Friday, March 20, 2020

پاکستان میں لوگ قرنطینہ جانے سے کیوں گھبرا رہے ہیں؟

پاکستان میں کورونا کے مشتبہ مریض اور اس وائرس سے متاثر ممالک سے لوٹنے والے مسافر قرنطینہ سینٹرز میں جانے سے گھبرا رہے ہیں۔ کوئی قرنطینہ سینٹرز سے خود کو نکلوانے کے لیے سفارشیں کروا رہا ہے تو کوئی وہاں سے فرار ہو رہا ہے۔
پاکستان میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ قرنطینہ یا آئسولیشن سینٹرز میں انتظامات ناقص ہونے کی وجہ سے لوگ وہاں رہنے سے کترا رہے ہیں، تفتان میں قائم کیے گئے سینٹرز کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں وہاں رکھے گئے افراد کی بے چینی کو دیکھا جا سکتا ہے، لوگ وہاں سے اپنے رشتہ داروں کی فوتگی کا بتا کر نکلنے کی درخواست کر رہے ہیں۔
اسی طرح ڈیرہ غازی خان کے قرطینہ سینٹر میں داخلے سے قبل فرار ہو کر میاں چنوں کے ایک نواحی گاؤں میں آنے والے نذر نامی ایک زائر کے لیے جب اس کے آبائی گھر میں چھاپا مارا گیا تووہ پولیس کے آنے کی اطلاع پا کر لاہور چلا آیا۔ اسی طرح لاہور میں پی کے ایل آئی میں قائم قرنطینہ سے بھی گذشتہ رات ایک بچی کے باہر چلے جانے کی اطلاعات مل رہی ہیں۔
وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے صحت حنیف خان پتافی تسلیم کرتے ہیں کہ ان قرنطینہ سینٹرز میں آنے سے لوگ گریزاں ہیں، ان کے بقول، ان لوگوں کو لگتا ہے جیسے ان کو قرنطینہ بھیج کر ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔ ''یہ بات بھی درست ہے کہ قرنطینہ قائم کرنے کا ہمارا تجربہ پہلا تھا، اس میں سہولیات کی فراہمی میں کچھ دیر بھی ہوئی لیکن اب صورتحال بہت بدل چکی ہے اور حالات بہتر ہو رہے ہیں۔‘‘  لیکن ان حکومتی دعووں کی تصدیق فیلڈ سے ملنے والی اطلاعات سے نہیں ہو رہی ہے۔
Coronavirus Grenze zwischen Pakistan und Iran (DW/G. Kakar)
پاکستان کے ایک بڑے فیشن ہاؤس کی مالک سیدہ انا علی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کی لندن میں زیر تعلیم بیٹی چند روز پہلے پاکستان واپس آئی تو اسے ایئر پورٹ پر چیک کرکے کلئیر قرار دے دیا گیا، کرونا کی علامتوں کی وجہ سے ہم نے اپنے گھر کے ایک کمرے میں بیٹی سیدہ دانیہ علی کو تنہائی میں رکھ کر اس کا علاج شروع کیا اور اس کی قوت مدافعت بڑھانے کے لیے وٹامن سی ، وٹامن ڈی اور سوپ وغیرہ دینا شروع کر دیے جس سے اس کی طبیعت سنبھلنا شروع ہو گئی۔
انا علی کے بقول ''ہم نے خود اپنی مرضی سے لاہور میں ایک نجی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا تو وہ مثبت آیا، چغتائی لیب والوں نے ہمارا فون نمبر پنجاب حکومت کے محکمہ صحت کے حکام کو دے دیا وہ میڈیا اور پولیس سمیت ساٹھ ستر لوگ لے کر ہمارے گھر پہنچ گئے اور کہا کہ آپ کے مریض کو گنگا رام ہسپتال شفٹ کرنا ہے، ہم نے کہا کہ ہم بالکل تیار ہیں لیکن آپ براہ کرم میڈیا کو ہٹا دیں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘‘
انہوں نے مزید بتایا کہ گنگا رام ہسپتال میں تین گھنٹے انتظار کے بعد ان کو بتایا گیا کہ اس ہسپتال میں کرونا کے حوالے سے کوئی انتظامات نہیں ہیں،  پھر ان کو ڈی ایچ اے کے ایک ہسپتال بھجوایا گیا۔ ''لیکن وہاں پر بھی طویل انتظارکے بعد کہا گیا کہ آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں اس مریض کو گھر پر رکھ کروہاں اس کی دیکھ بھال کرلیں۔‘‘
انا علی کے بقول ''ہم نے پھر گھر پر علاج شروع کیا، تو ہمیں بار بار فون آنے لگے کہ اب ہسپتال میں انتظامات مکمل ہو گئے ہیں مریض کو وہاں لے کر آ جائیں، اب ڈیفنس کے اس ہسپتال میں میری بیٹی داخل ہے، نہ ابھی اس کا علاج شروع ہو سکا ہے اور نہ ہی اسے پرہیزی کھانا مل رہا ہے، اس کو کمبل تک نہیں دیا جا رہا، ہمیں اس سے ملنے کی اجازت بھی نہیں ہے، اس کو مچھر کاٹ رہے ہیں اور اس کی صحت پھر سے خراب ہونا شروع ہو چکی ہے۔‘‘
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے سیدہ انا علی کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا جا رہا ہے تو ملک کے غریب لوگوں پر قرنطینہ یا آئسولیشن وارڈز میں کیا گزر رہی ہو گی۔ انہوں نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں پاکستانی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے پیاروں کا خود خیال کریں حکومت کی کورونا کے حوالے سے کوئی تیاری نہیں ہے، ریاست اس معاملے میں مکمل طور پر بے بس ہو چکی ہے۔
Coronavirus Grenze zwischen Pakistan und Iran (DW/G. Kakar)
کورونا وائرس کی وبا کے خلاف آپریشن سے وابستہ پنجاب حکومت کے ایک اعلی افسر نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست کے ساتھ ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قرنطینہ میں جانے سے لوگوں کے ڈرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیا نے ان کو کچھ زیادہ ہی ڈرا دیا ہے، انہیں اس کی افادیت سے آگاہی فراہم ہی نہیں کی جاسکی۔
ڈیرہ غازی خان کے ڈپٹی کمشنر طاہر فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لوگوں کے قرنطینہ سے گریز کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زائرین تیس چالیس دن ایران میں گزار کر آئے ہیں، پھر انہیں تفتان میں قیام کرنا پڑا ہے ان اگر دو ہفتوں کے لیے انہیں ڈی جی خان میں رکھا ہے تو پھر ان کے گھر والوں سے اداسی اور قرنطینہ سے اکتاہٹ قابل فہم ہے۔ ان کے بقول ڈی جی خان سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر زرعی یونیورسٹی میں بنائے جانے والے قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے مشتبہ مریضوں کو تین وقت کا کھانا فراہم کیا جا رہا ہے، یہاں ٹیسٹوں کی سہولتیں بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ عملہ بچوں کے لیے چپس، کھلونے، خواتین کے لیے فیس واش اور ڈٹرجینٹ سمیت ان کو ضرورت کی ہر چیز فراہم کر رہے ہیں۔
ادھر پنجاب حکومت نے کورونا کے مریضوں کے لیے مزید قرنطینہ سینٹرز بنانے کے ساتھ ساتھ کورونا کے مشتبہ مریضوں کو ان کے گھروں میں آئسولیشن فراہم کرنے کے لیے بھی ایس او پیز بنانا شروع کر دیے ہیں۔

No comments: