Thursday, April 23, 2020

وزیراعظم اپنے فیصلوں کو جائز قرار دے کر عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری

چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ ماہ رمضان میں گھر پر رہ کر عبادات کریں اور اپنی زندگی کو بچائیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بی بی سی ورلڈ نیو ز سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ انہیں عمران خان کی یہ منتطق سمجھ نہیں آتی کہ وہ پابندیاں اٹھا لیں جن پر پہلے اچھی طرح عمل ہو رہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ لاک ڈاﺅن کے پہلے چند ہفتے بہت بہتر گزر رہے تھے اور لوگ پابندیوں کی پاسداری کر رہے تھے لیکن پھر لاک ڈاﺅن میں عمران خان نے پابندیوں نرم کر دیں اور حجام اور درزیوں کی دکانیں کھولنے کا حکم دے دیا۔ اس کے بعد مذہبی طبقوں کو سمجھانا مشکل ہوگیا۔ عمران خان کی جانب سے پابندیاں نرم ہونے سے قبل عوام تعاون کر رہے تھے اور پابندیاں نرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ تاہم اب وزیراعظم اپنے فیصلوں کو جائز قرار دے رہے ہیں اور عوام کی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
 چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ نے سب سے پہلے لاک ڈائن کیا اور مذہبی حلقوں کو اعتماد میں لیا اور مسجدوں میں باجماعت میں صرف پانچ لوگ شامل ہو سکتے تھے لیکن اب عمران خان نے آزادی کی مسئلہ بناد یا ہے۔ جب ہم اپنا موازنہ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک سے کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان ممالک نے اپنے شہریوں کی زندگیوں کی حفاظت کی خاطر باجماعت نماز پر پابندی لگائی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یہ وقت نہیں کہ مقبول فیصلے کئے جائیں بلکہ یہ وقت ڈاکٹروں اور طبی ماہرین سے مشورہ کرکے فیصلے کرنے کا ہے۔ پاکستان بھر میں ڈاکٹر پریس کانفرنس کرکے حکومت سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ تحفظ چاہتے ہیں اور ہیلتھ کیئر سسٹم کو بچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی اتنی مدد نہیں کر رہی جس کی وہ توقع کرتے ہیں اور ٹیسٹنگ کی استعداد بڑھانے کے لئے بھی وفاقی حکومت نے صوبائی حکومتوں کی مدد نہیں کی ہے کہ اس وباءکا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا میں کسی بھی ملک میں صلاحیت نہیں ہے لیکن ساری دنیا کی حکومتیں لوگوں کی زندگیاں بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ سندھ اس فلسفے پر کام کر رہا ہے کہ ہم معیشت کو دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں لیکن انسانوں کو نہیں۔
 انہوں نے کہا کہ اس وباءسے پہلے بھی پاکستان کی معیشت کمزور تھی اور بدانتظامی کا شکار تھی اور وفاقی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معیشت کو چلائے، لوگوں کی زندگیاں بچائے اور ان کا روزگار بھی بچائے۔ حیرت کی بات ہے کہ تعمیراتی شعبے کو ریلیف پیکیج دیا گیا ہے لیکن ڈاکٹروں کو اور نرسوں کو نہیں دیا گیا جو ہر روز اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہیلتھ کے شعبے میں سرمایہ کاری نہیں کی جس پر پاکستان کو پچھتانا پڑے گا لیکن پیپلزپارٹی کی حکومت جب بھی آئی اس نے ہیلتھ کے بجٹ میں اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی تقریباً ایک دہائی سے بھارت سے لے کر امریکہ تک قوم پرستانہ رویہ اپنایا گیا جوکہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ عالمی برادری اس وباءسے نمٹنے کے لئے تیار نہیں تھی بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستان میں اس وباءسے نمٹنے کے لئے قومی یکجہتی پیدا نہیں کی۔

No comments: