جب بھارتی فلم سے زیبا بیگم کا کردار کاٹا گیا اور وہ فلاپ ہوئی



انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی انٹرویو میں ماضی کی مشہور اداکارہ زیبا بیگم نے بتایا کہ منوج کمار نے بھارتی فلم سائن کرنے کے لیے ان کی برسوں خوشامد کی اور جب زیبا محمد علی نے فلم کلرک میں کام کیا تو بعد میں ان کا کردار کاٹ دیا گیا اور فلم کا حشر بھی برا ہوا۔

ماضی کی معروف اداکارہ زیبا بیگم کہتی ہیں کہ میں دو سال پہلے تک میں سنسر بورڈ کی چئیر پرسن تھی اس وقت سب فلمیں دیکھتی تھی لیکن ابھی کوئی حالیہ فلم نہیں دیکھی اور کوئی ایسی آئی بھی نہیں کہ جس کا میں تذکرہ کروں۔
ہاں ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ اور’ایکٹر اِن لا‘ خاصی اچھی فلمیں تھیں۔ کچھ ایسی فلمیں بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا جو نہایت ہی فضول تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے ڈراموں کو ایڈٹ کرکے ان میں دو تین گانے ڈال کرسنسر کے لیے فلم بھیج دی گئی ہے۔
سنسر بورڈ کی سابق چئیرپرسن نے مزید کہا کہ میں اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ آج کی بہت ساری فلموں میں ڈراموں کا رنگ نظر آتا ہے۔ یہ چیز ہر کسی کو سمجھ تو آتی ہے لیکن وہ وضاحت نہیں کر پاتا۔ میں سمجھتی ہوں کہ فلم پونے تین یا تین گھنٹے کی ہوتی ہے اس کی ٹیکنیک فاسٹ ہوتی ہے جبکہ ڈراموں کی ٹیکنیک سلو ہوتی ہے بس یہ چیز ڈائریکٹرز کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
میرے زمانے میں سنسر پالیسی بہت موثر رہی۔ میں نے بے ہودہ پنجابی فلموں کو بین کیا، انڈین فلموں کو بین کیا، جتنا عرصہ میں سنسر بورڈ کی چئیرپرسن رہی میں نے سنسر پالیسی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی۔ بے ہودہ گانے، فلمیں، سین، شاعری کو بین کیا۔ بعض اوقات تو ایسے سین بھی ہوتے تھے کہ جن میں کسی بھی پولیس سٹیشن یا گھر پر بم پھینک کر زبردستی دہشت گردی دکھائی جاتی تھی میں ایسے سینز کو ڈیلیٹ کر دیا کرتی تھی۔ ہاں اب اس سے پہلے اور بعد میں سنسر پالیسی کیسی تھی اس حوالے سے میں کچھ بھی تبصرہ نہیں کرنا چاہوں گی۔
 ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلم انڈسٹری کا زوال بے ہودہ پنجابی فلمیں تھیں۔ میں پنجابی فلموں کے خلاف نہیں ہوں لیکن اُن فلموں میں جو لباس پہنے جاتے ہیں آپ بتائیں کہ کیا حقیقی زندگی میں ہم اس طرح کے لباس پہن سکتے ہیں؟
گنڈاسا کلچر نے رہی سہی کسر پوری کر دی ایک پنجابی فلم ہٹ ہوئی تو اس کی طرز پر مزید سو فلمیں بنیں جن میں کہانی نام کو بھی نہ تھی۔ پروفیشنلز کی جگہ نان پروفیشنلز نے لے لی کام کرنے والے گھر بیٹھ گئے۔ جب ہم نے یہ صورت حال دیکھی تو فلموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی کیوں کہ جو فلمیں بن رہیں تھیں ان میں کام کرنا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔
ہماری طرح اور بھی بڑے نامورسٹارز نے فلموں کو خدا حافظ کہہ دیا۔ ٹیکنیشنز فاقوں اور خود کشیوں پر مجبور ہو گئے، رفتہ رفتہ فلم انڈسٹری تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ بارونق سٹوڈیوز نے جب کھنڈرات کی شکل اختیار کی تو دل دیکھ کر دل خون کے آنسوروتا تھا۔
میں نے اپنے پورے کیرئیر میں صرف ایک پنجابی فلم کی، وہ بھی ڈائریکٹر سید سلیمان کے بے حد اصرار پر۔ اس کے بعد پنجابی فلموں کی بہت ساری آفرز آتی رہیں لیکن نہیں کیں۔ ایسا نہیں ہے کہ مجھے پنجابی فلمیں پسند نہیں تھیں بہت اچھی اچھی بھی پنجابی فلمیں بنتی رہی ہیں لیکن میری ترجیحات پنجابی فلمیں تھیں نہیں نہ ہی مجھے اُس وقت پنجابی بولنی اور سمجھنی آتی تھی۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں ایسے کردار کرنے سے منع کر دیتی تھی جن میں مجھے ولگر لباس زیب تن کرنا پڑتا اس کے علاوہ کوشش کیا کرتی تھی کہ زیادہ ناچ گانے والے کردار نہ کروں کیونکہ مجھے ڈانس آتا نہیں تھا۔
بے ہودہ پنجابی فلموں،گانوں اورایکشن نے شائقین کو سینما گھروں سے بھگا دیا۔ جب اسی قسم کی چیزیں بننے کا رواج زور پکڑنے لگا تو شائقین ناراض ہو کر گھروں میں بیٹھ گئے۔ اب فلمی صنعت کی بحالی ہو رہی یا نہیں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتی ہاں لیکن کراچی والے لوگ اچھا کام کررہے ہیں۔ آج کل ہمایوں سعید، ماہرہ خان اور مہوش حیات کے علاوہ ڈراموں کے تمام آرٹسٹ اچھا کام کر رہے ہیں سب بہت با صلاحیت ہیں۔
ہمارے دور میں تو اردو تلفظ اور اس کی ادائیگی پر بہت توجہ دی جاتی تھی لیکن آج اس چیز پر ذرا کم ہی دھیان دیا جاتا ہے ٹی وی کی خبروں کو ہی دیکھ لیں افسوس ہوتا ہے کہ اناؤنسرز بعض اوقات بہت ہی غلط لفظ ادا کر رہے ہوتے ہیں، میں سمجھتی ہوں کہ ان کا تلفظ ٹھیک کروانے کے لیے بندوبست ہونا چاہیے۔
جہاں تک پہلی فلم کے معاوضے کی بات ہے تو مجھے یاد پڑتا ہے کہ پہلی فلم کا معاوضہ پانچ ہزار ملا۔ بہت عرصے تک تو مجھے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ کتنا معاوضہ طلب کرنا ہے لیکن آہستہ آہستہ پتہ چلتا گیا۔ باقی میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میں کبھی فلم انڈسٹری کا حصہ بنوں گی بس وہ کہتے ہیں نا کہ جو قسمت میں ہوتا ہے وہ مل کر رہتا ہے بس میرے ساتھ بھی یہی ہوا کہ میری قسمت میں لکھا ہوا تھا کہ میں اداکارہ بنوں ۔
شادی کے بعد صرف محمد علی کے ساتھ کام کرنے کی شرط کیوں رکھی؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شادی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارنے کا مجھے یہی طریقہ سمجھ میں آیا کیونکہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو پھرجو ہمارے کام کی نوعیت ہے اس میں تو ہم کئی کئی دن ایک دوسرے سے ملاقات ہی نہ کر پاتے۔ محمد علی نے مجھ پر کسی قسم کی پابندی نہیں لگائی تھی میں اپنے کیرئیر کے فیصلے کرنے میں آزاد تھی۔ میرے شوہر میرے دوست بھی تھی ہم ایک دوسرے کے مشورے کے ساتھ ہر کام کیا کرتے تھے۔
انہوں نے جب مجھے شادی کی آفر کی تو میں نے فورا ہاں کر دی میرے شوہر نے میری نامکمل ذات کو مکمل کیا، محبت سے میری جھولی اس طرح سے بھری کہ لفطوں میں بیان نہیں کر سکتی۔ ان کی کمی آج بھی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ وہ مجھ پہ بطور شوہر رعب نہیں جھاڑتے تھے، نوک جھونک ہوجایا کرتی تھی لیکن نوبت کبھی لڑائی جھگڑے تک نہیں پہنچی تھی۔ ہمارے تعلق کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک کی یادیں میرے دل میں سمائی ہوئی ہیں، انہی یادوں کے سہارے زندگی گزار رہی ہوں۔
علی زیب پروڈکشن ہاؤس صرف دو فلمیں بنانے تک کیوں محدود رہا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ذاتی پروڈکشن کرنے کی وجہ سے ہم دوسروں کی فلمیں نہیں کر پار رہے تھے اور ہر طرف سے گلے موصول ہو رہے تھے کہ آپ ہماری فلم میں کام نہیں کر رہے جب ہم نے یہ چیز دیکھی تو سوچا کہ اتنی محنت بھی کرو پھر بھی گلے شکوے بھی سنو، بہتر ہے کہ ذاتی پروڈکشن کوبند ہی کر دیا جائے لہذا ہم نے فلمیں بنانا بند کر دیں۔
باقی اداکاراؤں کی طرح آپ کریکٹرز رولز میں نظر نہیں آئیں کیوں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ میں نے کیرئیر کے پہلے دن سے لے کر آخری دن تک کبھی بھی سائیڈ رولز نہیں کیے۔ سائیڈ رولز میری ترجیحات میں تھے ہی نہیں۔
جہاں تک ٹی وی پر کام نہ کرنے کا سوال ہے تو ٹی وی پر کام کرنا مجھے اپیل نہیں کرتا تھا۔ اُس زمانے میں ڈرامے بے شک بہت اچھے بنتے تھے لیکن بڑی سکرین کے بعد چھوٹی سکرین پر کام کرنا مناسب نہیں سمجھا۔
میں ٹی وی کے انٹرویوز بھی نہیں کرتی اگر ایک بھی انٹرویو کیا تو پھر ستر اسی چینل ہیں ہر کوئی جاننے والا ہے، تو پھر منع نہیں کیا جا سکے گا اور میں پھر ٹی وی پر ہی بیٹھی رہا کروں گی۔ اس سے بہتر ہو گا کہ پھر ٹی وی پر کام ہی کر لیا جائے لہذا میں نے خود کو ٹی وی سے ذرا الگ ہی رکھا ۔
آپ کو بچپن میں سکیچز بنانے کا بہت شوق تھا اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جی بالکل جب میں بہت چھوٹی تھی تو سکیچز بنانے اور پینٹنگ کرنے کا شوق تھا لیکن اس شوق کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا کیونکہ فلموں میں آنے کے بعد مصروفیت ہی اتنی ہو گئی کہ کسی دوسرے شوق کی طرف دیکھنے کا موقع ہی نہ ملا۔ اس کے علاوہ شاعری سے بھی بہت لگاؤ رہا۔ شاعرہ بننا بھی چاہتی تو بن نہ سکتی تھی اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری اللہ کی طرف سے ایک آمد کا نام ہے اور انسان کوشش کرکے شاعر نہیں بن سکتا۔
فیض احمد فیض، احمد فراز جیسے دیگر بڑے شعرا کا ہمارے گھر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ہمارے گھر ہر ہفتے یا پندرہ دن کے بعد مشاعرہ ہوتا تھا۔ محمد علی کو بہت شوق تھا کہ اس قسم کی محافل سجائی جائیں اب تو کبھی سننے کو ملا ہی نہیں کہ کسی کے گھر میں مشاعرہ ہو رہا ہے۔
فلم ’ارمان‘ نے میری زندگی بد ل کر رکھ دی۔ اس کی کامیابی نے مجھے راتوں رات سٹار بنا دیا۔ میری اس فلم کی اوپننگ فاطمہ جناح نے کی تھی جو کہ میرے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھی۔ خوشی ہے کہ ایک عرصے تک اس فلم اور اس کے گیتوں کا جادو لوگوں کے سر چڑھ کر بولتا رہا۔
بھارت میں بھی جا کر کام کیا۔ فلم کلرک میں کام کرنے کے حوالے سے ہمارے ساتھ کیا یادیں شیئر کریں گی، اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس فلم میں کام کرنے کے حوالے سے اچھی اور بری دونوں یادداشتیں ہیں۔ اچھی یہ کہ بھارت میں ہماری خوب مہمان نوازی کی گئی۔ ہم دونوں میاں بیوی وہاں کام نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن منوج کمار نے پانچ برس تک ہماری خوشامدیں کیں آخر کار ہمیں ہاں کرنا پڑی۔
بری یاداشتیں یہ ہیں کہ اس فلم سے ہمارا کردار کاٹ دیا گیا اور سکرین پر جو کام دکھایا گیا وہ دیکھنے والوں کےلیے قابل قبول نہیں تھا۔ منوج کمار کی اس گھٹیا حرکت کی وجہ سے ہمارے دل سے وہ اتر گیا اور فلم کا جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے تھا تیسرے ہی دن باکس آفس سے فلم اترنا منوج کمار کے منہ پر ایک زور دار تھپڑتھا جو اس نے ہمارے کرداروں کو کاٹ کر کیا۔

خیرات نہیں معیشت - #Pakistan

انیس سو انہتر میں جنرل یحییٰ خان نے ملک میں مارشل لاء لگایا تو کئی دن تک سینئر سول افسروں سے ملنا بھی گوارا نہ کیا۔ ان کی ٹیم از خود عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف تھی اور اعلیٰ بیوروکریسی کو ان کی خبریں اخبارات کے ذریعے ہی پہنچ رہی تھیں۔ آخر ایک دن کسی نے یاد دلایا تو ساری وزارتوں کے سیکرٹریز اور دیگر سینئر افسر ملاقات کے لیے طلب کر لیے گئے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم اس ملاقات میں بطور وفاقی سیکرٹری شامل تھے۔
ان کے بیان کردہ احوال کے مطابق جنرل یحییٰ خان نے بتایا ”ملک کی معاشی حالت تباہ ہو چکی ہے، گورننس ختم ہو چکی ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ فوری توجہ کے طالب ان قومی امور کی انجام دہی میں مصروف رہنے کی وجہ سے وہ افسروں سے ملاقات نہیں کر پائے‘ لیکن اب ملک درست ہاتھوں میں ہے لہٰذا بیوروکریسی دھیان سے اپنا کام کرے، کام چوری چھوڑ دے اور کرپشن سے باز آ جائے‘‘۔ قدرت اللہ شہاب نے موقع ملنے پر سوال کیا کہ جناب مملکت کے کام رکے پڑے ہیں اور افسروں کے پاس واضح ہدایات نہیں ہیں۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ جنرل یحییٰ خان کے حواری ان پر چڑھ دوڑے۔ ایک بولا، لو یہ کیا بات ہوئی، کیا کام رکے ہیں، کام تو ہو رہے ہیں۔ دوسرا بولا‘ آپ اپنی بات کریں۔ تیسرے نے کچھ اور انداز میں انہیں گستاخ قرار دیا۔
جب یہ طوفان تھما تو قدرت اللہ شہاب دوبارہ گویا ہوئے کہ میری مراد ضروری کاموں سے تھی۔ اب کی بار کوئی اور ٹپک پڑا اور بولا، ”نظر نہیں آ رہا‘ گوشت کی دکانوں پر جالیاں لگوائی جا رہی ہیں، صفائی کا انتظام ٹھیک کیا جا رہا ہے، کیا یہ ضروری کام نہیں؟‘‘ اس پر شہاب بولے، ”یہ کام تو ضروری ہیں لیکن ان کے لیے مارشل لاء ضروری نہیں‘‘۔ ظاہر ہے اس فقرے کے بعد قدرت اللہ شہاب کو نوکری چھوڑنا پڑی۔ یحییٰ خان نے اپنے خوشامدی ٹولے کے ساتھ مل کر جو کچھ اس ملک کے ساتھ کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
یہ واقعہ ہمیشہ اس وقت یاد آتا ہے جب حکمران کبھی بس اڈوں پر مسافروں کے لیے پناہ گاہیں بنانے پر جھومر ڈالتے ہیں‘ اور کبھی کسی لنگر خانے کے افتتاح پر لُڈی ڈالنے لگتے ہیں۔ ان موقع پر وزیر اعظم خود پر فلسفہ طاری کر کے تصوّف کی سمجھ میں نہ آنے والی گفتگو فرماتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ساری کابینہ دھمال ڈالتی ہوئی اسلام آباد کے ڈی چوک پر آ نکلے گی۔ پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کی طرح کا ہی ایک اور منصوبہ احساس پروگرام ہے جس کے دم پر پوری حکومت خود کو غریب کا ہمدرد ثابت کرنے میں لگی رہتی ہے۔
اس پروگرام کا بنیادی مقصد بھی غریب آدمی کو زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں مدد دینا ہے لیکن یہ بھی ابھی تک حکومت کے دیگر منصوبوں کی طرح ‘گا گے گی‘ سے آگے نہیں بڑھا۔ مگر جب بھی اس پروگرام کے کسی حصے کا ذکر آتا ہے تو وزیر اعظم خلا میں دیکھتے ہوئے اپنے وہ دن یاد کرتے ہیں جب شوکت خانم کینسر ہسپتال کے لیے انہیں روپیہ روپیہ اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا تھا۔ پھر حاضرین کو مخاطب کرکے احساس پروگرام کے بارے میں آدھی ادھوری سی بات کرکے اپنی حکومت کے ارادے بتاتے ہیں تو سامنے بیٹھے تمام لوگ واہ واہ پکارتے گھر چلے جاتے ہیں۔
پناہ گاہیں، لنگرخانے یا اس طرح کی چیزیں قطعاً بری نہیں بلکہ ضروری ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ان کاموں کے لیے حکومت ضروری نہیں۔ وزیراعظم کا کام خیراتی انداز کے اداروں کو چلانا نہیں ہوتا بلکہ ریاست و معیشت کو مؤثر انداز میں چلانا ہے۔ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنا ہوتا ہے جس میں ہر شخص باعزت انداز میں روزگار کما سکے نہ کہ اہل خیر یا حکومت سے گداگروں کی طرح مانگتا رہے۔ پناہ گاہ، لنگر خانے یا نقد امداد کی کوئی صورت صرف ان ایک دو فیصد لوگوں کے لیے ہو سکتی ہے جو کسی قابل نہیں رہے۔ قوم کی ضرورت صنعت و تجارت ہیں جن کے بارے میں ہمارے وزیراعظم کو کچھ پتا ہے نہ کوئی ایسا شخص ان کے ارد گرد نظر آتا ہے جو معیشت کے بارے میں صحت مند نظریات رکھتا ہو۔
وزیراعظم کی حد تک تو سمجھ آتا ہے کہ ان کی زندگی میں معیشت کے معنی ہی محدود ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کھیل کر کچھ پیسہ کمایا، جمائما بی بی سے پیسے لے کر مکان بنا لیا اور پیسے والوں سے سرمایہ اکٹھا کرکے اپنی والدہ کے نام کا ہسپتال بنا ڈالا۔ ظاہر ہے ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ روزگار کی فراہمی، صنعتی ترقی، زراعت یا معیشت کے دیگر شعبوں کے بارے میں کچھ زیادہ جانتے ہوں گے۔ ویسے یہ ضروری بھی نہیں کہ وزیراعظم کے عہدے پر بیٹھنے والا ہر شخص معاشیات کا ماہر ہو‘ لیکن ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے اسے اپنی معاشی ٹیم اور اہداف مقرر کرنے کی پوری آزادی ہوتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں حقیقت پسندانہ تبدیلی بھی اس کا حق ہے اور ظاہر ہے حتمی ذمہ داری کا بوجھ بھی اسے ہی اٹھانا ہوتا ہے۔
موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس ماہرین معاشیات کی جو ٹیم ہے‘ اسے بہی کھاتے ٹھیک کرنے کے سوا کوئی کام نہیں آتا۔ ملکی اقتصادیات میں ترقی اور حکومتی اخراجات میں کمی کے درمیان نقطہء توازن کہاں ہے؟ اس کا اسے علم ہی نہیں۔ دنیا بھر کے ملک قرضے بھی لیتے ہیں اور ترقی بھی کرتے ہیں، لیکن پاکستان میں اس معاشی ٹیم کی نالائقی کی وجہ سے قرضے اتنا بڑا مسئلہ بن گئے ہیں کہ حکومت کے پاس ملکی ترقی کے لیے کچھ خرچ کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہی۔
وزیرخزانہ اور سٹیٹ بینک کے گورنرنے قرضوں کے لیے جو پالیسی بنائی اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ روپیہ تیس فیصد سے زیادہ گر گیا، برآمدات بڑھ نہیں پا رہیں، قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے، کارخانے بند ہورہے ہیں، کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، بجلی گیس کے بل عام آدمی کا جینا دوبھر کیے ہوئے ہیں، سرکاری ترقیاتی منصوبے ٹھپ ہوچکے ہیں اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
ان سب مصیبتوں سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ موجودہ معاشی ٹیم اس اقتصادی تباہی کو ‘کڑوی‘ گولی قرار دے کر وزیر اعظم سے اس کی منظوری بھی لیتی رہتی ہے۔ جب بھی وزیر اعظم کی توجہ اس تباہی کی طرف ہوتی ہے تو دساور سے آئے ماہرین معاشیات کی جوڑی نہایت فنکاری سے انہیں حکومت کے خیراتی پروگرام کے بارے میں بتانے لگتی ہے اور بنیادی طور پر ایک سوشل ورکر ہونے کی وجہ سے عمران خان خیرات کو ہی معیشت سمجھنے لگے ہیں۔
سولہ مہینے کی پے در پے معاشی ناکامیوں کے بعد غالباً وزیر اعظم بھی معاشی ترقی کے خواب دیکھنا چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستانیوں کی عام خصوصیت ہے کہ عملی زندگی میں ناکامیوں کے بعد صوفیانہ خیالات کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ ہم اپنے وزیراعظم میں بھی دیکھ رہے ہیں۔ وہ بھی انہی خیالات کی بنیاد پر سمجھنے لگے ہیں کہ انسان کو زندگی گزارنے کے لیے سوائے پناہ گاہ کے بستر، لنگرخانے کی روٹی، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی تھوڑی سی مالی امداد اور قدرت کی طرف سے آئی بیماری کے مقابلے کے لیے صحت انصاف کارڈ کے سوا کچھ نہیں چاہیے۔
عمران خان بھول رہے ہیں کہ قوم نے انہیں ملک چلانے کے لیے منتخب کیا ہے، کسی کونسل کا چیئرمین نہیں بنایا۔ انہوں نے خانقاہوں کے لنگر کا انتظام نہیں کرنا۔ انہوں نے دنیا میں پاکستان کو عزت دلوانے کا وعدہ کیا تھا‘ جسے پورا کرنا ہے۔ انہوں نے نوکریوں اور مکانات کا خواب دکھایا تھا‘ جسے حقیقت بنانا ہے۔
انہوں نے صنعتی ترقی کا دعویٰ کیا تھا‘ جسے ثابت کرنا ہے۔ وزیراعظم مایوس نہ ہوں، یہ سب ہو سکتا ہے مگر معاف کیجیے گا یہ کام ڈاکٹر حفیظ شیخ اور ڈاکٹر رضا باقر نہیں کر سکتے۔ اگر ان کی پالیسیاں ہی چلتی رہیں تو پھر ملک میں خیرات لینے والے تو بہت ہوں گے، دینے والا کوئی نہیں رہے گا۔ وزیراعظم صاحب کو بس یہ سمجھنا ہو گا کہ عوام کو صدقہ نہیں بڑھتی پھولتی معیشت چاہیے۔ عوام کو پناہ گاہ کا بستر نہیں اپنا مکان چاہیے، انہیں امداد کی نہیں نوکری کی ضرورت ہے۔ انہیں آپ کے صوفیانہ افکار سے نہیں آپ کے درست فیصلوں سے مطلب ہے۔

وزیراعظم کے نام سوشل میڈیا تنظیم کا خط: ’خدمات جاری رکھنا مشکل‘

فیس بک، ٹوئٹر اور گوگل سمیت سوشل میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیم ’ایشیا انٹرنیٹ کوالیشن‘ نے وزیراعظم عمران خان کے نام ایک خط میں نئے سوشل میڈیا قواعد پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قواعد کی روشنی میں سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے مشکل ہو گا کہ وہ اپنی خدمات پاکستانی صارفین اور کاروبار کو مہیا کر سکیں۔
اے آئی سی کی ویب سایٹ پر موجود وزیراعظم عمران خان کے نام خط میں تنظیم کے منیجنگ ڈائریکٹر جیف پین نے لکھا ہے کہ دنیا کے کسی اور ملک نے اس طرح کے وسیع البنیاد قواعد نہیں بنائے اس لیے خدشہ ہے کہ ان سے پاکستان دنیا بھر میں تنہا نہ ہو جائے اور پاکستانی صارفین اور کاروبار خوامخواہ انٹرنیٹ کی معیشت کے فوائد سے محروم نہ رہ جائیں۔
’دراصل جس طرح کے قواعد بنائے گئے ہیں اس سے اے آئی سی کی ممبر کمپنیوں کے لیے انتہائی مشکل ہو جائے گا کہ وہ اپنی خدمات پاکستانی صارفین یا کاروباروں اداروں کو فراہم کر سکیں۔‘
اے آئی سی ایک صنعتی تنظیم ہے جو فیس بک، ٹوئٹر، گوگل، ایمازون، یاہو اور دیگر انٹرنیٹ کمپنیوں کی  نمائندگی کرتی ہے اور ایشیا بھر میں حکومتوں کے ساتھ ان کمپنیوں کے معاملات پر بات چیت کرتی ہے۔
پاکستانی کی طرف سے گذشتہ ماہ منظور کیے گئے سوشل میڈیا قواعد پر اپنی تفصیلی رائے میں اے آئی سی نے کہا کہ پاکستان میں کاروبار کے مواقع موجود ہیں مگر اس طرح کے قواعد کے بغیر مشاورت اچانک آنے سے حکومت کے ان دعوں کی نفی ہوئی ہے کہ پاکستان سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے دستیاب ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ اگر ان قواعد کو ختم نہ کیا گیا تو پاکستان کی ڈیجیٹل اکانومی مفلوج ہو کر رہ جائے گی۔
اے آئی سی کا کہنا ہے کہ ان قواعد کو بناتے وقت حکومت سے باہر کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ ’جس طریقے سے یہ قواعد بنائے گئے ہیں اس سے بین الاقوامی کمپنیاں اس امر پر مجبور ہو گئی ہیں کہ وہ پاکستان کے ریگولیٹری ماحول اور اس ماحول میں کام کرنے کے بارے میں دوبارہ سوچیں۔‘

خط میں کہا گیا ہے کہ نئے قواعد پاکستان کے اپنے قوانین پیکا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)
خط میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ قواعد سوشل میڈیا کمپنیوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ صارفین کی پرائیویسی اور اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے مروجہ انسانی حقوق کی روایات سے روگردانی کریں اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت مناسب مشاورت کا آغاز کرے تاکہ وسیع البنیاد شرکت سے نئے قواعد بنائے جا سکیں۔
اے آئی سی کے مطابق اسے احساس ہے کہ دنیا بھر میں حکومتیں غیرقانونی اور مسائل پر مبنی آن لائن مواد پر قابو پانے کے حوالے سے حکمت عملی بنا رہی ہیں تاہم اس سلسلے میں زیادہ تر مقامات پر طویل اور ثبوتوں پر مبنی تحقیق اور مشاورت کے ساتھ کسی حل کی طرف جایا جا رہا ہے نہ کہ بیک جنبش قلم یک طرفہ قواعد کا راستہ اپنایا جائے۔
برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے  اے آئی سی کے خط میں کہا گیا ہے کہ وہاں آن لائن نقصان کا وائیٹ پیپر سال پہلے جاری ہوا پھر حکومت نے بارہ فروری کو اپنا جواب جاری کیا جس میں کافی وضاحت کے ساتھ حکومت نے اعادہ کیا کہ وہ انسانی حقوق خاص طور پر اظہار رائے کا احترام کرتی ہے اور شفافیت اور کاروبار یقینی بنانے کے عزم کو دہرایا گیا۔

اے آئی سی کا کہنا ہے کہ ان قواعد کو بناتے وقت حکومت سے باہر کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی (فوٹو: سوشل میڈیا)
برطانیہ نے جلد بازی میں قانون سازی کے بجائے ابھی بھی مزید مشاورت اور سٹیڈیز جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے اور ویسے بھی آن لائن محاذ پر برطانوی کوششیں زیادہ تر بچوں کے ساتھ زیادتی اور نفرت پر مبنی مواد کی روک تھام تک محدود ہیں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ نئے قواعد پاکستان کے اپنے قوانین پیکا اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ کی بھی خلاف ورزی ہے کیونکہ ان دونوں قوانین میں اس طرح کے اختیارات نہیں دیے گئے بلکہ سوشل میڈیا کمپنیوں کو تحفظ دیا گیا ہے۔

Irregularities Found at Pakistan’s Top Bank After U.S. Sanction

By Faseeh Mangi
A Middle East operation of Pakistan’s largest bank displayed “significant irregularities” in dealings with politically exposed clients and screening some transactions, according to an inspection by the South Asian nation’s central bank that took place more than a year after the lender was shut out of the U.S. financial system.
The findings are contained in a State Bank of Pakistan report, finalized in the first half of 2019, on Habib Bank Ltd.’s operations in the United Arab Emirates. The inspection was conducted after the Financial Action Task Force, a global watchdog for illicit financial activities, put Pakistan on its monitoring list.
FATF is due to review whether to downgrade Pakistan a step further, to its blacklist, at a meeting in Paris that starts on Sunday. That would have serious consequences for the nation’s economy and its bailout program with the International Monetary Fund.

Duduzane Zuma in 2018.
Photographer: Gulshan Khan/AFP via Getty Images

Employees in some of Habib Bank’s U.A.E. branches helped certain customers disguise transactions by issuing pay orders in their own names, while gaps in risk profiling and monitoring reflected an “ineffective compliance function and compliance culture,” the central bank said. In an earlier draft version of its inspection report, also seen by Bloomberg News, the central bank said U.A.E. staff skirted rules when opening an account for Duduzane Zuma, the son of former South African President Jacob Zuma.
The critical nature of the findings, which haven’t previously been reported, offers further evidence of the sorts of weak controls FATF has been looking at more broadly in its assessment of Pakistan, though the central bank’s final inspection report also notes some remedial measures taken by the bank. After Pakistan was put on the FATF monitoring list in June 2018, it pledged to improve observance of global anti-money laundering and counter-terrorism financing controls.

License Surrendered

The previous September, New York’s banking regulator fined the Karachi-based bank for weak anti-money-laundering controls and sanctions compliance and ordered it to surrender its license, effectively removing the lender from the U.S. financial system.
In response to questions from Bloomberg, State Bank of Pakistan said its draft and final inspection reports are confidential and as a result it’s unable to comment “on the veracity of observations purportedly related to inspection reports or inspection process.”
The draft report on the U.A.E. operations of Habib Bank was prepared soon after an on-site inspection by the central bank. It includes lists of customer accounts that were flagged for allegedly involving various violations by Habib Bank staff. The final report has the same broad conclusions but incorporates input from the bank, and omits the lists of specific accounts.
The problems in the U.A.E. have since been addressed by a sweeping overhaul that the bank started to roll out in the Middle East and other international operations in early 2019, according to Sagheer Mufti, Habib Bank’s chief operating officer. “There were process issues and those process issues pertain to legacy clients and legacy transactions and legacy processes,” Mufti said in an interview, responding to questions about the inspection report.
Habib Bank has “put in place a set of processes, controls to ensure the organization does not see a repeat of these issues,” Mufti said, adding that the program had been designed in cooperation with PricewaterhouseCoopers International Ltd. and cost roughly $100 million
Bank's shares have fallen more than Pakistan market since 2017

According to the State Bank inspection report, which is based on the U.A.E. operation’s results for the period ended Sept. 30, 2018, the local business failed to comply with instructions from the head office in Karachi to close the accounts of all Iranian nationals. Some accounts were still active despite the lapse of a “significant time period,” the report said. The bank was in the process of closing the remaining accounts “where possible,” it added.
In another example, a Habib Bank customer was found to have been importing goods via or from Iran. Instead of carrying out a thorough investigation, the bank only conducted a limited review of transactions during the previous six months “in which another instance of a similar nature was identified,” the central bank said.
In a statement, the central bank said it does not prohibit dealings with foreign nationals or companies, including from Iran, “as long as they are not designated or prohibited.” Mufti said Habib Bank does not deal with Iran.
The inspection report also said the U.A.E. operation provided banking services to “politically exposed persons” without marking them as PEPs, a category used by banks to highlight the risk of accepting money that results from bribery or corruption. In other cases, priority banking accounts were opened “by granting regulatory exceptions.”
Banks around the world have been tightening up on their dealings with PEPs and other wealthy people after a series of scandals following the 2008 global financial crisis. Regulators have stepped up scrutiny over the past decade and many banks have stopped doing business with clients perceived to be risky.

Zuma’s Account

In a list of PEPs given the exceptions, the preliminary report said Duduzane Zuma’s account at Habib Bank was opened in June 2016 and involved a “waiver of proof of income document.” That was around the time South Africa’s banks were closing accounts of companies owned by the Gupta brothers, who have been linked to numerous corruption cases in South Africa, citing reputational risk and regulatory concerns. The Guptas, who have moved to Dubai from Johannesburg, have denied all wrongdoing and said that the account closures were politically motivated.
Duduzane Zuma was closely associated with the Guptas, and was a director of at least 11 companies that had members of the family on the board. In 2017, he complained in an open letter to South Africa’s then finance minister Pravin Gordhan that all his local accounts had been closed because of political pressure.
Rudi Krause, a lawyer at BDK Attorneys which act for Duduzane Zuma, said he had passed questions about the Habib Bank account from Bloomberg to his client, but hadn’t heard back.
The finalized version of the inspection report didn’t mention the Duduzane Zuma account. It also said that Habib Bank identified the previously unmarked PEP accounts during the last quarter of 2017, and that they were subsequently closed. It improved its procedures for identifying PEPs in the first quarter of 2018, the report added.
In a statement, Habib Bank said it has had policies in place for sanctioned countries and for handling PEP accounts for a number of years. “In 2017 a handful of transactions were identified at HBL UAE which contravened our processes and standards. This should never have happened,” the statement said. “Following disciplinary proceedings, the staff members involved are no longer employed by” the bank, it added.
Mufti said banks are allowed to deal with PEPs provided the right processes are followed. Habib Bank “deals with PEPs and so do all other banks,” he said.
Habib Bank, majority-owned by the Aga Khan Fund for Economic Development, had total assets of 3.1 trillion Pakistan rupees ($20.1 billion) at the end of September. It is currently focused on building up its operations in China to tap more business under President Xi Jinping’s Belt and Road initiative.