Saturday, April 11, 2020

‏بے نظیر انکم سپورٹ – ایک انقلابی پروگرام

تحریر: آفتاب احمد گورائیہ

‏پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں سوشل ایکشن پروگرامز حکومتوں کی ترجیحات کی فہرست میں عام
‏بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام کو ملکی اور غیر ملکی سطح پر ایک کامیاب سوشل ایکشن پروگرام کے طور پر مانا جاتا ہے. اِس پروگرام کی کامیابی اور افادیت کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ سن 2013 میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد سات سالوں میں نہ تو ن لیگ کی حکومت اِس پروگرام کو ختم کر سکی اور نہ ہی پی ٹی آئی ایسا کر سکی ہے. پی ٹی آئی کی حکومت نے انتہائی بغض اور نفرت کی بنا پر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام تبدیل کرکے احساس کفالت پروگرام ضرور رکھ دیا ہے. یہ علیحدہ بات ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت ایسا کرنے کی مجاز نہیں تھی کیونکہ صدر آصف علی زرداری نے اسی خدشے کے پیشِ نظر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آئینی تخفظ دے دیا تھا. یہی وجہ ہے کہ آج کل تقسیم ہونے والی رقوم کی رسید پر اب بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ہی لکھا نظر آتا ہے. محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی تصویر بہرحال کارڈ پر سے ختم کر دی گئی ہے.
‏تحریک انصاف کی حکومت آجکل زور و شور سے احساس کفالت پروگرام (بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام) کے تحت بارہ ہزار روپے فی کس کی تقسیم کا کریڈٹ لینے میں مصروف ہے اور وزیراعظم سمیت تمام پروپیگنڈہ مشینری اِس چیز کا جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہی ہے کہ حکومت نے تاریح کا سب سے بڑا ریلیف پیکج دے دیا ہے. ہمیشہ کی طرح اِس حکومت کا سارا پروپیگنڈہ کُلی طور پر جھوٹ پر مبنی ہے. حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو چار مہینے کے پیسے اکٹھے دئیے جا رہے ہیں جِس کا اعتراف چیرمین پروگرام ثانیہ نشتر ٹی وی چینل پر برملا کر چُکی ہیں. تین مہینے کے پیسے اکٹھے دینے کو موجودہ حکومت کا جھوٹا میڈیا ہی تاریح کا سب سے بڑا ریلیف پیکج قرار دے سکتا ہے حقیقت کا اِس سے دُور کا بھی تعلق نہیں ہے. سن 2010 کے سیلاب کے موقع پر اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت نے سیلاب زدگان میں اِس سے زیادہ رقم صرف تین دِنوں میں تقسیم کی تھی.
‏اب آتے ہیں امدادی رقم کی ترسیل کے طریقہ کار کی طرف. بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم پہلے پہل ڈاک کے ذریعے تقسیم کی جاتی تھی لیکن بعد میں رقم ماہانہ طور پر بینک اکاونٹس میں ٹرانسفر کی جانے لگی. موجودہ ارسطو حکومت نے کرونا جیسی آفت کے موقع پر جب پُورا ملک لاک ڈاون کی حالت میں ہے فیصلہ کیا ہے کہ لوگوں میں نقد رقم تقسیم کی جائے گی. اِس فیصلے کے نتیجے میں پورے ملک میں رقم کی تقسیم کے موقع پر بڑے بڑے اجتماع نظر آنے لگے ہیں جو بڑے پیمانے پر کرونا کے پھیلاو کا باعث بن سکتے ہیں. موجودہ حکومت کا یہ قدم شائد ان کو وہ کریڈٹ تو نہ دِلا سکے جِس کے لئے اتنا بھونڈا اور غلط قدم اٹھایا گیا ہے لیکن حکومت کا یہ غلط فیصلہ ملک میں بڑے پیمانے پر کرونا سے ہلاکتوں کا باعث ضرور بن سکتا ہے اور اس کی براہ راست ذمہ داری وزیراعظم اور وفاقی حکومت پر عائد ہو گی.
‏یہاں یہ چیز بھی یاد رکھنی پڑے گی کہ مستقبل میں بھی رقوم کی ترسیل بینک کے ذریعے ہی ہو گی تو اِس مرحلے پر بڑے بڑے اجتماع اکٹھے کر کے رقم تقسیم کرنے کا فیصلہ ملک دشمنی اور عوام دشمنی کے سوا اور کُچھ نہیں ہے.
‏یہاں مجھے پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی صاحب کا سپیکر پنجاب اسمبلی سے بے ساختہ پنجابی زبان میں ادا کیا گیا مکالمہ بڑا برمحل لگ رہا ہے جب حسن مرتضی صاحب نے حکومت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا “ایناں کولوں نہیں جے چلنی حکومت. اے نااہل نے نالائق نے سلیکٹڈ نے” (ان سے نہیں چلنی حکومت یہ نااہل ہیں نالائق ہیں سلیکٹڈ ہیں). حسن مرتضی صاحب کی بات حرف بحرف درست ثابت ہو رہی ہے. ایمرجنسی کے حالات میں جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگوں کی امداد کرنے کا مرحلہ درپیش ہے تو حکومت کے پاس بے نظیر اِنکم سپورٹ پروگرام کی صورت میں بہترین پلیٹ فارم اور ڈیٹا موجود ہونے کے باوجود حکومت نے لوگوں کی امداد میں نہ صرف غیر معمولی تاخیر کر دی ہے بلکہ اب اگر امداد دینا شروع بھی کی ہے تو اپنی نالائقی کی وجہ سے بڑے بڑے ہجوم اکٹھے کر کے کرونا کے خلاف جنگ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے جس کا خمیازہ قوم کو آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑ سکتا ہے.
طور پر کافی نیچے ہوتے ہیں. یہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی کرشماتی لیڈرشپ اور ویژن ہی تھا کہ سب سے پہلے پاکستان پیپلزپارٹی نے سن 2007 میں اپنے منشور میں سوشل ایکشن پروگرام کی ضرورت کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت میں آنے کے بعد ایک سوشل ایکشن پروگرام شروع کرنے کا وعدہ کیا. محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بننے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے سن 2008 میں محترمہ بینظیر بھٹو کے ویژن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے پاکستان کے پہلے سوشل ایکشن پروگرام “بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام” کا آغاز کیا.

No comments: