Sunday, December 17, 2017

شہدائے آرمی پبلک سکول اور سقوط ڈھاکہ کے دن ہمارا قومی رویہ #APSPeshawar

کالم نگار  |  اسد اللہ غالب

ایک غیرت مند اور باحمیت قوم کی حیثیت سے ہمیں سولہ دسمبر کو سوگ میں ہونا چاہئے تھامگر ہم اس کے بر عکس خوشیاں منا رہے تھے، لڈو بانٹ رہے تھے اور لڈیاں ڈال رہے تھے، اس لئے کہ عمران خان کو صادق اور امین ڈیکلیئر کر دیا گیا تھا۔ عدالت جو فیصلہ دے، وہ نافذ ہو جاتا ہے الا یہ کہ دوسرا فریق اپیل میں چلا جائے مگر اس صورت میں بھی فیصلہ تبدیل ہونے کا امکان نہیں اس لئے عمران خان اب عدالتی حکم کے مطابق تا یوم قیامت صادق اور امین قرار پائے، اصل فیصلہ تو اللہ کی عدالت میں ہو گا میں حیران ہوں کہ عمران خان نے پبلک جلسوں اور میڈیا گفتگو میں خود تسلیم کیا کہ بنی گالہ کا ہزاروں ایکڑ کا محل جمائما گولڈ اسمتھ کے بھیجے گئے پیسوں سے خریدا گیا اور یہی وہ محل ہے جو پی ٹی آئی کی سیاست کا مرکز و محور ہے اور اب جبکہ عمران خان کو کراچی میں قائد اعظم کیپ پہنا کر کیڈٹ وزیر اعظم کے روپ میں پیش کیا گیا تو قوی امکان یہ ہے کہ بائی ہک اور بائی کروک اسے اگلا وزیر اعظم ہی ہونا ہے تو یہی بنی گالہ کا محل وزیراعظم ہائوس بھی ہو گا۔ ہمارے دوست ہارون الرشید نے پہلے پہل اس محل پر نظر ڈالی تو بے اختیار پکار اٹھے کہ یہ تو کسی وزیر اعظم کا گھر لگتا ہے اور جچتا ہے۔ تو اس صورت میں جمائما گولڈ اسمتھ کی غیر ملکی اعانت سے بننے والے بنی گالہ ہائوس کی شکل میں ہمارے سامنے غیر ملکی فنڈنگ مجسم شکل میںموجود ہو گی۔ عوام کو کون قائل کرسکتا ہے کہ عمران خان نے غیر ملکی فنڈنگ نہیں لی۔ عمران خان یہ بھی کہتا ہے کہ اس نے بیرون ملک کرکٹ کھیل کر جائز اور حلا ل پیسہ کمایا اورا سی سے لندن میں فلیٹ خریداا ور اس فلیٹ کو فروخت کر کے اس کی کمائی پاکستان لائی گئی۔یہاں سوال یہ ہے کہ بیرون ملک کرکٹ سے تو دیگر پاکستانی کھلاڑیوںنے بھی کمایا اور بہت کمایا ہوگا، ان میں سے درجنوں کھلاڑی عمران خان سے پیشہ ورانہ مرتبے میں اعلیٰ اور ارفع تھے، تو کیا انہوںنے بنی گالہ جیسے محلات تعمیر کئے، کیا انہوںنے پاکستان میں کسی سیاسی پارٹی کی بنیا د رکھی اور اس سیاسی پارٹی کی حکومت گرانے کے لئے دھرنا دیاا ور کسی امپائر کی انگلی کا بھی انتظار کیا۔
عمر ان خان کے بارے میں فیصلہ آ گیا مگر اس کو ایک طبقے نے اسی طرح تسلیم نہیں کیا جس طرح نواز شریف کے بارے میں فیصلے کوقبول نہیں کیا۔نواز شریف کا مذاق اڑایا جاتا ہے کہ انہوںنے بار بار یہ سوال پوچھا کہ مجھے کیوں نکالا گیا ، اسی طرح عمران خان بھی ہمیشہ مذاق کا نشانہ بنیں گے کہ انہیں نہیں نکالا گیا۔ وہ نواز شریف کو صادق اور امین نہیں سمجھتے، ڈاکو ، لٹیرا اور ٹیکس چور کہتے ہیںتو عمران خان کو بھی یہودیوںا ور ہندوؤں کی فنڈنگ پر سیاست کرنے اور پاکستان کی معیشت کو دھرنوں اور لانگ مارچ اور عدالتی جنگ وجدل سے نقصان پہنچانے پر مطعون کیا جاتا رہے گا، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور انصاف کی دیوی اندھی ہوتی ہے، دنیا بھر کی طرح پاکستانی سیاست بھی اخلاقیات سے عاری ہے، یہاں وہ لوگ سیاست میں آگے نہیں جو دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں، یہ وہ سیاست دان ہیں جو اپنے حریف کی ٹانگیں کھینچنے کو سب سے بڑی نیکی اور عین عبادت سمجھتے ہیں اور اس کی حکومت کا دھڑن تختہ ہونے پر دیگیں چڑھاتے ہیں اور مٹھائی کے ٹوکرے بانٹتے ہیں، اس کی موت کے پروانے پر جس قلم سے دستخط کئے جائیں ، اسے سوونیئر کے طور پر چیف مارشل لاا یڈمنسٹریٹر سے مانگنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ ہاں ، میثاق لندن میں یہ ضرور طے ہوا کہ ا ٓئندہ کم از کم اس پر دستخط کرنے والی دو بڑی پارٹیاں ایجنسیوں کے اشاروں پر نہیں چلیں گی، بلیم گیم کا حصہ نہیں بنیں گی ۔ نواز شریف نے اپنی حد تک یہ عہد نبھایا اور زرداری حکومت کو ٹرم پوری کرنے کا موقع فراہم کیا مگر اب زرداری نے آنکھیںماتھے پر رکھ لی ہیں اور نواز شریف ہی کو نہیں، جمہوریت کی ا س ٹہنی کو بھی کاٹنے پر تل گئے ہیں جس پر وہ خود بھی تشریف فرما ہیں۔
قبلہ حاجی ، مفتی، علامہ ، مولانا صادق اور امین، عمران خان کو اس ماحول میں سیاست کرنی ہے۔ اسے دن میں تارے نظر آ جائیں گے۔
اور حضور جان لیجئے کہ صرف عدالتی فیصلوں اور کیڈٹ وزیر اعظم کا روپ دھار کر اگلے الیکشن میں کامیابی نہیں ملے گی، عوام خیبر پی کے میں پانچ سالہ کارکردگی کا ریکارڈ بھی دیکھے گی، جہاں دودھ اور شہدکی نہریں بہنے لگی ہیں، نہ انصاف کا دور دورہ ہے، نہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا خاتمہ ہوا ہے، نہ پٹواری کا استحصال ختم ہوا ہے ، نہ تھانہ کلچر کو بدلا گیا ہے، عوام نے فیض آباد کے دھرنے کا پھل آپ کی جھولی میں نہیں ڈالنا ، وہ تو کڑکتے چمکتے نوٹ لے کر چلتے بنے۔ اور گھروں میں جا دبکے، وہ فرشتوں کے پروں پر سوار ہو کر آئے تھے اور فرشتوں کی طرح ہی غائب ہو گئے، ان کے پاس ووٹ نہیں ، وہ طاقت تھی جس نے پولیس کو سیدھی گولیاںمار کر شہید کیا ۔ بلٹ اور بیلٹ میں بڑا فرق ہوتا ہے۔
میں یہ مانتا ہوں کہ پاکستان میںمنصفانہ انتخابات بھی ایک خواب اور خیال ہی ہیں،سبھی کہتے ہیں کہ نتائج کمپیوٹر میںمرتب ہوتے ہیں ، عوام تو دکھاوے اور کھیل تماشے کے لئے پولنگ بوتھوں کا رخ کرتے ہیں، انجینئرڈ الیکشن کی اصطلاح محترمہ بے نظیر نے استعمال کی تھی اور اب سیاسی انجینئرنگ کی اصطلاح انہی کے جانشین سید خورشید شاہ نے استعمال کی ہے، اس کا مطلب کیا ہے ا س کے لئے قبلہ شاہ صاحب کی ڈکشنری سے رجوع کیا جا سکتا ہے یا کھلی آنکھوں سے وہ سب کچھ دیکھا جا سکتا ہے جو قومی اسمبلی کے اسپیکر کو دوہزار دو اور دو ہزارآٹھ میں بھی نظر نہیں آیا مگر اب وہ سب کچھ علانیہ ہو رہا ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ اسمبلیاں اپنی موت آپ مر جائیں گی، اس کے لئے استعفے آتے رہیں گے، کوئی اور ہتھکنڈے بھی استعمال ہو سکتے ہیں ، اور کوئی ضروری نہیں کہ مارشل لاہی لگے کیونکہ فوج کاایساکوئی ارادہ نہیں، نہ مارشل لا لگنے کا کوئی ماحول ہے۔
عمران خان کے حق میں آنے والا فیصلہ ہوا میں اڑ جائے گا جیسے نواز شریف کے خلاف فیصلہ ہوا میں اڑ گیا، البتہ جہانگیر ترین کے نااہل ہونے سے عمران خان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، وہ اب بھی اس کے لئے اے ٹی ایم ہی کے طور پر کام دے رہا ہے یہ ہے مالی سورس عمران خان کا۔ جہانگیر ترین اتنے ہوشیار ضرور ہیں کہ وہ جو پیسہ لگائیں گے، اسے مع سود در سود کیسے واپس لیں گے۔
عدالتی فیصلے نے عمران خان کی راہیں ہموار کر دی ہیں ،یہ اس کے پیروکاروں کی سوچ ہے مگر پیالے اور ہونٹوں کے درمیان فاصلے کو پاٹنا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں ہوتا ۔

No comments:

Post a Comment