Sunday, January 31, 2021

رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے، نیلو بیگم کا فلمی سفر

فاطمہ علی 


ہفتے کی شب نیلو بیگم کے بیٹے شان شاہد نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے اپنی والدہ کے انتقال کی اطلاع دی کہ ان کی والدہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ 


پاکستانی سلور سکرین کی معروف اداکارہ نیلو بیگم طویل علالت کے بعد ہفتہ کی شام انتقال کر گئیں۔  اداکارہ نیلو بیگم معروف اداکار و ہدایت کار شان شاہد کی والدہ اور اپنے زمانے کے معروف ہدایتکار ریاض شاہد کی اہلیہ تھیں۔

ہفتے کی شب نیلو بیگم کے بیٹے شان شاہد نے اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے اپنی والدہ کے انتقال کی اطلاع دی کہ ان کی والدہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ 

شان شاہد نے اپنی والدہ کے انتقال کے کچھ گھنٹوں  بعد ایک اور ٹویٹ بھی کی جس میں انہوں نے لکھا ’میں نہیں جانتا کہ میں کیا لکھوں کیونکہ میرے الفاظ خالی پڑ گئے ہیں بالکل اسی طرح جیسے میری دنیا میری والدہ کے بغیر بے معنی ہو گئی ہے۔ میری کامیابی و ناکامی دونوں کو ان کی ضرورت ہے۔ اب صرف ایک امید ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ان سے ایک روز اگلے جہان میں ملاقات ہو گی۔ میں آپ سے ہمیشہ پیار کرتا رہوں گا، اللہ آپ کے ساتھ ہو۔‘

نیلو 1940 میں سرگودھا کی تحصیل بھیرا میں پیدا ہوئیں۔ زخمی کانپوری کی برصغیر پاک وہندکی خوبصور ہیروئینوں پر لکھی کتاب ’پری چہرے‘ کے مطابق نیلو بیگم کا تعلق ایک مسیحی گھرانے سے تھا اور ان کا اصل نام پروین الیگزینڈر تھا۔ انہیں فلمی دنیا میں نیلو بیگم کے نام سے جانا جاتا تھا۔ 16 سال کی عمرمیں لاہور میں فلمائی جانے والی ہالی وڈ فلم ’بھوانی جنکشن‘ سے انہوں نے فلمی سفر کا آغازکیا مگر انہیں شہرت پاکستانی فلموں میں کام کرنے سے ملی۔

انہوں نے ایک کے بعد ایک کامیاب فلم دی اور پھر ان کا وجود  پاکستانی فلموں کے لیے ناگزیر ہو گیا۔ نیلو بیگم پر کئی مشہور گانے فلمائے گئے جن میں فلم سات لاکھ کا گانا ’آئے موسم رنگیلے سہانے‘ بھی شامل ہے۔ یہ گانا آج کل کی نسل میں بھی مقبول ہے۔

'کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔' فلم ڈائریکٹر و پروڈیوسر اور ایورنیو سٹوڈیو کے مالک جی اے گل کے بیٹے آغا سجاد گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس گانے کا ذکر کیا اور کہا ’ایورنیو پکچرز کی فلم عذرا کا یہ گانا نیلو بیگم پر فلمایا گیا۔ نیلو بیگم نے 60 کی دہائی میں  ایورنیو پکچرز کے تحت بننے والی سب سے زیادہ  ہٹ فلموں میں کام کیا اور مجھے اب تک ان فلموں کی عکس بندی یاد ہے کیونکہ میں تب بہت چھوٹا تھا اور فلموں کی شوٹنگ دیکھنے سٹوڈیو آیا کرتا تھا۔ نیلو بیگم کا دنیا سے چلے جانا یقیناً انتہائی دکھ کی بات ہے مگر نیلو بیگم ہمیشہ دل کی دھڑکنوں میں زندہ رہیں گی اور انہیں ہمیشہ 60 کی دہائی کی پاکستانی فلموں کی مرکزی اور بے باک اداکارہ کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔‘

اداکارہ نیلو نے ہدایتکار ریاض شاہد سے شادی کے وقت اسلام قبول کیا اور ان کا نام پروین سے تبدیل کر کے عابدہ 

رکھا گیا۔

ساٹھ کی دہائی  میں جب نیلو بیگم شہرت کی بلندیوں پر تھیں تو مغربی پاکستان میں اس وقت کے گورنر نے ایک غیر ملکی سربراہ (شاہ ایران) کے دورہ پاکستان  کے دوران نیلو بیگم کو ان کے سامنے  رقص کرنے کے لیے مجبور کیا لیکن نیلو بیگم نے انکار کر دیا۔ جس کے نتیجے میں انہیں ہراساں کیا گیا اور انہوں نے خود کشی کی کوشش کی۔

اس واقعے کے بعد ریاض شاہد نے نیلو سے شادی کر لی تھی جب کہ  معروف شاعر حبیب جالب نے نیلو کے عنوان سے ایک  نظم لکھی  ’تو کہ ناواقف آداب شہنشاہی تھی، رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے۔‘  اس نظم کو بعد میں فلم زرقا میں نیلو بیگم پرفلمایا گیا۔ چونکہ یہ فلم فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی تھی اس لیے جالب کی اس نظم کے مصرعوں کو تبدیل کر کے ’تو کہ ناواقف آداب غلامی ہے مگر رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘ کر دیا گیا۔ یہ فلم سو ہفتے چلی اور اس فلم کو پاکستان کی پہلی ایسی فلم کا اعزاز ملا جس نے ڈائمنڈجوبلی کی۔

نیلوبیگم نے سینکڑوں فلموں میں کام کیا جن میں دوشیزہ، ناگن، ڈاچی، عذرا، جی دار، شیر دی بچی، آخری نشان، چنگیز خان، کوئل، سہرا ، بلندی کے علاوہ ان کے اپنے بیٹے شان کی ہدایت میں بننے والی فلم وار بھی شامل ہے۔  نیلو بیگم کو 1959، 1963، 1969، اور 1999 میں بہترین اداکارہ کے علاوہ دیگر کیٹگریز میں نگار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

نیلو بیگم کو اتوار کی دوپہر لاہور کے علاقے گلبرگ میں میں سپرد خاک کردیا گیا۔ ان کے جنازے میں اداکار معمر رانا، ریمبو، غلام محی الدین، شفقت چیمہ، سید نور، نغمہ بیگم، صائمہ، وارث بیگ سمیت دیگر شوبز کی شخصیات شامل ہوئیں۔

https://www.independenturdu.com/node/58791

 

No comments:

Post a Comment