تحریر:آصف نسیم راٹھور۔۔بریڈ فورڈ
بے نظیر بھٹو 1988 میں مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہونے سے
کررہا تھا، بیٹی کی نگاہیں اپنے بابا کے چہرے سے جدا ہونا نہیں چاہتی تھیں مگر ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ٹل نہیں سکتی تھی۔ کارکن سزائیں کاٹ رہے ہیں، کوڑے کھا رہے ہیں اور زندان میں پابند سلاسل ہیں، حالات کا جبر اپنی انتہا پر ہے مگر ان اعصاب شکن گردشوں میں محترمہ نے اپنی عورت کو مرنے نہیں دیا۔ ان کے ماتھے پر مردانہ کرختگیاں کبھی جگہ نہیں پاسکیں،ان کی روشن ستارہ آنکھوں نے اشکوں کی سلامی گوارا نہیں کی، ان سے بڑھ کر بھی کوئی مصروف ہوا ہے ؟ مگر اپنے بچے نوکروں کو نہیں سونپے۔ اپنے خاص مہمانوں کے لئے چائے خود بنا کر پیش کرنے کی روایت قائم رکھی، وہ سرتا پا ایک عورت ہی رہی۔اس جنگ کی تو خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ایک مکمل عورت کے عزم و استقلال نے ایک مکمل مرد کی بے تابیوں کو تمغوں پر لگی دھول چاٹنے پر مجبور کیا۔دُکھوں نے بے نظیر بھٹو کی دنیا کو اندھیر کر دیا ایسے دُکھ دیکھنا نصیب ہوئے کہ اگر ان دُکھوں کو پہاڑ پر ڈال دیا جاتا شاید وہ بھی برداشت نہ کر پاتا،بے نظیر بھٹو نے وہ دُکھ برداشت کئے جن میں سے کچھ ہم سب کے سامنے کھلی کتاب کی طرح ہیں اور ان کے سینے میں ایسے خنجر بھی اترے جن سے خود انھوں نے بھی آنکھیں چرائیں۔ سخت صعوبتیں اور آزمائشیں برداشت کرنے کے بعد عوام کے ووٹ سے برسر اقتدار آئیں۔ عورتوں کے لیے پاکستان جیسے بند سماج میں ان کے ووٹرزنے معجزہ کر دکھایا اور وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر پہنچیں۔ اس وقت ان کی عمر 35 برس تھی اور پاکستان ایک ایسے جزیرے کی مانند تھا جس کے چاروں طرف اقتدار کے بھوکے مگر مچھ ہر وقت اپنے جبڑے کھولے گھومتے تھے۔ ان کی پہلی حکومت دسمبر 1988ء سے اگست 1990ء تک قائم رہی اس کے بعد وہ معزول کردی گئیں۔جلاوطنی کا ایک طویل دور گزار کر جب وہ وطن واپس آئیں تو ایک بدلی ہوئی انسان تھیں۔ میثاق جمہوریت تخلیق کرنے کے بعد وہ سیاستدان سے زیادہ ایک مدبر، ایک رہنما بن چکی تھیں۔ ان کے خیالات میں انقلابی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ عوام جمہوریت اور پاکستان کی خاطر اپنی جان قُربان کرنے والی قوم کی عظیم لیڈر اور رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اپنی سوچ عزم اور بصیرت کی صورت میں آج بھی زندہ ہے پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کیلئے شہید جمہوریت کا خواب ہمیشہ زندہ رہے گا۔
No comments:
Post a Comment