Fear for democracy in Pakistan as ISI gets power over civil service

Shah Meer Baloch
New PM mounts ‘attack on constitution’ by putting spy agency in charge of vetting bureaucrats.
Pakistani politicians and activists have raised fears about the military increasing its control over the country’s public life after the new prime minister, Shehbaz Sharif, gave the ISI spy agency vetting power over civil service appointments.
The move has placed the verification and screening of government officials in charge of postings, appointments and promotions in ISI hands, leading to concerns of a shrunken civilian space.
Pakistan’s powerful military, which ruled the country directly for three decades, and its premier intelligence agency have a long history of meddling in politics and controlling politicians.It is widely perceived in Pakistan that politicians need the military’s backing to come to power, but many now fear that bureaucrats could also need the same support for their appointment and postings. “If we keep in mind Pakistan’s history of takeovers and the sway that military has over our politics, this decision will weaken civil bureaucracy and compromise their independence,” said senator Mustafa Nawaz Khokhar. “We have shot ourselves in the foot and it’s a decision worth reconsidering.” Raza Rabbani, the former chair of the senate, called Sharif’s decision an attack on the constitution. “The concept of civilian supremacy is tarnishing,” he said.
Before ousting the former prime minister, Imran Khan, in a no-confidence vote in April, opposition parties now in power had criticised the military for its meddling in politics, rigging elections and bringing Khan into office.
Ayesha Siddiqa, an author and expert on military affairs of Pakistan, said it was depressing that none of the senior leadership of the major political parties had condemned Sharif’s move. “The government’s notification has legalised military intelligence’s power over other institutions,” she said. “At the same time [it has] sown seeds for a long-term disempowerment of the political class to strengthen its position and that of the parliament to weaken the military’s control over politics.” Maryam Nawaz, the leader of Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N) and daughter of the former prime minister Nawaz Sharif, defended the prime minister’s decision.
“ISI works with the government and it directly works under the prime minister,” she told local media. “If the prime minister has taken such a step, he knows very well how to assign responsibilities and tasks to which organisation and at what time.”Siddiqa disputed her reading of the situation, saying a Pakistani prime minister could only dream about controlling the ISI. “ISI is theoretically under the prime minister’s office but in reality, it has never been controlled by the head of government.“In the last decade, the ISI chief has become almost as powerful an officer as the army chief due to power to intervene in politics and society … Maryam Nawaz’s statement is nothing but a wish to control the ISI.”
The military has always refuted allegations that it meddles in politics and rigs elections.
The Human Rights Commission of Pakistan, an NGO, has also expressed concern over the prime minister’s decision. “Even if this practice was already in place, it goes against democratic norms,” it said. “The role of the military in civilian affairs needs to recede if Pakistan is to move forward as a democracy.” Pervaiz Rasheed, a former information minister, said there were already laws governing the appointment and promotion of bureaucrats and that if the government wanted to adopt another system it should have amended the constitution via parliament rather than issuing an executive order.
“If the scrutiny of civilian bureaucracy is to be included in the responsibilities of the ISI, then ISI too should be answerable and accountable to the civilian bureaucracy as well as the parliament,” he said.
https://www.theguardian.com/world/2022/jun/12/fear-for-democracy-in-pakistan-as-isi-gets-power-over-civil-service

وفاقی بجٹ اور سخت فیصلے #Pakistan

 تحریر: آفتاب احمد گورائیہ

گزشتہ جمعہ کے روز وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2022-23 کا 9500 ارب روپے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا ہے۔ ملکی معیشت کی تباہ کن صورتحال اور دستیاب وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت حد تک کوشش کی گئی ہے کہ عوام کو کچھ نہ کچھ ٹوکن ریلیف ضرور دیا جائے۔ بظاہر توقع یہی کی جا رہی تھی کہ اس سال بجٹ کافی سخت ہو گا اور اس میں عوام کے لئےصرف قربانی ہی رکھی جائے گی۔ بجٹ کو کچھ لوگ صرف الفاظ کا گورکھ دھندا ہی سمجھتے ہیں اور شائد ٹھیک بھی سمجھتے ہیں اس لئے بظاہر بجٹ میں نہ تو کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا ہے جس کا براہ راست عام عوام پر کوئی زیادہ اثر ہو اور نہ ہی عام عوام کے زیراستعمال اشیا کی قیمت میں کوئی اضافہ کیا گیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بجٹ سے پہلے ہی پٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے جیسے سخت فیصلے کئے جا چکے تھے اور بجٹ سے قطع نظر ان میں مزید اضافے کی بھی توقع ہے اس لئے یار لوگ بجٹ سے زیادہ ہپٹرول اور بجلی کی قیمت میں اضافے پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ وفاقی بجٹ کو اگر صرف الفاظ کا گورکھ دھندا بھی قرار دیا جائے توبھی اس سال کے وفاقی بجٹ میں چند اقدامات ایسے ضرور نظر آئیں گے جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت نے درست سمت میں قدم اٹھاتے ہوئے اپنی کچھ ترجیحات ضرور متعین کی ہیں جن میں جی ڈی پی کے سب سے بڑے شراکت دار شعبہ رزاعت کو ریلیف دئیے جانے کے بارے اہم اقدامات، تنخواہ دار طبقے کو دیا جانے والا ٹیکس ریلیف اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ زرعی شعبے کے ایک بڑے مطالبے یعنی زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی بجلی پر سبسڈی جیسےمطالبے کو بہرحال نظرانداز کیا گیا ہے۔ اسی طرح دفاعی بجٹ پر بھی سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ ملکی معیشت کے اس مشکل ترین وقت میں اگر عارضی طور پر ہی سہی ایک سال کے لئے اگر دفاعی بجٹ میں کچھ کمی کر دی جاتی تو اس سے بھی ملکی معیشت کوسنبھالا دینے میں خاطر خواہ مدد مل سکتی تھی۔ توقع بہرحال یہی کی جا رہی ہے کہ حکومت کے سخت اقدامات کے اثرات آنے والے چند ماہ میں نظر آنے شروع ہو جائیں گے۔ ملکی معیشت کی بحالی اور عوام کو ریلیف دینے میں حکومت مکمل طور پر سنجیدہ نظرآتی ہے اور اس کے لئے سارے اتحادی اپنے اپنے دائرہ کار میں محنت کرتے نظر بھی آ رہے ہیں۔ معیشت کی بحالی کی ان کوششوں میں چیرمین پیپلزپارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے غیر ملکی دوروں کے دوران دوست ممالک کے ساتھ اعتماد کی بحالی اوراس کے نتیجے میں معاشی تعلقات کی بحالی سے تباہ حال معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے میں بہت مدد ملے گی۔ اتحادی حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وفاقی بجٹ کی منظوری کے لئے بلایا جانے والا وفاقی کابینہ کا اجلاس تین گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہا اور آخری وقت میں بھی پیپلزپارٹی کے اصرار پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں تجویز کردہ دس فیصد اضافے کو پندرہ فیصد کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ پچھلے سال وفاقی کابینہ نے چار پانچ منٹ کے اجلاس میں ہی وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی تھی۔ امید کی جانی چاہئیے کہ معیشت کی بحالی کے بعد اگلے سال کا بجٹ جو موجودہ اتحادی حکومت کا الیکشن بجٹ بھی ہو گا مکمل طور پر ایک عوامی اور فلاحی بجٹ ہو گا۔

حالیہ وفاقی بجٹ میں اگلے مالی سال کے لئے گروتھ ریٹ کا ہدف پانچ فیصد رکھا گیا ہے جبکہ افراط زر کی شرح کا ہدف 11.7 فیصد سے کم کر کے 11.5 فیصد کر دیا گیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں پندرہ فیصد اضافہ کی تجویز ہے جبکہ انکم ٹیکس کی کم سے کم شرح چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے کر دی گئی ہے جس کا براہ راست فائدہ تنخواہ دار طبقے کو ہو گا۔ اسی طرح کفایت شعاری کو اپناتے ہوئے وفاقی کابینہ اور سرکاری اہلکاروں کے لئے پٹرول کی حد کو چالیس فیصد کم کر دیا گیا ہے۔ فلمی صنعت کی بحالی اورفنکاروں کی مدد کے لئے موجودہ بجٹ میں خاطر خواہ اقدامات کئے گئے ہیں تاکہ فلم اور سنیما ترقی کرے اور دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور مثبت تشخص اجاگر کیا جا سکے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں قابل قدر حد تک اضافہ کیا جا رہا ہے تاکہ غربت سے نمٹا جاسکے۔ بے نظیر وظائف میں مزید ایک کروڑ طالب علموں کو شامل کیا جا رہا ہے تاکہ انہیں زیور تعلیم سےآراستہ کیا جائے۔ سی پیک کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کرنے کے لئے فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز کے جلد آغاز پر بھی خصوصی توجہ دئیے جانے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، غذائی تحفظ، قابل تجدید توانائی، تعلیم اور نوجوانوں کی آمدن کے لئے بھی ٹیکس میں ریلیف دئیے جانے کی تجویز ہے۔

سولرپینل کی درآمد اور ترسیل پر ٹیکس ختم کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی مشینری، گندم، چاول، بیج سمیت اس شعبے میں استعمال ہونے والی دیگراشیاءاور ان کی ترسیل پر ٹیکس ختم کیا جا رہا ہے۔ زرعی مشینری کو کسٹم ڈیوٹی سے استثنٰی دئیے جانےکی تجویز ہے۔ زرعی شعبے کی مشینری اور اس سے منسلک اشیاء، گرین ہائوس فارمنگ، پراسیسنگ، پودوں کو بچانے کے آلات، ڈرپ اریگیشن، فراہمی آب سمیت ہر طرح کے زرعی آلات پر ٹیکس ختم کرنے کی تجویز ہے۔ زرعی شعبے کو دئیے جانے والے اس ریلیف سے زرعی پیداوار میں خاطر خواہ اضافے کی توقع ہے جس سے جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہو گا اور تباہ حال معیشت کو بھی تازہ آکسیجن مہیا ہو گی۔ ایک نہایت اہم قدم جو اس بجٹ میں اٹھایا گیا ہے وہ غیر پیداواری اور پرتعیش کے زمرے میں آنے والی چیزوں سے سرمائے کو پیداواری اثاثوں اور شعبوں کی طرف منتقل کرنے کے لئے کئے جانے کے اقدامات ہیں۔ رئیل اسٹیٹ سمیت غیرپیداواری اثاثے جمع کرنے سے غریبوں کے لئے گھروں کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ امیروں کے غیرپیداواری اثاثوں پر ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے تاکہ رئیل اسٹیٹ میں توازن آنے سے غریبوں کے لئے جائیداد کی قیمتوں میں کمی ہو۔ اڑھائی کروڑ مالیت کی دوسری جائیداد کی خریداری پر پانچ فیصد ٹیکس عائد کئے جانے کی بھی تجویز ہے۔

اوورآل اگر وفاقی بجٹ کا جائزہ لیا جائے تو مشکل ترین معاشی حالات میں بھی موجودہ بجٹ میں معیشت کو مستحکم کرنے اور معاشرے کے کمزور طبقات کی مشکلات کم کرنے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور عام آدمی پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا تاکہ پہلے سے مہنگائی میں پسے ہوئے عوام پر مزید کوئی بوجھ نہ ڈالا جائے۔

موجودہ اتحادی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے سخت فیصلے جنہیں اگر درست فیصلے بھی کہا جائے تو مناسب ہو گا کیونکہ ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر سے اتارنے اور عمران حکومت کی ملکی معیشت کو تباہ کرنے کے لئے پھیلائی گئی بارودی سرنگوں کو ڈی فیوز کرنے اور ملکی معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے یہ فیصلے ناگزیر ہیں اور اتحادی حکومت ان سخت فیصلوں کا بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نظر آتی ہے ورنہ عمران حکومت کے آئی ایم ایف سے بدترین شرائط پر کئے جانے والے معاہدے اور پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات اس معاہدے سے مکر جانے کے نتیجے میں ملک کی عالمی اداروں اور دوست ممالک کے سامنے جو ساکھ مجروح ہوئی اس سے ملک کے دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہو چکے تھے اور کوئی عالمی معاشی ادارہ اور دوست ملک ہم پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے جب ایک صحافی نے یہ سوال کیا کہ جب آپ کو معلوم تھا کہ ملک بدترین معاشی حالات کا شکار ہے اور آپ کو حکومت میں آنے کے بعد سخت اور ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑیں گے جس کا آپ لوگوں کو سیاسی طور پر نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے تو آپ نے عمران حکومت کو چلتا کیوں کیا تو اس پر صدر زرداری کا جواب ایک سٹیٹسمین کا جواب تھا کہ ہمارے سامنے ملک ڈوب رہا تھا تو کیا ہم اسے ڈوبتا ہوا دیکھتے رہتے اور اپنے سیاسی مفاد کا خیال رکھتے؟

دوسری طرف سابق وزیراعظم عمران خان نیازی جو اپنے علاوہ باقی سب کو چور ڈاکو اور بددیانت ہی تصور کرتے ہیں ان کا کردار یہ ہے کہ اپنی حکومت جاتی دیکھ کر آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے کے برعکس پہلے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کر دیں اور پھرانہیں فریز کر دیا مطلب پاکستان کو دیوالیہ کرنے کا پورا بندوبست کر دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے سیاسی مفاد کے لئے عمران خان نے پاکستان کا کتنا بڑا نقصان کر دیا تھا اور عمران خان نے ایسا کوئی پہلی دفعہ نہیں کیا۔ دو ہزار چودہ کے دھرنے کے دوران عوام کو سول نافرمانی کی ترغیب دینا اور اوورسیز پاکستانیوں کو بینکنگ چینل سے پاکستان فنڈز بھیجنے سے روکنے کا کہنا یہ سب عمران خان کے اسی مائینڈ سیٹ کو ظاہر کرتا ہے کہ اگر میں نہیں تو کوئی بھی نہیں حتی کہ پاکستان بھی نہیں۔ ویسے بھی عمران خان اپنے اس مائینڈ سیٹ کا اظہار اپنی زبان سے بھی کئی بار کر چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کو لانے سے تو بہتر ہے کہ ملک پرایٹم بم گرا دیا جائے، اگر نیوٹرلز نے درست فیصلے نہ کئے مطلب مجھے اقتدار میں نہ لایا گیا تو ملک تین ٹکڑے ہو جائے گا اور نیوکلئیرپروگرام خطرے میں پڑ جائے گا۔

اتحادی حکومت معیشت کی بہتری کے لئے اٹھائے گئے سخت اقدامات کی جو بھی توجیح پیش کرے، عام آدمی کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ ان اقدامات کی نوبت کیوں پیش آئی اور سابقہ عمران حکومت کا اس میں کیا کردار ہے۔ ان سخت فیصلوں کا بوجھ بہرحال اتحادی حکومت کو ہی اٹھانا پڑے گا۔ اس لئے ان سخت فیصلوں کے نتیجے میں عوام سے جو قربانی مانگی جا رہی ہے اس کو قابل قبول بنانے کے لئے ضروری ہے کہ حکمرانوں کے اپنے طرز عمل سے یہ ظاہر ہو کہ اس مشکل وقت میں حکمران اور مراعات یافتہ طبقہ بھی عوام کے شانہ بہ شانہ قربانی دے رہا ہے۔ اگر حکومت اور وزرا کی جانب سے ایسا نہ کیا گیا تو عوام کی بے چینی میں اضافہ ہوگا اور شرپسند عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کو ماضی میں ایسی چیلنجر سے بھرپور حکومتوں کا کافی تجربہ رہا ہے جب پیپلزپارٹی نے انتہائی مشکل اور نامساعد حالات میں حکومتیں سنبھالیں اور ملک کو مشکل حالات سے نکالا اس لئے توقع کی جانی چاہئیے کہ پیپلزپارٹی کے اس تجربہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے موجودہ اتحادی حکومت ملک کو ان مشکل اور سخت ترین حالات سے نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی اورجوں جوں ان سخت فیصلوں کے ثمرات سامنے آتے جائیں گے اور معیشت بہتر ہوتی جائے گی، شرپسند عناصر جو اس مشکل صورتحال سے فائدہ اٹھا کر اور ملک میں افراتفری پیدا کرکے سری لنکا جیسے حالات پیدا کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ غیر متعلق ہوتے جائیں گے۔

https://samachar.pk

علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں: رضا ربانی

 پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و سینیٹر میاں رضا ربانی نے اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف سے اپیل کی ہے کہ ایم این اے علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کریں۔

یہ اپیل پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما و سینیٹر میاں رضا ربانی نے جاری کیے گئے ایک بیان کے ذریعے کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں تاکہ وہ بجٹ اجلاس میں اپنے حلقے کی نمائندگی کر سکیں۔

رضا ربانی کا کہنا ہے کہ علی وزیر 15 ماہ سے زائد عرصے سے زیرِ حراست ہیں، قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت علی وزیر کا آئینی حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ قومی اسمبلی کے رول 108 اور سینیٹ کے رول 84 کا تحفظ کیا، ان رولز پر عمل درآمد نہ کرنا علاقے کے عوام کو نمائندگی سے محروم رکھنے کے مترادف ہے۔

سابق چیئرمین سینیٹ کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کا تشخص اور اتھارٹی کو روندا گیا، اب یہ ایک خالی عمارت ہے، پارلیمنٹ کے ادارے کو دوبارہ تعمیر کرنا ہو گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ اور اس کے پریزائیڈنگ افسران کی اتھارٹی کو بحال کرنا ہو گا، اسپیکر بطور ایوان کے کسٹوڈین کے اپنی اتھارٹی منوائیں۔

رضا ربانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ چیئرمین اور اسپیکر مشترکہ طور پر پارلیمنٹ کے آئین کے تحت حقیقی مقام دلوائیں، ایسا نہ ہوا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔

https://jang.com.pk/news/1098212

افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق حالیہ پیش رفت کے معاملے پر وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں سے رابطوں اور پارلیمان میں معاملہ اٹھانے کے لیے 3 رکنی کمیٹی بنا دی۔

 افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی سے متعلق حالیہ پیش رفت کے معاملے پر وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیاسی جماعتوں سے رابطوں اور پارلیمان میں معاملہ اٹھانے کے لیے 3 رکنی کمیٹی بنا دی۔

اس سلسلے میں جاری کیے گئے اعلامیے کے مطابق مذکورہ کمیٹی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن، فرحت اللّٰہ بابر اور قمر زمان کائرہ شامل ہوں گے۔

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گزشتہ روز پارٹی اجلاس میں افغان طالبان اور کالعدم ٹی ٹی پی کے بارے میں حالیہ پیش رفت پر تبادلۂ خیال ہوا تھا۔

https://jang.com.pk/news/1098208

Chairman PPP Bilawal Bhutto Zardari forms 3-member committee to engage other political parties for taking up terrorism-related issues in Parliament

In continuation of the party meeting on Saturday to discuss the issue of terrorism in the country, particularly in the light of recent developments in Afghanistan involving Tahreek Taliban Afghanistan (TTA) and the banned TTP.
The Chairman of Pakistan Peoples Party Bilawal Bhutto Zardari today named a three-member committee to engage other political parties in taking up the issue in the parliament.
The 3-member committee comprises Qamar Zaman Kaira, Sherry Rehman, and Farhatullah Babar.
It may be mentioned that after an in-depth discussion on the issue yesterday the Party had reiterated its position that the parliament alone was the best forum for a conversation on the issue.
https://www.ppp.org.pk/pr/27288/