M WAQAR..... "A man's ethical behavior should be based effectually on sympathy, education, and social ties; no religious basis is necessary.Man would indeed be in a poor way if he had to be restrained by fear of punishment and hope of reward after death." --Albert Einstein !!! NEWS,ARTICLES,EDITORIALS,MUSIC... Ze chi pe mayeen yum da agha pukhtunistan de.....(Liberal,Progressive,Secular World.)''Secularism is not against religion; it is the message of humanity.'' تل ده وی پثتونستآن
Wednesday, April 4, 2018
میاں صاحب مولا جٹ بن کر ججز کو دھمکیوں سے ڈرانا چاہتے ہیں،بلاول بھٹو زرداری
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ میاں صاحب مولا جٹ بن کر ججز کو دھونس اوردھمکیوں سے ڈرانا چاہتے ہیں‘پوری زندگی ووٹ کو عزت نہ دینے والے آج ووٹ کی حرمت کی بات کررہے ہیں‘پارلیمانی بالادستی کی بات کرنے والا 5سال میں صرف 6بار پارلیمنٹ آیا ‘نواز شریف جب ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں تو مجھے ہنسی آتی ہے‘ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر پاکستان کے سنہری دور کو بھی لٹکا دیا گیا،ہم ضیا ءکی پیداوار اور طالبان کے بچھڑے بھائی عمران خان کے خلاف لڑیں گے‘یہ ان کا آخری اور میرا پہلا الیکشن ہوگا‘ دونوں کی سیاست اورمنافقت میں کوئی فرق نہیں‘ بڑے یا چھوٹے میاں سے ملک نہیں چلے گا‘ہم فرقہ واریت ، دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف لڑیں گے مذہبی انتہاپسندوں کی بی ٹیم کوبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے‘ ایک طرف بھٹو جبکہ دوسری جانب ضیاء کا وارث ہے ‘طالبان کا بچھڑا بھائی عمران خان بھی نواز شریف کی ایکسٹینشن ہے‘اس کے جھنڈے پر یوٹرن کا نشان ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ
کو گڑھی خدا بخش میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بلاول بھٹونے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر پاکستان کے سنہری دور کو بھی لٹکا دیا گیا اور آج تک پاکستان کا سنہرا دور پھانسی گھاٹ پر جھول رہا ہے‘بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں نواز شریف عمران خان ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں لیکن ان کی جنگ منافقوں کی جنگ ہے اور مقصد صرف اقتدار میں آکر پیسہ بنانا ہے، عمران، نواز شریف کا نظریہ سرمایہ، جھوٹ اورفریب ہے‘ان کی سیاست اورمعیشت امیروں کے لیے ہے، جاتی امراء اور بنی گالہ میں سرمایہ دار جمع ہوچکے ہیں اور اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو پتا نہیں ملک کا کیا ہوگا‘ہم مذہبی انتہاپسندوں کی بی ٹیم کوبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔
https://jang.com.pk/news/473939
کو گڑھی خدا بخش میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔بلاول بھٹونے کہا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی پر لٹکا کر پاکستان کے سنہری دور کو بھی لٹکا دیا گیا اور آج تک پاکستان کا سنہرا دور پھانسی گھاٹ پر جھول رہا ہے‘بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ہم دیکھ رہے ہیں نواز شریف عمران خان ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں لیکن ان کی جنگ منافقوں کی جنگ ہے اور مقصد صرف اقتدار میں آکر پیسہ بنانا ہے، عمران، نواز شریف کا نظریہ سرمایہ، جھوٹ اورفریب ہے‘ان کی سیاست اورمعیشت امیروں کے لیے ہے، جاتی امراء اور بنی گالہ میں سرمایہ دار جمع ہوچکے ہیں اور اگر یہ لوگ اقتدار میں آگئے تو پتا نہیں ملک کا کیا ہوگا‘ہم مذہبی انتہاپسندوں کی بی ٹیم کوبھی اقتدار میں نہیں آنے دیں گے۔
https://jang.com.pk/news/473939
میاں صاحب صلح نہیں ہوگی، آپ سے سیاست چھڑوا دینگے، زرداری
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ بلوچستان اور سینیٹ میں تبدیلی کی پیشگوئی میں نے بہت پہلے کردی تھی‘نوازشریف نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ ۜکے ساتھ مل کر ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے اس لئے میاں صاحب سے اب صلح نہیں ہوگی،ان سے جنگ جاری رہے گی‘جب وہ ختم ہوجائیں گے تو پھر بات کرنے پر غور کیا جائے گا‘ نوازشریف سیاستداں نہیں مغل شہنشاہ ہیں ‘پیپلزپارٹی ان سے سیاست چھڑوا کر رہے گی‘جب چاہوں (ن)لیگ کی حکومت گراسکتا ہوں‘ پنجاب کی وزارت اعلی بھی نواز شریف کو نہیں لینے دیں گے،آپ کا وزیراعلیٰ بھی لیں گے‘ ہم جلدپنجاب میں نکلیں گے اورتخت رائیونڈہلائیں گے‘ہم کسی کے ساتھ مل کربھی حکومت بنائیں مگرآپ سے نہیں ملیں گے‘ چیئرمین سینیٹ کے لیے رضا ربانی کی حمایت بھی نواز شریف کی ایک چال تھی۔ وہ بدھ کی شام گڑھی خدا بخش میں پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی انتالیسویں برسی کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ نواز شریف دنیا کے کسی خطے میں جا کر ایک قطعہ اراضی خرید
کر اپنی بادشاہی قائم کرلیں‘اب پاکستان میں ان کی کوئی سیاست باقی نہیں رہی‘ہم نے انہیں کئی بار سہارا دیا لیکن انہوں نے ہر بار ہماری پیٹھ میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر چھرا گھونپا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا‘ آئندہ انتخابات میں ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر پنچاب میں حکومت بنائیں گے جبکہ وفاق میں بھی ہماری حکومت ہوگی۔آصف علی زرداری نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) وہ پارٹی ہے جو حکومت بھی خود کرتی ہے اور اپوزیشن بھی جبکہ سمجھ نہیں آتا میاں صاحب حکومت پر کیوں اور کیسے تنقید کرتے ہیں حالانکہ وزیراعظم اور وزیراعلی دونوں ہی ان کے ہیں۔ آصف زرداری نے کہا کہ پہلے نوازشریف نے اپنی آنکھیں سرپررکھ لیں‘ اب ہم نے رکھ لی ہیں‘نوازشریف سیاستداں نہیں بلکہ مغل شہنشاہ ہیں‘ آپ کی وجہ سے ہمارے دوست ہم سے دور ہوگئے‘میاں صاحب غریبوں کو لوٹنا اور ان کا خون چوسنا چھوڑ دیں‘ وہ دن یاد کریں جب ہم نے آپ کی حکومتیں بچائی تھی، آپ کے وزرا کے پیر کانپ رہے تھے‘اس کے باوجود آپ نے آنکھیں پھیر لیں‘انہوں نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد پنجاب میں آئیں گے‘ تخت رائے ونڈ کو ہلائیں گے ‘سابق صدر نے کہا کہ اس مرتبہ پنجاب کی وزارت اعلی بھی نوازشریف کو نہیں لینے دیں گے، ہم کسی کے ساتھ مل کربھی حکومت بنائیں مگرآپ سے نہیں ملیں گے اور ہم آپ سے تب بات کریں گے جب آپ ختم ہوچکے ہوں گے‘ پنجاب میں میاں صاحب کی جلسیاں ہورہی ہیں اور انہوں نے لاہور میں اربوں روپے خرچ کرکے ایک سیٹ نکالی۔آصف زرداری نے الزام لگایا کہ ن لیگ نے سینیٹ انتخابات کے موقع پر رضا ربانی کا نام لے کرپیپلزپارٹی میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی، مگر رضاربانی ایسے نہیں، وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے‘نوازشریف کو40 سال کا حساب دینا ہوگا۔
https://jang.com.pk/news/473938
زیڈاے بھٹو شہید:دورۂ امریکہ و کینیڈا کے مشاہدات
عظیم ایم میاں
ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بارے ان کے پرستاروں اور مخالفین نے بہت کچھ
لکھا اور بہت کچھ کہا ہے لیکن آج ان کے مخالفین اور چاہنے والے سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبّر، اسٹیٹس مین اور ذہین سیاستدان تھے، جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کی فوجی شکست، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شکست خوردہ بچے کھچے پاکستان کو ایک نیا حوصلہ دیا اور ایک نئے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی کے آغاز کے ساتھ ہی میں شمالی امریکہ چلا آیا لہٰذا ان کے دور حکمرانی بارے تو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن ان کے دورۂ امریکہ اور کینیڈا کا عینی شاہد ہونے اور اس دور کے اقوام متحدہ میں غیرملکی سفارت کاروں کی رائے کی بنیاد پر حتمی رائے ہے کہ بھٹو شہید تیسری دنیا کے ملک پاکستان کے لیڈر تھے مگر عالمی امور میں وہ دنیا کے تسلیم شدہ سفارت کاروں اور لیڈروں سے بھی اپنی ذہانت تسلیم کروا لیتے تھے۔ ویتنام کی جنگ کے خالق، امریکی وزیر دفاع اور ورلڈ بینک کے سربراہ رابرٹ میکنامارا نے امریکی دانشور اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی موجودگی میں واشنگٹن کے ایک ڈنر میں بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے مسٹر بھٹو تھرڈ ورلڈ میں پیدا ہوئے، اگر یہ امریکہ میں ہوتے
تو میں اور ہنری (کسنجر) ہم دونوں امریکی سیاست سے باہر (آئوٹ) ہوتے۔ یہ جملہ سن کر ڈنر کے شرکا نے قہقہے بلند کئے اور قریب ہی ڈائس پر بیٹھے بھٹو شہید قدرے شرماتے نظر آئے۔ یہ واقعہ دراصل فروری 1975ء میں صدر جیرالڈ فورڈ کے دور میں سرکاری دورۂ امریکہ کے دوران پیش آیا۔ 43سال قبل 1975ء میں بھٹو شہید کے دورۂ امریکہ کے تاثّرات آج بھی منفرد طور پر محسوس ہوتے ہیں حالانکہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر فورڈ کی حکومت کمزور اور مشکلات کا شکار تھی۔ ایک امریکی صحافی نے ذوالفقار علی بھٹو سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ امریکہ کے واٹرگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ ان دنوں پاکستان کی زرعی زمینوں کو سیم اور تھور کے ہاتھوں تباہی کا سامنا تھا۔ ادھر واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر نکسن مستعفی ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ایک غیر منتخب جیرالڈ فورڈ بہ طور صدر نامزد ہو کر صدارت کر رہے تھے اور عوامی جذبات واٹرگیٹ اسکینڈل کے خلاف تھے۔ واٹرگیٹ کی حمایت اور حکومت وقت کی تعریف عوامی جذبات کے برعکس ہوتی اور واٹرگیٹ کی مخالفت حکومت وقت کی میزبانی اور جذبات کے خلاف سمجھی جاتی۔ بھٹو صاحب نے کمال سرعت سے جواب دیا کہ میرے ملک کے کسان ’’واٹرلاگنگ (سیم) کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور میں (Water Lossing) ’’سیم‘‘ کے سلسلے میں آپ کے ملک سے مدد مانگنے آیا ہوں۔ واٹر لاگنگ کا مسئلہ میرے ملک میں حل ہو جائے تو پھر میں واٹرگیٹ (اسکینڈل) کے بارے میں کوئی تبصرہ کر سکوں گا۔ بھٹو صاحب کے اس برجستہ جواب پر امریکی صحافی حیران ہو گیا۔
بھٹو صاحب کا یہ دورۂ امریکہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ ہنری کسنجر جیسا امریکی دانشور اور فارن پالیسی ایکسپرٹ امریکی وزیر خارجہ تھا، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے بعد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور عزائم کے حوالے سے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران دھمکی دی تھی کہ وہ ایٹمی پلان سے باز رہیں۔ بھٹو صاحب کی موت کے کئی سال بعد اقوام متحدہ میں ایک تقریب کے دوران ڈاکٹر ہنری کسنجر سے میرا آمنا سامنا ہو گیا تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ نے ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے پاکستان کے بھٹو شہید کو جو دھمکی دی تھی اس کے تناظر میں آپ بھٹو صاحب کی موت بارے کیا کہیں گے؟ سوال سن کر ہنری کسنجر کے چہرے پر ناگواری آئی اور اپنی بھاری آواز میں یہ کہہ کر آگے نکل گئے کہ میں ایسے سوالوں کا جواب نہیں دیتا۔
اگلے سال فروری 1976ء میں وزیراعظم بھٹو کینیڈا کے سرکاری دورہ پر آئے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کے والد پیئرایلیٹ ٹروڈو میزبان اور کینیڈا کے وزیراعظم تھے، ضیاء محی الدین بھی ہمراہ تھے، شیخ افتخار علی کینیڈا میں سفیر، مرحوم صحافی خالد حسن قونصل جنرل اور ڈان کے معروف صحافی نسیم صاحب سیکرٹری اطلاعات تھے۔ بانی جنگ گروپ محترم میر خلیل الرحمٰن بھی وفد میں موجود تھے۔ کینیڈا کے وزیراعظم پیئرٹروڈو اور ان کی اہلیہ عالمی شہرت یافتہ ماڈل مارگریٹ ٹروڈو، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی اہلیہ نصرت بھٹو کے ہمراہ ڈنر کے موقع پرخوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے رہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے کینیڈین ہیوی واٹر کے حصول میں ناکامی اور ایک حسّاس معاملے پر کینیڈا کی شکایت کے باوجود کینیڈین وزیراعظم سے بھٹو صاحب کی گفتگو بامقصد اور خوشگوار رہی۔ آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی اس دورۂ اوٹاوا میں موجود تھے۔ دوسرے روز بھٹو صاحب نے ٹورنٹو میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرنا تھا لیکن رات کو اوٹاوا اور ٹورنٹو میں شدید برف باری ہوگئی اور فلائٹس سمیت ہر کام میں تاخیر اور مشکلات ابھر آئیں۔ بھٹو صاحب، بیگم نصرت بھٹو اور پاکستانی وفد بھی ٹورنٹو تاخیر سے پہنچے۔ ٹورنٹو کے ایک ہال میں جمع پاکستانی کمیونٹی سے بھٹو صاحب نے خطاب شروع کیا تو ایک نوجوان نے بھٹو صاحب سے سوال کرنے کی کوشش کی۔ پولیٹکل پولرائزیشن کے اس دور میں بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین بھی بہت منظّم اور ’’چارجڈ‘‘ تھے لہٰذا بھٹو صاحب نے بعد میں جواب دینے کا کہہ کر تقریر جاری رکھی مگر جلد ہی سیاسی چنگاریاں نظر آنے لگیں۔ بھٹو صاحب کے سخت جواب اور ایک محافظ کی گرم مزاجی نے جلسہ درہم برہم کر دیا اور اگلے روز کینیڈا کے تمام اخبارات میں بھٹو صاحب کے دورہ کی تفصیل کی بجائے پاکستانی کمیونٹی کے جلسے میں دوطرفہ گرمی و تلخی کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ اس دورہ کے بعد بھٹو صاحب کبھی کینیڈا نہیں آئے لیکن کینیڈین وزیر اعظم پیئر ٹروڈو جو اپنی نوجوانی کے دنوں میں عام کینیڈین کے طور پر پاکستان کا سفر کر چکے تھے، وہ بھٹو صاحب کے بارے میں اپنے مثبت تاثّرات کا ذکر کیا کرتے تھے۔
اے پی پی کے سینئر صحافی افتخار علی چودھری اقوام متحدہ اور امریکہ سے رپورٹنگ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھٹو مرحوم نے پاک۔ بھارت 1971ء کی جنگ کے دوران جو کاغذ پھاڑے تھے اور جن کو پولینڈ کی قرارداد کہہ کر بھٹو صاحب کو بدنام کیا جاتا ہے، وہ دراصل پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ ہی نہیں تھا بلکہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں آج بھی پولینڈ کی ایسی کسی قرارداد کا کوئی غیر منظورشدہ مسودہ ہی موجود نہیں۔ افتخار علی کا کہنا ہے کہ وہ دراصل بھٹو صاحب کی سلامتی کونسل میں تقریر کے کچھ نوٹس تھے جو انہوں نے سلامتی کونسل سے واک آئوٹ کرتے وقت پھاڑ دیئے تھے۔ جب انہوں نے بھٹو صاحب سے ان کی تقریر کا مسودہ مانگا تو انہوں نے پھاڑے گئے کاغذات پر نوٹس کا ذکر کیا۔ افتخار علی صاحب نے وہ پھٹے ہوئے تاریخی کاغذ کے ٹکڑے اٹھائے، جوڑ کر انہیں پڑھا اور خبر تیار کر کے فائل کر دی۔
اگست 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ملاقات میں آصف زرداری، فاروق نائک اور پی پی پی امریکہ کے صدر شفقت تنویر کی موجودگی میں محترم بشیر ریاض کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کی اطلاع مجھے کب اور کیسے ملی؟ تو میں نے پاکستان میں 4؍اپریل 1979ء کے اس تاریخی سانحہ کی تفصیل بتائی کہ ڈیٹرائٹ کے پاکستانی، امریکن وکیل شیخ (مرحوم) نے مقامی وقت کی نصف شب کے بعد مجھے کال کر کے اطلاع دی تو تصدیق کیلئے میر مرتضیٰ کو لندن فون کیا جو بشیر ریاض نے اٹھایا اور تصدیق کی۔ اگلی صبح بوبی کینیڈی جونیئر اور دیگر ایسے امریکی جو بھٹو صاحب کی زندگی بچانے میں سرگرم تھے مثلاً ریمزے کلارک وغیرہ کو فون کرکے اطلاع دی مگر وہ پہلے ہی اس پاکستانی اور عالمی سانحے سے باخبر تھے۔ آج بھٹو کی موت کو اپنے، پرائے حامی اور مخالف سب ہی ایک ناانصافی اور ایک عالمی المیہ قرار دیتے ہیں۔
https://jang.com.pk/news/473419
ذوالفقار علی بھٹو شہید کے بارے ان کے پرستاروں اور مخالفین نے بہت کچھ
لکھا اور بہت کچھ کہا ہے لیکن آج ان کے مخالفین اور چاہنے والے سب ہی اس بات پر متفق ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبّر، اسٹیٹس مین اور ذہین سیاستدان تھے، جنہوں نے 1971ء میں پاکستان کی فوجی شکست، مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کے بعد شکست خوردہ بچے کھچے پاکستان کو ایک نیا حوصلہ دیا اور ایک نئے ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھی۔
ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکمرانی کے آغاز کے ساتھ ہی میں شمالی امریکہ چلا آیا لہٰذا ان کے دور حکمرانی بارے تو کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن ان کے دورۂ امریکہ اور کینیڈا کا عینی شاہد ہونے اور اس دور کے اقوام متحدہ میں غیرملکی سفارت کاروں کی رائے کی بنیاد پر حتمی رائے ہے کہ بھٹو شہید تیسری دنیا کے ملک پاکستان کے لیڈر تھے مگر عالمی امور میں وہ دنیا کے تسلیم شدہ سفارت کاروں اور لیڈروں سے بھی اپنی ذہانت تسلیم کروا لیتے تھے۔ ویتنام کی جنگ کے خالق، امریکی وزیر دفاع اور ورلڈ بینک کے سربراہ رابرٹ میکنامارا نے امریکی دانشور اور وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر کی موجودگی میں واشنگٹن کے ایک ڈنر میں بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خدا کا شکر ہے مسٹر بھٹو تھرڈ ورلڈ میں پیدا ہوئے، اگر یہ امریکہ میں ہوتے
تو میں اور ہنری (کسنجر) ہم دونوں امریکی سیاست سے باہر (آئوٹ) ہوتے۔ یہ جملہ سن کر ڈنر کے شرکا نے قہقہے بلند کئے اور قریب ہی ڈائس پر بیٹھے بھٹو شہید قدرے شرماتے نظر آئے۔ یہ واقعہ دراصل فروری 1975ء میں صدر جیرالڈ فورڈ کے دور میں سرکاری دورۂ امریکہ کے دوران پیش آیا۔ 43سال قبل 1975ء میں بھٹو شہید کے دورۂ امریکہ کے تاثّرات آج بھی منفرد طور پر محسوس ہوتے ہیں حالانکہ واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر فورڈ کی حکومت کمزور اور مشکلات کا شکار تھی۔ ایک امریکی صحافی نے ذوالفقار علی بھٹو سے چبھتا ہوا سوال کیا کہ امریکہ کے واٹرگیٹ اسکینڈل کے بارے میں ان کی رائے کیا ہے؟ ان دنوں پاکستان کی زرعی زمینوں کو سیم اور تھور کے ہاتھوں تباہی کا سامنا تھا۔ ادھر واٹرگیٹ اسکینڈل کے باعث صدر نکسن مستعفی ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ایک غیر منتخب جیرالڈ فورڈ بہ طور صدر نامزد ہو کر صدارت کر رہے تھے اور عوامی جذبات واٹرگیٹ اسکینڈل کے خلاف تھے۔ واٹرگیٹ کی حمایت اور حکومت وقت کی تعریف عوامی جذبات کے برعکس ہوتی اور واٹرگیٹ کی مخالفت حکومت وقت کی میزبانی اور جذبات کے خلاف سمجھی جاتی۔ بھٹو صاحب نے کمال سرعت سے جواب دیا کہ میرے ملک کے کسان ’’واٹرلاگنگ (سیم) کے ہاتھوں تباہی کا سامنا کر رہے ہیں اور میں (Water Lossing) ’’سیم‘‘ کے سلسلے میں آپ کے ملک سے مدد مانگنے آیا ہوں۔ واٹر لاگنگ کا مسئلہ میرے ملک میں حل ہو جائے تو پھر میں واٹرگیٹ (اسکینڈل) کے بارے میں کوئی تبصرہ کر سکوں گا۔ بھٹو صاحب کے اس برجستہ جواب پر امریکی صحافی حیران ہو گیا۔
بھٹو صاحب کا یہ دورۂ امریکہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ ہنری کسنجر جیسا امریکی دانشور اور فارن پالیسی ایکسپرٹ امریکی وزیر خارجہ تھا، جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے بعد میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور عزائم کے حوالے سے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران دھمکی دی تھی کہ وہ ایٹمی پلان سے باز رہیں۔ بھٹو صاحب کی موت کے کئی سال بعد اقوام متحدہ میں ایک تقریب کے دوران ڈاکٹر ہنری کسنجر سے میرا آمنا سامنا ہو گیا تو میں نے ان سے پوچھ لیا کہ آپ نے ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے پاکستان کے بھٹو شہید کو جو دھمکی دی تھی اس کے تناظر میں آپ بھٹو صاحب کی موت بارے کیا کہیں گے؟ سوال سن کر ہنری کسنجر کے چہرے پر ناگواری آئی اور اپنی بھاری آواز میں یہ کہہ کر آگے نکل گئے کہ میں ایسے سوالوں کا جواب نہیں دیتا۔
اگلے سال فروری 1976ء میں وزیراعظم بھٹو کینیڈا کے سرکاری دورہ پر آئے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم جسٹس ٹروڈو کے والد پیئرایلیٹ ٹروڈو میزبان اور کینیڈا کے وزیراعظم تھے، ضیاء محی الدین بھی ہمراہ تھے، شیخ افتخار علی کینیڈا میں سفیر، مرحوم صحافی خالد حسن قونصل جنرل اور ڈان کے معروف صحافی نسیم صاحب سیکرٹری اطلاعات تھے۔ بانی جنگ گروپ محترم میر خلیل الرحمٰن بھی وفد میں موجود تھے۔ کینیڈا کے وزیراعظم پیئرٹروڈو اور ان کی اہلیہ عالمی شہرت یافتہ ماڈل مارگریٹ ٹروڈو، ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی اہلیہ نصرت بھٹو کے ہمراہ ڈنر کے موقع پرخوشگوار موڈ میں گفتگو کرتے رہے۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کیلئے کینیڈین ہیوی واٹر کے حصول میں ناکامی اور ایک حسّاس معاملے پر کینیڈا کی شکایت کے باوجود کینیڈین وزیراعظم سے بھٹو صاحب کی گفتگو بامقصد اور خوشگوار رہی۔ آغا شاہی، صاحبزادہ یعقوب علی خان بھی اس دورۂ اوٹاوا میں موجود تھے۔ دوسرے روز بھٹو صاحب نے ٹورنٹو میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرنا تھا لیکن رات کو اوٹاوا اور ٹورنٹو میں شدید برف باری ہوگئی اور فلائٹس سمیت ہر کام میں تاخیر اور مشکلات ابھر آئیں۔ بھٹو صاحب، بیگم نصرت بھٹو اور پاکستانی وفد بھی ٹورنٹو تاخیر سے پہنچے۔ ٹورنٹو کے ایک ہال میں جمع پاکستانی کمیونٹی سے بھٹو صاحب نے خطاب شروع کیا تو ایک نوجوان نے بھٹو صاحب سے سوال کرنے کی کوشش کی۔ پولیٹکل پولرائزیشن کے اس دور میں بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین بھی بہت منظّم اور ’’چارجڈ‘‘ تھے لہٰذا بھٹو صاحب نے بعد میں جواب دینے کا کہہ کر تقریر جاری رکھی مگر جلد ہی سیاسی چنگاریاں نظر آنے لگیں۔ بھٹو صاحب کے سخت جواب اور ایک محافظ کی گرم مزاجی نے جلسہ درہم برہم کر دیا اور اگلے روز کینیڈا کے تمام اخبارات میں بھٹو صاحب کے دورہ کی تفصیل کی بجائے پاکستانی کمیونٹی کے جلسے میں دوطرفہ گرمی و تلخی کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔ اس دورہ کے بعد بھٹو صاحب کبھی کینیڈا نہیں آئے لیکن کینیڈین وزیر اعظم پیئر ٹروڈو جو اپنی نوجوانی کے دنوں میں عام کینیڈین کے طور پر پاکستان کا سفر کر چکے تھے، وہ بھٹو صاحب کے بارے میں اپنے مثبت تاثّرات کا ذکر کیا کرتے تھے۔
اے پی پی کے سینئر صحافی افتخار علی چودھری اقوام متحدہ اور امریکہ سے رپورٹنگ کا طویل تجربہ رکھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں بھٹو مرحوم نے پاک۔ بھارت 1971ء کی جنگ کے دوران جو کاغذ پھاڑے تھے اور جن کو پولینڈ کی قرارداد کہہ کر بھٹو صاحب کو بدنام کیا جاتا ہے، وہ دراصل پولینڈ کی قرارداد کا مسودہ ہی نہیں تھا بلکہ اقوام متحدہ کے ریکارڈ میں آج بھی پولینڈ کی ایسی کسی قرارداد کا کوئی غیر منظورشدہ مسودہ ہی موجود نہیں۔ افتخار علی کا کہنا ہے کہ وہ دراصل بھٹو صاحب کی سلامتی کونسل میں تقریر کے کچھ نوٹس تھے جو انہوں نے سلامتی کونسل سے واک آئوٹ کرتے وقت پھاڑ دیئے تھے۔ جب انہوں نے بھٹو صاحب سے ان کی تقریر کا مسودہ مانگا تو انہوں نے پھاڑے گئے کاغذات پر نوٹس کا ذکر کیا۔ افتخار علی صاحب نے وہ پھٹے ہوئے تاریخی کاغذ کے ٹکڑے اٹھائے، جوڑ کر انہیں پڑھا اور خبر تیار کر کے فائل کر دی۔
اگست 2007ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے ایک ملاقات میں آصف زرداری، فاروق نائک اور پی پی پی امریکہ کے صدر شفقت تنویر کی موجودگی میں محترم بشیر ریاض کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا کہ بھٹو صاحب کی شہادت کی اطلاع مجھے کب اور کیسے ملی؟ تو میں نے پاکستان میں 4؍اپریل 1979ء کے اس تاریخی سانحہ کی تفصیل بتائی کہ ڈیٹرائٹ کے پاکستانی، امریکن وکیل شیخ (مرحوم) نے مقامی وقت کی نصف شب کے بعد مجھے کال کر کے اطلاع دی تو تصدیق کیلئے میر مرتضیٰ کو لندن فون کیا جو بشیر ریاض نے اٹھایا اور تصدیق کی۔ اگلی صبح بوبی کینیڈی جونیئر اور دیگر ایسے امریکی جو بھٹو صاحب کی زندگی بچانے میں سرگرم تھے مثلاً ریمزے کلارک وغیرہ کو فون کرکے اطلاع دی مگر وہ پہلے ہی اس پاکستانی اور عالمی سانحے سے باخبر تھے۔ آج بھٹو کی موت کو اپنے، پرائے حامی اور مخالف سب ہی ایک ناانصافی اور ایک عالمی المیہ قرار دیتے ہیں۔
https://jang.com.pk/news/473419
شہید ذوالفقار علی بھٹو… ایک مدبر رہنما
4اپریل پاکستان کی تاریخ کا ایسا سیاہ دن ہے جب 1979ء میںعظیم کرشماتی عوامی لیڈر شہید ذوالفقار
علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آمر کے ہاتھوں عدالتی قتل حقیقت میں انسانیت اور عوام الناس کے حق میں اٹھنے والی آواز کا قتل عام تھا۔ تاریخ، ایسے لیڈر کا قتل کبھی معاف نہیں کرے گی اور نہ کبھی فراموش کرے گی جو عوام الناس کی طاقت سے ہم کو چوٹی کی ترقی یافتہ، پرامن قوم بنانا اور پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانا چاہتا تھا۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ بھارت کی طرف سے خطرات لاحق رہیں گے، اس لئے اس نے اعلان کیا، ہم (پاکستان) گھاس کھا لیں گے اور بھوکے رہیں گے، لیکن ہم اپنا ایک ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے برسوں قبل سوویت روس کے ٹکڑے ہونے اور ایشیائی کے مستقبل کی پیش گوئی کر دی تھی۔
شہید زیڈ اے بھٹو نے عالمی دبائو کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ جیرالڈ فیو ہرسٹین جو اگست 1976ء کو لاہور میں اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنجری کسنجر کے درمیان ملاقات کا ایک عینی شاہد تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے یا اس پر کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا تھا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں اپنی قوم، اپنے ملک اور مسلم اُمہ کا درد تھا۔1974ء میں انہوں نے لاہور میں اسلامک سمٹ کانفرنس منعقد کرکے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے نئی تاریخ رقم کی وہ صرف اہم اور نمایاں قومی لیڈر ہی نہ تھے، مثالی مدبر سیاست دان بھی تھے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد مایوس اور دلبرداشتہ قوم کو نئی زندگی اور حوصلہ بخشا اور نوے ہزار جنگی قیدیوں کو وطن واپس لائے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت کی ذہنیت کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق رائے دہی کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے کیلئے کبھی تیار اور آمادہ نہ ہوگا، اس کیلئے انہوں نے تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھائی اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک ہی صورت ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے انہیں حق رائے دہی کی آزادی دی جائے۔ملک کئی دہائیوں تک آئین سے محروم رہا۔ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو قابل قبول آئین دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ پاکستان کے انتہائی کرشماتی سیاسی لیڈر تھے جو کبھی پاکستان میں گزرے ہیں۔ دنیا میں آج مسلمان بھائی اور بہنیں پاکستان کو بھٹو کا پاکستان کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے دوسرے ملکوں سے جہاں خیر سگالی کے تعلقات کی ابتدا کی وہاں چین کے ساتھ دوستی کی مضبوط اور پائیدار بنیاد رکھی جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں جس کے ثمرات آج پاک چین راہداری کی صورت میں سب آ رہے ہیں۔
عوام الناس کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب انہوں نے گونا گوں دبائو اور انہیں عبرتناک مثال بنا دینے کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور روکنے کی بات نہ مانی تو پاکستان کے دشمن ان کی جان کے در پے ہو گئے اور انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سی آئی اے نے جنرل ضیاء الحق کی مدد سے کمیونزم کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ برانڈ کے اسلام کی روشنی میں انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو جہادیوں کے روپ میں پروان چڑھایا۔ ان تمام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو پاکستان لا کر امریکہ کی مدد سے ضروری تربیت اور تیاری کے بعد افغانستان میں کارروائی کیلئے بھجوایا گیا۔ جنر ل ضیاء الحق نے اپنے امریکی آقائوں کی آواز اور خواہش پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو یقینی بنایا اور ایسا کرتے ہوئے اسے اس امر کا مطلق احساس نہ ہوا کہ امریکیوں کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد صدر ایوب خان کو کسی ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
قدرت نے جنرل ضیاء الحق اور ان کے تمام رفقائے کار سے، جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف آرمی ہائوس میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی موجودگی میں سازش تیار کی تھی، آرمی ہائوس میں قدرت نے انتقام لیا، اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈبلیو، جے کیسی نے اپنی یادداشتوں میں اس میٹنگ کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ ڈبلیو جے کیسی نے بیان کیا ہے کہ جنرل ضیاء کو اردن سے کس طرح آگے لایا گیا جہاں وہ فلسطینیوں کے خلاف خصوصی آپریشن پر مامور تھے۔ دلچسپ امر ہے کہ ائر کموڈور خاقان عباسی بھی اس زمانے میں اردن کی شاہی فضائیہ کے ساتھ بطور مشیر وابستہ تھے۔ دونوں اردن کے آرمی چیف کے زیر کمان تھے اور دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ آج کے وزیراعظم پاکستان مسٹر شاہد خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کے ورثے اور ان کے بچوں کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ یہ ورثہ جو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو مخالف ٹیم کی شکل میں پیدا کیا اس کا متصل چودھری ظہور الٰہی، خواجہ صفدر، غلام دستگیر خان، راجہ ظفر الحق اور میاں نوازشریف کی صورت میں جاری رہا۔
ایک دفعہ مجھے آرمی ہائوس کی ایک سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا کہ اس دن پاکستان کے چیف جسٹس نے سزائے موت بحال رکھی اور اس فیصلے پر داد و تحسین کی جا رہی تھی چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے جنرل ضیاء الحق اپنے سینئر رفقائے کار اور اپنے تیار کئے گئے سیاستدانوں سے مبارکباد وصول کر رہے تھے۔ شرمناک حد تک یہ لوگ ایک کرشماتی لیڈر کی موت کی خوشیاں منا رہے تھے جس نے پاکستان کی دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھا تھا۔
میں اس صبح ایک اور افسوسناک واقعہ سے دوچار ہوا جب سنا کہ چودھری ظہورالٰہی نے جسٹس انوارالحق سے وہ قلم مانگا ہے جس سے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا حکم نامہ تحریر کیا تھا۔ یہ فرمائش ویسٹرج ہائوس سے ہوئی تھی جہاں ان دنوں سپریم کورٹ کی پرانی عمارت واقع تھی۔ میں نے وہ پن دیکھا اور اس بدقسمت فیصلے کے اعلان پر ظہور پیلس میں خوشیوں کا ظہور بھی دیکھا
علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آمر کے ہاتھوں عدالتی قتل حقیقت میں انسانیت اور عوام الناس کے حق میں اٹھنے والی آواز کا قتل عام تھا۔ تاریخ، ایسے لیڈر کا قتل کبھی معاف نہیں کرے گی اور نہ کبھی فراموش کرے گی جو عوام الناس کی طاقت سے ہم کو چوٹی کی ترقی یافتہ، پرامن قوم بنانا اور پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانا چاہتا تھا۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ بھارت کی طرف سے خطرات لاحق رہیں گے، اس لئے اس نے اعلان کیا، ہم (پاکستان) گھاس کھا لیں گے اور بھوکے رہیں گے، لیکن ہم اپنا ایک ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے برسوں قبل سوویت روس کے ٹکڑے ہونے اور ایشیائی کے مستقبل کی پیش گوئی کر دی تھی۔
شہید زیڈ اے بھٹو نے عالمی دبائو کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ جیرالڈ فیو ہرسٹین جو اگست 1976ء کو لاہور میں اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنجری کسنجر کے درمیان ملاقات کا ایک عینی شاہد تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے یا اس پر کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا تھا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں اپنی قوم، اپنے ملک اور مسلم اُمہ کا درد تھا۔1974ء میں انہوں نے لاہور میں اسلامک سمٹ کانفرنس منعقد کرکے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے نئی تاریخ رقم کی وہ صرف اہم اور نمایاں قومی لیڈر ہی نہ تھے، مثالی مدبر سیاست دان بھی تھے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد مایوس اور دلبرداشتہ قوم کو نئی زندگی اور حوصلہ بخشا اور نوے ہزار جنگی قیدیوں کو وطن واپس لائے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت کی ذہنیت کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق رائے دہی کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے کیلئے کبھی تیار اور آمادہ نہ ہوگا، اس کیلئے انہوں نے تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھائی اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک ہی صورت ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے انہیں حق رائے دہی کی آزادی دی جائے۔ملک کئی دہائیوں تک آئین سے محروم رہا۔ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو قابل قبول آئین دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ پاکستان کے انتہائی کرشماتی سیاسی لیڈر تھے جو کبھی پاکستان میں گزرے ہیں۔ دنیا میں آج مسلمان بھائی اور بہنیں پاکستان کو بھٹو کا پاکستان کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے دوسرے ملکوں سے جہاں خیر سگالی کے تعلقات کی ابتدا کی وہاں چین کے ساتھ دوستی کی مضبوط اور پائیدار بنیاد رکھی جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں جس کے ثمرات آج پاک چین راہداری کی صورت میں سب آ رہے ہیں۔
عوام الناس کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب انہوں نے گونا گوں دبائو اور انہیں عبرتناک مثال بنا دینے کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور روکنے کی بات نہ مانی تو پاکستان کے دشمن ان کی جان کے در پے ہو گئے اور انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سی آئی اے نے جنرل ضیاء الحق کی مدد سے کمیونزم کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ برانڈ کے اسلام کی روشنی میں انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو جہادیوں کے روپ میں پروان چڑھایا۔ ان تمام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو پاکستان لا کر امریکہ کی مدد سے ضروری تربیت اور تیاری کے بعد افغانستان میں کارروائی کیلئے بھجوایا گیا۔ جنر ل ضیاء الحق نے اپنے امریکی آقائوں کی آواز اور خواہش پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو یقینی بنایا اور ایسا کرتے ہوئے اسے اس امر کا مطلق احساس نہ ہوا کہ امریکیوں کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد صدر ایوب خان کو کسی ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
قدرت نے جنرل ضیاء الحق اور ان کے تمام رفقائے کار سے، جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف آرمی ہائوس میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی موجودگی میں سازش تیار کی تھی، آرمی ہائوس میں قدرت نے انتقام لیا، اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈبلیو، جے کیسی نے اپنی یادداشتوں میں اس میٹنگ کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ ڈبلیو جے کیسی نے بیان کیا ہے کہ جنرل ضیاء کو اردن سے کس طرح آگے لایا گیا جہاں وہ فلسطینیوں کے خلاف خصوصی آپریشن پر مامور تھے۔ دلچسپ امر ہے کہ ائر کموڈور خاقان عباسی بھی اس زمانے میں اردن کی شاہی فضائیہ کے ساتھ بطور مشیر وابستہ تھے۔ دونوں اردن کے آرمی چیف کے زیر کمان تھے اور دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ آج کے وزیراعظم پاکستان مسٹر شاہد خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کے ورثے اور ان کے بچوں کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ یہ ورثہ جو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو مخالف ٹیم کی شکل میں پیدا کیا اس کا متصل چودھری ظہور الٰہی، خواجہ صفدر، غلام دستگیر خان، راجہ ظفر الحق اور میاں نوازشریف کی صورت میں جاری رہا۔
ایک دفعہ مجھے آرمی ہائوس کی ایک سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا کہ اس دن پاکستان کے چیف جسٹس نے سزائے موت بحال رکھی اور اس فیصلے پر داد و تحسین کی جا رہی تھی چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے جنرل ضیاء الحق اپنے سینئر رفقائے کار اور اپنے تیار کئے گئے سیاستدانوں سے مبارکباد وصول کر رہے تھے۔ شرمناک حد تک یہ لوگ ایک کرشماتی لیڈر کی موت کی خوشیاں منا رہے تھے جس نے پاکستان کی دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھا تھا۔
میں اس صبح ایک اور افسوسناک واقعہ سے دوچار ہوا جب سنا کہ چودھری ظہورالٰہی نے جسٹس انوارالحق سے وہ قلم مانگا ہے جس سے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا حکم نامہ تحریر کیا تھا۔ یہ فرمائش ویسٹرج ہائوس سے ہوئی تھی جہاں ان دنوں سپریم کورٹ کی پرانی عمارت واقع تھی۔ میں نے وہ پن دیکھا اور اس بدقسمت فیصلے کے اعلان پر ظہور پیلس میں خوشیوں کا ظہور بھی دیکھا
https://www.nawaiwaqt.com.pk/04-Apr-2018/798188
#AajBhiBhuttoZindaHai - Zulfikar Ali Bhutto’s political career in retrospect
Zulfikar Ali Bhutto returned to Pakistan after completing his studies in Berkeley and Oxford, and training as a barrister at Lincoln’s Inn, and joined President Iskander Mirza’s cabinet as the minister of commerce.
Mirza’s government was removed after a short stint. Bhutto was made the minister of Water and Power, Communications and Industry in the then army chief General Ayub Khan’s era, who had assumed the position of Chief Martial Law Administrator (CMLA) after removing Iskander Mirza’s government in a coup d’etat.
Gradually, Bhutto rose in influence and power as Ayub Khan’s reliance on him increased with the passage of time. The dictator trusted Bhutto so much that he made him the foreign minister of the country in 1963.
Bhutto was removed from power on July 5, 1977 by General Zia ul-Haque. He was sent to jail in the Mahmood Ali Kasuri murder case, filed by Kasuri’s son, lawyer and politician Ahmad Raza Kasuri. And he was finally sentenced to death in a 4-3 split decision of Supreme Court.
On his 39th death anniversary, let’s look at few highlights of Bhutto’s political career.
Zulfikar Ali Bhutto’s typical impassioned address to a huge public gathering.
Zulfikar Ali Bhutto’s Speech in UN Security Council as Foreign Minister during 1965 War with India Historic speech in UN Security Council by Zulfikar Ali Bhutto during the turbulent time in East Pakistan (Bangladesh). Zulfikar Ali Bhutto’s interview after taking over as the President and civilian Chief Martial Law Administrator on December 20, 1971 Zulfikar Ali Bhutto’s nuclear policy statement
#Pakistan - #PPP - #ShaheedZulfiqarAliBhutto - #AajBhiBhuttoZindaHai - Zulfiqar Ali Bhutto is still ruling the hearts of the people
Bashir Riaz
On March 18, 1978 the Chief Justice of Lahore High Court Molvi Mushtaq Hussain gave the Prime Minister of Pakistan Mr. Zulfiqar Ali Bhutto a death sentence in a false murder case. This decision was not surprising as it was according to the wishes of dictator Zia ul Haq who was constantly working towards removing Mr. Bhutto from Pakistan’s political landscape.
In October 1977, some PNA workers in London were already claiming that Mr. Bhutto will be hanged, indicating that the decision to hang Mr. Bhutto was made even before the trial. During that period, Begum Nusrat Bhutto gave an interview to Britain’s well-reputed newspaper The Guardian where she shared her fears that the military has made their final decision regarding getting rid of Mr. Bhutto. She was worried about General Zia’s ignoble intentions for her entire family. Begum Bhutto’s lawyer Mr. Yahya Bakhtiar stated in the Supreme Court of Pakistan his suspicion that the military rulers plan to run a false trial against Mr. Bhutto to deceive the public. He predicted that the trial will be made to reach its conclusion quickly and Mr. Bhutto will be shot dead. It is noteworthy that in October 1977, the trial had not even begun. What the weekly Mashriq had suspected in its editorial, was verified on March 18, 1978 in Molvi Mushtaq Hussain’s decision of death sentence for Mr. Bhutto.
The news of Mr. Bhutto’s death sentence spread like a wildfire. Pakistanis and Kashmiris felt devastated by this latest blow by the military ruler. In a London newspaper, the then British Prime Minister, Mr. Edward Heath commented on Pakistani court’s decision saying that it was a sad decision which would have long lasting and dire consequences for Pakistan. He also praised Mr. Bhutto’s political wisdom. Other British leaders as well as leaders from around the world condemned the decision to hang Mr. Bhutto. The next day, Pakistanis registered a strong protest where the youth and the older generation participated with equal fervor. The streets echoed with slogans of “long live Quaid-e-Awam” and “death to dictatorship”. The Pakistanis demanded immediate release of their beloved leader.
An eminent British lawyer Sir John Matthew visited Pakistan to witness the trial. Upon his return from Pakistan, I happened to meet him in his office and he shared that if such a case was presented in the British courts, the case would have been immediately dismissed. He further observed that the way case proceedings were happening, it does not promise to deliver justice. Moreover, he said that the partial attitude of the Chief Justice gave away the fact that the decision would be given against Mr. Bhutto.
Mir Murtaza Bhutto went from Oxford to London and organized a protest in Birmingham. He himself led the protest which was attended by thousands of protestors. The streets in Birmingham witnessed slogans of “Bhutto is Innocent”, Death to General Zia”, “Restore Democracy”, and “Release Bhutto”. In his address to the people, Mir Murtaza Bhutto said that Mr. Zia is conspiring to murder Mr. Bhutto and only with the help of the Pakistani people we would be able to start a global campaign to save people’s beloved leader. The protest received prominent coverage in the local papers of Birmingham. This protest was the beginning of world-wide protests against Bhutto’s sentence. British Pakistanis and Kashmiri joined hands and protests started in front of Pakistani High Commissions. Hyde Park in London became a symbol for restoration of democracy.
After the fateful day in April, the emotions demonstrated in the protests brought tears to the eyes of the local residents.
After Pakistan’s first Prime Minister, Mr. Zulfikar Ali Bhutto was hanged; all the major newspapers of the world commented on the decision and called it a political murder and injustice against Mr. Bhutto. A lot of papers even named the Chief Justice and stated that his partial decision could not stay hidden from the world.
It has been 39 years since Mr. Bhutto left us. Shaheed Muhatarma Benazir Bhutto said in a television interview that she does not believe in the politics of revenge. I have left the matter of justice in the hands of God. Later, the world saw that her faith was vindicated by history. Indeed, you reap what you sow. The ashes of those who devised the plan of Mr. Bhutto’s murder have become lost in the annals of history. On the other hand, Bhutto, whose name was attempted to be erased from history, is alive even today.
#Pakistan - #PPP - #ShaheedZulfiqarAliBhutto - #AajBhiBhuttoZindaHai - Zulfiqar Ali Bhutto – a visionary leader
By Senator Rehman Malik
4th April is a black day in the history of Pakistan; that witnessed the judicial murder of a great charismatic public leader Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto in 1979 – a day that was actually the death of humanity and the voice of the masses.
History will neither forgive nor forget the murder of a leader who wanted to make us progressive and peaceful, take us towards national integrity and prosperity by empowering the masses, and by making Pakistan the first Muslim nuclear power in the world. He had feared that Pakistan will be exposed to external danger by the neighboring India therefore announced “we (Pakistan) will eat grass, even go hungry, but we will get one of our own (Atom bomb), we have no other choice”.
Bhutto refused to succumb to the international pressure to roll back Pakistan’s nuclear programme. Gerald Feuerstein, who was a witness to the meeting between the then Prime Minister Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto and then US secretary of State Henry Kissinger in Lahore in August 1976, had admitted in an interview that Bhutto rejected the warning to roll back or compromise over Pakistan’s nuclear programme.
Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto had pain in his heart for his people, country and Muslim ummah, and he made history by bringing the Muslim ummah on one platform during Islamic Summit Conference in Lahore in 1974. He was not only a distinguished national leader but also an unparalleled statesman who revived a broken nation after the disaster of the fall of Dhaka by bringing back 90,000 prisoners of war.
The public must know that the enemies of Pakistan decided his elimination after refused the rollback of the nuclear programme despite the numerous pressures and threats of making him a “horrible example.
The CIA hatched a plan to block communism, using Islam through General Zia ul Haq. He preached his own brand of Islam wherein he promoted extremists, terrorists and all kind of criminals under the name of Jehadis. These extremists and criminal elements were brought and nourished by USA in Pakistan for launching them in Afghanistan to operate.
The then director CIA W. J Casey has disclosed the details of the meeting in his memoirs where, inter alia, CIA Director W. J Casey narrates as to how Gen. Zia was recruited while he was specially posted in Jordon for operation against Palestinians. Interestingly, it is same era when Air Commodore Khaqan Abbasi was also posted as the advisor of Royal Jordanian Air Force and both Zia ul Haq and Khaqan Abbasi remained under the command of Army Chief of Jordon and became good friends. Today’s Prime Minister of Pakistan, Mr. Shahid Khaqan Abbasi, grew under the legacy and with the children of General Zia Ul Haq. The legacy continued where General Zia ul Haq raised his team consisting of anti-Bhutto politicians, which included Chaudhary Zahoor Elahi, Khawaja Safder, Ghulam Dastgir Khan, Raja Zafar ul Haq and Mian Nawaz Sharif.
Once I got an invitation for an official function in the Army House, but it was the unfortunate black day in the history of Pakistan as on the same day the Chief Justice of Pakistan had upheld the death sentence and was smartly dressed with his grey hairs and was receiving congratulation for his judgment. General Zia ul Haq standing next to the Chief Justice was also receiving greetings from his own created politicians and his senior colleagues. Shamelessly they all had no feelings for remorse and were celebrating the death of a charismatic leader who had dreamed of Pakistan leading the world.
I had seen another shock episode in the said morning when Ch. Zahoor Elahi called Justice Anwar Ul Haq asking him to send the pen which was used for writing the death sentence to Zulfiqar Ali Bhutto. This call was made from Westridge House, where the old building of Supreme Court was situated. I saw that pen and the barefaced happiness in the Zahoor place on the announcement of that unfortunate judgment. Finally, I heard that the Army aviation has done a rehearsal to carry the body of Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto. It was shocking and unbelievable that next morning when I heard Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto was hanged and buried quietly.
They killed and buried Bhutto mysteriously but hid bravest daughter, Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto, the first woman prime minister of the Muslim world, marked the political rebirth of her father Zulfiqar Ali Bhutto’s legacy. She suffered the most in the hands of Zia ul Haq and his remnants but eventually she witnessed the crashing of C-130B Hercules aircraft where even remains of the body of Zia-ul-Haq could not be found. The wrath of Allah also fell on Justice Moulvi Mushtaq who had awarded death sentence to Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto. Honeybees attacked his funeral and the mourners had to flee from the graveyard leaving his coffin unattended.
As Director FIA, I had taken upon myself to look into the old files of the judicial murder of Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto, where I had found some tampered documents and would soon write a book detailing the conspiracy behind Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto’s ‘judicial murder’, which was carried out with a premeditated plan. General Ziaul Haq’s government changed the documents but the entire world declared it a ‘judicial murder’. I appreciate the honesty of the then Director Law of FIA who had clearly stated the shells of the bullets were replaced, witnesses were tampered, and Masood Mahmood was tutored under duress.
General Zia ul Haq tried to eliminate Bhuttoism by killing Zulfiqar Ali Bhutto but he still rules the hearts of the people while Zia ul Haq was made a disgrace for the rest of the world. We know almost all those Muslim leaders who participated in the Second Islamic Summit Conference held from February 22-24, 1974 in Lahore died unnatural deaths. Undoubtedly, the killing of all these Muslim leaders cannot be a coincidence but an operation to punish them and to give a message to the Muslim world.
I, in my humble capacity, will soon expose those facts, which are buried in files and from those who are mum. We, PPP workers and President Asif Ali Zardari, filed a reference to Supreme Court but the then Chief Justice Iftikhar Muhammad Chaudhary did not proceed on it. I, therefore, appeal to the present the Chief Justice to take up this case to vindicate position of Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto.
Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto was a distinguished leader in the history of Pakistan who gave a lesson of peace and humanity to the rest of the world and gave voice to the poor and oppressed people of Pakistan and empowered them to stand for their rights. I had the honor to work with three Bhuttos, first with Shaheed Zulfiqar Ali Bhutto, and thereafter Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto - my leader, mentor and sister, and followed by Asif Ali Zardari and Bilawal Bhutto Zardari – the only hope for Pakistan’s future. And, I feel proud to have personal and political association with the Bhutto and Zardari family. Like Shaheed Mohtarma Benazir Bhutto who carried on the Bhutto’s legacy more powerfully and bravely, I find the same bravery, wisdom, vision and far-sightedness in Bilawal Bhutto Zardari.
Bhutto’s ideology was popular throughout the world and he laid down his life but didn’t let Pakistan’s nuclear programme be derailed and didn’t compromise on his towering principles. He could have saved his life if had compromised with a dictator, which was an impossible act for a leader of the people. Today, Pakistan is secure only due to Bhutto’s vision and the future would belong to PPP leader Bilawal Bhutto Zardari, as he is the only one who truly has the guts to fill in Zulfiqar Ali Bhutto’s boots. “Bilawal is the future prime minister of Pakistan InshaAllah so the people can find their favorite leader Bhutto again among themselves”.
#Pakistan - #PPP - #ShaheedZulfiqarAliBhutto - #AajBhiBhuttoZindaHai - SALUTE TO Z A BHUTTO !!!!!!!!!!!!!!!!!
By M.Waqar
Zulfikar Ali Bhutto was executed on April 4, 1979, a darkest day in the history of Pakistan. Bhutto wrote a book from his death cell, Titled "If I am assassinated," its last pages contained a quote from Russian author Nikolai Dostoevsky: "Man's dearest possession is his life, and since it is given to him to live but once, he must so live as not to be scared with the shame of a cowardly and trivial past, so as not to be tortured for years without purpose, that dying he can say, 'All my life and my strength were given to the first cause in the world - the liberation of mankind.' " As death stared the Z.A Bhutto in the face, he stared back. His past has no shame of cowardice. His daughter, too, gave her life in courage. "If India builds the bomb we will eat grass or leaves, we will go hungry. But we will get one of our own." This statement by Zulfiar Ali Bhutto should open up our eyes and bring back the passion of patriotism, unity and love for each others for the sake of Pakistan.
I would like to express that this man is and was hero of Pakistan. Historians, Retired Judges of the Superior Courts and eminent lawyers have now unanimously admitted that Mr. Z.A Bhutto was hanged by a military dictator General Zia-Ul Haq by orchestrating a judicial trial to get rid of a popular leader. He gave Pakistan its first constitution, nuclear programme, held peace talks with India and brought 90,000 POW who were in Indian prison and were going to face war crimes. He liberated the small farmers and peasants from the repression and cruelty of big landlords and banished the jagirdari and sardari system declaring that all citizens are born equal and must live with equal rights. Z.A Bhutto was a Legend, who lived and died like a hero with courage, determination and devotion to his principles, when cruel dictator Zia was going to kill him, Z.A Bhutto could sign few papers and could live in exile but he was a real man, he was not a coward. He too could have made a deal and lived to fight another day; but only great men with principles sacrifice their life for their cause. Zulfikar Ali Bhutto earned everlasting fame in the pantheon of leaders from the Third World in the struggle against colonialism and imperialism. He had the privilege of interacting with many of those leaders who played a great role in the epic struggle for national independence in the 20th Century including Mao Tse Tung, Soekarno, Chou-en Lai, and Gamal Abdel Nasser. He belonged to a category of anti-imperialist leaders who included Jamal Nasir of Egypt and Jawahir Lal Nehru of India. He was a brilliant Diplomat who negotiated some of Pakistan's most enduring diplomatic policies as well as bargaining from a position of weakness against Indira Gandhi in Simla.
He was a great diplomat; there is a story that the American President John F. Kennedy was much impressed with then Foreign Minister Zulfikar Ali Bhutto. When they met, Kennedy walked with him in the Rose Garden and said, "Bhutto, if you were an American, you would be in my Cabinet". To which Zulfikar Ali Bhutto smilingly replied, "No, Mr. President. If I were an American, you would be in my cabinet". A Pan Islamic socialist who weakened the Feudal and tribal system.. He also pushed through Pakistan's nuclear programme despite enormous International pressure. He was also a brilliant politician whose popularity and powerful speeches impressed even his worst opponents. It took a great man to get Pakistan out of the 71 trauma. A dynamic leader, who stood up against imperialism and looked to China and other progressive countries for an alliance. When he was Prime Minister, the country prospered and was set on a course of industrial and agricultural development. He gained popularity in villages and poor industrial areas. Bhutto was the only true leader in our history who gave us constitution, identity in international relations. You will be surprised to know when Bhutto became as Foreign Minister, at that time; we did not have ambassador level relations with so many big countries of the world like Indonesia etc. He empowers the poor of his country. Such people like Z.A BHUTTO are born rarely, who will forget his capabilities as an extempore speaker, as an writer, as an diplomat, as an leader and above all as lover of poor. On the day of his martyrdom his opponents called him as a culprit but same are now calling him as an innocent. The simple reason for this is that Zia tried his best to create divisions among people in order to finish the popularity of Bhutto.
The irony is all those who hatched conspiracy against him are no more in this mortal world, all of them died a horrible death. Bhutto was the greatest leader we can think in the modern history. In his book "If I Am Assassinated", Bhutto clearly mentions his fear of 120 million Pakistanis under a defenseless sky in comparison to a nuclear India. What a vision! India could have swallowed Pakistan long ago if thanks to Bhutto we were not an atomic power.
On the economic front Bhutto vision for nationalization was that Pakistanis will work hard like Chinese, but here Pakistanis failed him. The labor and the management of nationalized industry had no interest to take advantage of this opportunity. Using this as a golden opportunity, the industrialists, bureaucrats, and above all corrupt army declared him as an unsuccessful leader. Bhutto loved poor and poor loved Bhutto. This relationship is ever lasting. The first leader who legislated labor laws and enforced in Pakistan and nobody could do it till now. This is the reason of his popularity among labors. He tried to unite the Islamic world.
Pakistan is still under developing country because Bhutto is not alive. Z.A Bhutto is the first person in Pakistan who has given the voice to the common people. Z.A Bhutto was great charismatic leader, man of masses, top class negotiator, excellent communicator, a visionary, known for mercurial brilliance, wit and a highly well read person. He attracted mammoth crowds where ever he addressed public meetings even in remote regions of the country. He was a man of masses because of his personal charm and charisma and the one who spoke in the language of workers, laborers, peasants and the people in the streets. He would make the people feel that he was one of them, understood them, had solutions to their problems and give them roti, kapra aur makan. He might have given all these things to them if his government had not become target of the establishment's conspiracies. ZA Bhutto's Powerful Political Legacy Cannot be eliminated. In no time Bhutto had made a tremendous impact all around. As Minister for Fuel and Power, he had diverse explorers tapping into Pakistan's underground hidden energy resources. For the first time Russians were involved in oil and gas exploration. His time as Minister for Science and Technology was well spent. He could measure the advancements made by India in the atomic field. I can't help grieving the tragic death of a Hero who paid with his life to set an ultimate example of principled politics.
I hope we honor Shaheed Bhutto by giving to the weak and less fortunate people of Pakistan the gift of unconditional empowerment through democracy and moral governance and not trade his dream for our illusions. Bourgeois battled Bhutto's populist economic and political enforcement, the bourgeois and the petty-bourgeois became ready instruments in carrying out their social propaganda against Bhutto. He was the man behind introducing democracy in the country by kicking out the dictatorial rule and finally gave a consensus constitution of 1973 with guarantees to basic human rights under the supremacy of parliament. Cruel dictators like Zia and Musharraf are responsible for bringing fundamentalists into the corridor of power, Mush, who is now trumping against them just an eye wash. Political Leaders must posses' qualities of power, vision, ethics, courage, knowledge, decision making, integrity, enthusiasms and devotion and should have principles, Z.A BHUTTO had all those qualities. Mr. Bhutto lived consciously to make history and to leave a legacy in the form of the development of his nation. He is right credited with saving Pakistan at the darkest moment of its history, as French President Giscardd' Estaing said he was the man,'' who incarnated Pakistan at a dramatic hour of its history''.
Z A BHUTTO was indeed a great leader, a leader we must salute today; who gave voice to the voiceless and helped them shape their own destiny. It was under his leadership that every Pakistani given the right to passport. Education was nationalized and made available to every child. Scores of Universities were built to turn the children of the discriminated and downtrodden into lawyers, doctors and engineers liberating them from a destiny of backwardness. Bhutto pushed politics out of the posh drawing rooms into real Pakistan-into the muddy lanes and villages of the poor. The ever-lasting contribution of Bhutto was to raise the consciousness of the people for democracy. He awakened the masses, making them realize they were the legitimate fountainhead of political power. He enlightened the peasants, the industrial workers, the students, the women and the rest of the common people of their importance and of their right of franchise, which is the definite means of bringing changes and improvement in the lives of the common people. He deeply cherished democracy and democratic values and in the end gave his life for the cause of freedom. In the case of Pakistan, he viewed military rule as a negation of the very genesis of the country that came into being as a result of a democratic process and a vote.
Today as the Nation pays tribute to one of its greatest sons; it is destined to move forward in the spirit of Federalism, Democracy, Autonomy and Egalitarianism which he lit through his example of courage in the defense of principles and ideals. Z.A BHUTTO was a people leader, a legend and a poet and he remained so till the last breath in his body. He was a true revolutionary; his revolution was against imperialism, against bourgeois. He was a charismatic leader and his charisma still rules the nation. Z.A Bhutto ruled the hearts of people when he was alive and till date he rules their hearts. Z.A Bhutto was a principled friend to the poor, downtrodden and oppressed. He was fearless in his beliefs and refused to bow before any man or power other than the Almighty. His contributions to an impregnable Pakistan are seen in the Kamra Aeronautical factory, Heavy Mechanical Complex at Taxila, modernization of Karachi Shipyard, creation of precision engineering works, Pakistan Steel Mills, Port Qasim, Pakistan Automobile Corporation to name a few. By signing the Simla Accord of 1972 he negotiated longest peace between India and Pakistan. His social reforms laid the foundation of an egalitarian society, his non-aligned foreign policy earned Pakistan respect in the comity of nations. He lifted the nation drowning in a sea of despair to Himalayan heights. The death cell in which his killers kept him failed to break his will or his determination to challenge military rule and stand up as the leader of the people. Bhutto was a modernizer and saw nationalism as the key to unity. He rejected fanaticism. He gave pride to the poor. As leader of the Third World he spoke boldly against racism, colonialism and imperialism. He fearlessly defended the right of nations to independence. When the 1973 Ramadan War broke out, he sent Pakistan's military to defend the borders of the Muslim countries including the Golan Heights of Syria. Bhutto's short life of fifty years was spent in the service of many international, regional and national causes.
Today Pakistan is at the crossroads. Its policies relating to Nuclear, Taliban, India, Militancy, Religious Parties, Democracy and Economy are in shambles. Shaheed Bhutto believed that the army could protect its institutional competence by keeping out of politics. He said, "Those soldiers who leave the barracks to move into Government mansions lose wars and become prisoners of war as happened in 1971; his words reverberate as a warning and a guide to the country to save its honor, respect, pride and position by reverting to the golden principles that gave it birth. April 4 falls at a time when Pakistan is faced with a critical situation. The dark shadow of military dictatorship clouds the political horizon and spawns fissiparous tendencies striking at the solidarity of the country. Rocket launchers and bomb blasts kill innocents while the military is involved in operations against its own people. The rise of the suicide bomber and armed struggle is reminiscent of an earlier military dictatorship. The tyranny of General Zia's military rule led to the Kalashnikov culture where young men picked up automatic weapons. That culture has reasserted itself under the military dictatorship of General Musharraf. Except that the weapons are more dangerous than the Kalashnikovs of yesterday. Every time a General ruled Pakistan, innocent people were being killed. Today many people in Pakistan must be scared as Mr. Zardari is shaking hands with MQM, let's not forget that Mr. Bhutto and Benazir were killed by two presidents,who supported MQM.As Asfand Wali Khan has some reservations about MQM,I agree with him.
Z.A Bhutto was born in 1928. He was martyred in 1979. Yet he lives in the hearts and minds of the people still shining like a star that brightens the sky motivating those caught in the prisons of oppression. No doubt, the age of Bhutto was an age of revolution. At the time of his over throw; Bhutto was emerging as a spokesman of the world of Islam and the leader of the third world. Although his life and political career were cruelly terminated, Zulfikar Ali Bhutto will always be remembered as one of the great leaders who took part in the liberation of the third world from the yoke of Imperialism and Neo Colonialism during the twentieth century. "It is better to live like a lion for one day than to live like a jackal for a thousand." Z.A.BHUTTO''.
Long Live Bhuttoism!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
جب خوابوں کا قتل ہُوا - #AajBhiBhuttoZindaHai
خصوصی رپورٹ: فاروق اقدس
قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی 39ویں برسی آج ملک بھر میں عقیدت
واحترام سے منائی جارہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے زیر اہتمام مختلف تقاریب ہوں گی۔ جس میں بھٹو کی سحر انگیز شخصیت اور جمہوریت کے لیے اُن کی خدمات پر روشنی ڈالی جائے گی۔ راولپنڈی میں پھانسی گھاٹ سمیت مختلف مقامات پر قرآن خوانی کی محافل ہونگی۔ سب سے بڑی تقریب گڑھی خدا بخش میں ہوگی۔ برسی میں شرکت کیلئے ملک بھر سے جیالوں کے
قافلے تقریب میں شرکت کری
تاریخ کے اوراق میں بھٹو کا حوالہ کسی قوم یا قبیلے سے نہیں بلکہ بھارت کے ضلع حصار میں اس نام سے ایک گاؤں تھا جو اب بھی دریائے سرسوتی کے کنارے آباد ہے۔ اس دریا کے خشک ہونے کے باعث جب وہاں قحط پڑا تو برسہا برس سے آباد وہاں کے مکینوں نے نقل مکانی کی اور لاڑکانہ میں آباد ہوئے ۔
تاہم بھٹو گاؤں کی نسبت سے بھٹو خاندان بھٹو کہلایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پیدائش پانچ جنوری 1928 کو لاڑکانہ میں ہی ہوئی جو سرشاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ۔ جنہیں حکومت برطانیہ نے سرکا خطاب دیاتھا۔ کیونکہ سیاست ہند میں اُنہیں ایک اہم حیثیت اور بڑا مقام حاصل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے خاندانی پس منظر ، حسب نسب اپنی اعلیٰ تعلیم و تربیت اور پھر بعد میں عوام کی پسندیدگی ، مقبولیت اور بین الاقوامی سطح پر پذیرائی پر بھی بڑا زغم تھا جو ایک فطری سے بات تھی اور یہی وجہ تھی کہ اُن کے ناقدین اُنہیں قدرے خود سر، انا پرست اور فیصلوں میں عدم مشاورت کرنے والی شخصیت بھی قرار دیتے تھے ۔ اور اُن کی غیر فطری موت کو انہی عوامل کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ واقعہ بھی بر محل ہوگا کہ جو ریکارڈ پر ہے ۔
جنرل ضیاء الحق کے بعض رفقا اُنہیں یہ مشورے دے رہے تھے کہ بھٹو کو پھانسی دینے کی بجائے اُن سے رحم کی اپیل کراکے اُن سے ضمانتیں حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک جانے پر آمادہ کرلیا جائے تو یہ زیادہ مناسب فیصلہ ہوگا لیکن جواب میں جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کی اس گفتگو کا حوالہ دیا کرتے تھے جس میں وہ اپنی نجی محفلوں میں جرنیلوں کو الٹالٹکانے والی باتیں کیا کرتے تھے ۔ بہر حال ایک آخری کوشش کے طور پر ایک اعلیٰ افسر کو جیل میں بھٹو صاحب کے پاس بھیجا گیا۔ اُس وقت بھٹو صاحب کی کیفیات خاصی خراب تھیں ، مذکورہ افسر نے بھٹو صاحب کے سامنے رحم کی اپیل کی دستاویزات رکھیں اور اُنہیں فوجی حکومت کی پیشکش کو ’’اشارتاً‘‘ بیان کرتے ہوئے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے قائل کیا۔ مذکورہ افسر کے مطابق بھٹو صاحب نے دستاویزات پر نگاہ ڈالے بغیر مجھ سے پوچھا ۔
تم جانتے ہو میں کس باپ کا بیٹا ہوں ۔ تو میں نے فوراً کہا جی سر ۔ آپ سر شاہنوازکے بیٹے ہیں ۔ پھر انہوں نے کہا کہ ۔ کیا تمہیں ضیاء الحق کے باپ کا نام معلوم ہے ؟ میری خاموشی پر انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق اور مجھ میں بہت فرق ہے ۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ سر شاہنواز کا بیٹا ایک فوجی جنرل سے رحم کی اپیل کرے گا۔ ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں۔۔۔ اور بات ختم ہوگئی۔
تاہم اُس وقت کی تمام صورتحال سے آگہی رکھنے اور معاملات سے متعلق شخصیات کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی زندگی کے لئے معافی مانگ لیتے اپیل کر دیتے تو پھر بھی جنرل ضیاء الحق کسی صورت بھی انہیں معاف نہیں کرتے اور معافی مانگ کر بھٹو صاحب کو تاریخ اور ان کے مخالفین ایک بزدل سیاستدان قرار دیتے۔
در حقیقت جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو ختم کرنے کا فیصلہ ایک خوف کے عالم میں کیا۔ یہ خوف کیا تھا اس کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو معزولی کے بعد پہلی مرتبہ مری سے راولپنڈی لایا گیا اور پھر وہ لاہور گئے تو ان کے شاندار استقبال کے لئے وہاں جمع ہونے والے لوگوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کئی زیادہ تھی جو انتہائی پر جوش تھے اور عینی شاہد بتاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کے کارکنوں کا جو واقعی جیالے تھے اگر بھٹو صاحب حکم کرتے کہ’’ مجھے ایک آمر سے پناہ دو تو یہ کارکن انہیں حصار میں لے لیتے اور منظر بھی بدل جاتا اور تاریخ بھی‘‘۔ ضیاء الحق نے صورتحال کو بھانپ لیا تھا اور وہ سمجھ گیا تھا کہ اگر میں نے بھٹو کو زندگی بخش دی تو میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی اسی خوف کے عالم میں جنرل ضیاء الحق نے ہر صورت میں بھٹو صاحب کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کیا۔
یہ بات بھی ریکارڈ سے ثابت ہوچکی ہے کہ بھٹو صاحب کو تین اور چار اپریل کی درمیانی شب لگ بھگ دو بجے پھانسی دی گئی یہ ایک غیر معمولی بات تھی کیونکہ پھانسی علی الصبح دی جاتی ہے اور یہ عمل انتہائی خاموشی اور رازداری کے انداز میں انجام دیا گیا۔اتنی رازداری سے بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کا علم محض چند لوگوں کو ہی تھا اور ان کے بیرونی رابطے منقطع کر کے باہر جانے کے تمام راستوں پر بھی سخت پہرا تھا احکامات تھے کہ جب تک اجازت نہ دی جائے جیل میں کسی قسم کی بھی نقل و حرکت نہیں ہوگی۔ رات دو بجے پھانسی دینے کا مقصد یہ تھا کہ صبح ہونے سے پہلے یہ عمل مکمل ہوجائے اور ڈیڈ باڈی وہاں سے روانہ کر دی جائے۔
انتظامیہ کے اعلیٰ حکام اور جیل کے اعلیٰ افسران کو ایک دو کو چھوڑ کر جنکی اس عمل میں موجودگی لازمی تھی بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کے بارے میں بھی اس علم ہوا جب صبح سات بجے ان کا ’’ڈیتھ وارنٹ‘‘ جاری ہوا۔ انتظامیہ اور جیل حکام اس کے باوجود اس خبر پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے ان کا خیال تھا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جو بھٹو صاحب کو خوفزدہ کرنے کے لئے رچایا جارہا ہے۔
انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا خیال تھا کہ شاید بھٹو صاحب کو میانوالی جیل منتقل کیا جارہا ہے اور انہیں وہاں پھانسی دی جائے گی کیونکہ راولپنڈی میں یہ خبر پھیلنے سے ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ فوری طور پر پہنچ جائے گا اور پھر کارکنوں کی طرف سے فوری اور کسی جذباتی رد عمل کا بھی خطرہ تھا۔
پھر اس وقت صرف پاکستان پیپلزپارٹی میں ہی نہیں بلکہ دیگر حلقوں میں بھی ایسی باتیں ہورہی تھیں کہ یاسر عرفات اور قذافی سمیت اسلامی دنیا کے اہم لیڈر جو بھٹو صاحب سے ذاتی تعلقات رکھتے تھے وہ عین موقع پر ان کی رہائی کے لئے کوئی بڑا اقدام کر سکتے ہیں افواہیں گرم تھیں قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں جن میں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ رات کی تاریکی میں کسی اسلامی ملک کا طیارہ جیل سے بھٹو صاحب کو لیکر پرواز کر جائے گا۔ لیکن ایسا کچھ بھی نہ ہوا اور بھٹو صاحب کو طے شدہ منصوبے کے تحت تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
یہ سوال بار بار ہوتا تھا کہ مختلف مسلم ممالک کے سربراہوں نے جنرل ضیاء الحق سے بار بار بھٹو صاحب کی جاں بخشی کے لئے اپیلیں کیں۔ جنرل ضیاء الحق پر اپنا ذاتی اثرو رسوخ بھی استعمال کیا۔
یہ یقین دھانی بھی کرائی کہ ہم بھٹو کو اپنے پاس پناہ دیتے ہیں وہ آپ کے معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن جنرل ضیاء کی طرف سے انکار ناقابل فہم تھا۔ اس حوالے سے بین الاقوامی شہرت یافتہ لکھاری اوربائیں بازو کی تحریکوں کے حوالے سے معروف طارق علی کا ایک انٹرویو کا حوالہ قابل ذکر ہے۔
1985 میں انہیں برطانوی نشریاتی ادارے نے بھٹو حکومت ختم کئے جانے اور انہیں پھانسی دیئے جانے کے حوالے سے تین ڈرامے لکھنے کی پیشکش کی گئی تھی، انہوں نے یہ ڈرامے تحریر کیے اور بھارتی اداکار نصیر الدین شاہ کو بھٹو صاحب کا کردار اور ضیاء محی الدین کو جنرل ضیاء الحق کا کردار کرنے کے لئے منتخب بھی کر لیا گیا کہ غیر متوقع طور پر ڈرامے کے سکرپٹ انتظامیہ کے اعلیٰ حکام نے منگا لیے جس کے بعد اس منصوبے پر خاموش ہوگئی۔ طارق علی اپنے انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ میرے استفسار پر مجھے بتایا گیا کہ مارک ٹیلی (معروف برطانوی صحافی) آپ سے ملنے کے لئے آرہے ہیں آپ ان سے بات کریں۔ میری مارک ٹیلی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے گفتگو کے دوران ایک موقع پر کہا کہ طارق تم نے اپنے سکرپٹ میں ایک جگہ برہنہ لفظوں میں تحریر کیا ہے کہ واشنگٹن کی رضا مندی اور اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی اجازت کے بغیر جنرل ضیاء الحق بھٹو کو پھانسی نہیں دے سکتے تھے۔
مارک ٹیلی کا کہنا تھا کہ بھٹو کی پھانسی کےو قت میں بھی پاکستان میں ہی تھا لیکن میں نے ایسی بات نہیں سنی جس پر میں نے اسے کہا کہ کیا تم نے اس حوالے سے امریکی سفارتخانے کے کسی باخبر سے رابطہ کیا تھا۔
میرے انکار پر اس نے بحث ختم کرنے کے لئے مطلب کی بات کی اور مجھ سے پوچھا کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ تم اپنے سکرپٹ میں سے یہ حصہ حذف کر دو کیونکہ امریکنز کا خیال ہے جنرل ضیاء الحق جس طرح ان کی مدد کر رہے ہیں اور بالخصوص افغانستان میں ان کے مقاصد کی تکمیل کر رہے ہیں واشنگٹن انہیں کسی طرح ناراض نہیں کرسکتا۔
تاہم میں نے انکار کرتے ہوئے اس موضوع کو ختم کر دیا۔ اس کے بعد طارق علی نے ان سکرپٹس کو کتابی شکل دی جو The Leapord and the Fox کے نام سے شائع ہوئی اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو لیپرڈ کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
اپنے ایک انٹرویو میں طارق علی نے جنرل ضیاء الحق پر امریکی آشیرآباد کے حوالے سے یہ بھی کہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی عسکری تربیت کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزرا اور پھر بحیثیت بریگیڈئیر ان کی تعیناتی بطور خاص اردن میں کی گئی جہاں انہوں نے مبینہ طور پر فلسطینیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی جسے وہ آج تک نہیں بھولے۔
یہ 3 اپریل کی شب تھی جب راولپنڈی کے اڈیالہ جیل میں ہر طرف موت کا ایک سکوت طاری تھا ۔ ایک پراسرار سی خاموشی جس میں ایک نئی تاریخ لکھی جانے کی تیاری ہورہی تھی ، ایک عہد جو ایک کربناک ماضی بننے والا تھا ۔ سوائے چند لوگوں کے کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا کہ جب 4 اپریل کی صبح کا سورج نکلے گا تو کتنا بڑا چاند ہمیشہ ہمیشہ کیلئے غروب ہوچکا ہوگا۔اس موقع پر موجود عینی شاہد بہت کچھ دیکھنے والے اور پھر اُسے تحریر کرنے والے لکھتے ہیں ۔
بتاتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ رات کی تاریکی کائنات کی ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لینے لگی تو جیل حکام دوبارہ مسٹر بھٹو کے پاس پہنچے ۔ سپرنٹنڈنٹ جیل نے ان سے کہا "آج رات آپ کو پھانسی دے دی جائے گی۔"مسٹر بھٹو منہ سے کچھ نہ بولے ٗ خاموشی سے ٹکٹکی باندھے سپرنٹنڈنٹ جیل کو گھورتے رہے ۔
ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی گھمبیر سنجیدگی دیکھی تو انہیں پہلی بار لمحہ بھر کے لیے محسوس ہوا کہ یہ خبر درست بھی ہوسکتی ہے تاہم اب بھی ان کا ردعمل یہی تھا کہ انہیں خوف زدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ڈاکٹر نے قاعدہ کے مطابق ان کاطبی معائنہ کیا اور حکام کو بتایا کہ مجرم کی صحت بالکل ٹھیک ہے ٗ اسے پھانسی دی جاسکتی ہے ۔سپرنٹنڈنٹ جیل اور دوسرے عہدے دار واپس جانے لگے تو مسٹربھٹو نے کہا مجھے شیو کا سامان فراہم کیاجائے ۔
انہوں نے کئی دن سے شیو نہیں کی تھی جس سے داڑھی کافی بڑھی ہوئی تھی ۔ مسٹربھٹو نے بڑھی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انگریز ی میں کہا کہ’’ میں اس داڑھی کے ساتھ نہیں مرنا چاہتا‘‘۔ انہوں نے یہ خواہش بھی ظاہر کی کہ انہیں ایک جائے نماز اور تسبیح بھی فراہم کی جائے ۔
یہ پہلا موقع تھا کہ انہوں نے اس طرح کی خواہش ظاہر کی ۔ ورنہ اس سے پہلے ایک موقع پر جب اخباروں میں یہ خبر چھپی کہ مسٹر بھٹو نماز پڑھنے لگے ہیں تو انہوں نے جیل حکام سے نہایت سختی کے ساتھ اس خبر کی تردید کرنے کے لیے کہا ۔ان کا خیال تھا کہ اس طرح یہ تاثر پیدا ہوگا کہ ان کے اعصاب جواب دے چکے ہیں اور ان میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کی سکت باقی نہیں رہی ۔ اس وقت انہیں قرآن پاک کا ایک نسخہ بھی فراہم کیاگیا لیکن کسی نے انہیں ایک دن بھی اس کی تلاوت کرتے نہیں دیکھا۔ بہرکیف تمام مطلوبہ چیزیں انہیں فراہم کردی گئیں ۔
شیو بنائی پھر آئینے میں دیکھتے ہوئے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کسی قدر مسکراتے ہوئے آہستہ سے بولے اب ٹھیک ہے ۔ مسٹربھٹو نے تسبیح اٹھالی لیکن کچھ پڑھنے یا ورد کرنے کے بجائے انہوں نے اسے اپنے گلے میں ڈال لیا ۔
آج پہلی رات ہے جب شام کے کھانے کے بعد مسٹر بھٹو نے کافی پی نہ سگار سلگایا ۔ حالانکہ یہ دونوں چیزیں ان کی کوٹھڑی میں موجود تھیں ۔ انہوں نے کھانا بھی معمول کی نسبت کم کھایا ۔ اور کھانے کے بعد چہل قدمی بھی نہیں کی۔وہ فورا فرش پر بچھے فو م کے گدے پر لیٹ جاتے ہیں ۔جب کوئی نگران ادھر سے گزرتا ہے وہ گردن گھما کر اسے دیکھتے ہیں اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ بالکل نارمل ہیں ۔
شام کو جیل حکام نے جب کہا کہ وہ اپنی وصیت تیار کرلیں تو انہوں نے کاغذ اور قلم مانگا اور لکھنا شروع کردیا۔ دوصفحے لکھ چکے تو نہ جانے کیا خیال آیا اور انہوں نے کاغذپھاڑ دیئے پھر مشقتی سے کہا انہیں جلادو۔ شاید ایک بار پھر یہ خیال غالب آگیا تھا کہ ان کے ساتھ ڈرامہ کیاجارہاہے اور اب یہ تحریر لکھواکر ان کے اعصاب کی شکستگی کااشتہار دینامقصود ہے۔
تاہم جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا ٗان کے دل میں ایک بے نام سا خوف اور اندیشہ پیدا ہوتاجارہا تھا ۔ رات خاموش اور قدرے خنک تھی راولپنڈی میں ایک روز قبل بارش ہوئی تھی ۔ یہ اسی کی خنکی تھی جیل کی چاردیواری سے باہر خاموشی اور ویرانی کا راج تھا لیکن جیل کے اندر خلاف معمول رات کے اس وقت بھی غیر معمولی چہل پہل تھی ۔
جیل کے احاطے میں انتظامیہ، پولیس اور محکمہ جیل کے بے شماراعلی افسر موجود تھے اور پھانسی گھر کے انتظامات کابار بار جائزہ لیا جارہاتھا ۔ زنانہ احاطے سے پھانسی گھر تک پورے راستے میں تقریبا دو سو گیس لیمپ جلا کر رکھ دیئے گئے تاکہ اگر بجلی اچانک چلی بھی جائے تو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ایک بج کر چودہ منٹ پر جیل کا ایک ذمہ دار افسر مسٹر بھٹو کی کوٹھڑی میں پہنچا اور انہیں بتایا کہ ان کے نہانے کے لیے گرم پانی تیار ہے وہ اٹھ کر غسل کرلیں ۔
مسٹر بھٹو نیم غنودگی کے عالم میں گدے پر لیٹے ہوئے تھے ٗ سنی ان سنی کرکے چپکے سے لیٹے رہے ۔ تاہم ان کے دل کی دھڑکنیں بے اختیار تیز ہورہی تھیں اور یہ وہ لمحہ تھا جب انہیں پہلی مرتبہ مکمل طور پر یقین ہوا کہ انکی زندگی کی گھڑیاں سچ مچ ختم ہونے والی ہیں اور اگلی صبح کا سورج دیکھنا انہیں نصیب نہیں ہوگا ۔ یہ سوچ کر ان کے اعصاب جواب دے گئے۔ ان پر سکتے کی سی حالت طاری ہوگئی ۔
دیکھنے والے ڈر گئے کہ کہیں ان کی زندگی کو کوئی نقصان نہ پہنچ گیا ہو۔ یا انہوں نے کوئی زہریلی چیز نہ کھالی ہو ۔ چنانچہ فوری طور پر ڈاکٹر کو بلوایا گیا ۔ڈاکٹر نے انہیں چیک کیا ۔ اسٹیتھ سکوپ سے دل کی دھڑکن چیک کی، آنکھوں کی پتلیوں کا جائزہ لیا اور بتایا کہ گھبرانے والی کوئی بات نہیں مسٹربھٹو بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں۔
رات کے ڈیڑھ بجے جیل کے بڑے دروازے کے پاس والی کوٹھڑی کادروازہ کھلا اور کسی نے تارا مسیح کو آواز دی ، تارا اٹھو تمہارا کام شروع ہونے والا ہے ۔ تارا مسیح کوٹھڑی سے نکل کر پھانسی گھر کی طرف روانہ ہوا تو اسے پھانسی گھر کے چاروں طرف بے شمار لوگ مستعد کھڑے نظر آئے ۔
ان میں کئی وردیوں والے بھی تھے اور کئی وردیوں کے بغیر سفید کپڑوں میں بھی ۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے چہرے پر سوچ اور فکر کے گہرے سائے لہرائے۔ مگر اگلے ہی لمحے وہ سر جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا ۔ اس نے ڈیڑھ انچ قطر کا رسہ پول سے باندھا ، اپنی مخصوص گرہ لگائی اور انہیں کھینچ کر دیکھ لیا کہ ٹھیک طرح سے کام کرتا ہے اس کام میں ایک اور جلاد نے بھی اس کی مدد کی ۔
پونے دو بجے سپرنٹنڈنٹ جیل نے مسٹر بھٹو کوموت کے وارنٹ کامتن پڑھ کر سنایا اب انہیں سو فیصد یقین کرنا پڑا کہ جیل حکام ان سے کوئی ڈرامہ نہیں کررہے، معاملہ واقعی ’’سیریس‘‘ ہے ۔ اس عالم میں ان کی حالت دیدنی تھی ۔
دل بے اختیار بیٹھا جارہا تھا۔ چند لمحے تصویرحیرت بنے وہ سپرنٹنڈنٹ جیل کامنہ تکتے رہے۔ پھر قوت ارادی سے کام لے کر انہوں نے اپنے حوصلے کو یکجا کیا اور آہستہ سے بولے ’’مجھے وصیت لکھنی ہے کاغذ چاہیئے‘‘ انہیں بتایا گیا کہ اب وصیت لکھنے کامرحلہ گزر چکا ہے ۔ شام کو انہوں نے وصیت لکھنے سے انکار کردیاتھا ۔ اب یہ انتظام ممکن نہیں ۔ پھانسی کے لیے دو بجے کاوقت مقرر تھا اور اب دیر ہوتی جارہی تھی۔ سپرنٹنڈنٹ جیل بلیک وارنٹ کامتن سنانے کے بعد انتظامات کا آخری جائزہ لینے کے لیے پھانسی گھر کی طرف چلے گئے ۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل ٗ بعض اعلی فوجی ور سول افسر اور مسٹر بھٹوموت کی کوٹھڑی میں رہے ۔
پھانسی پانے والے مجرموں کو عام طور پر چست قسم کامخصوص لباس پہنایا جاتاہے لیکن مسٹر بھٹو نے یہ لباس نہیں پہنا ۔ وہ شلوار قمیض میں ہی ملبوس رہے اور پاؤں میں چپل تھی ۔ انہوں نے نہانے سے بھی انکار کردیا ۔ ان کی ٹانگیں بے جان سی ہورہی تھیں اور ان میں کھڑا ہونے کی ہمت بھی نہیں رہی ۔ دیکھنے والوں کے لیے یہ ایک مایوس کن منظر تھا۔ سب ان سے بلند حوصلے اور مضبوط اعصاب کی توقع رکھتے تھے ۔
ڈپٹی سپرنٹنڈ نٹ جیل نے مسٹر بھٹو سے چند قرآنی آیات کے ورد کے لیے کہا .... مسٹر بھٹو خاموش رہے۔ اب ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل نے ایک ہیڈ وارڈن اور چھ وارڈرن کو طلب کیا اور ان کی مدد سے مسٹر بھٹو کے دونوں ہاتھ پشت پر لے جاکر ایک رسی سے مضبوط باندھ دیئے گئے ۔ اس کے بعد دو وارڈنوں نے مسٹر بھٹو کو دائیں اور بائیں بازووں سے پکڑا اور انہیں تختہ دار کی طرف لے چلے ۔ مسٹر بھٹو میں چلنے کی ہمت نہیں تھی ٗ چند قدم کے بعد ہی ان کا سانس بری طر ح پھول گیا اور ٹانگیں جواب دے گئیں ۔ قریب تھا کہ وہ بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑتے ۔
اردگرد کھڑے وارڈنوں نے لپک کر تھام لیا ...... پتہ چلا مسٹر بھٹو صدمے سے نڈھال ہوگئے ہیں ۔ متعلقہ عملے نے انہیں سہارادے کر کھڑا رکھنے کی کوشش کی مگر بے سود ۔ ان کی ٹانگیں بالکل ہی بے جان ہوچکی تھیں ۔ایک سٹریچر منگوا کر انہیں اس پر ڈالا گیا اور دو آدمیوں نے سٹریچر اٹھالیا۔ مشکل یہ تھی کہ وہ کبھی دائیں طرف لڑھک جاتے تو کبھی بائیں طرف ۔ چنانچہ سٹریچر کو چاروں طرف سے پکڑا گیا اور یوں مسٹر بھٹو کو پھانسی کے تختے کی طرف لے جایاگیا ۔ سٹریچر اٹھا کر چلنے والوں کے ہونٹوں پر کلام اﷲ کے مقدس الفاظ تھے ۔
ساری جیل تلاوت قرآن پاک کی آواز سے گونج رہی تھی ۔تلاوت کلام الہی کرنے والے موت کے چبوترے کے گرد بھی کھڑے تھے کہ یہی جیل کادستور ہے ۔ پھانسی کے چبوترے کے پاس پہنچ کر (جہاں مسٹر بھٹو کو پھانسی دی جانی تھی)سٹریچر رکھ دیاگیا اور انہیں اٹھنے کے لیے کہاگیا ۔ مسٹر بھٹو بڑی مشکل سے اٹھ کر اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے ۔
مسٹر بھٹو کو تختوں پر کھڑا کیا جاچکا تھا کہ انہوں نے خود کلامی کے انداز میں دھیرے سے کہا یہ تکلیف دیتا ہے ان کا اشارہ رسی کی طرف تھا جس سے ان کے ہاتھ پشت پر بندھے ہوئے تھے ۔تارہ مسیح لپک کر آگے بڑھا اور اس نے رسی ڈھیلی کردی ۔ گھڑی کی سوئی دو بجے سے آگے بڑھ چکی تھی۔ تارا مسیح نے ان کے چہرے پر سیاہ نقاب چڑھانے کے بعد پھندا ان کے گلے میں ڈال دیا ٗ دونوں پیروں کو ملا کر ستلی بھی باندھی جاچکی ٗ تارا مسیح تختوں سے اتر آیااور اب اس لمحے کا منتظر تھا کب سپرنٹنڈنٹ جیل ہاتھ کے اشارے سے اسے لیور کھینچنے کاحکم دیں گے ۔تختہ کھینچنے میں صرف چند ساعتیں باقی تھیں کہ مسٹر بھٹو نے انتہائی کمزور آواز میں کہا Finish it سپرنٹنڈنٹ جیل کی نظریں اپنی ریڈیم ڈائل گھڑی پر جمی تھیں ۔ یکایک انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور اٹھا ہوا ہاتھ تیزی سے نیچے گرالیا ۔
یہ اشارہ تھا لیور دبانے کا ۔ تارا مسیح کے مشاق ہاتھوں نے بڑی پھرتی سے لیور کھینچ دیا ۔ دونوں تختے ایک آواز کے ساتھ اپنی جگہ چھوڑ چکے تھے اور بارہ فٹ گہرے کنویں میں اندر کی جانب کھل چکے تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک ذہین و فطین انسان جس نے اپنی طرز کے ایک نئے عہد کی بنیاد رکھی ...... اپنے پورے عہد اور اپنی افتاد طبع کے ساتھ خاموشی سے موت کے اس اندھے کنویں میں جاگرا ۔اﷲ اکبر۔
بھٹو صاحب کو معزول کیے جانے کے بعد
جب جنرل ضیاء الحق نے مجھے آرمی ہاؤس طلب کیا اور انکی موجودگی میں کہا
بھٹو صاحب آئندہ بھی وزیراعظم ہونگے، تمہیں معلوم ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے بعدیہ سٹارز لگانے کا اعزاز مجھے بھٹو صاحب نے دیا ہے
اور تم بھٹو صاحب کیلئے مشکلات پیدا کررہے ہو، پھر جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کو اپنا پرائیویٹ نمبر دیا
راولپنڈی کے سابق ڈپٹی کمشنر اور معروف بیوروکریٹ سعید مہدی کے انٹرویو سے ایک اقتباس
چار اپریل کی صبح نو بجے جنرل ضیاء الحق نے وزارت خارجہ میں ایک کانفرنس میں شریک ہونا تھا بھٹو صاحب کو پھانسی دیئے جانے کی خبریں ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پھیل چکی تھیں اس لئے منتظمین کو یقین تھا کہ جنرل ضیاء الحق اس کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے لیکن یہ منظر سب کیلئے حیران کن تھا کہ ٹھیک 9 بجے جنرل ضیاء الحق وزارت خارجہ میں اپنی گاڑی سے اتر رہے تھے۔
گاڑی سے اتر کر کانفرنس روم کی طرف جاتے ہوئے انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری بریگیڈیئر ظفر سے انتہائی سرسری اور غیر اہم انداز سے پوچھا۔ بھٹو صاحب کو تو غالباً رات کو پھانسی دے دی گئی ہے؟ جس پر بریگیڈیئر ظفر نے کہا یس سر۔ اور جنرل ضیاء الحق کانفرنس روم میں چلے گئے۔ یہ بات معروف بیوروکریٹ سعید مہدی نے جیو ٹی وی کے مقبول پروگرام ’’جوابدہ‘‘ کے میزبان افتخار احمد سے انٹرویوکے دوران بتائی۔
یہ پروگرام سات نومبر 2010 کو پیش کیا گیا تھا۔ بھٹو صاحب کو 4 اپریل کو جب پھانسی دی گئی اس وقت سعید مہدی راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر تھے اور راولپنڈی کی سینٹرل جیل جہاں بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی انتظامی طور پر سعید مہدی صاحب کے ہی کنٹرول میں تھی۔ وہ 1977 سے 1979 تک راولپنڈی اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر رہے جڑواں شہر اس وقت ایک ہی ضلع تھے۔
سعید مہدی بتاتے ہیں حکومت ختم کئے جانے کے بعد بھٹو صاحب کو مری منتقل کردیا گیا تھا ہمیں اطلاع ملی کہ بھٹو صاحب اسلام آباد آرہے ہیں۔ ہمیں احکامات ملے کہ وہ جہاں جانا چاہتے ہیں جانے دیں لیکن ان کا استقبال کہیں نہیں ہونا چاہئے کوئی اجتماع کا منظر ہرگز نہیں ہوگا اور دوسرے لفظوں میں کہا گیا کہ ان کی آمدورفت کرفیو کے سے ماحول میں ہونی چاہئے اس ہدایت کے پس منظر میں یہ خدشات تھے کہ ہوسکتا ہے کہ بھٹو صاحب راولپنڈی کے کسی گنجان آباد علاقے راجہ بازار، لیاقت روڈ یا ایسی کسی اور جگہ پر لوگوں میں گھل مل جائیں اور وہاں اجتماع اور تقریر کا ماحول نہ بن جائے۔ بھٹو صاحب اسلام آباد میں پیر آف مکھڈ کے گھر ٹھہرے تھے۔
ہمیں اطلاع ملی کہ وہ اسلام آباد سے راولپنڈی آرہے ہیں تو حسب حکم تمام انتظامات کئے گئے لیکن بھٹو صاحب کی گاڑی راولپنڈی میں آرمی ہائوس کے باہر رک گئی وہ جنرل ضیاء الحق سے ملاقات چاہتے تھے ہنگامی طور پر جنرل ضیاء الحق کو اطلاع کی گئی تو اس وقت GHQ میں تھے تو پیغام ملا کہ انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھائیں جنرل صاحب پہنچ رہے ہیں۔ سعید مہدی صاحب بتاتے ہیں کہ کچھ دیر بعد جنرل صاحب کی طرف سے مجھے آرمی ہائوس میں طلب کیا گیا۔ میں فوری طور پر پہنچا تو ڈرائنگ روم میں جنرل صاحب اور بھٹو صاحب محو گفتگو تھے۔ مجھے دیکھتے ہی جنرل صاحب نے انتہائی برہمی سے بولے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب آپ اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہیں۔ آپ ضلع کے ہلاکو خان ہیں یا چنگیز خان۔
یا حکومت کے سربراہ ہیں۔ میں نے کہا۔ سر میں تو گورنمنٹ سرونٹ ہوں اور جو میری ذمہ داریاں ہیں وہ انجام دے رہا ہوں۔ پھر جنرل صاحب نے بھٹو صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ آپ بھٹو صاحب کو جانتے ہیں ناں؟ میں نے کہا جی سر۔ یہ ہمارے وزیراعظم تھے۔ تو جنرل صاحب نے زیادہ زور دیتے ہوئے قدرے بلند میں کہا کہ تھے۔ اور آئندہ بھی ہوں گے۔ جنرل صاحب جو یونیفارم میں تھے انہوں نے اپنی یونیفارم پر آویزاں سٹارز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بعد یہ سٹارز لگانے کا اعزاز مجھے بھٹو صاحب نے دیا ہے اور آپ ان کیلئے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ یہ عوامی لیڈر ہیں۔ عوام میں جائیں گے اور آپ نے ان محدود کردیا ہے۔ بھٹو صاحب جہاں جانا چاہتے ہیں ان کو جانے دیا جائے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے اگر اب بھٹو صاحب کو اس حوالے سے کوئی شکایت ہوئی تو ایسا نہیں ہوگا۔
پھر بھٹو صاحب سے مخاطب ہوئے۔ بھٹو صاحب میں آپ کو ایک فون نمبر دے رہا ہوں (اس زمانے میں موبائل فون نہیں تھے اور بھٹو صاحب کو بغیر لائن کا نمبر دیا گیا) آپ جب چاہیں مجھے فون کرسکتے ہیں میں جہاں بھی ہوں گا ملک میں یا ملک سے باہر آپ سے رابطہ ہوجائے گا۔ پھر مجھے کہا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آپ جاسکتے ہیں اور میں یہ سوچتا ہوا باہر آگیا کہ۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ہمیں کچھ اور احکامات دیئے گئے ہیں اور جنرل صاحب کچھ اور حکم دے رہے ہیں میں اسی شش وپنج اور پریشانی کے عالم میں باہر پورچ میں اپنی گاڑی کا انتظار کر رہا تھا کہ جنرل ضیاء الحق بھٹو صاحب کو الوداع کہنے کیلئے باہر آگئے۔
انہوں نے بھٹو صاحب کی گاڑی کا دروازہ کھولا۔ انہیں سیلوٹ کیا اور گاڑی روانہ ہوگئے معاً ان کی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو کہنے لگے۔ ڈپٹی صاحب آپ کی گاڑی نہیں آئی ابھی۔ میں نے کہا جی گاڑی آرہی ہے میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے پوچھ لیا۔ سر میرے لئے کیا حکم ہے؟ تو جنرل صاحب نے جواب دیا۔ یعنی جس طرح آپ کام کر رہے ہیں کرتے رہیں۔ آپ پنجاب گورنمنٹ کے ماتحت ہیں۔ ان کے احکامات پر عمل کریں یہ کہتے ہوئے وہ واپس ڈرائنگ روم میں چلے گئے۔
بھٹو کی شہادت، اُن کا عدالتی قتل تھا، پیپلزپارٹی کا مؤقف
فیصلے کیلئے مجھ پر دباؤ تھا۔ جسٹس نسیم حسن شاہ (مرحوم)
پاکستان پیپلزپارٹی کے راہنما اور پارٹی سے وابستگی رکھنے والے قانون دان ابتدا سے ہی یہ مؤقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ ’’بھٹو کی شہادت اُن کا عدالتی قتل تھا‘‘ پھر ایسا ہی مؤقف اُس وقت بین الاقوامی میڈیا میں بھی دیکھنے، سننے اور پڑھنے میں آیا۔ تاہم اس حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے والے سپریم کورٹ بینچ کے سب سے جونیئر رکن ڈاکٹر نسیم حسن شاہ جنہیں بھٹو صاحب نے اپنی حکومت کے خاتمے سے تقریباً دو ماہ قبل 18 مئی 1974 کو سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا تھا انہوں نے بھٹو صاحب کی سزا کے خلاف کی جانے والی اپیل کو مسترد کرتے ہوئے سزا کو برقرار رکھا۔
یاد رہے کہ اس کیس میں سپریم کورٹ کے سات ججز تھے جن میں سے تین نے بھٹو صاحب کو سزا دینے کے فیصلے سے اختلاف کیا اور چار نے سزا برقرار رکھنے کی حمایت کی جن میں نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ تاہم بعد میں نسیم حسن شاہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں اُن پر دباؤ تھا۔ نسیم حسن شاہ طویل علالت کے بعد 86 برس کی عمر میں لاہور میں انتقال کرگئے تھے اور اُن کے انتقال کے بعد ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کی سزا دینے والے تمام ججز دینا سے رخصت ہوگئے۔