنر سے منظور کرائے ہوئے چار دہائیاں گزر چکی تھیں۔

کرپشن کا ایک اور بڑا الزام جو سابقہ حکمران جوڑے پر لگایا گیا وہ مبینہ طور پر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ساٹھ ملین امریکی ڈالروں کا تھا، اس رقم کے بارے میں کہا گیا کہ یہ منی لانڈرنگ اور مختلف سودوں میں کمیشن کے عوض حاصل کی گئی تھی۔ لیکن حکومت پاکستان کا بیان کردہ ڈیٹا اور لگائے گئے الزامات اس حوالے سے بالکل ہی مختلف کہانی بیان کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

اس مبینہ کرپشن سکینڈل کا سب سے بڑا نقطہ پولینڈ سے خریدے جانے والے ارسس ٹریکٹروں کی خریداری کا معاہدہ بتایا گیا (اس میں مبینہ طور پر ایک اعشاریہ آٹھ ملین امریکی ڈالر بطور کمیشن وصول کیے جانے کی اطلاع دی گئی)، اس منصوبے میں 5900 ارسس ٹریکٹر کسانوں کو فی ٹریکٹر ڈیڑھ لاکھ روپیے کے عوض دیے جانے تھے، اِس مقصد کے لیے تمام ڈیوٹیز اور دیگر لوازمات سے استثنا دیا جانا تھا۔ اس کے بعد شور مچایا گیا کہ سوئس کمپنیوں ایس جی ایس / کوٹیکنا کو، جنہیں پاکستان میں درآمد ہونے والی اشیاءکی حقیقی مالیت کی جانچ پڑتال کے لیے تھرڈ پارٹی اندازہ قائم کرنا تھا، اور یہ دونوں کمپنیاں اِس کام میں عالمی شہرت یافتہ تھیں، یہ ٹھیکا دینے کے عوض ان سے دو ملین ڈالر کی مبینہ کمیشن حاصل کی گئی تھی۔ اگلا الزام اے آر وائے گولڈ (دس ملین ڈالر کمیشن، اس الزام کی اے آر وائے کے حاجی عبدالرزاق نے سختی سے تردید کی) کو 1994ء میں سونے کی درآمد کے خصوصی اجازت نامے کے عوض کمیشن کی وصولی کا لگایا گیا۔

سابق صدر آصف علی زرداری کو وراثت میں بمبینو سینما اور سکالا پلازہ، صدر کراچی میں ملا، اس عمارت میں بتیس مختلف دفاتر کرائے پر دستیاب تھے۔ اس کے علاوہ زرداری خاندان سندھ میں کیلوں کے باغات سمیت بیس ہزار ایکڑ زرعی زمین کا مالک بھی تھا۔ ان کے والد حاکم علی زرداری پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ممبران میں شامل تھے اور وہ ,1988 1971,1977اور1993میں رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے با اعتماد ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے جنہوں نے 1971 میں انھیں چئیر مین پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی ذمہ داریاں سونپی تھیں۔ جب بیگم بھٹو اور بے نظیر ذوالفقار علی بھٹو کی زندگی بچانے کے لیے قانونی جنگ لڑنے میں اور جِلا وطنی پر مجبور تھیں تو بھٹو صاحب کی جائیداد کی دیکھ بھال کی ذمہ داریاں بھی حاکم علی زرداری نے ہی نبھائی تھیں۔ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے بھی حاکم علی زرداری کو 1988ء میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چئیرمین مقرر کیا اور حاکم علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

حاکم علی اور اب آصف علی زرداری تیس ہزار نفوس پر مبنی زرداری قبیلے کے سربراہ ہیں اور ان لوگوں نے 1965ء کا انتخاب فاطمہ جناح کے پینل پر جنرل ایوب خان کے خلاف لڑا تھا۔ حاکم علی زرداری کو آمدن سے زائد اثاثوں کے جرم میں احتساب عدالتوں کی جانب سے سزا سنائی گئی لیکن انجام کار لاہور اور سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے انہیں تمام الزامات سے با عزت بری کر دیا گیا۔ اُن پر الزام لگایا گیا تھا کہ انھوں نے نارمنڈی، فرانس میں ایک جائیداد دو اعشاریہ ایک ملین امریکی ڈالروں کے عوض خریدنے کے لیے سرمایہ غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیا تھا۔ انھوں نے بڑی کامیابی سے سندھ ہائی کورٹ میں ثابت کیا کہ انھوں نے یہ جائیداد خریدنے کے لیے سرمایہ اپنے فلم تقسیم کاری، کراچی حیدر آباد میں سینماﺅں اور مختلف انشورنس کمپنیوں میں کی جانے والی سرمایہ کاری جیسے ذرائع سے حاصل کیا تھا۔

آئیے اب دیکھ لیتے ہیں کہ زرداری اور بھٹو خاندان کے بارے میں مفروضوں کی بنیاد پر جس کرپشن کی تحقیقات کی گئیں اور جن کا اِتنا ڈھول پیٹا گیا اُس کی مالیت کتنی بنتی ہے۔ 1987ء سے پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں دس برس اور صوبہ سندھ میں اٹھارہ برس حکمران رہی۔اس حساب سے وفاق اور صوبے کی پیپلز پارٹی کی یکے بعد دیگرے قائم ہونے والی حکومتوں نے موجودہ تناضر میں ورلڈ بینک کے ڈیٹا کے مطابق تقریباً اکیس ہزار ملین امریکی ڈالر کا بجٹ خرچ کیا۔ پیپلز پارٹی حکومتوں کے اِس کل خرچ کردہ بجٹ میں سے جو ساٹھ ملین امریکی ڈالر مفروضہ کرپشن کر کے سوئس بینکوں میں رکھے گئے وہ 0.0019% بنتے ہیں (حکومتی وفاقی بجٹ/ریونیو کے جی ڈی پی کے 10.5فیصد سالانہ اوسط)۔

اب اس ”اتنی بڑی کرپشن“کا موازنہ ایک اور پہلو سے دیکھ لیجیے، اگر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور اُن کا خاندان چار ملکوں میں پھیلی ہوئی پاپا جونز پِزا چین قائم کر سکتا ہے، جس کی مالیت ساٹھ ملین امریکی ڈالر ہے (6300ملین روپیے) جس کے لیے خود اُن کا دعویٰ ہے کہ اس کام کے لیے بُنیادی سرمایہ 54,458امریکی ڈالر (تقریباً ساٹھ لاکھ روپیے ) تھا،اور گزشتہ اٹھارہ برسوں میں یہ سرمایہ 1050گُنا بڑھ چکا ہے (یہ انگشت بدنداں کر دینے والی بڑھوتری ہے۔)خود سوچیے اگر چند ہزار امریکی ڈالر کے بنیادی سرمائے سے یہ کچھ ہو سکتا ہے تو 1958میں جس بھٹو اور زرداری خاندان کو لکھوکھا امریکی ڈالر کا سرمایہ دستیاب ہو گا وہ لوگ کیا کچھ نہیں بنا سکتے تھے؟

بھٹو خاندان  63 برس قبل دستیاب اپنے بنیادی سرمائے کو کاروباری طریقے سے استعمال کرنے کے گُر اگر جنرل باجوہ اور اُن کے خاندان سے سیکھتا تو آج یہ لوگ ڈالروں میں ارب پتی ہو چکے ہوتے، اور اس سب پر مستزاد یہ کہ یہ لوگ بھی جنرل باجوہ اور ان کے خاندان کی طرح غیر علانیہ این آر او کے مزے بھی لوٹ رہے ہوتے۔

حتیٰ کہ جنرل مشرف بھی،جن کے بارے میں 2016ء میں انکشاف ہوا کہ اُن کے آف شور اکاﺅنٹس میں 2156 ملین روپیے (بیس ملین امریکی ڈالر) موجود ہیں ، جنرل باجوہ اور اُن کے خاندان سے کاروباری مشورے لیتا تو اگلے پندرہ برس میں وہ بھی ارب پتی بن سکتا تھا۔

https://www.humsub.com.pk/442950/imran-bajwa-11/

 

No comments: