Wednesday, April 4, 2018

شہید ذوالفقار علی بھٹو… ایک مدبر رہنما




4اپریل پاکستان کی تاریخ کا ایسا سیاہ دن ہے جب 1979ء میںعظیم کرشماتی عوامی لیڈر شہید ذوالفقار
علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا آمر کے ہاتھوں عدالتی قتل حقیقت میں انسانیت اور عوام الناس کے حق میں اٹھنے والی آواز کا قتل عام تھا۔ تاریخ، ایسے لیڈر کا قتل کبھی معاف نہیں کرے گی اور نہ کبھی فراموش کرے گی جو عوام الناس کی طاقت سے ہم کو چوٹی کی ترقی یافتہ، پرامن قوم بنانا اور پاکستان کو اسلامی دنیا کا پہلا ایٹمی صلاحیت کا حامل ملک بنانا چاہتا تھا۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کو ہمسایہ بھارت کی طرف سے خطرات لاحق رہیں گے، اس لئے اس نے اعلان کیا، ہم (پاکستان) گھاس کھا لیں گے اور بھوکے رہیں گے، لیکن ہم اپنا ایک ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید نے برسوں قبل سوویت روس کے ٹکڑے ہونے اور ایشیائی کے مستقبل کی پیش گوئی کر دی تھی۔
شہید زیڈ اے بھٹو نے عالمی دبائو کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ جیرالڈ فیو ہرسٹین جو اگست 1976ء کو لاہور میں اس وقت کے وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو اور اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہنجری کسنجر کے درمیان ملاقات کا ایک عینی شاہد تھا۔ اپنے ایک انٹرویو میں یہ تسلیم کیا ہے کہ بھٹو نے ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنے یا اس پر کسی قسم کی مفاہمت سے انکار کر دیا تھا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں اپنی قوم، اپنے ملک اور مسلم اُمہ کا درد تھا۔1974ء میں انہوں نے لاہور میں اسلامک سمٹ کانفرنس منعقد کرکے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرکے نئی تاریخ رقم کی وہ صرف اہم اور نمایاں قومی لیڈر ہی نہ تھے، مثالی مدبر سیاست دان بھی تھے جنہوں نے سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کے بعد مایوس اور دلبرداشتہ قوم کو نئی زندگی اور حوصلہ بخشا اور نوے ہزار جنگی قیدیوں کو وطن واپس لائے۔شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھارت کی ذہنیت کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ کشمیریوں کے حق رائے دہی کے بنیادی حق کو تسلیم کرنے کیلئے کبھی تیار اور آمادہ نہ ہوگا، اس کیلئے انہوں نے تمام عالمی فورمز پر آواز اٹھائی اور دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ مسئلہ کشمیر کے حل کی ایک ہی صورت ہے کہ کشمیریوں کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کیلئے انہیں حق رائے دہی کی آزادی دی جائے۔ملک کئی دہائیوں تک آئین سے محروم رہا۔ انہوں نے ملک کی تمام سیاسی پارٹیوں کو قابل قبول آئین دیا۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو بلاشبہ پاکستان کے انتہائی کرشماتی سیاسی لیڈر تھے جو کبھی پاکستان میں گزرے ہیں۔ دنیا میں آج مسلمان بھائی اور بہنیں پاکستان کو بھٹو کا پاکستان کے نام سے جانتے اور پکارتے ہیں۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے دوسرے ملکوں سے جہاں خیر سگالی کے تعلقات کی ابتدا کی وہاں چین کے ساتھ دوستی کی مضبوط اور پائیدار بنیاد رکھی جس نے ہر مشکل میں پاکستان کی بھرپور مدد کی۔ یہ تعلقات وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو رہے ہیں جس کے ثمرات آج پاک چین راہداری کی صورت میں سب آ رہے ہیں۔
عوام الناس کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب انہوں نے گونا گوں دبائو اور انہیں عبرتناک مثال بنا دینے کی دھمکیوں کے باوجود پاکستان کا ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور روکنے کی بات نہ مانی تو پاکستان کے دشمن ان کی جان کے در پے ہو گئے اور انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ سی آئی اے نے جنرل ضیاء الحق کی مدد سے کمیونزم کا راستہ روکنے کا منصوبہ بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے پسندیدہ برانڈ کے اسلام کی روشنی میں انتہا پسندوں، دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو جہادیوں کے روپ میں پروان چڑھایا۔ ان تمام دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو پاکستان لا کر امریکہ کی مدد سے ضروری تربیت اور تیاری کے بعد افغانستان میں کارروائی کیلئے بھجوایا گیا۔ جنر ل ضیاء الحق نے اپنے امریکی آقائوں کی آواز اور خواہش پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کو یقینی بنایا اور ایسا کرتے ہوئے اسے اس امر کا مطلق احساس نہ ہوا کہ امریکیوں کے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد صدر ایوب خان کو کسی ذلت اور خواری کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔
قدرت نے جنرل ضیاء الحق اور ان کے تمام رفقائے کار سے، جنہوں نے شہید ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف آرمی ہائوس میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل اختر عبدالرحمن کی موجودگی میں سازش تیار کی تھی، آرمی ہائوس میں قدرت نے انتقام لیا، اس وقت کے سی آئی اے کے ڈائریکٹر ڈبلیو، جے کیسی نے اپنی یادداشتوں میں اس میٹنگ کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ ڈبلیو جے کیسی نے بیان کیا ہے کہ جنرل ضیاء کو اردن سے کس طرح آگے لایا گیا جہاں وہ فلسطینیوں کے خلاف خصوصی آپریشن پر مامور تھے۔ دلچسپ امر ہے کہ ائر کموڈور خاقان عباسی بھی اس زمانے میں اردن کی شاہی فضائیہ کے ساتھ بطور مشیر وابستہ تھے۔ دونوں اردن کے آرمی چیف کے زیر کمان تھے اور دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ آج کے وزیراعظم پاکستان مسٹر شاہد خاقان عباسی جنرل ضیاء الحق کے ورثے اور ان کے بچوں کے ساتھ پروان چڑھے ہیں۔ یہ ورثہ جو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو مخالف ٹیم کی شکل میں پیدا کیا اس کا متصل چودھری ظہور الٰہی، خواجہ صفدر، غلام دستگیر خان، راجہ ظفر الحق اور میاں نوازشریف کی صورت میں جاری رہا۔
ایک دفعہ مجھے آرمی ہائوس کی ایک سرکاری تقریب میں شرکت کی دعوت ملی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا کہ اس دن پاکستان کے چیف جسٹس نے سزائے موت بحال رکھی اور اس فیصلے پر داد و تحسین کی جا رہی تھی چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے جنرل ضیاء الحق اپنے سینئر رفقائے کار اور اپنے تیار کئے گئے سیاستدانوں سے مبارکباد وصول کر رہے تھے۔ شرمناک حد تک یہ لوگ ایک کرشماتی لیڈر کی موت کی خوشیاں منا رہے تھے جس نے پاکستان کی دنیا کی رہنمائی کا خواب دیکھا تھا۔
میں اس صبح ایک اور افسوسناک واقعہ سے دوچار ہوا جب سنا کہ چودھری ظہورالٰہی نے جسٹس انوارالحق سے وہ قلم مانگا ہے جس سے انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کا حکم نامہ تحریر کیا تھا۔ یہ فرمائش ویسٹرج ہائوس سے ہوئی تھی جہاں ان دنوں سپریم کورٹ کی پرانی عمارت واقع تھی۔ میں نے وہ پن دیکھا اور اس بدقسمت فیصلے کے اعلان پر ظہور پیلس میں خوشیوں کا ظہور بھی دیکھا
https://www.nawaiwaqt.com.pk/04-Apr-2018/798188

No comments:

Post a Comment