Thursday, June 24, 2021

مدرسہ، منبر، مولوی، مرد پرائیوٹ لمیٹڈ


عفت حسن رضوی 

کیا دینی تعلیم کے لیے مدارس ہی آخری سٹاپ ہیں؟ کیا جدید علوم کے ساتھ دین کی تعلیم نہیں لی جاسکتی؟ کیا اعلیٰ دینی تعلیم کا بوجھ عورتیں نہیں اٹھا سکتیں؟

 



مذہب اسلام  سے تحقیق، مکالمہ اور جمعیت نکال دیں تو پیچھے کیا رہ جاتا ہے؟ میرے خیال میں تو صرف مولوی، منبر، مدرسہ اور مرد پرائیوٹ لمیٹڈ۔ پھر دینی تعلیم کے اداروں میں جنسی درندگی کے ایسے ایسے واقعات جن کا ذکر بھی کرنا محال ہے۔

بات شروع ہوئی تھی ایک لطیف الہامی معاملے یعنی آسمانی مذہب دین اسلام اور اس کی تعلیم و تحقیق سے۔ اور بات آ کر کہاں پھنسی؟ ایک مخصوص طبقے کی جارہ داری، اسلام کی ٹھیکیداری پہ۔

چند ایک سوالوں کے ساتھ آپ کو دعوت فکر دیے جاتی ہوں۔

کیا قرآن کو جُزدان، اسلام کو مدرسے، شرعی فرائض و واجبات کو رمضان، اور اسلام کو صرف عبادات تک محدود کرنے والے ہم نہیں؟

کیا ایک مخصوص گروپ کو مذہب کا ٹھیکہ دینے والے آپ اور ہم نہیں، کیا مذہب کے موضوع کو ہم نے اپنے کندھوں کا بوجھ سمجھ کر اتارا اور مولوی پہ نہیں ڈالا؟ یہ شاید اس لیے تو نہیں کہ گناہ ثواب کا سارا جھنجھٹ مولوی جانے۔

کیا اسلام، قرآن پاک، احادیث، شریعت، طریقت، تاریخ، فقہہ پڑھنے کی کوئی آفاقی ذمہ داری صرف مولوی پر ہی عائد ہوتی ہے؟ کیا دینی تعلیم کے لیے مدارس ہی آخری سٹاپ ہیں؟ کیا جدید علوم کے ساتھ دین کی تعلیم نہیں لی جاسکتی؟ کیا  اعلیٰ دینی تعلیم کا بوجھ عورتیں نہیں اٹھا سکتیں؟

بعض مولوی حضرات کی تو جتنی بساط ہے وہ مذہب کے ساتھ وہی کر رہے ہیں مگر ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم نے دینی تعلیم کو ترجیحات کے آخری خانے میں رکھا ہوا ہے، اپنی تن آسانی کی خاطر ہم نے یہ ٹھیکہ خود مولوی، مدرسے، منبر اور مرد کو دے رکھا ہے۔ مذہب کو ایک ٹولے کا پرائیوٹ لمیٹڈ پراجیکٹ ہم نے بنایا ہے۔


https://www.independenturdu.com/node/71176/madrassah-men-and-private-limited

No comments:

Post a Comment