Thursday, January 27, 2022

پاکستان میں احمدی برادری کی کم ہوتی آبادی

ریاض سہیل

صوبائی دارالحکومت پشاور کے نواحی علاقے بازی خیل میں دوپہر کا وقت تھا۔ معمولات زندگی جاری تھے جب ایک نجی کلینک میں 16، 17 سال کا لڑکا داخل ہوا اور متجسس نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھتا رہا۔ جب سٹاف نے اس لڑکے سے آنے کا مقصد پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ ’میں مریض ہوں، بڑے ڈاکٹر سے دوائی لینی ہے۔‘

وہ ’بڑے ڈاکٹر‘ ڈاکٹر عبدالقادر تھے جو اسی وقت عبادت سے فارغ ہو کر کلینک میں واقع اپنے کمرے میں آ کر بیٹھے ہی تھے۔ نوجوان اُن کے کمرے میں داخل ہوا اور پستول نکال کر فائرنگ شروع کر دی۔ اپنے ہی خون میں شرابور ڈاکٹر عبدالقادر وہیں ڈھیر ہو گئے۔

یہ واقعہ گذشتہ سال 11 فروری کو پیش آیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے کے مطابق اُن کے والد کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے البتہ حملہ آور کو ہسپتال کے گارڈز نے پکڑ لیا۔

سنہ 2021 میں ڈاکٹر عبدالقادر احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے چوتھے ایسے فرد تھے جنھیں ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن کر ہلاک کیا گیا۔ احمدی برداری پر حملوں کی اس لہر کے بعد کئی احمدی خاندان پشاور سے نقل مکانی کر گئے ہیں، جن میں سے کچھ پاکستان کے دیگر شہروں اور کچھ بیرون ملک چلے گئے ہیں۔

پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی میں نصف سے زیادہ کمی

پاکستان میں سنہ 2017 کی مردم شماری کا اگر سنہ 1998 کی مردم شماری سے موازانہ کیا جائے تو ملک میں احمدی برادری کی آبادی میں واضح کمی نظر آتی ہے۔

گذشتہ برس جاری کیے گئے مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق احمدی برادری پاکستان کی مجموعی آبادی کا لگ بھگ 0.09 فیصد ہے۔ جبکہ سنہ 1998 میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق احمدی برادری کی آبادی 0.22 فیصد تھی۔

جماعت احمدیہ کے ترجمان حکومتی اعداد و شمار سے اتفاق نہیں کرتے۔

اُن کا کہنا ہے کہ یقیناً ظلم و ستم کی وجہ سے لوگ نقل مکانی کر رہے ہیں لیکن یہ سلسلہ 1980 سے جاری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آبادی میں جو فطری اضافہ ہوتا ہے اس حساب سے بھی دیکھا جائے تو یہ تعداد بہت کم ہے۔ ان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں احمدی برادری کی آبادی فی الحال چار سے پانچ لاکھ کے قریب ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان الیکشن کمیشن نے سنہ 2018 میں احمدی ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 67 ہزار بتائی تھی جن کی اکثریت بالترتیب پنجاب اور سندھ میں آباد تھی۔

کیا احمدی برادری اپنی شناخت چھپا رہی ہے؟

وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی کے بارے میں معاون اور پاکستان علما کاؤنسل کے چیئرمین حافظ طاہر محمود اشرفی کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں تسلیم کرتے کہ احمدی برادری کی آبادی میں وقت کے ساتھ اتنی بڑی کمی واقع ہوئی ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی ذاتی معلومات کے مطابق جن علاقوں میں احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد موجود ہیں وہ کاروبار و تجارت کے علاوہ پاکستان میں اچھے منصبوں پر بھی فائز ہیں اور ان میں سے بیشتر اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں۔

’اگر انھیں کہیں بیرون ملک جانے کا موقع ملتا ہے تو وہ یہ موقع حاصل کرتے ہیں جس میں ان کی جماعت ان کی مدد کرتی ہے۔ میں ایسے کچھ لوگوں کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنھوں نے بیرون ملک جانے کے لیے خود اپنے خلاف ایف آئی آرز کروائیں تھیں۔‘

فضل اللہ قریشی سابق وفاقی سیکریٹری برائے منصوبہ بندی اور مردم شماری کے حوالے سے حکومت پاکستان کے معاون رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ احمدی برادری پابندیوں کے باعث اپنی مذہبی شناخت نہیں کرواتے۔

’آج سے پہلے حالات مختلف تھے، موجودہ صورتحال مختلف ہے۔ انسانی غلطی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جو شہری معلومات فراہم کرتا ہے وہی لکھی جاتی ہے۔ اگر کوئی اپنا مذہب اسلام بتاتا ہے تو عملہ اسلام لکھتا ہے کیونکہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کافی افراد خود کو اسلام سے وابستہ کرتے ہیں اور اپنی شناخت چھپاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کچھ بیرون ملک بھی ہجرت ہوئی ہے جیسے دیگر کمیونٹیز کی ہوئی ہے۔‘

فضل اللہ قریشی کا کہنا تھا کہ احمدی برادری کسی ایک گھر یا علاقے میں تو نہیں رہتی اور دانستہ طور پر کسی کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ کافی لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے لیکن ایسا درست نہیں ہے اور مردم شماری کی تین مرحلوں میں نگرانی ہوتی ہے۔

دوسری جانب لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے نتائج پر مجموعی طور پر صوبوں اور مذہبی اقلیتوں کا اعتراض ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے کئی افراد اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں کیونکہ انھیں جان کا خطرہ ہوتا ہے جن میں خاص طور پر وہ جو ربوہ سے باہر رہتے ہیں وہاں عدم تحفظ کا احساس زیادہ ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’آبادی میں کمی کی بڑی وجہ نقل مکانی بھی ہے جس میں گذشتہ 15 برسوں میں اضافہ ہوا ہے، پڑھے لکھے افراد پہلے کینیڈا، امریکہ، جرمنی چلے جاتے تھے، اب تھائی لینڈ، سری لنکا جیسے ممالک جہاں ویزے کی ضرورت نہیں وہاں جانا شروع کر دیا ہے۔ یہ ایسا رجحان ہے جو اس سے پہلے موجود نہیں تھا۔ یورپ اور امریکہ کی طرف جو ہجرت کا ریکارڈ ہے اس کے بجائے ان ملکوں کی طرف دیکھنا چاہیے جو عام غریب احمدی کی دسترس میں ہیں۔‘

جماعت احمدیہ کے ترجمان نقل مکانی سے انکار تو نہیں کرتے لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے پاس اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ البتہ شناخت چھپانے کے دعوؤں سے وہ اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر فیملی ٹری میں سنہ 1974 سے شناخت بطور مسلم چل رہی ہو اور کسی نے تبدیل نہ کرائی ہو تو یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ شناخت کے لیے ایک حلف نامہ دینا ہوتا ہے اور اگر نہ بتائیں تو بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔

احمدیوں پر حملہ، خیبرپختونخوا ہاٹ سپاٹ

پشاور کے نواحی علاقے بازی خیل میں ڈاکٹر عبدالقادر پر ہونے والا یہ حملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔

اُن کے بیٹے نے بتایا کہ جنوری 2009 میں کالعدم تنظیم ’لشکر اسلام‘ منگل باغ گروپ نے اُن کے گھر پر حملہ کیا اور ان کے ایک ڈاکٹر کزن کو گھسیٹ کر لے جانے کی کوشش کی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر ڈاکٹر عبدالقادر اور محافظوں نے مزاحمت کی جس کے دوران ایک گولی ان کی ران میں لگی تھی لیکن وہ کزن کو بچانے میں کامیاب ہو گئے، تاہم اس جھڑپ میں ان کا ایک محافظ مارا گیا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے نے بتایا کہ ان کے کزن کا کلینک گھر کے اندر ہی تھا جس پر ماضی میں ایک بار خودکش حملہ بھی کیا گیا تھا جس میں ایک عورت ہلاک ہوئی تھی اور اس سنگین صورتحال کی وجہ سے انھیں محفوظ مقام پر منتقل ہونا پڑا جس کے باعث ان کی تعلیم اور ان کے والد کی پریکٹس متاثر ہوئی۔

پاکستان کے سابق آمر جنرل ضیا الحق کے دورِ حکومت میں 26 اپریل 1984 کو حکومتِ پاکستان نے آرڈیننس 20 کا نفاذ کیا جس کے تحت 1974 میں غیر مسلم قرار دیے جانے والے احمدی افراد پر اسلامی شعائر اپنانا اور ان پر عمل کرنا بھی قابل تعزیر جرم قرار پایا اور احمدی برادری کے افراد پر خود کو مسلمان کہلانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔

جماعت احمدیہ کے دعویٰ کے مطابق احمدی کمیونٹی کی ہلاکتوں کا سلسلہ یکم مئی 1984 سے شروع ہوا تھا۔ جماعت احمدیہ کے مطابق گذشتہ 38 برس میں احمدی برادری کے 273 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلاکتیں پنجاب میں ہوئیں جو کل ہلاکتوں کا 69 فیصد ہے۔

دوسرے نمبر پر سندھ ہے جہاں 23 فیصد ہلاکتیں ہوئیں ہیں۔ اس کے بعد خیبرپختونخوا میں پانچ فیصد اور بلوچستان میں تین فیصد ہلاکتیں ہوئیں۔ البتہ گذشتہ کچھ عرصے میں خیبر پختونخوا میں حملے اور ہلاکتیں زیادہ دیکھے گئے ہیں۔

پشاور میں احمدی برادری کے امیر ایک سابق ریٹائرڈ کرنل ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا ہے کہ ابتدا میں سندھ اور پنجاب کے مقابلے میں خیبرپختونخوا میں صورتحال کافی بہتر تھی۔

انھوں نے بتایا کہ سنہ 1984 میں اُن کے گاؤں سمیت متعدد علاقوں میں ان کی برادری پر حملے ہوئے اور فصلیں جلائی گئیں جس کے بعد احمدی برادری کے لوگ نقل مکانی کر کے پشاور شہر آ گئے جہاں ان کے مطابق عدم برداشت اور حقارت و تعصب تو تھا لیکن ہلاکتوں تک بات نہیں آئی تھی۔

’گذشتہ ایک ڈیڑھ برس کے دوران منصوبہ بندی کے تحت کارروائیاں کی گئیں۔ پہلے ایسا ماحول بنایا گیا کہ احمدی وکلا پریکٹس چھوڑ دیں، اس مہم کی وجہ سے۔ ان کے پاس جو کیسز تھے وہ واپس ہو گئے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ احمدی ڈاکٹرز کے خلاف ایک پمفلٹ شائع ہوا جس میں ان کے نام اور جن ہسپتالوں میں وہ پریکٹس کرتے تھے ان کی تفصیلات فراہم کی گئیں اور لوگوں سے اپیل کی گئی کہ ان سے علاج نہ کرایا جائے۔

’صرف پشاور شہر میں 20 سے 25 احمدی ڈاکٹر تھے۔ اس صورتحال میں جو سرکاری اساتذہ تھے اور دوسرے ملازمین تھے، انھوں نے طویل چھٹی لے لی یا پھر دیگر علاقوں میں تبادلے کرانے پر مجبور ہو گئے۔‘

’والدین شکایت کر رہے ہیں کہ احمدی ٹیچر سے ہمارے بچے نہیں پڑھیں گے‘

مقتول ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے کے مطابق اُن کے والد پر پہلے حملے کے بعد پشاور میں جب صورتحال بہتر ہوئی تو وہ واپس آ گئے اور دوسری جگہ پر گھر لے لیا۔

’والد صاحب نے دوبارہ پریکٹس شروع کی لیکن پھر جلوس نکلتے اور نعرے بازی ہوتی اور گالیاں دی جاتیں۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما اور منتخب نمائندے ان عناصر کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ ان سے ووٹ لینا ہوتا ہے اور اگر وہ ساتھ کھڑے نہ ہوں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ آپ ’قادیانیوں‘ کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ انھیں خوف ہوتا ہے کہ آئندہ ووٹ نہیں ملیں گے۔’

انھوں نے کہا کہ وہ درس و تدریس کے شعبے سے منسلک تھے لیکن انھیں کئی بار ’قادیانی‘ ہونے کے باعث نوکری سے نکال دیا گیا۔

’کوئی نہ کوئی شاگرد نشاندہی کر دیتا۔ اس کے بعد انتظامیہ کہتی کہ آپ اچھا پڑھا رہے ہیں لیکن والدین شکایت کر رہے ہیں کہ ’قادیانی ٹیچر‘ سے ہمارے بچے نہیں پڑھیں گے۔‘

انھوں نے بتایا کہ کئی بار ایسا ہوا کہ انھوں نے نئی نوکری شروع کی اور اس میں معمول بنایا، لیکن پھر ان شکایات کی بنا پر سب ختم ہو جاتا۔ ’پھر میں دور کے کسی علاقے میں جا کر دوبارہ ٹیچنگ شروع کر دیتا اور والد بھی گھر بیٹھ جاتے اور کبھی کبھی چھوٹا موٹا کلینک شروع کر دیتے تھے انھیں نوٹس آ جاتا کہ عمارت خالی کر دو۔ معاشی طور پر مسلسل ہم نیچے جا رہے تھے۔‘

ڈاکٹر عبدالقادر کے بیٹے نے کہا کہ ان کی چھوٹی بہن کو ان کا ٹیچر گالیاں دیتا تھا اور کہتا کہ ’یہ کافروں سے بھی بدتر ہیں‘۔

’صبح کو ابو اگر تندور پر روٹی لینے جاتے تو وہ کہتے کہ ڈاکٹر صاحب آج تو آپ آئے ہیں آئندہ آئے تو اچھا نہیں ہو گا۔‘

’اس کو لے جاؤ اور زہر کا ٹیکا لگا دو‘

ڈاکٹر عبدالقادر کی بیوہ نے بتایا کہ صورتحال کی سنگینی کی وجہ سے انھوں نے گذشتہ ڈیڑھ سال میں آٹھ مرتبہ گھر تبدیل کیے۔

’لوگ تعلقات نہیں رکھتے۔ جب باہر نکلتے تو ایک دوسرے کو اشارے سے بتاتے تھے کہ یہ احمدی ہیں، ان سے بات نہ کریں۔ اگر بات کریں گے تو منھ پلیت ہو جائے گا۔ گھر میں اگر پانی نہ ہو تو پانی تک نہیں دیتے تھے۔ کہتے تھے کہ یہ مذہب چھوڑ دیں ورنہ ہمارے ساتھ تعلقات نہ رکھیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ کئی مواقع پر ان کے مالک مکان ان سے کہتے کہ ’ہم مجبور ہیں کیونکہ آپ کے محلے والوں کے شکایت آئی ہے، وہ دھمکا رہے ہیں کہ آپ کے گھر کو آگ لگا دیں گے اس لیے مجبوری میں ہم یہ سب کر رہے ہیں۔‘

ڈاکٹر قادر کی بیوہ بتاتی ہیں کہ ان کا چھوٹا بیٹا اچھا خاصا پڑھا لکھا تھا لیکن بیٹھے بیٹھے گم صم ہو جاتا تھا اور پھر مکمل طور پر خاموش ہو گیا۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اس کو ذہنی امراض کے بحالی سینٹر لے گئے۔ کچھ دن وہاں زیر علاج بھی رہا پھر پتا نہیں کیسے وہاں عملے کو علم ہوا کہ یہ احمدی ہے، جس پر سینٹر کے انچارج، جو ریٹائرڈ بریگیڈیئر تھے، نے انھیں کہا کہ اس کو لے جاؤ اور زہر کا ٹیکا لگا دو۔ کیا کوئی ماں کو ایسا کہہ سکتا ہے؟‘

انھوں نے کہا کہ اُن کے شوہر کی گذشتہ برس فروری میں ہلاکت کے بعد مئی میں ان کا بیٹا بھی لاپتہ ہو گیا۔ ’اس نے سینٹر میں یہ کہا کہ بھائی کے پاس جا رہا ہوں، لیکن اس کے بعد پتہ نہیں کہاں چلا گیا۔ ہم نے پولیس کے پاس پرچہ بھی کرایا۔ مجھے نہیں معلوم ہے کہ میرا بیٹا زندہ ہے یا نہیں۔ جب کھانے کے لیے بیٹھتی ہوں یا پانی پیتی ہوں تو اس کی شکل میرے سامنے گھومنے لگتی ہے۔‘

’ماتحت ملازمین نے یہ کہہ کر ساتھ میں کام کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ احمدی ہے‘

پشاور میں احمدیہ جماعت کے رہنما فوج سے کرنل کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ فوج میں ملازمت کے دوران ان کے ساتھ ایک دو بار امتیازی سلوک ہوا جس میں کچھ افسران کا کہنا تھا کہ ’احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے اس شخص کے برتن الگ ہونے چاہییں۔ لیکن دیگر افسران، جو اکثریت میں تھے، نے مزاحمت کی اور کہا کہ آپ لوگ اپنے برتن الگ کر لیں لیکن ہم ان کے ساتھ ان ہی برتنوں میں کھائیں گے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ریٹائرمنٹ کے بعد امتیازی سلوک کا زیادہ سامنا کرنا پڑا۔ جس کمپنی میں کام کرتا ہوں اس میں ماتحت ملازمین نے یہ کہہ کر ساتھ میں کام کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ احمدی ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد سے میرے باس پشاور آئے اور انھوں نے مفتی سے کیے گئے ایک مشورے کے متعلق ملازمین کو بتایا کہ مفتی کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے پروفیشن میں مہارت رکھتا ہے اور کام سے کام رکھتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بعد ماتحت مزید کام کرنے پر راضی ہوئے۔‘

احمدیہ جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا میں کوہاٹ، ڈی آئی خان، بنوں، پارہ چنار، سرائے نورنگ میں احمدی آبادی تھی جو بہت کم رہ گئی ہے اور پشاور میں بھی کم ہو گئے ہیں۔

’اب ربوہ بھی محفوظ نہیں ہے‘

پنجاب میں ضلع چنیوٹ کے علاقے ربوہ میں جماعت احمدیہ کا مرکز واقع ہے جس کو اب انتظامی طور پر ’چناب نگر‘ کہا جاتا ہے۔ جماعت احمدیہ کے ترجمان کے مطابق سنہ 1948 میں غیر آباد اور ویران اراضی میں یہ مرکز بنایا گیا تھا جس کی موجودہ 70 ہزار کے قریب آبادی ہے جن میں سے نوے فیصد احمدی ہیں۔

ربوہ میں سکیورٹی کا کوئی غیر معمولی انتظام نظر نہیں آتا۔ احمدیہ مرکز کے قریب سیمنٹ کے کچھ بلاک رکھے گئے ہیں جبکہ صرف ایک پولیس موبائل کونے پر کھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ داخلی راستے پر احمدیہ جماعت کے غیر مسلح رضاکار سکیورٹی کے فرائص سرانجام دیتے ہیں۔

دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی سے متعلق معاون حافظ طاہر اشرفی نے دعویٰ کیا کہ ’قادیانیوں‘ کا جو علاقہ ہے وہاں کوئی مسلمان بھی ان كى اجازت كے بغير نہیں جا سکتا اور حتیٰ کہ پولیس بھی داخل ہونے کے لیے ان سے پوچھتی ہے۔

پاکستان میں ہلاکتوں اور حملوں سے متاثرہ احمدی کمیونٹی کے افراد کی عارضی پناہ گاہ ربوہ ہی ہوتی ہے۔ لیکن جماعت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب ربوہ بھی محفوظ نہیں ہے۔

‘یہاں شہری سہولیات نہیں ہیں۔ ترقیاتی کام نہیں ہوتے کیونکہ ہم سیاسی جماعتوں کے ووٹرز نہیں ہیں حالانکہ یہ ضلع میں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والا ٹاؤن ہو گا۔ یہاں کوئی صنعت نہیں ہے۔ ملازمتوں کے لیے باہر جانا پڑتا ہے اور جب پتہ چلتا ہے کہ احمدی ہے تو نوکری نہیں دیتے۔‘

ربوہ میں احمدی کمیونٹی کے اپنے دو ہسپتال ہیں جبکہ آٹھ کے قریب سکول، ایک کالج اور یونیورسٹی ہے۔ ترجمان کے مطابق پروفیشنل تعلیم کے لیے باہر جانا ہوتا ہے، جہاں شناخت دینی پڑتی ہے۔ ربوہ میں ہاسٹل کی طرح کے فلیٹس بنے ہوئے ہیں جہاں عارضی رہائش کا انتظام کیا جاتا ہے جبکہ شہر میں کرائے کے محدود مکانات دستیاب ہوتے ہیں۔

علی مراد ( فرضی نام) لالہ موسیٰ میں کاروبار کرتے تھے۔ گذشتہ سال اگست میں ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا جس کے بعد وہ ربوہ منتقل ہو گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس کے بعد ان کا کاروبار ختم ہو گیا اور زندگی جیسے تھم سی گئی۔

‘گھر بند ہے۔ بچے سکول جا نہیں سکتے۔ لگتا ہے جیسے وہ بند گلی میں ہیں اور آگے اندھیرا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا کریں۔ چاہے کوئی بھی کہیں پیدا ہوا ہو، پلا بڑھا ہو، اب وہاں واپس نہیں جا سکتا۔ حتی کہ یہاں ربوہ میں بھی کرائے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔‘

’شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں‘

تاہم دوسری جانب وزیر اعظم عمران خان کے مذہبی ہم آہنگی کے معاون حافظ طاہر اشرفی کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ چھ ماہ سے کسی احمدی پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔

انھوں نے کہا کہ پشاور اور ننکانہ میں ہونے والے دونوں واقعات کے ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ نہ صرف حکومت بلکہ علمائے دین نے بھی اس کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کرتی رہے گی اور جو آئين و قانون ان كو حق ديتا ہے وہ ملے گا۔

’پاکستان کا آئین اور قانون جو ہر شہری کو حق دیتا ہے وہ حقوق قادیانیوں کو بھی حاصل ہیں۔ شہریوں کا بھی فرض ہے کہ وہ آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں اور اس کی پیروی کریں۔ قادیانی علانیہ اپنی شناخت مخفی رکھتے ہیں، وہ آئین اور قانون كو جو ان كے متعلق نہیں مانتے خود کو رجسٹرڈ نہیں کراتے۔‘

پشاور میں احمدی کمیونٹی کے امیر کا کہنا ہے کہ قتل کے مقدمات کی پیروی میں بھی دشواری ہوتی ہے کیونکہ مدعی خوف میں آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے سماعت ملتوی ہو جاتی ہے اس طرح سے جو ملزم ہے اس کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔

لمز یونیورسٹی لاہور کے پروفیسر ڈاکٹر علی عثمان قاسمی کا کہنا ہے کہ جہاں احمدیوں کا معاملہ آتا ہے وہاں پر حکومت مشینری نظر آتی ہی نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’قانون، اس کی زبان اور اس ضمن میں عدالتی فیصلے اس طرح کے ہیں کہ کوئی بھی احمدی اگر اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے تو اس کو سلمان رشدی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کو اگر کوئی مارنا چاہے تو ہمارا قانون اس کو نہ صرف فطری عمل قرار دیتا ہے بلکہ اس کی ستائش کرتا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اگر قانونی کارروائی کی بھی جائے تو میڈیا یا کورٹ میں ماحول ایسا بن جاتا ہے کہ ملزم کے حامی جمع ہو جاتے ہیں، علما آجاتے ہیں یا وکلا کا گروہ جمع ہو جاتا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’پورا انصاف کا نظام اس طرح کام کرتا ہے کہ اگر اس میں حکومت چاہے بھی اس نفرت انگیزی کی روک تھام نہیں کر پاتی۔‘

’یہ حقیقت ہے کہ اگر میں فوج میں نہ ہوتا تو آج یہاں سروائیو نہیں کرتا‘

پشاور میں احمدی کمیونٹی کے امیر ریٹائرڈ کرنل کے خاندان کے دو درجن کے قریبی رشتے دار بیرون ملک جا چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے بچوں کی فکر ہے کہ وہ یہاں کسی شعبے میں جائیں گے، وہ اس صورتحال کا سامنے کیسے کریں گے اور کیا وہ یہ دباؤ برداشت کر سکیں گے یا ٹوٹ جائیں۔

‘میری بیٹی اور بیٹا یونیورسٹی میں ہیں۔ میری خواہش ہے کہ وہ بیرون ملک چلے جائیں۔ وہ ایک اچھا آپشن ہے میں نہیں چاہوں گا کہ وہ یہاں رہیں۔ چھوٹا بیٹا اگر پاکستان میں رہنا چاہتا ہے تو فوج میں جانا بہتر آپشن ہے، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ اگر میں فوج میں نہ ہوتا تو آج یہاں نہیں سروائیو کرتا۔‘

مقتول ڈاکٹر عبدالقادر کی بیوہ کہتی ہیں کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے بچوں کو باہر بھیج دیں۔ ’اپنا ملک چھوڑنے کا کسی کا بھی دل نہیں کرتا لیکن ان بچوں کو ان ظالموں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ جہاں انسان پیدا ہوا، بڑا ہوا ہو، تو وہ صرف مجبوری میں اپنا ملک چھوڑتا ہے۔‘

ڈاکٹر عبدالقادر کا پانچ افراد پر مشتمل خاندان اب بیرون ملک جانے کا منتظر ہے جس کے لیے وہ تگ و دو کر رہے ہیں۔ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستان کی اقلیتی آبادی میں سے ایک اور احمدی گھرانے کی کمی ہو جائے گی۔

https://www.humsub.com.pk/440984/bbc-2250/ 

No comments: